اپنا اپنا چاند!

arifkarim

معطل
قصہ چاند کو دیکھنے کا


آج ایک سانحہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ پوری مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کی چاہ میں سٹیج سے گر کر کسی ناشدنی سے رب کریم کی خاص رحمت کے باعث بچ گئی ہے۔ ورنہ جان کا خطرہ تو تھا ہی، اس عمر میں ہڈی ٹوٹنے کا نقصان بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ واللہ یہ بزرگان دیکھنے میں تو دھان پان سے لگتے ہیں۔ گمان یہی ہوتا ہے کہ بس ذرا سی تیز ہوا چلی تو اڑ ہی جائیں گے۔ اس پر کراچی جیسے شہر میں کہ ہر وقت تیز ہواوں کی زد میں رہتا ہے، ان کو کسی بلند و بالا ترین عمارت کی چھت پر لے جاتے ہیں کہ حضرات یہاں کھڑے ہو کر چاند دیکھیں۔ مگر حیرت یہ کہ ان کے وزن سے سٹیج ٹوٹ گیا۔ غالباً سٹیج ان کے علمی وزن کو برداشت نہ کر پایا ہو گا جس کے بے تحاشا ہونے میں کسی کو ہرگز کوئی کلام نہیں ہے۔

کاش ان علما سے چاند دیکھنے کے مسائل پوچھ کر انہیں کسی محفوظ مقام پر ہی رکھا جائے کہ امت کے یہ گواہر نایاب نہایت قیمتی ہیں، اور ٹکے سیر ملنے والے سرکاری ملازموں کو، کہ محکمہ فلکیات اور محکمہ موسمیات میں بھرتی ہو کر ملک عزیز کے چپے چپے پر بکھرے ہیں، یہ اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے کی ڈیوٹی تفویض کی جائے۔ اور گمان ہے کہ چڑھتی جوانی کے سبب ان کی آنکھیں بھی دور تک دیکھنے کی طاقت رکھتی ہوں گی۔

بلکہ ہم نے تو سنا ہے فلکیات والے چند لاکھ میل دور موجود یہ ارضی چاند کیا، اربوں کھربوں میل سے بھی کہیں دور کے سیاروں کے چاند تک دیکھ لیتے ہیں۔ بلکہ محض ایک چاند کیا، ایک ایک سیارے کے کئی کئی چاند ان کو نظر آ جاتے ہیں۔ حتی کہ اس درویش نے تو سن رکھا ہے کہ یہ سب حضرات چاند ستاروں کی چال پر وہ قیامت کی نظر رکھتے ہیں کہ برسوں بعد کے چال چلن کی پیش گوئی بھی نہایت ثقاہت سے کر دیتے ہیں۔

لیکن افسوس، ان دوربین حضرات کی صلاحیتوں سے، جو کہ علامہ مرحوم و مغفور کے حکم پر ستاروں پر کمند ڈالنے کے عزائم رکھتے ہیں، استفادہ نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ حیرت در حیرت، کہ لاہور سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ محکمہ اوقاف کے سربراہ نے بیان دیا ہے کہ چاند نظر نہیں آیا ہے۔

ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ اوقاف کا محکمہ تو درگاہوں کے نظام سے منسلک ہے۔ کہیں عرس کروا دیتے ہیں، کہیں محفل قوالی منعقد کرا دیتے ہیں، کہیں لنگر چڑھا دیتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی نہ سنا تھا کہ یہ چاند بھی چڑھانے لگے ہیں۔ گمان یہی گزرتا ہے کہ چاند دیکھنے کے معاملے میں باقی سب سے مایوس ہو کر حکومت اب پیروں فقیروں سے تعویذ گنڈے لینے پر اتر آئی ہے کہ اس کو بھی پشاور والا چاند باقی ملک میں نظر آنے لگے۔ بس اب ان اوقافی درگاہوں سے ہی حکومت کو کچھ ملنے کی توقع رہ گئی ہے، ورنہ حکومت پشاور کا چاند ملنے سے ناامید ہے۔

