فیصل عظیم فیصل
محفلین
حضرات!
اس مقالہ میں مجھے آپ کے سامنے اس عمل Process کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے ۔ آج کل میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلامی حکومت کا نام بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے۔ مختلف حلقوں سے اس تصور اور اس مقصد کا اظہار ہو رہا ہے مگر ایسے ایسے عجیب راستے اس منزل تک پہنچنے کے لیئے تجویز کیئے جا رہے ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا اتنا ہی محال ہے جتنا موٹر کار کے ذریعہ سے امریکہ تک پہنچنا۔اس خام خیالی Loose Thinking کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہو گئی ہے جس کا نام اسلامی حکومت ہو مگر خالص علمی Scientific طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیونکر قائم ہوا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علمی طریقہ پر اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی جائے۔
اس مقالہ میں مجھے آپ کے سامنے اس عمل Process کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے ۔ آج کل میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلامی حکومت کا نام بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے۔ مختلف حلقوں سے اس تصور اور اس مقصد کا اظہار ہو رہا ہے مگر ایسے ایسے عجیب راستے اس منزل تک پہنچنے کے لیئے تجویز کیئے جا رہے ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا اتنا ہی محال ہے جتنا موٹر کار کے ذریعہ سے امریکہ تک پہنچنا۔اس خام خیالی Loose Thinking کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہو گئی ہے جس کا نام اسلامی حکومت ہو مگر خالص علمی Scientific طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیونکر قائم ہوا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علمی طریقہ پر اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی جائے۔
نظام حکومت کا طبعی ارتقاء
اہل علم کے اس مجمع میں مجھے اس حقیقت کی توضیح پر زیادہ وقت صرف کرنے ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خواہ کسی نوعیت کی ہو ، مصنوعی طریقے سے نہیں بنا کرتی۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کہیں وہ بن کر تیار ہو پھر ادھر سے لا کر اس کو کسی جگہ جما دیا جائے ۔ اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اخلاقی ، نفسیاتی ، تمدنی ، اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبیعی طور پر ہوتی ہے۔ اس کے کچھ ابتدائی لوازم Pre-Requisites کچھ اجتماعی محرکات ، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے ۔ جس طرح منطق میں آپ دیکھتے ہیں کہ نتیجہ ہمیشہ مقدمات Premises کی ترتیب سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ جس طرح علم الکیمیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک کیمیاوی مرکب ہمیشہ کیمیاوی کشش رکھنے والے اجزاء کے ایک مخصوص طریقہ پر ملنے ہی سے برآمد ہوا کرتا ہے ۔ اسی طرح اجتماعیات میں بھی یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ ایک حکومت صرف ان حالات کے اقتضاء کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں بہم ہو گئے ہوں ۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ مقدمات کسی نوعیت کے ہوں اور ان کی ترتیب سے نتیجہ کچھ اور نکل آئے ، کیمیاوی اجزاء کسی خاصیت کے ہوں اور ان کو ملانے سے مرکب کسی اور قسم کا بن جائے۔ درخت لیموں کا لگایا جائے اور نشوونما پا کر وہ پھل آم کے دینا شروع کردے ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اسباب ایک خاص نوعیت کی حکومت کے فراہم ہوں ، ان کے مل کر کام کرنے کا ڈھنگ بھی اسی نوعیت کی حکومت کے نشوونما کے لئے مناسب ہو ، مگر ارتقائی مراحل سے گزر کر جب وہ تکمیل کے قریب پہنچے تو انہی اسباب اور اسی عمل کے نتیجے میں بالکل ایک دوسری ہی نوعیت کی حکومت بن جائے ۔
