اصلاح نثر "ایک ناقابل فراموش واقعہ"

ویسے مہدی نقوی حجاز آپ نے نثر میں شاعری فرمانے کی اچھی کوشش کی ہے :)

لو جی۔ ہم جب شعر کے اردے سے کچھ گڑھتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں، بھئی کچھ شعر کہو یہ کیا نثر نثر لکھ رکھا ہے، جب نثر کا گریبان چاک کرتے ہیں تو اندر سے آواز آتی ہے، بھائی شاعری تو نہ کرو۔۔!!
اب بندہِ بیزار کہاں کو جائے۔۔ :D
 
ایک ناقابل فراموش واقعہ
ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور پیش آتے ہیں جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا، جن میں سے کچھ قابل تحریر، کچھ لائق سماعت اور کچھ سنی ان سنی کر دینے کے لائق ہوتے ہیں مگر متعلقہ شخص کے ذہن میں وہ ہمیشہ جاودان رہتے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات پر مسرت، کچھ سبق آموز، کچھ غمناک اور کچھ محض قصہ کہانی کے سے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں آنے والی نسلوں کا دل بہلانے کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی میری بھی ہے جو میرے لئے اتنی پر مسرت بھی نہیں لیکن ایک حد تک خوشگوار ضرور ہے۔​
اس کہانی کا آغاز تو اسی دن سے ہو گیا تھا جب میں نے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر پہلی مرتبہ اسے دیکھا۔ سخت بارش تھی اور وہ سڑک کے کنارے سفید کرتا پہنے اپنے دامن سے الجھ رہی تھی۔ نیلی شرابی آنکھیں پر اتنی تیکھی نظر کہ جسے ایک بار آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لے وہ دوبارہ نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرے۔ اور نظروں سے زیادہ تیکھے نقوش جنہیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ شعر کہتے وقت غالب کے پیش نظر بھی ایسی ہی کوئی صورت ہو گی۔​
نقش کو اس کے مصور پر بھی کتنا ناز ہے​
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے​
اور بارش میں اس کے آنکھوں سے زیادہ گہرے نیلے ڈپٹے سے نکلتی ہوئی زلف کسی دریائے بے کراں کی اس نازک لہر کی سی لگتی تھی جسے ہوا کے جھونکے اڑا کر ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر اس کی سمت چلنے لگا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ میرے وہاں پہنچنے پر اس کی نازک عینک جسے وہ بارش کے قطروں کی وجہ سے بار بار اتار کر اپنے بھیگے ہوئے گلابی رنگ کے رومال سے صاف کر رہی تھی گر کر میرے قدموں میں آ پہنچی۔ میں ہڑبڑا گیا، پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کی عینک اٹھا کر اس کے قریب گیا۔ عینک کو بہ صد حیف اس کے حوالے کیا کہ اس کی یہ نشانی بھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ میرے کچھ نہ کہنے پر شاید اس سے رہا نہ گیا تو دھیمے لہجے میں کہنے لگی، "شکریہ آپ کا" پھر ایک وقفہ لینے کے بعد کہا، "بارش بہت تیز ہے، کوئی رکشہ بھی نہیں۔ کیا قریب کوئی بس اسٹاپ ہے؟" میں تو اتنا بے خود ہو چلا تھا کہ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے بعد بھی اپنے ہی علاقے کے بس اسٹاپ کی جگہ یاد نہیں آئی، کچھ بولا نہ گیا۔ کیا کرتا؟ سوچ میں ہی گم تھا کہ کسی رکشہ کے چلنے کی آواز سے ہوش بحال ہوئے۔ وہ جا چکی تھی۔​
پہلی بار میں ہی اس کا مہر میرے دل میں اتر گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد میں انجانے میں ہی اس کا شیفتہ ہو گیا، کہ بہ قول شاعر:​
کتنا عجیب شخص تھا کیا کام کر گیا​
آنکھوں کے راستے مرے دل میں اتر گیا​
ایک طویل مدت تک ہر روز اس سڑک پر کھڑا اسی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر کبھی اسے دیکھ نہ سکا۔ کبھی سوچتا ہوں شاید وہ میرا ایک خوشگوار پر ادھورا خواب تھی۔ لیکن اب بھی جب کبھی اس سڑک پر جانا ہوتا ہے تو جائے ملاقات پر کھڑا ہو کر کچھ لمحے اس کی یاد میں ضرور گزارتا ہوں کہ شاید وہ خواب وہیں سے ہی دوبارہ شروع ہو جائے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
ایک تکنیکی غلطی، بارش سخت، محترمہ نے عینک لگائی ہوئی تھی۔ کیا واقعی آپ نے سڑک کے دوسرے کنارے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر اس کی نیلی آنکھوں کو دیکھ لیا کہ وہ شرابی ہیں :)
مزید یہ کہ سخت بارش میں وہ اپنی گلابی رومال سے بار بار عینک صاف کر رہی تھی۔
 
