اردو کا پہلا اخبار

اردو کا پہلا اخبار

ہندوستان میں انگریزی صحافت کی ابتداکے کوئی بیالیس برس بعد اردو صحافت کی ابتداءہوئی۔ انگریزی اخبار’ہکیز گزٹ‘ ۰۸۷۱ءکو کلکتہ سے جاری ہوا، یہ چار ورقی اخبار تھا ، اس کا مالک ، طابع وناشر اور ایڈیٹر جیمس آگسٹس ہکی تھااور یہ ایک ہفتہ وار اخبار تھا۔ جبکہ۷۲مارچ ۲۲۸۱ءکو اردو زبان کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘ منظر عام پر آیا۔ابتدا میں اس کے صرف چھ شمارے ہی اردو میں نکل سکے ، اس کے بعد اس کو فارسی زبان میں منتقل کردیا گیا اور پھر ایک سال بعد فارسی اخبار کے ساتھ چارورقی اردو ضمیمہ منسلک کیا گیاجو اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا تھا وہ فارسی کے اخبارکے ساتھ بھی بکتاتھا اور انفرادی طور پر بھی اس کی مانگ تھی۔یہ اخبار کم وبیش پانچ سال جاری رہا ۔اس وقت تک انگریزی صحافت اپنی جڑیں کافی مضبوط کرچکی تھی،ملک کے تین بڑے شہرکلکتہ،ممبئی اور مدراس میں انگریزی کے بیسیوں اخبار ورسائل نکل رہے تھے۔
اردو صحافت سے قبل ہندوستانی زبانوں میں صرف بنگالی زبان کے اخبارات ہی نکل رہے تھے۔کلکتہ شہر ان بنگالی اخبارات کا گویا مرکز تھا۔بنگلہ زبان میں شائع ہونے والا سب سے پہلا اخبار’بنگال گزٹ‘ تھا جو ۶۱۸۱ءکو جاری ہوا۔اس کے بعد فارسی زبان میں راجہ رام موہن رائے کا اخبار منظر عام پر آیا۔ اس کا نام ’مراة الاخبار‘ تھا،یہ ۰۲ اپریل ۲۲۸۱ءکو جاری ہوا۔
بعض محققین کا خیال ہے کہ اردو کا پہلا اخبار’ جام جہاں نما‘ نہیں بلکہ ٹیپو سلطان شہید کا’فوجی اخبار‘ تھا، جو سلطان ٹیپو نے اپنی شہادت سے پانچ سال اور’ جام جہاں نما‘ سے کم وبیش اٹھائیس سال قبل ۴۹۷۱ءمیں جاری کیا تھا۔ مولانا اسماعیل پانی پتی نے اپنے ایک مضمون ’اردو کا سب سے پہلا اخبار اور ٹیپو سلطان‘ (مطبوعہ رسالہ بصائرجنوری، اپریل وجولائی ۴۶۹۱ئ) میں،ڈاکٹر محمد صادق نے ’ہسٹری آف اردو لٹریچر‘میں، محمد سعید عبد الخالق نے اپنی کتاب” میسورمیں اردو‘ ( مطبوعہ حیدرآباد، ۲۴۹۱ئ، صفحہ ۴۷۷۷)میں ، شمیم طارق نے اپنی کتاب’روشن لکیریں‘(ممبئی۸۹۹۱ئ،صفحہ۰۸)میںاس بات کی وضاحت کی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار سلطان ٹیپو شہید نے جاری کیا تھا۔ان کے علاوہ عبدالغفار شکیل میسوری نے اپنے مضمون ’میسور میں اردو صحافت کا ابتدائی دور ‘(مطبوعہ ہماری زبان علی گڑھ، یکم جولائی ۷۵۹۱ئ) میں اور مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی نے بھی ’سیرت ٹیپوسلطان شہید‘ (ندوہ لکھنو¿، صفحہ ۶۹۴)میں اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔
ماہنامہ” اردو دنیا“ نئی دہلی کی جنوری ۹۰۰۲ءکی اشاعت میں ”اردو خبر نامہ“ کے کالم میں صفحہ ۴۵ پر قاری نسیم منگلوری کا درج ذیل بیان شائع ہوا ہے:
