ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 141
کے نتائج بغیر کسی کمی بیشی کے تمہیں واپس دیتا ہوں۔پس جو کوئی تم میں اچھائی پائے چاہئیے کہ اللہ کی حمد و ثنا کرے۔اور جس کسی کو برائی پیش آئے تو چاہئیے کہ خود اپنے وجود کے سوا کسی کوملامت نہ کرے"۔
یہاں یہ خدشہ کسی کے دل میں واقع نہ ہوکہ خود قرآن نے بھی تو جابجاخدا کی خوش نودی اور رضا مندی کا ذکر کیا ہے۔بلاشبہ کیا ہے،اتنا ہی نہیںبلکہ وہ انسان کی نیک عملی کااعلٰی درجہ یہی قرار دیتا ہےکہ جو کچھ کرے اللہ کہ کوش نودی کے لئے کرے۔لیکن خدا کے جس رضا اور غضب کا وہ اثبات کرتا ہے وہ جزا و سزا کی علت نہیں ہےبلکہ جزا وسزا کا قدرتی نتیجہ ہےیعنی یہ نہیں کہتا کہ جزاوسزامحض خدا کی خوش نودی اور ناراضی کا کا نتیجہ ہے،نیک وبداعمال کا نتیجہ نہیں ہےبلکہ وہ کہتا ہے کہ جزاوسزاتمام تر انسان کے اعمالی کا نتیجہ ہےاور خدا نیک عمل سے خوش نود ہوتا ہے بدعملی ناپسند کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ تعلیم قدیمی اعتقاد سے نہ صرف مختصر ہے بلکہ یکسر متضاد ہے۔
بہرحال جزاوسزا کی اس حقیقت کے لئے 'الدین' کا لفظ نہایت موزون لفظ ہےاور تمام گمراہوں کی راہ بند کردیتا ہےجو اس بارے میں پھیلی ہوئی تھیں۔سورہ فاتحہ میں مجرد اس لفظ کے استعمال نےجزاوسزا کی اصلی حقیت لوگوں پر آشکارا کردی۔
الدین بمعنٰی قانون ومذہب
ثانیاََ یہی وجہ ہے کہ مزہب اور قانون کے لئے'الدین'کا لفظ استعمال کیا گیا۔ کیونکہ مذہب کا بنیادی اعتقاد
مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ (12:72)
مکافات عمل کا اعتقاد ہے اور قانون کی بنیاد بھی تعزیر وسیاست پر ہے۔سورہ یوسف میں جہاں یہ واقعہ بیان کیا ہےکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس روک لیا تھا وہاں فرمایا:
'وہ بادشاہ(مصر)کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کرسکتا تھاکہ اپنے بھائی کو روک لے،مگر وہاں اسی صورت میں کہ اللی کو(اس کی راہ نکال دینا) منظود ہوتا'۔
یہاں بادشاہ مصر کے ؛دین'سے مقصود اس کاقانون ہے۔

صفحہ 142
ملک یوم الدین میں عدالت الہٰی کا اعلان ہے
ثالثا یہاں ربوبیت اور رحمت کے بعد صفات قہر و جلال میں کسی صفت کا ذکر نہیں کیا گیابلکہ"مالک یوم الدین"کی صفات بیان کی گئی جس عدالت الہٰی کا تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہوجاتاہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے اس میں قہر و غضب کے لئے کوئی جگہ نہیں۔​
البتہ عدالت ضرور ہےاور صفات قہر جس قدر بیان کی گئی ہیں دراصل اسی کے مظاہرہیں56۔
فی الحقیقت صفات الہٰی کے تصور کا یہی مقام ہے جہان فکر انسانی نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی۔یہ ظاہر ہے کہ فطرت کائینات ربوبیت ورحمت کے ساتھ اپنے مجاز بھی رکھتی ہے اور اگر ایک طرف اس میں پرورش وبخشش ہے تو دوسری طرف مواخذہ ومکافات بھی ہے۔ فکر انسانی کے لئے فیصلہ طلب سوال یہ تھا کے فطرت کے مجازات اس کے قہروغضب کا نتیجہ ہیں یا عدل و فسط کے؟ اس کا فکرنارسا عدل و فسط کی حقیقت معلوم نہ کرسکا۔اس نے مجازات کو قہر و غضب پر محمول کرلیا اور یہیں سے خدا کی صفات میں خوف و دہشت کا تصور پیدا ہوگیا۔حالانکہ اگر وہ فطرت کائنات کو زیادہ قریب ہوکر دیکھ سکتا تو معلوم کرلیتا کہ جن مظاہر کو قہرو غضب پر محمول کررہا ہےوہ قہر و غضب کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ عین مقتضاءرحمت ہیں۔ اگر فطرت کائنات میں مکافات کا مواخذہ نہ ہوتا یا تعمیر کی تحسین وتکمیل کے لئے تخریب نہ ہوتی تو میزان عدل قائم نہ رہتا اور تمام نظام درہم برہم ہوجاتا۔
کارخانہ ہستی کے تین معنوی عناصر:ربوبیت،رحمت،عدالت
رابعاََ جس طرح کارخانہ خلقت اپنے وجود و بقا کے لئے ربوبیت اور رحمت کا محتاج ہے اسی طرح عدالت کا بھی محتاج ہے۔ یہی تین معنوی عناصر ہیں جن سے خلقت و ہستی کا قوام ظہور میں آیا ہے۔ ربوبیت پرورش کرتی ہے رحمت افادہ وفیضان کا سر چشمہ ہے اور عدالت سے بنائو اور خوبی ظہور میں آتی اور نقصان فساد کا ازالہ ہوتا ہے۔