مزید یہ کہ سخت بارش میں وہ اپنی گلابی رومال سے بار بار عینک صاف کر رہی تھی۔

ہاں اس کے اندر نفاست یہ ہے کہ وہ اپنے خیال میں صاف کر رہی تھی لیکن عینک تھی کہ مزید دھندلا جاتی تھی۔ اسی خاطر وہ یہ عمل ہر 7 سے 8 سیکنڈ کے بعد تکرار کر رہی تھی!
 
نیلے رنگ کی لکھائی میرے اسوقت کے مطالعے کے نتیجے کی پیداوار ہے اور سرخ رنگ کی لکھائی ناپختہ سی بچکانہ سی اصلاح کی ایک کوشش کہہ سکتے ہیں
ایک ناقابل فراموش واقعہ
ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور در آتے ہیں جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا، جن میں سے کچھ قابل تحریر، کچھ لائق سماعت اور کچھ حذف کر دینے کے لائق ہوتے ہیں جو کہ لوح دماغ میں ہمیشہ تابندہ رہتے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات پر مسرت، کچھ سبق آموز، کچھ غمناک اور کچھ محض قصہ کہانی کے سے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں آنے والی نسلوں کا دل بہلانے کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کتھا میری بھی ہے جو میرے لئے اتنی پر مسرت بھی نہیں لیکن ایک حد تک خوشگوار ضرور ہے۔​
اس کہانی کا آغاز کچھ اس طرح سے ہے کہ میں جب گھر سے نکلا تو مطلع ابر آلود تھا جب چائے خانے کے اندر داخل ہوا اور چائے نوش ہی کررہا تھا کہ اچانک بجلی کڑکی مابدولت جو چائے جرعہ جرعہ کرکے نوش کررہے تھے بڑے بڑے گھونٹ لیکر پیالی کو ختم کیا تو اچانک موسلادھار بارش شروع ہوگئی ہم فورا منیجر کے کیبن کے پاس پہنچے کہ بیرہ نے آواز لگائی ہاف سیٹ کے پیسے لے لیں۔ پیسے ادا کرنے کے بعد جو ریزگاری منشی نے واپس کی اس کو جیب میں ڈال ہی رہے تھے کہ اچانک نظر باہر فٹ پاتھ سے پرے پڑی دیکھا تو ایک قتالہ، ایک بت طناز سخت بارش میں کمال بے نیازی سے سڑک کے کنارے سفید کامدار کرتا پہنے جوکہ نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے نیلم و فیروزہ و لاجورد سے مزین تھا اپنے دامن سے الجھ رہی تھی۔
یہ پڑھتے ہوئے ایک لخت صاعقہ کی رفتار سے میرے دماغ میں پروین شاکر کا یہ شعر در آیا
پتنگ کٹ کے میرے آنگن کے پیڑ مین الجھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شریر بچوں کی یلغار میرے گھر پہنچی۔ مجھے ایسے لگا جیسے آپ ایک شریر بچے ہوں اور اس پتنگ کو لوٹنے کی فکر میں غلطاں ہوں
نیلی شرابی آنکھیں پر اتنی تیکھی نظر کہ جسے ایک بار آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لے وہ دوبارہ نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرے(جناب عالی یہ نظر تھی یا کہ مرحب پہلوان کے نیزے کی انی تھی)۔ اور نظروں سے زیادہ تیکھے نقوش جنہیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ شعر کہتے وقت غالب کے پیش نظر بھی ایسی ہی کوئی صورت ہو گی۔
نقش کو اس کے مصور پر بھی کتنا ناز ہے​
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے​
اور بارش میں اس کے آنکھوں سے زیادہ گہرے نیلے دوپٹے سے نکلتی ہوئی زلف کسی دریائے بے کراں کی اس نازک لہر کی سی لگتی تھی جسے ہوا کے جھونکے اڑا کر ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر اس کی سمت چلنے لگا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ میرے وہاں پہنچنے پر اس کی نازک عینک جسے وہ بارش کے قطروں کی وجہ سے بار بار اتار کر اپنے بھیگے ہوئے گلابی رنگ کے رومال سے صاف کر رہی تھی گر کر میرے قدموں میں آ پہنچی۔ میں ہڑبڑا گیا، پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کی عینک اٹھا کر اس کے قریب گیا۔ عینک کو بہ صد حیف پژمردہ دل سے اس کے حوالے کیا کہ اس کی یہ نشانی بھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ میرے کچھ نہ کہنے پر شاید اس سے رہا نہ گیا تو دھیمے لہجے میں کہنے لگی، "شکریہ آپ کا" پھر ایک وقفہ لینے کے بعد کہا، "بارش بہت تیز ہے، کوئی رکشہ بھی نہیں۔ کیا قریب کوئی بس اسٹاپ ہے؟" میں تو اتنا بے خود ہو چلا تھا کہ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے بعد بھی اپنے ہی علاقے کے بس اسٹاپ کی جگہ یاد نہیں آئی، کچھ بولا نہ گیا۔ کیا کرتا؟ سوچ میں ہی گم تھا کہ کسی رکشہ کے چلنے کی آواز سے ہوش بحال ہوئے۔ وہ جا چکی تھی۔​
پہلی بار میں ہی اس کا مہر میرے دل میں اتر گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد میں انجانے میں ہی اس کا شیفتہ ہو گیا، کہ بہ قول شاعر:​
کتنا عجیب شخص تھا کیا کام کر گیا​
آنکھوں کے راستے مرے دل میں اتر گیا​
ایک طویل مدت تک ہر روز اس سڑک پر کھڑا اسی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر کبھی اسے دیکھ نہ سکا۔ کبھی سوچتا ہوں شاید وہ میرا ایک خوشگوار پر ادھورا خواب تھی۔ لیکن اب بھی جب کبھی اس سڑک پر جانا ہوتا ہے تو جائے ملاقات پر کھڑا ہو کر کچھ لمحے اس کی یاد میں ضرور گزارتا ہوں کہ شاید وہ خواب وہیں سے ہی دوبارہ شروع ہو جائے۔​
 