”ہندوستان میں اردو زبان کا پہلا اخبار جاری کرنے کا سہرا بھی ٹیپو سلطان کے ہی سر ہے۔۴۹۷۱ءمیں ٹیپو سلطان نے اردو اخبار جاری کرایا تھا، جس کا نام ”فوجی اخبار“ تھا اور یہ ہفت روزہ تھا۔یہ اخبار خاص طور پر فوجیوں کے لیے تھا۔ اس میں جہاد کے متعلق مضامین اور وطن کے دفاع سے متعلق مختلف لوگوں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔یہ اخبار سلطان کی شہادت تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ سقوط سری رنگا پٹنم کے بعد انگریزوں نے اس اخبار کی تمام فائلوں اور ساز وسامان کو نذر آتش کردیا تھا“
۱۲ نومبر ۸۰۰۲ءکو مولانا ابوالکلام آزاد اکیڈمی کے زیر اہتمام جامعہ اصلاح البنات منگلور میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش پر ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا،جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ممتاز سماجی ورکرڈاکٹر ایس اے عزیز شریک ہوئے اور قای نسیم منگلوری صاحب اس تقریب میں نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔اردو دنیا میں یہ خبر ”ہمارا سماج دہلی“سے نقل کی گئی ہے۔اوراس میںشمارہ کا تذکرہ نہیں ہے۔
سب سے پہلے اس نظریے کو کہ اردو کا پہلا اخبار سلطان ٹیپو کا’ فوجی اخبار‘تھا سعید عبد الخالق نے پیش کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’ میسور میں اردو‘ میں اس کی وضاحت کی ،جبکہ باقی دیگر تمام لوگ تقریبا انہیں کے نقش قدم پر چلتے چلے گےے۔
مولانا الیاس ندوی بھٹکلی نے ”سیرت ٹیپو سلطان شہید“ میں ”اردو کا پہلا اخبار“ کے نام سے ایک ذیلی سرخی قائم کی ہے اور مولانا اسماعیل پانی پتی کے حوالے سے لکھا ہے :
” یہ سن کر قارئین کو حیرت ہوگی کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار جاری کرنے کا سہرا بھی ٹیپو ہی کے سر تھا، عام طورپر یہ مشہور ہے کہ ’دہلی اردو اخبار‘ کے نام سے سب سے پہلے محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ۷۵۸۱ءمیں پہلا اردو کا اخبار جاری کیا تھا، حالانکہ ۴۹۷۱ءمیں اس سے ۳۶ سال قبل ہی اس معاملہ میں خاموشی کے ساتھ ٹیپو ان سے سبقت لے چکا تھا۔شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے اپنے ایک مضمون میں علی گڑھ سے نکلنے والے ایک اخبار ’ہماری زبان‘کے یکم جولائی ۷۵۹۱ءکے حوالے سے تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور دلائل کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ٹیپو ہی دراصل اردو اخبار کا بانی تھا۔
۴۹۷۱ءمیں اپنی شہادت سے پانچ سال قبل جب اس کی سلطنت کا نصف حصہ انگریزوں کے قبضہ میں جا چکا تھا تو وہ اپنی مملکت کی از سر نو تنظیم میں مصروف تھا اس نے اسی دوران ایک دن ایک سرکاری حکم جاری کیا کہ ایک ایسا مطبع قائم کیا جائے جو عربی رسم الخط میں چھپائی کا کام انجام دے سکے۔ جب پریس قائم ہوگیا تو اسی سال وہاں سے اردو میں ’فوجی اخبار‘ کے نام سے سلطان کی ذاتی نگرانی وسرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا گیا۔بڑی تقطیع میں شائع ہونے والے اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ اس طرح یہ اخبار عام طور پر سپاہیوں کے لیے ہی تھا۔اس میں جہاد کے متعلق مضامین اور وطن کے دفاع سے متعلق مختلف لوگوں کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔( ہماری زبان علی گڑھ ۱ جولائی ۶۵۹۱ء بحوالہ بصائر کراچی )
