ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں ہوں مانتا ، میں سبکو ہوں مانتا

اظہرالحق

محفلین
میرے بلاگ میں 17 مارچ 2007 کو لکھی گئی یہ نظم جب آج پڑھی تو لگا کہ وقت تھم چکا ہے شاید ۔ ۔
---------------------------------------------
برسوں پہلے ایسے ہی حالات میں ایک “ناآقبت اندیش“ شاعر نے کچھ یوں کہا تھا

ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

جسکے نتیجے میں کافی سے زیادہ فساد ہوا تھا ، مگر اب ہماری حکومت امن کی داعی ہے اسلئے ہم صرف اپنی حکومت کی تعریف کرتے ہیں ، اور مجھے یقین ہے کہ حاکم میرے اس “قصیدے“ پر ضرور مجھے “نذرانے“ سے نوازیں گے ۔ ۔ جنرل صاب ، بھاگ لگے رہیں ، آپ کا سایہ اس قوم پر “سائے“ کی طرح رہے ۔ ۔ ۔

میں خائف ہوں تخت و دربار سے
اپنوں کا ہے ڈر کیا کہوں اغیار سے
دل کانپتا ہے مرا زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات ہو ، یا جہل کی رات ہو
سبکو ہوں مانتا ، میں سبکو ہوں مانتا

جنہوں نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
انہیں کا چلتا ہے ہم پے اب یہ فسوں
ارے دنیا والو ، وہ سنو جو میں کہوں
حاکم کی ہر بات کو ، ہر ایک چال کو
سبکو ہوں مانتا ،میں سبکو ہوں مانتا

محلوں کا دیپ ہے جھونپڑی میں کیوں جلے؟
خوشیاں کوئی دھوپ ہیں جو ملے سبکو ملے ؟
مصلحت ہی سے یہ حکمرانی سب پے چلے!!!
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں ہوں مانتا ، میں سبکو ہوں مانتا
 
Top