یہ گمان نہ کیجئے کہ میں یہاں جبریت Determinism کو دخل دے رہا ہوں ۔ اور انسانی ارادہ و اختیار کی نفی کر رہا ہوں۔ بلاشبہ حکومت کی نوعیت متعین کرنے میں افراد و جماعتوں کے ارادہ و عمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مگر میں دراصل یہ ثابت کر رہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام حکومت پیدا کرنا مقصود ہو اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنا اور اسی کی طرف لے جانے والا طرز عمل اختیار کرنا بہرحال ناگزیر ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے ، اسی قسم کے انفرادی کیریکٹر تیار ہوں ، اسی طرح کا جماعتی اخلاق بنے ، اسی طرز کے کارکن تربیت کیئے جائیں ، اسی ڈھنگ کی لیڈرشپ ہو اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہو جس کا اقتضا اس خاص نظام حکومت کی نوعیت فطرتاجسے ہم بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور جب ایک طویل مدت تک جدوجہد سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظام حکومت کا جینا دشوار ہو جاتا ہے تب ایک طبعی نتیجہ کے طور پر وہ خاص نظام حکومت ابھر آتا ہے جس کے لئے ان طاقت ور اسباب نے جدوجہد کی ہوتی ہے ۔بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج سے جب درخت پیدا ہوتا ہے اور اپنے زور میں بڑھتا جاتا ہے تو نشوونما کی ایک خاص حد تک پہنچ کر اس میں وہی پھل آنے شروع ہو جاتے ہیں جن کے لئے اس کی فطری ساخت زور کر رہی تھی ۔ اس حقیقت پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں ذرا تامل نہ ہو گا جہاں تحریک ، لیڈرشپ ، انفرادی سیرت ، جماعتی اخلاق اور حکمت عملی ہر ایک چیز ایک نوعیت کا نظام حکومت پیدا کرنے کے لئے مناسب و موزوں ہو اور امید یہ کی جائے کہ ان کے نتیجہ میں بالکل ہی ایک دوسری نوعیت کا نظام پیدا ہو گا ، وہاں بے شعوری ، خام خیالی اور خام کاری کے سوا اور کوئی چیز کام نہیں کر رہی ہے۔
یہ گمان نہ کیجئے کہ میں یہاں جبریت Determinism کو دخل دے رہا ہوں ۔ اور انسانی ارادہ و اختیار کی نفی کر رہا ہوں۔ بلاشبہ حکومت کی نوعیت متعین کرنے میں افراد و جماعتوں کے ارادہ و عمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مگر میں دراصل یہ ثابت کر رہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام حکومت پیدا کرنا مقصود ہو اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنا اور اسی کی طرف لے جانے والا طرز عمل اختیار کرنا بہرحال ناگزیر ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے ، اسی قسم کے انفرادی کیریکٹر تیار ہوں ، اسی طرح کا جماعتی اخلاق بنے ، اسی طرز کے کارکن تربیت کیئے جائیں ، اسی ڈھنگ کی لیڈرشپ ہو اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہو جس کا اقتضا اس خاص نظام حکومت کی نوعیت فطرتاجسے ہم بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور جب ایک طویل مدت تک جدوجہد سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظام حکومت کا جینا دشوار ہو جاتا ہے تب ایک طبعی نتیجہ کے طور پر وہ خاص نظام حکومت ابھر آتا ہے جس کے لئے ان طاقت ور اسباب نے جدوجہد کی ہوتی ہے ۔بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج سے جب درخت پیدا ہوتا ہے اور اپنے زور میں بڑھتا جاتا ہے تو نشوونما کی ایک خاص حد تک پہنچ کر اس میں وہی پھل آنے شروع ہو جاتے ہیں جن کے لئے اس کی فطری ساخت زور کر رہی تھی ۔ اس حقیقت پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں ذرا تامل نہ ہو گا جہاں تحریک ، لیڈرشپ ، انفرادی سیرت ، جماعتی اخلاق اور حکمت عملی ہر ایک چیز ایک نوعیت کا نظام حکومت پیدا کرنے کے لئے مناسب و موزوں ہو اور امید یہ کی جائے کہ ان کے نتیجہ میں بالکل ہی ایک دوسری نوعیت کا نظام پیدا ہو گا ، وہاں بے شعوری ، خام خیالی اور خام کاری کے سوا اور کوئی چیز کام نہیں کر رہی ہے۔