تعمیر و تحسین کے تمام حقائق دراصل عدل و توازن کا نتیجہ ہیں۔
تم نے ابھی ربوبیت اور رحمت کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔اگر ایک قدم آگے
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 143
بڑھو تو اسی عدالت کا مقام نمودار ہوجائے۔ تم دیکھو گے کہ اس کارخانہ ہستی میں بنائو سلجھائو،خوبی اور جمال میں سے جو کچھ بھی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ عدل و توازن کی حقیقت کا ظہور ہے ۔ ایجاب و تعمیر کو تم اس کی بے شمار شکلوں میں دیکھتے ہو اور اس لئے ،بے شمار ناموں سے پکارتے ہو لیکن اگر حقیقت کا سراغ لگائو تو دیکھ لو گے کے ایجابی حقیقت یہاں صرف ایک ہی ہے اور وہ عدل و اعتدال ہے۔
"عدل" کے معنی ہیں برابر ہونا زیادہ نہ ہونا۔ اسی لئے معاملات اور قضایا میں فیصلہ کردینے کو عدالت کہتے ہیں کہ حاکم دو فریقوں کی باہم دگر زادتیاں دور کردیتا ہے۔ترازو کی تول کو بھی معادات کہتے ہیں۔کیونکہ وہ دونوں پلوں کا وزن برابر کردیتا ہے۔یہی عدالت جب اشیاء میں نمودار ہوتی ہے تو ان کی کمیت اور کیفیت میں تناسب پیدا کردیتی ہے۔ایک جزو کا دوسرے جزو سے کمیت یا کیفیت میں مناسب و موزوں ہونا عدالت ہے۔
اب غور کرو!کارخانہ ہستی میں بنائو اور خوبی کے جس قدر مظاہر ہیں کس طرح اسی حقیقت سے ظہور میں آئے ہیں؟وجود کیا ہے؟حکیم بتاتا ہے کے عناصر کی ترکیب کا اعتدال ہے۔ اگر اس اعتدالی حالت میں ذرابھی فتورواقع آجائے،وجود کی نمود معدوم ہوجائے!جسم کیا ہے؟جسمانی مواد کی ایک خاص اعتدالی حالت ہے۔اگر اس کا کوئی ایک جز بھی غیر معتدل ہوجائے،جسم کی حثیت ترکیبی بگڑ جائے۔صحت وتندرستی کیا ہے؟اخلاط کا اعتدال ہے۔جہاں اس کا قوام بگڑا صحت میں انحراف ہوگیا۔۔حسن و جمال کیا ہے؟تناسب و اعتدال کی ایک کیفیت ہے۔اگر انسان میں ہے تو خوب صورت انسان ہے۔نباتات میں ہےپھول ہے۔عمارت میں ہے تو تاج محل ہے۔نغمہ حلاوت کیا ہے؟سروں کی ترکیب کا تناسب و اعتدال۔اگر ایک سُر بھی بے میل ہوا نغمے کی کیفیت جاتی رہی۔

پھر کچھ اشیاء واجسام ہی پرموقوف نہیں،کارخانہ ہستی کا تمام نظام ہی عدل و توازن پر قائم ہے۔اگر ایک لمحہ کے لئے یہ حقیقت غیر موجود ہوجائےتو تمام نظام عالم درہم برہم ہوجائے۔یہ کیا بات ہے؟کہ نظام شمسی کا ہر کرہاپنی اپنی جگہ پر معلق ہے،اپنے اپنے دائروں میں حرکت کر رہا ہےاور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ذرا بھی انحراف و میلان واقع ہو؟یہی عدالت کا قانون ہےجس نے سب کو ایک خاص نظم کے ساتھ جکڑ بندکررکھا ہے۔تمام کرےاپنی اپنی
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 144
کشش رکھتے ہیں اور ان کے مجموعی جزب و انجزاب کے توازن سے ایسی حالت پیدا ہوگئی ہے کہ ہر کرہ اپنی جگہ قائم و معلق ہے۔اگر کوئی کرہ اس قانون عدالت سے باہر ہوجائے تو معاََ دوسرے کروں سے ٹکراجائےاور تمام نظام شمسی مختل ہاجائے۔
اعداد کے تناسب کی عظیم الشان صداقت جس پر ریاضی اور حساب کے تمام حقائق کا دارومدار ہے یہی عدل و تعادل کی حقیقت ہے۔جس دن یہ حقیقت زہن انسانی پر کھلی تھی،علوم و معارف کے تمام دروازے باز ہوگئے تھے۔
وضع میزان
چناچہ قرآن نے اس حقیقت کی طرف جابجا اشارات کئے ہیں:
وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَان َ أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ(7:55۔8 )
اور اس نے بلند کردیا اور (اجرام سماویہ کے قیام کے لئے قانون عدالت کا)

میزان بنادیا تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو 57
یہ 'المیزان' یعنی ترازو کیا ہے؟تعادل وتوازن کا قانون ہے جو تمام اجرام سماویہ کو ان کی مقررہ جگہ میں تھامے ہوئے ہے۔اور کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کے توازن کا پلڑا کسی ایک طرف جھک پڑے۔اجرام سماویہ کایہ وہ غیر مرئی ستون ہے جس کی نسبت سورہ رعد میں فرمایا:
اللّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا(2:13)
اللہ جس نے آسمانوں کو(اجرام سماویہ کو)بغیر ستون کے بلند کردیا ہے اور تم اس کی یہ حکمت دیکھ رہے ہو۔
