افسانہ یا حقیقت؟جمہوری قیمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل

تاریک رات تھی، خاموشی کا مزہ کرکرا کرنے والی صرف ایک ہی آواز تھی اور وہ تھی کانوں کے آس پاس بھٹکتی مچھر کی بھنبھناہٹ۔۔ ہر آدھ منٹ کے بعد پاس سوئے بچے کاہڑبڑانا بھی انہی مچھروں کے کاٹنے کے سبب تھا۔ با ربار موبائل فون پر گھڑی کی سہولت کو استعمال کر کے وقت کی رفتار کا اندازہ کرنے کی کوشش میں عقدہ کھلتا کہ پچھلی مرتبہ ٹائم دیکھے ابھی پانچ سات منٹ ہی ہوئے ہیں۔موم بتی کی روشنی میں پاس پڑے بچے کی پیشانی پر بہتے پسینے کو کپڑے سے صاف کرنے کا عمل اسی تواتر سے شامل حال تھا۔میاں بیوی، اپنے پھول سے بچوں کے جسموں سے نکلتے پسینوں کو خشک کرنے کی خاطر ، ہاتھ کا پنکھا جھلتے جھلتے اپنے بازو سُن کرو ا چکے تھے، مگر اولاد کی محبت ہو یا اس نعمت کا درد، شل بازئوںکو بھی حرکت کرنے پر مجبور ہی کئے رکھتا ہے۔ پھر مچھر کے شور سے آلودہ اس تاریک خاموشی میں کچھ اور سنائی دیا۔ باہر گلی میں دور سے کچھ لوگوں کی آوازیں آنے لگیں۔۔شروع میں شاید دو چار ہی لوگ ہونگے، لیکن پھر آوازیں تعداد میں بھی بڑھنے لگیں اور انکی شدت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، بیوی نے بہتیرا منع کیا، لیکن وہ پھٹی پرانی بنیان ہی میں باہر گلی کو چل دیا۔ علاقے کے کچھ لوگ، شام سے بجلی کی خرابی پر اکٹھے ہو کر احتجاج کا پروگرام بنا رہے تھے۔ اپنے اپنے بچوں کی بار بار کی ہڑبڑاہٹ اورکسمساہٹ، والدین کی تلملاہٹ میں بدل چکی تھی۔ ایم این اے ، ایم پی اے سے لے کر وزیر اعظم اور صدر تک کے خلاف زبان درازی کا گویا مقابلہ شروع ہو چکا تھا۔ دینو بھی اپنی تمام تر فرسٹریشن کا ہدیہ جمع ہونے والے افراد کو پیش کرنے لگا۔ روڈ بلاک کرنے کا فیصلہ ہوا۔ تمام جوشیلے جوان آس پاس سے ٹائر، ردی کپڑے اور کاغذ اکٹھا کرنے لگے۔ اطمینان بخش حد تک ''سامان '' اکٹھا کر چکنے کے بعد، یہ سب قافلہ مین روڈ پر پہنچ گیا۔ پھٹیچر ٹرانسفارمر کی مرمت کی خاطر اپنی اولادوں کا پیٹ کاٹتے، چندہ کرتے کرتے تھک جانے والے یہ لوگ، دل کی آگ کو سڑک پر جلانے لگے۔سڑک کے درمیان آگ جلا دی گئی اور خالی سڑک پر ہی واپڈا اور متعلقہ عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کے خلاف نعرہ بازی شروع ہو گئی۔
بادل بہت زور سے گرجا، اور محاوروں کے بر عکس، گرجنے سے کہیں زیادہ زور سے برسا۔ گالی گھٹا نے بوندیں نہیں ندیاں بہانا شروع کر دیں۔اس نے ہاتھ میں پانی کا ڈبہ اٹھا رکھا تھا، جس سے وہ صحن میں جمع ہونے والے پانی کو گھر کے کھلے دروازے سے باہر پھینکنے میں جتا ہوا تھا، تیز بارش اور اس کے ساتھ طوفانی ہوائیں، نہ تو شیدے کی ہمت پر اثر انداز ہو رہی تھیں اور نا ہی پانی کے ڈبے کی رفتار کو کم کر پا رہی تھیں۔ اسکی بیوی، پنگھوڑے میں چلاتے اپنے شیر خوار بچے کو فراموش کئے، جا بجا بہتی چھت سے آنے والے پانی کے مقامات پر برتنوں کی قطاریں لگانے میں مصروف تھی۔ اکلوتے کمرے سے ملحقہ تنگ باورچی خانے میں موجود برتن ختم ہونے کو آچکے تھے، لیکن چھت کے سوراخ ختم ہونے میں نہیں آرہے تھے۔ ایک دم سے شیدے کی بیوی کو کچھ خیال آیا۔۔۔اس نے ہاتھ میں پکڑی دیگچی کو ایک طرف پھینکا، اور دوڑ کر ننھے فراز کو پنگھوڑے سے کھینچ کر سینے سے لگا کر صحن کی طرف بھاگی۔ شیدے نے دیکھتے ہی روائتی گالی کے ساتھ اسے اندر جانے کا حکم سنایا، لیکن مراداں نے شیدے کے غصے کے ساتھ ساتھ، برستے بادلوں اور قدم اکھیڑتی ہوائوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چھوٹے سے کچے صحن کے عین وسط میں جا کر قدم روک لئے اور چیخ کر بولی،''بارش سے میرا فرازو صرف بیمار ہو گا، مگر ٹپکتی چھت میرے جگر کے ٹکڑے کو ہمیشہ کے لئے مجھ سے چھین لے گی''۔
آج ان تمام کو جیل میں آئے چھٹا دن تھا۔ بہت کوشش کی تھی کہ وکیل کر لیں، ضمانت ہو جائے، لیکن نہ ہی وکیل کی فیس برابر ہوئی اور نا ہی ضمانت تک نوبت پہنچی۔ کار سرکار میں مداخلت، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور امن و آمان میں خلش ڈالنے کے ساتھ ساتھ روڈ بلاک کرنے کی پاداش میں وہ جیل پہنچ چکے تھے۔ دینو گھٹنوں میں سر دئے، شاید۔۔۔رو رہا تھا۔۔پاس کھڑے ایک اور ''مجرم'' نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔۔''فکر نا کر، ملک صاحب نے ضمانت کا بندوبست کر لیا ہے اور سن۔۔۔محلے میں نیا ٹرانسفارمر بھی لگ رہا ہے۔۔۔
بارش کے بعد سورج کو اپنی کرنیں بکھراتے دو دن ہو چکے تھے، لیکن گلی کا جل تھل ابھی بھی ایک ہی تھا۔ شیدے کے کمرے کی چھت تو ننھے فرازو کی جان نہ لے سکی۔۔لیکن بارشوں کی بدولت دہاڑی نہ ملنے اور اس کی وجہ سے فرازو کو دودھ نہ ملنے سے فرازو لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب جاتا محسوس ہو رہا تھا۔ شیدا باہر نکلا، گندی نالی اور بارش کے پانی کے آمیزے سے بنے کیچڑ میں کئی دفعہ پھسلا لیکن آخر کار گلی پار کر ہی گیا۔ روڈ پر گلی کے کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ شیدے کو ٹھیکیدار کی تلاش تھی، ہو سکتا ہے آج فرازو کے دودھ کے لئے کچھ ادھار کی سبیل ہو جائے۔بھیڑ میں اسے ٹھیکیدار کی پگڑی دکھائی دی۔ دودھ کا فیڈر اور فرازو کی ننھی منی مسکراہٹ، خیالوں ہی خیالوں میں اسکی آنکھوں میں خوشی کی کئی چنگاریاں بھرنے لگی۔ لپک کر ٹھیکیدار کے بازو کو پکڑ کر اس سے علیحدگی میں ملنے کی پھسکاری ماری۔ ٹھیکیدار نے ہنس کر دوسرے لوگوں کی جانب دیکھا اور ایک طرف کھسکا چلا آیا۔ ''وہ جی، دو دن بارش کی وجہ سے دیہاڑی۔۔۔۔۔۔'' اوئے پیسے چاہئیں نا؟؟ ٹھیکیدار نے ٹھک جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکال کر شیدے کی جیب میں ڈال دیا۔۔پیچھے سے نعرہ لگا۔۔۔ٹھیکیدار۔۔ شیدے سمیت سب نے گلا پھاڑا۔۔''زندہ باد''۔