پشاور کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس قصہ خوانی دیس میں جانے والے سیاح بیان کرتے ہیں کہ وہاں ایک معجون ملتا ہے کہ رنگت اس کی سبز ہوتی ہے اور تاثیر اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کی دو چٹکیاں ہی بندے کو افلاک کی سیر کرا دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پشاور سے کراچی کے لانگ روٹ پر چلنے والے اجسام، کہ عربی میں سیارے کہلاتے ہیں، اسی کے زور پر اندھیری تاریک شاہراوں پر چلتے ہیں۔ اسی کی تاثیر ہے کہ فلکیات کے ماہرین خواہ لاکھ اصرار کریں کہ چاند نظر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، سارے منجم اس پر متفق ہیں کہ یہ کار محال ہے، مگر رات بارہ بجے پشاور کو چاند نظر آ جاتا ہے۔

یقین تو نہیں ہے بس گمان ہے کہ اسی معجون کی تاثیر سے پشاور سے کابل کا چاند نظر آ جاتا ہو گا۔ اور کابل والوں کو جدہ کا چاند دیکھنا بھی ہرگز محال نہیں ہو گا۔ اگر پرویز خٹک صاحب اسلام آباد کی طرف دست تعاون دراز کریں اور دو تین ٹرک اس معجون فلک سیر کے ہر صوبائی اور مرکزی دارالحکومت میں بھجوا دیں، تو جدے سے گلگت تک ایک ہی دن عید ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ ہر ایک کا اپنا اپنا چاند ہو اور اپنی اپنی عید۔

اور حکومت کی بھی پیروں فقیروں کی منتیں کرنے سے جان چھوٹ جائے گی۔ اوقاف والے اپنے کام دھندے سے لگیں گے۔ اور علما بھی رات بارہ بجے تک خوار ہونے سے بچ جائیں گے۔
ماخذ
 

نور وجدان

لائبریرین
قصہ چاند کو دیکھنے کا


آج ایک سانحہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ پوری مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کی چاہ میں سٹیج سے گر کر کسی ناشدنی سے رب کریم کی خاص رحمت کے باعث بچ گئی ہے۔ ورنہ جان کا خطرہ تو تھا ہی، اس عمر میں ہڈی ٹوٹنے کا نقصان بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ واللہ یہ بزرگان دیکھنے میں تو دھان پان سے لگتے ہیں۔ گمان یہی ہوتا ہے کہ بس ذرا سی تیز ہوا چلی تو اڑ ہی جائیں گے۔ اس پر کراچی جیسے شہر میں کہ ہر وقت تیز ہواوں کی زد میں رہتا ہے، ان کو کسی بلند و بالا ترین عمارت کی چھت پر لے جاتے ہیں کہ حضرات یہاں کھڑے ہو کر چاند دیکھیں۔ مگر حیرت یہ کہ ان کے وزن سے سٹیج ٹوٹ گیا۔ غالباً سٹیج ان کے علمی وزن کو برداشت نہ کر پایا ہو گا جس کے بے تحاشا ہونے میں کسی کو ہرگز کوئی کلام نہیں ہے۔

کاش ان علما سے چاند دیکھنے کے مسائل پوچھ کر انہیں کسی محفوظ مقام پر ہی رکھا جائے کہ امت کے یہ گواہر نایاب نہایت قیمتی ہیں، اور ٹکے سیر ملنے والے سرکاری ملازموں کو، کہ محکمہ فلکیات اور محکمہ موسمیات میں بھرتی ہو کر ملک عزیز کے چپے چپے پر بکھرے ہیں، یہ اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے کی ڈیوٹی تفویض کی جائے۔ اور گمان ہے کہ چڑھتی جوانی کے سبب ان کی آنکھیں بھی دور تک دیکھنے کی طاقت رکھتی ہوں گی۔