اور سورہ لقمان میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا(10:31)
اس نے آسمانوں کو (یعنی اجرام سماویہ کو) پیدا کیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے۔
یہ کہنا ضروری نہیں کہ عدل و تعادل کی حقیقت سمجھانے کے لئے میزان یعنی ترازو سے
صفحہ 145
بہتر کوئی عام فہم اور دل نشین تعبیر نہیںہوسکتی تھی۔
اسی طرح سورآلِ عمران کی مشہور آیت شہادت میں قاائمہ بالقسط(18:3)کہ کر اسی حقیقت
کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی کائنات خلقت میں اس کے تمامکام عدالت کے ساتھ قائم ہیں اور اس نے قیامِ ہستی کے لئے یہی قانون ٹہرادیا ہے۔


اعمالِ انسانی کا عدل و قسط پر مبنی ہونا قرآن کی اصطلاح میں 'عملِ صالح ہے
قرآن کہتا ہے کہ جب عدالت کا یہ قانون کائنات خلقت کے ہر گوشہ میںنافذہے تو کیونکر ممکن ہے کے انسان کے افکار و اعمال کیلئے بےاثر ہوجائے۔
پس اس گوشے میں بھی وہئی عمل مقبول ہوتا ہےجو افراط و تفریط اور میل و انحراف کی جگہ فطرت کے عدل و قسط پر مبنی ہوتا ہے۔اگر تعمیروجمال کے سینکڑوں ناموں سے تمہیں مغالطہ نہیں ہوتا اور یہ بات پالیتے ہوکہ ان سب میں اصل حقیقت ایک ہی ہے اور وہ عدالت ہے تو اس گوشے میں ایک ایمان و عمل کی اصطلاح سے تمہیں کیوں توحش ہو اورکیوں بے تحاشہ انکار کر بیٹھو؟
کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کا ٹھرایا ہوا دین چھوڑ کر دوسرا دین تلاش کریں؟حالانکہ آسمان اور زمیں میں جو کوئی بھی ہے سب اسکے حکم کی اطاعت کر رہے ہیںخوشی سے ہو یا ناخوشی سے۔(مگر سب کے لئے چلنا اسی کے ٹہرائے ہوئےقانون پر ہے)اور بالاخر سب اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
بد عملی کے لئے قرآن کے اختیارات لغویہ
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بد عملی اور برائی کے لئے جتنی تعمیرات اختیار کی ہیں سب ایسی ہیں کہ اگر ان کے معانی پر غور کیا جائے تو عدل و توازن کی ضد اور مخالف ثابت ہوں گی۔ گویا قرآن کے نزدیک برائی کی حقیقت اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ حقیقت عدل سے انحراف ہو مثلاََ ظلم ،طغیان،اسرافِ تبزیر،افساد،اعتداء،عدوان وغیرذلک
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 201
توحیدفی الصفات
لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہوگئے۔اس نے صرف توحید پر ہی زور نہیں دیا، بلکہ شرک کی راہیں بھی بند کردیں اور یہی اس باب میں اس کی خصوصیت ہے۔وہ کہتا ہے:"ہر طرح کی عبادت اور نیازکی مستحق صرف خدا کی ذات ہے۔پس اگر تم نے عابدانہ عجزونیاز کے ساتھ دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایاتو توحید کا اعتقاد باقی نہ رہا"۔وہ کہتا ہے"یہ اس کی ذات ہے جوانسانوں کی پکار سنتی ہےاور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔"پس اگر تم اپنی دعائوں اور طلب گاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کرلیا"۔وہ کہتا ہے"دعا استعانت،رکوع،سجود،عجز و نیازاعتماد توکل اور اس طرح کے تمام وعبادت گزارانا اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیںجوخدااوراس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کر تے ہیں۔پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو خدا کے رشتہَ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔اس طرح عظمتوں ،کبریائیوں،کارسازیوں اقور بے نیازیوں کا جو اعتماد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے،وہ صرف خدا ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہئے۔اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لئے بھی پیدا کرلیاتو تم نے اسے بھی خدا کا ندیعنی شریک ٹھرالیااور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہوگیا"۔
یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ میں ایاک نعبدو وایاک نستعین کی تلقین کی گئی ۔اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا،پھر دونوں جگہ مفعول کومقدم کیا گیاجو وجہ حصر ہے،یعنی"صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں"اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحیدفی الصفات اور ردالشرک پر زور دیا گیاہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔
مقامِ نبوت کی حد بندی
سب سے زیادہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حد بندی تھا،یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصل جگہ میں محدود کردینا،تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہوجائے۔اس بارے
صفحہ 202
میں قرآن نے جس طرح صاف اور قطعی لفظوں میں جابجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے ، محتاج بیان نہیں۔ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے،اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے:اشہدان لا الہٰ الاا للہ واشہدان محمد اعبدہ ورسولہ"یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میںاقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں"۔اس اقرار میں جس طرح خدا کی تو حید کا اعتراف کیا گیا ہے۔ٹھیک اسی طرح پیغمنبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔غور کرنا چاہئے ایسا کیوں کیا گیا؟صرف اس لئے کہپیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اساس اور اصل بن جائےاور اس کا کوئی موقع نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملہ کا تحفظ کیا جاسکتا تھا ؟کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کا بھی اقرار نہ کرلے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئےِ لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کبھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نےبر سر منبر اعلان کردیاتھا:
من کان منکم یعبد محمد افان محممد اقدمات،ومنکان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت(بخاری) 102
جو کوئی تم میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پرستش کرتا تھا ،سوا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ محمد (صلعم) نے وفات پائی، اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی پرستش کرتا تھا تو اسےمعلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے،اس کے لئے موت نہیں۔
عوام اور خواص دونوں کے لئے ایک تصویر
رابعاََ، قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں بھی خاص و عام کا امتیاز برقرار رکھا جاتا تھا کہ خدا کا ایک تصور تو حقیقی ہے اور وہ خواص کے لئے
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 203

ہے ایک تصور مجازی ہے اور وہ عوام کے لئے ہے۔چناچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تین درجے قرار دئے گئے :
عوام کے لئے دیوتائوں کی پرستش،خواص کے لئے براہ راست خدا کی پرستش،اخص الخواص کے لئےوحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔یہی حال فلسفہ یونان کا تھا۔وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم اور اہل حکمت ہی کرسکتے ہیں۔ عوام کے لئے اسی میں امن ہے کہ دیوتائوں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔
لیکن قرآن نے حقیقت و مجاز یا خاص و عام کا کوئی امتاز باقی نہ رکھا۔اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لئے صفات الہٰی کا ایک ہی تصور پیش کردیا۔وہ حکماء اور عرفاءسے لے کر جہال و عوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ایک ہی دروازہ کھولتا ہے۔اس کا جس طرح ایک حکیم و عارف کے لئےسرمایہ تفکر ہے اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لئے سرمایہ تسکین۔