بھئی واہ۔ اس تحریر جناب نے ہم سے بھی زیادہ رنگ بخش دیا!
آپ کی محبت ہے جناب ۔۔۔۔۔ ویسے تنقید اور اصلاح کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت طبع آزمائی کے۔۔۔
آپ نے وہ مصور والا واقعہ ضرور سنا ہوگا کہ تصویر بنا کر شہر کے چوک میں لٹکا دی کہ اس میں کوئی غلطی نکال کر دکھاؤ تو شام تک ساری تصویر اغلاط کے اشارات سے پُر تھی لیکن جب اگلے دن کہا گیا کہ جو غلطی ہو اس کو ٹھیک بھی خود کرو تو تصویر ایسے صاف تھی جیسا کہ یہ شعر
حسن پہ اپنے ہر اک مہ پارہ گرم لاف تھا
گھر سے وہ خورشید رُو نکلا تو مطلع صاف تھا
مغزل
 
آپ کی محبت ہے جناب ۔۔۔ ۔۔ ویسے تنقید اور اصلاح کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت طبع آزمائی کے۔۔۔
آپ نے وہ مصور والا واقعہ ضرور سنا ہوگا کہ تصویر بنا کر شہر کے چوک میں لٹکا دی کہ اس میں کوئی غلطی نکال کر دکھاؤ تو شام تک ساری تصویر اغلاط کے اشارات سے پُر تھی لیکن جب اگلے دن کہا گیا کہ جو غلطی ہو اس کو ٹھیک بھی خود کرو تو تصویر ایسے صاف تھی جیسا کہ یہ شعر
حسن پہ اپنے ہر اک مہ پارہ گرم لاف تھا
گھر سے وہ خورشید رُو نکلا تو مطلع صاف تھا
مغزل

واہ واہ۔۔
 
Top