خالی پلاٹ میں پانی سوکھ چکا تھا۔۔مگر کیچڑ ابھی بھی کافی تھا۔ ملک اور ٹھیکیدار کئی چکر لگا چکے تھے۔ دونوں کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ محلے والوں نے پوری کوشش کی تھی کہ خالی پلاٹ کو خشک کر لیں۔۔ سب نے مل کر پلاٹ میں کھڑا پانی تو نکال لیا تھا، لیکن کیچڑ کو ختم کرناکسی کے بس میں نہ تھا۔اچانک دینو نے مشورہ دیا۔۔۔پلاٹ کو کچھ کھود لیتے ہیں، اوپری کیچڑ کے بعد زمین خشک ہو گی۔ملک اور ٹھیکیدار نے گھڑی کی جانب دیکھا اور چلائے، ٹھیک ہے جلدی کرو۔۔۔ہم کچھ ریت منگوا لیتے ہیں۔۔۔۔
سورج تھک ہار کر بس چہرہ چھپانے کی تیاری میں ہی تھا۔۔پلاٹ میں ریت ڈال کر دریاںاور ان پر کرسیاں اور چارپائیاں سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔پورا محلہ ٹھیکیدار اور ملک کے اشاروں پر ادھر سے ادھر ناچتا پھر رہا تھا۔۔۔ملک صاحب اور ٹھیکیدار کے چہرے خوشی اور فاتحانہ مسکراہٹ کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ ایک دم سے ملک صاحب کے موبائیل فون کی گھنٹی بجی۔۔۔کا ن سے لگایا۔۔۔چہرے پر کچھ پریشانی ظاہر ہوئی۔۔۔کچھ مذید بات سنی۔۔۔''ٹھیک ہے خان صاحب۔۔جیسے آپکا حکم۔۔۔جی جی۔۔۔سارے محلے نے شناختی کارڈ جمع کروا دئے ہیں۔۔نہیں جی۔۔کوئی نہیں ورغلا سکتا۔۔خان صاحب ہم ہیں نا۔۔۔۔خیر ہے، ٹرانسفارمر کا کیا ہے، افتتاح پھر کبھی کر لیں گے۔۔''
ڈرائنگ روم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔۔درخواستیں ادھر سے ادھر ہو رہی تھیں۔ فریادیں کی جا رہی تھیں۔ خوشامدیں پھل پھول رہی تھیں۔ اچانک خان صاحب کے چہرے پر نا گواری کوندنے لگی۔ ''تم دونوں ذرا دوسرے کمرے میں آئو''۔۔خان صاحب نے ٹھیکیدار اور ملک صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہی حکم صادر کیا۔
''تمہیں کس الو کے پٹھے نے کہا تھا کہ تم میرا جلسہ محلے کے اندر والے پلاٹ میں رکھو؟۔۔۔تمہیں پتہ نہیں ہے کہ دو روز تک بارش ہوتی رہی ہے اور ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہے؟''۔۔''خان صاحب! ہم نے پلاٹ کو خشک کروا دیا تھا ور ریت بھی بچھوا دی تھی''۔۔۔خان صاحب نے آنکھیں نکالی اور دھاڑے۔۔۔'' کیا سارے محلے اور ساری گلیوں میں ریت بچھوائی ہے؟؟ ۔۔دونوں نے سر جھکا دیا۔۔'' تو پھر؟ اس پلاٹ تک میں کیسے جاتا؟ اب میں ان بدبودار گلیوں اورگندے کیچڑ والے رستوں پرسے اپنی نئی گاڑی گزار کر پلاٹ تک پہنچتا؟اب جلدی سے باہر روڈ والے پلاٹ پر جلسے کا بندوبست کرو۔۔ اور یاد رکھو، اگر مجھے محلے میں سے ایک بھی ووٹ کم پڑا تو نہ تو کسی ٹھیکے کی مجھ سے امید رکھنا اور نہ ہی ان نوکریوں کی کوئی آس لگانا جو میں نے تمہارے بیٹوں کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔ اور ہاں۔۔ وہ تمام رقم بھی جوڑ کر رکھنا جو میں تم دونوں کو اب تک الیکشن کے لئے دے چکا ہوں۔
دور ۔۔۔محلے کے تندور کے پاس ایک نوجوان دینو اور شیدے کے ہاتھوں پٹ رہا تھا، جس نے ان دونوں کے سامنے یہ کہہ دیا تھا کہ پورا محلہ ٹھیکیدار اور ملک صاحب کے ہاتھوں بک کر پورے شہر اور پورے ملک کا سودا کر چکا ہے۔۔۔
تحریر:عنایت عادل
ربط
 
Top