اس سلسلے مین معاملے کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ہندوستان میں خواص اور عوام کے خدا پرستانہ تصوروں میںجو فرق مراتب ملحظ رکھا گیا،وہ معاملے کو اس رنگ میں بھی نمایاں کرتا ہےکہ یہاں مذہبی نقطہ خیال،ابتدا سے فکر و عمل کی رواداری پر مبنی رہا ہے۔یعنی کسی دائرہ فکر کو بھی اتنا تنگ و بے لچک نہیں رکھا گیاکہ کسی دائرے کی بھی اس میں گنجائش ہی نہ نکل سکے۔یہاں خواص توحید کی راہ پر گامزن ہوئے۔لیکن عوام کے لئے دیوتائوں کی پرستش اور مورتیوں کی عبودیت کی راہیں بھی کھلی چھوڑ دیں گئیں۔گویا ہر عقیدے کو جگہ دی گئی۔ہر عمل کے لئے گنجائش نکالی گئی اور ہر طورطریقے کو آزادانہ نشونما کا موقع مل گیا۔مذہبی اختلاف جو دوسری قوموں میں باہمی جنگ و جدال کا ذریعہ بنا رہا ہے ،یہاں آپس کے سمجھوتوں کا ذریعہ بنااور ہمیشہ متعارضاصل باہم ٹکرانے کی جگہ ایک دوسرے کے لئے جگہیں نکالتے رہے۔تخالف کی حالت میں تفاہم اور تعارض کی حالت میں تطابق،گویا یہاںذھنی مزاج کی عام خصوصیت تھی۔ایک دیدانتی جانتا ہے کہ اصل حقیقت اشراک اور بت پرستی کے عقائد سے بالاتر ہے ،تاہم یہ جاننے پر بھی وہ بت پرستی کا منکرو مخالف نہیں ہوجاتا،کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پسماندگان راہ کے لئے یہ بھی ایک
صفحہ 204
ابتدائی منزل ہوئی اورراہرہ کوئی راہ اختیار کرے،مگر مقصود و اصلی ہر حال میںسب ایک ہی ہے۔
خواہ از طریق میکدہ خواہ از راہ حرم
از ہر جہت کہ شاد سوی فتح باب گیر
(کسی میکدہ کی طرف سے یا حرم پاک کی طرف سے ،جس راستے سے تیرا دل چاہے اور تو خوش ہووے تو اسی پر چلا کر۔)
چناچہ چند سال ہوئے پروفیسر سی ۔ای۔ام۔جوڈ() نے ہندوستان کے تاریخی خصائص پر نظر ڈالتے ہوئے اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں جگہ دی تھیاور اس سے پہلے دوسرے اہل قلم بھی اس پہلو پر زور دے چکے ہیں۔
ہمیں چاہئےمعاملے کے اس پہلو پر بھی نظر ڈال لیں۔ہندو رواداری بلاشبہ فکر و عمل کی اس روادانہ سوچ کا جو ہندوستانی تاریخ میں برابر ابھرتی رہی ہے،ہمیں اعتراف کرنا چاہئے۔لیکن معاملہ صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا،زندگی کے حقائق کے تقاضوں کا یہاں کچھ عجب حال ہے،یہاں ہم کسی ایک گوشے ہی کے ہوکر نہیں رہ سکتے،دوسرے گوشوں کی خبر بھی رکھنی پڑتی ہے۔اور فکر و عمل کی ہر راہ اتنی دور چلی گئی ہےکہ کہیں نہ کہیں جاکر حد بندی کی لکیریں کھینچنی پڑتی ہیں۔اگر ایسا نہ کریں تو علم و اخلاق کے تمام احکام متزلزل ہوجائیںاور اخلاقی اقدار کی کوئی مستقل حیثیت باقی نہ رہے۔رواداری یقیناََ ایک خوبی کی بات ہے،لیکن ساتھ ہی عقیدے کی مضبوطی،رائے کی پختگی اور فکر کی استقامت کی خوبیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، پس یہاں کوئی نہ کوئی حد بندی کا خط ضرور ہونا چاہئے جو تمام خوبیوں کو اپنی جگہ رکھے ۔اخلاق کے تمام احکامانہیں حد بندیوں کے خطوط سے بنتے اور ابھرتے ہیں۔جوں ہی یہ ہلنے لگتے ہیں ،اخلاق کی پوری دیوار ہل جاتی ہے۔عفع و درگذر بڑی ہی خوبی کی بات ہے۔ لیکن یہی عفو و در گذر جب اپنی حد بندی کے خط سے آگے بڑھ جاتا ہے تو عفو و درگذر نہین رہتا،اسےبزدلی اور بے ہمتی کے نام سے پکارے لگتے ہیں،شجاعت انسانی سیرت کا سب سے بڑا وصف ہے ۔ لیکن یہی وصف جب اپنی حد سے گذر جائے گا تو نہ صرف اسکا حکم ہی بدل جائے گا،بلکہ صورت بھی بدل جائے گی
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 205
گی،اب اسے دیکھئے کہ وہ تو شجاعت نہیں ہے،قہر و غضب اور ظلم و تشدد کا شکار ہوگیا ہے۔
دو حالتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں ہوسکتا۔ایک حالت یہ ہتے کہ کسی خاص اعتقاداور عمل کی روشنی ہمارے سامنے آگئی ہے اور ہم ایک خاص نتیجے پر پنہچ گئے ہیں،اب اس کی نسبت ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے،ہم اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیںیا متزلزل رہیں؟دوسری حالت یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی خاص نتیجے پر پنہچے ہیں،اسی طرح ایک دوسرا شخص بھی ایک دوسرے نتیجے پر پنہچ گیا ہے،اور یہاںفکر و عمل کی ایک ہی راہ سب پر نہیں کھلتی۔اب ہمارا طرزِ عمل اس شخص کی نسبت کیا ہونا چاہئے؟ہماری طرح اسے بھی اپنی راہ چلنے کا حق ہے یا نہیں؟رواداری کا محل دوسری حالت ہے۔پہلی نہیں ہے،اگر پہلی حالت میں وہ آئے گی تو یہ رواداری نہ ہوگی،اعتقاد کی کمزوری اور یقین کا فقدان ہوگا۔