بلکہ ہم نے تو سنا ہے فلکیات والے چند لاکھ میل دور موجود یہ ارضی چاند کیا، اربوں کھربوں میل سے بھی کہیں دور کے سیاروں کے چاند تک دیکھ لیتے ہیں۔ بلکہ محض ایک چاند کیا، ایک ایک سیارے کے کئی کئی چاند ان کو نظر آ جاتے ہیں۔ حتی کہ اس درویش نے تو سن رکھا ہے کہ یہ سب حضرات چاند ستاروں کی چال پر وہ قیامت کی نظر رکھتے ہیں کہ برسوں بعد کے چال چلن کی پیش گوئی بھی نہایت ثقاہت سے کر دیتے ہیں۔

لیکن افسوس، ان دوربین حضرات کی صلاحیتوں سے، جو کہ علامہ مرحوم و مغفور کے حکم پر ستاروں پر کمند ڈالنے کے عزائم رکھتے ہیں، استفادہ نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ حیرت در حیرت، کہ لاہور سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ محکمہ اوقاف کے سربراہ نے بیان دیا ہے کہ چاند نظر نہیں آیا ہے۔

ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ اوقاف کا محکمہ تو درگاہوں کے نظام سے منسلک ہے۔ کہیں عرس کروا دیتے ہیں، کہیں محفل قوالی منعقد کرا دیتے ہیں، کہیں لنگر چڑھا دیتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی نہ سنا تھا کہ یہ چاند بھی چڑھانے لگے ہیں۔ گمان یہی گزرتا ہے کہ چاند دیکھنے کے معاملے میں باقی سب سے مایوس ہو کر حکومت اب پیروں فقیروں سے تعویذ گنڈے لینے پر اتر آئی ہے کہ اس کو بھی پشاور والا چاند باقی ملک میں نظر آنے لگے۔ بس اب ان اوقافی درگاہوں سے ہی حکومت کو کچھ ملنے کی توقع رہ گئی ہے، ورنہ حکومت پشاور کا چاند ملنے سے ناامید ہے۔

پشاور کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس قصہ خوانی دیس میں جانے والے سیاح بیان کرتے ہیں کہ وہاں ایک معجون ملتا ہے کہ رنگت اس کی سبز ہوتی ہے اور تاثیر اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کی دو چٹکیاں ہی بندے کو افلاک کی سیر کرا دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پشاور سے کراچی کے لانگ روٹ پر چلنے والے اجسام، کہ عربی میں سیارے کہلاتے ہیں، اسی کے زور پر اندھیری تاریک شاہراوں پر چلتے ہیں۔ اسی کی تاثیر ہے کہ فلکیات کے ماہرین خواہ لاکھ اصرار کریں کہ چاند نظر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، سارے منجم اس پر متفق ہیں کہ یہ کار محال ہے، مگر رات بارہ بجے پشاور کو چاند نظر آ جاتا ہے۔

یقین تو نہیں ہے بس گمان ہے کہ اسی معجون کی تاثیر سے پشاور سے کابل کا چاند نظر آ جاتا ہو گا۔ اور کابل والوں کو جدہ کا چاند دیکھنا بھی ہرگز محال نہیں ہو گا۔ اگر پرویز خٹک صاحب اسلام آباد کی طرف دست تعاون دراز کریں اور دو تین ٹرک اس معجون فلک سیر کے ہر صوبائی اور مرکزی دارالحکومت میں بھجوا دیں، تو جدے سے گلگت تک ایک ہی دن عید ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ ہر ایک کا اپنا اپنا چاند ہو اور اپنی اپنی عید۔

اور حکومت کی بھی پیروں فقیروں کی منتیں کرنے سے جان چھوٹ جائے گی۔ اوقاف والے اپنے کام دھندے سے لگیں گے۔ اور علما بھی رات بارہ بجے تک خوار ہونے سے بچ جائیں گے۔
ماخذ


اس پر نظر اب پڑی ۔۔۔ عمدہ شراکت
 
Top