اضطراب نا رسائی

ذوالقرنین

لائبریرین
مجھے معلوم ہے، میں اس بے چہرہ عہد کی ریزہ ریزہ خواہشوں اور کٹی پھٹی خراشوں میں بکھرا ہوا انسان ہوں، جس کے ہونٹوں پر پیاس جم سی گئی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ میں گزشتہ زمانوں کی راکھ سے آئندہ کی محبتوں کا سراغ لگا رہا ہوں حالانکہ راکھ کے ڈھیر تلے دبی چنگاریاں اپنے آپ کو بے اماں سمجھ کر دم توڑنے میں ہمیشہ جلدی کرتی ہیں۔
میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں جسے متاعِ حیات سمجھ کر پرستش کے قرینے سوچتا رہا اور محبت جیسے ارفع جذبے سے بھی بڑھ کر کچھ اور سمجھا تھا مگر یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب کچھ فریب نظر ہے، میں نے اس احساسِ خود فریبی کی پرورش کی ہے کہ خواب کو خواب سمجھ کر دیکھنا بھی اضطرابِ نا رسائی کی تسکین کا باعث ہوتا ہے۔
(میری ڈائری سے ایک ورق)
 
Top