رواداری یہ ہے کہ اپنا حقِ اعتقاد وعمل کے ساتھ دوسرے کے حقِ اعتقاد وعمل کا بھی اعتراف کیجئے۔اور اگر دوسرے کی راہ آپ کو صریح غلط دکھائی دے رہی ہے،جب بھی اس کے حق سے انکار نہ کیجئےکہ وہ اپنی غلط راہ پر چل رہا ہے۔لیکن اگر رواداری کے حقوق یہاں تک بڑھادئے گئےکہ وہ آپ کے عقیدوں میں بھی مداخلت کر سکتی ہے اور اپ کے فیصلوں کو بھی نرم کرسکتی ہے تاپھر یہ رواداری نہ ہوئی،استقامتِ فکر کی نفی ہوگئی۔
مفاہمت زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہےاور ہماری زندگی ہی سرتاسر مفاہمت ہے،لیکن ہر راہ کی طرح یہاں بھی حد بندی کی لکیر کھینچنی پڑے گی،اور اس حد پر بھی جاکر لکیر کھینچی گئی،معاِِعقیدہ پیدا ہوگیا۔ اب جب تک عقیدے کی تبدیلی کی کوئی روشنی نظر نہیں آتی،آپ مجبور ہیں کے اس پر جمے رہیںاور اس میں کانٹ چھانٹ نہ کریں۔آپ دوسروں کے عقائد کا احترام ضرور کریں گے۔ لیکن اپنے عقیدے کو بھی کمزوری کےحوالے نہیں ہونے دینگے۔
کتنی ہی مصیبتیں ہیںجو اعتقادوعمل کے تمام گوشوں میں اسی دروازے سے آئیں کہ ان دو مختلف حالتوں کا امتیازی خط اپنی جگہ سے ہل گیا،اگر اعتقاد کی مضبوطی آئی تو اتنی دور چلی گئی کہ تمام تقاضے بھلادئے گئے اور دوسروں کے اعتقادوعمل میں
صفحہ 206
جبراََ مداخلت کی جانے لگی۔ اگر رواداری آئی تواس بے اعتدالی کے ساتھ آئی کہ استقامت فکر و رائے کے لئے کوئی جگہ نہ رہی ،ہر عقیدہ لچک گیا،ہر عقیدہ ہلنے لگا۔پہلے بے اعتدالی کی مثالیں ہمیں ان مذہبی تنگ نظریوں اور سخت گیریوں میں ملتی ہیںجن کی خوں چکاں داستانوں سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوچکے ہیں۔دوسری بے اعتدالی کی مثالیں ہمیں ہندوستان کی تاریخ مہیا کردیتی ہے۔یہاں فکر و عقیدے کی کوئی بلندی بھی وہم و جہالت کی گراوٹ سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکی اور علم و عقل اور وہم و جہل میں ہمیشہ سمجھوتوں کا سلسلہ جاری رہا،ان سمجھوتوں نے ہندوستانی دماغ کی شکل و صورت بگاڑدی۔اس کی فکری ترقیوں کا تمام حسن اصناعی عقیدوں اور وہم پرستیوں کے گردوغبار میں چھپ گیا۔
زمانہ حال کے مورخوں نے اس صورت حال کااعتراف کیا ہے۔ہمارے زمانے کا ایک قابل ہندو مصنف اس عہد کی فکری حالت پر نظر ڈالتے ہوئےجب آریائی تصورات ہندوستان کے مقامی مذاہب سے مخلوط ہونے لگے تھے،تسلیم کرتا ہے کہ"ہندو مذہب کی مخلوط نوعیت کی توضیح ہمیں اس صورت حال میں مل جاتی ہے۔صحرانوردقبائل کے وحشیانہ توہمات سے لے کر اونچے سے اونچےدرجے کے تہارس غوروخوض تک،ر درجےاور ہر دائرہ فکرکے خیالات یہاں باہم دگر ملتے اور مخلوط ہوتے رہے۔آریائی مذہب اول روز سے کشادہ دل،خوددار اور روادارتھا۔وہ جب کبھی کسی نئے موثر سے دوچار ہوا تو خود سمٹتا گیااور جگہیں نکالتا رہا۔اس کی اس مزاجی حالت میں ہم ایک سچے انکسار طبع اور ہمدردانہ مفاہمت کا شائستہ رجحان محسوس کرتے ہیں۔ہندو دماغ اس کے لئے تیار نہیں ہوا کہ نچلے درجے کے مذہبوں کو نظر اندازکردے یا تو لڑ کر ان کی ہستی مٹادے۔اس کے اندر ایک مذہبی مجنوں کاغرور نہیں تھاکہ صرف اسی کا مذہب سچا مذہب ہے۔اگر انسانوں کے ایک گروہ کو کسی ایک معبود کی پرستش اس کے طور طریقے پر تسکین قلب مہیا کردیتی ہےتو تسلیم کرلینا چاہئے کہ یہ بھی سچائی کی ایک راہ ہے۔مکمل سچائی پر کوئی بہ یک دفعہ قابض نہیں ہوسکتا۔صرف بتدریج او بہ تفریق ہی حاصل کی جاسکتی ہےاور یہاں ابتدائی اور عارضی درجوں کو بھی ان کی ایک جگہ دینی پڑتی ہے۔ہندو دماغ نے رواداری اور باہمی مفاہمتوں کی یہ راہ اختیار کرلی،لیکن
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 207
وہ یہ بات بھول گئے کہ بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں جب رواداری کی جگہ نارواداری ایک فضیلت کا حکم پیدان کرلیتی ہے،اور مزہبی معاملات میں بھی گریشم ( ) 103کام کرتا رہتا ہے۔جب آریائی اورغیرآریائی مذاہب باہم دگر ملے،ایک شائستہ اور دوسرا ناشائستہ،ایک اچھی قسم کا دوسرا نکما۔وغیر شائستہ اور نکمےاجزا میں قدرتی طور پر میلان پیدا ہوگیا کہ شائستہ اور اچھے اجزاء کودبا کر معطل کردے"104
بہر حال قرآن کے تصور الہٰی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کسی طرح کی اعتقادی مفاہمت اس بارے میں جاتری نہیں رکھی۔وہ اپنے توحیدی اور تنزیہی تصور میں سر تا سر بے میل اور بے لچک رہا۔اس کی یہ مضبوط جگہ کسی طرح بھی ہمیں روادانہ طرز عمل سے روکنا نہیں چاہتی،البتہ اعتقادی مفاہمتوں کے تمام دروازے بند کردیتی ہے۔
خامساََ، قرآن نے تصور الہٰی کی بنیاد انسان کے عالم گیر و جدانی احساس پر رکھی ہے۔یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و فکر کی کاوشوں کا ایک معمہ بنادیا ہو جسے کسی خاص طبقے کا ذہن ہی حل کرسکے ہے ۔انسان کا عالم گیروجدانی احساس کیا ہے؟ یہ کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہوگئی ، پیدا کی گئی ہے اور اسکے لیئے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔پس قرآن بھی اس بارے میں عام طور پر جو کچھ بتلاتا ہے، وہ اتنا ہی کاہی ہے ۔ اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ مذہبی عقیدے کا معاملہ نہیں ہے۔ انفرادی اور ذاتی تجربے و احوال کا معاملہ ہے۔اس لیے وہ اس کا بوجھ جماعت کے افکار پر نہیں ڈالتا،اسے اصحاب جہدوطلب کے لئے چھوڑ دیتا ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ(69:29)
اور جو لوگ ہم تک پنہچنے کے لیے کشش کرینگے تو ہم بھی ضرور ان پر راہ کھول دیں گے۔اوراللہ نیک کرداروں سے الگ کب ہے ؟وہ تو ان کے ساتھ ہے۔

اور ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہین،زمین میں کتنی حقیقت کی نشانیاں ہیں،اور خود تمہارے اندر بھی، پھر تم دیکھتے نہیں؟
سادسا،اسی مقام سے وہ فرق مراتب بھی نمایاں ہوجاتا ہے جو اسلام نے بالکل ایک
صفحہ 208
دوسری شکل و نوعیت میں ،عوام و خواص کا ملحوظ رکھا ہے۔ہندومفکروں نے عوام اور خواص میں الگ الگ تصور اور عقیدے تقسیم کیے ۔اسلام نے تصور اور عقیدے کے اعتبار سے کوئی امتیاز جائز نہیں رکھا۔وہ حقیقت کا ایک ہی عققیدہ ہر انسان کے دل و دماغ کے آگے پیش کرتا ہے۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ طلب و جہد کے لحاظ سے سب کے مراتب یکساں نہیں ہوسکتے اور یہاں ایک ہی درجے کی پیاس لے کر ہر طالب حقیقت نہیں آتا۔عامۃ الناس بہ حیثیت جماعت کا اپناایک خاص مزاج اور اپنی ایک خاص احتیاج رکھتے ہیں۔خاص افراد بہ غحیثیت فرد کے اپنی طلب و استعداد کا الگ الگ درج و مقام رکھتے ہیں۔پس اس نے جس امتیاز سے پہلی صورت میں انکار کردیا تھا،اس سے دوسری صورت میں انکار نہیں کیااور مختلف مدارج طلب کے لیے عرفان و یقین کی مختلف راہیں کھلی چھوڑدیں۔
صحیح بخاری اور مسلم کی ایک متفق علیہ روایت میں جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے،نہایت جامع و مانع لفظوں میں فرق مراتب واضع کردیا گیا ہے۔یہ حدیث تین مرتبوں کا ذکر کرتی ہے:اسلام،ایمان اور احسان۔اسلام یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کا اقرار کرنااور عمل کے چاروں رکن یعنی نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ انجام دینا۔ایمان یہ ہے کہ اقرار کے مرتبے سے آگے بڑھنااور اسلام کے بنیادی عقائدکے حق الیقین کا مرتبہ حاصل کرنا۔احسان یہ ہے :
ان تعبد اللہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ یراک(صحیحین)
"تواللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا اسے اپنے سامنے دیکھ رہا ہے،اور اگر تواسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔"
پس گویا عرفان حقیقت کے لحاظ سے یہاں تین مرتبے ہوئے:
پہلا مرتبہ اسلامیدائرے کے اعتقادوعمل کا ہے،یہ اسلام ہے،یعنی جس نے اسلامی عقیدے کا اقرار کرلیااوراس کے اعمال کی زندگی اختیار کرلی، وہ اس دائرے میں آگیا۔لیکن دائرے میں داخل ہوجانے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ علم و یقین کے جو مقامات ہیں وہ بھی ہر واردوداخل کو حاصل ہوگئے۔پس دوسرا مرتبہ نمایاں ہواجسے ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ اسلام ظاہر کااقراروعمل تھا،ایمان دل ودماغ کا یقین واذان ہے۔ یہ مرتبہ
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 209
جس نے حاصل کرلیا وہ عوام سے نکل کر خواص کے زمرے میں داخل ہوگیا۔لیکن معاملہ اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا،عرفان حقیقت اور عین ان الیقینی ایقان کا ایک اور مرتبہ بھی باقی رہ جاتا ہے،اسے احسان سے تعبیر کیا گیا لیکن یہ مقام محض اعتقاد اور یقین پیدا کرلینے کا نہیں ہے،جو ایک گروہ بہ حیثیت گروہ کے حاصل ہوجاسکتاہے۔یہ ذاتی تجربے کا مقام ہے۔جو یہاں تک پہنچتاہے وہ اپنے ذاتی تجربےوکشف سے یہ درجہ حاصل کرلیتا ہے۔تعلیمی اور احکامی عقائد کو اس میں دخل نہیں ،بحث و نظر کی اس میں گنجائش نہیں ،یہ خود کرنے اور پانے کامعاملہ ہے،وہاگر کچھ بتلائےگا کہ میری طرح بن جائو،پھر جوکچھ دکھائی دیتا ہے دیکھ لو۔
پرسیدپکی کہ عاشق چیست
گفتم کہ چومن شوی بدانی
(ایک شخص نے پوچھا' عاشق کیا ہے"میں نے کہا کہ کچھ بھی نہیں بس میری طرح بن جائو گے تو سب معلوم ہوجائے گا)
اسلام نے اس طرح طلب و جہد کی ہر پیاس کے لیے درجہ بدرجہ سیرابی کا سامان کردیا۔عوام کے لیے پہلا مرتبہ کافی ہے۔خواص کے لئے دوسرا مرتبہ ضروری ہےاور اخص الخواص کی پیاس بغیر تیسرے جام کی تسکین پانے والی نہیں۔ اس کے تصور الہٰی اور عقیدے کا میخانہ ایک ہے۔ لیکن جام الگ الگ ہے ۔ ہر طالب کے حصے میں اسکے ظرف کے مطابق ایک جام آجاتا ہے اور اس کی سرشاری کی کیفیتیں مہیا کردیتا ہے۔ وللہ درمن قال:
ساقی بہ ہمہ بادہ زیک خم دھد اما
درجس او مستی ہر کس زشرابی ست
یہاں یہ امر بھی واضع کردینا بے محل نہ ہوگا کہ قرآن کی متعد تصریحات ہیں جنہیں اگر وحدۃ الوجود کی طرف لے جایاجائے تو بلا تکلف دور تک جاسکتی ہیں۔مثلاََ

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ(3:57)
فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ(115:2)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ(16:50)
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ(29:55)
یا تمام اس طرح کی تصریحات جن میں موجادات کا بالآخر اللہ کی طرف لوٹنابیان کیا گیا ہے۔توحید وجودی

صفحہ 210
کے قائل ان تمام آیات سےمسئلہ وحدتۃ الوجودپر استدلال کرتے ہیں۔اور شاہ ولی اللہ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہےکہ۔"اگر میں مسئلہ وحدۃ الوجود کو ثابت کرنا چاہوں توقران کے تمام نصوص و ظواہر سے اس کا اثبات کرسکتا ہوں"لیکن صاف بات جو اس بارے میں ظاہر ہوتی ہے،وہ یہی ہے کہ ان تمام تصریحات کو ان کے قریبی محامل سے دور نہیں لے جانا چاہئےاور ان معانی سے آگے نہیں بڑھنا چاہئےجو صدر اول کے مخاطبوں نے سمجھے تھے ،باقی رہا حقیقت کے کشف و عرفاں کا ومقام جو عرفاء طریق کو پیش آتا ہےتو وہ کسی بھی طرح قرآن کے تصور الہٰی کے خلاف نہیں اس کا تصور ایک جامع تصور ہےاور ہر توحیدی کی اس میں گنجائش موجود ہے،جو افرادِ خصہ،مقامِ احسان تک رسائی حاصل کرتے ہیں،وہ حقیقت کو اس کے پس پردہ جلوہ طرازیوں میں بھی دیکھ لیتے ہیںاور عرفاں کا وہ منتہٰی مرتبہ جو فکرانسانی کے دسترس میں ہے،انہیں حاصل ہوجاتا ہے۔ومن لم یذق لم یدر:
تو نظر بازنہَ ورنہ تغافل نگہ است
تو زبان فہم نہَورنہ خموشی سخن است
سابعاََ جس ترتیب کے ساتھ سورۃ فاتحہ میں تینوں صفتیں بیان کی گئی ہیں،دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔سب سے پہلے ربویت کاذکر کیا گیا ،یوں کہ کائنات ہستی میں سب سے زیادہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے ہر وجود کو سب زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربویت کے بعد رحمت کا ذکر کیا گیا کیونکہ ا سکی حقیقت بہ مقابلے ربویت کے مطالعےوتفکر کی محتاج تھی اور ربویت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ پھر رحمت کے بعد عدالت کی صفت جلوہ افروز ہوئی کیونکہ یہ سفر کی آخری منزل ہے۔رحمت کے مشاہدات سے جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہاں عدالت کی نمود بھی ہر جگہ موجود ہے اور اس لئے موجود ہے کہ ربویت اور رحمت کا مقتضٰی یہی ہے
 
Top