سقوط سری رنگا پٹنم کے بعد انگریزوں نے اس اخبار کی فائلوں کو چن چن کر جمع کرکے آگ لگادی۔“(مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی ،سیرت ٹیپو سلطان شہید)
بعد میں گربچن چندن نے سعید عبد الخالق کی کتاب کا مطالعہ کیا اوراس پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:
”۰۸ صفحات کی یہ چھوٹی سی کتاب جس کے مصنف اس کی تصنیف کے وقت حیدرآباد (دکن) میں ایک طالب علم تھے ، حقیقتا کمیاب ہے۔ خاصی تلاش کے بعد مجھے اس کا نسخہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مصنف کا ماخذ بنگلور کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کی اپنے مرحوم دادا کی روایت ہے جس کی تائید میں انہوں نے کوئی مستند شہادت یا دستاویزی حوالہ پیش نہیں کیا بلکہ خود یہ تاثر دیا ہے کہ آج اس اخبار کا کائی شمارہ دستیا ب نہیں ہے ، کیونکہ بقول مصنف ”انگریزوں نے ۹۹۷۱ءمیں فتح میسور کے بعد اس کا تمام ریکارڈ تلف کردیا تھا۔“
(بحوالہ:معصوم مرادابادی ،اردو صحافت اور جنگ آزادی ۵۷۸۱ئ، صفحہ نمبر۲۹،مطبوعہ خبردار پبلی کیشنز، دریا گنج نئی دہلی، )
گربچن چند ن نے ’جام جہاں نما‘ صفحہ ۸۲ پر لکھا ہے کہ:
” جب تک کسی مصدقہ یا مستند ذرائع سے ٹیپو سلطان کے مبینہ’ فوجی اخبار‘ کی تصدیق نہ ہو، اسے تسلیم کرلینا صداقت کے حق میں نہیں“۔
گربچن چندن اور دیگر محققین جیسے عبدالسلام خورشید اور عتیق احمد صدیقی وغیرہ کی تحقیقات کے پیش نظر ڈاکٹر طاہر مسعود نے یہ حتمی رائے قائم کی ہے:
”لیکن یہ بحث (یعنی کہ اردو کا پہلا اخبار ”دہلی اردو اخبار“ ہے یا ”سید الاخبار“) عبرت ناک مرحلے میں اس وقت داخل ہوگئی جب حیدرآباد دکن کے ایک طالب علم محمد سعید خالق اپنی کتاب ”میسور میں اردو“ (مطبوعہ ۲۴۹۱ئ)میں یہ دور کی کوڑی لائے کہ اردو کا پہلا اخبار دراصل ٹیپو سلطان نے ۷۴۷۱ئ(نوٹ: یہ غالباً کتابت کی غلطی سے ۴۹۷۱ءکے بجائے ۷۴۷۱ءہوگیا ہے، مقالہ نگار؛میم الف نون) میں جاری کیا تھا۔ اس کا نام فوجی اخبار تھا ۔ غالباً ٹیپو سلطان سے جذباتی اور تاریخی وابستگی کے سبب یہ نظریہ محققوں میں خاصا مقبول ہوا اور ٹیپو سلطان کو اردو صحافت کا بانی قراردے دیا گیا(ملاحظہ ہوہماری زبان علی گڑھ، یکم جولائی ۷۵۹۱ءشیخ اسماعیل پانی پتی کا مضمون”اردو کا سب سے پہلا اخبار اور ٹیپو سلطان“رسالہ بصائرجنوری ، اپریل وجولائی ۴۶۹۱ءاور ڈاکٹر محمد صادق کی ”ہسٹری آف اردو لٹریچر“ مطبوعہ ۴۶۹۱ء(پچھلے سال (۳۹۹۱ئ) ”ڈان “ جیسے مو¿قر اخبار میں ٹیپو سلطان پر ایک مضمون میں اسی نظریے کو دہرایا گیا جس کی اس مصنف نے ایک مراسلہ کے ذریعہ تصحیح کی)۔گربچن چندن نے جب اس آرزو مندانہ خیال کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا تو معلوم ہوا کہ محمد سعید خالق کا نظریہ اپنے دادا جان مرحوم کی سنی سنائی روایت پر قائم ہے(بحوالہ جام جہاں نما، اردو صحافت کی ابتدا، مطبوعہ ۲۹۹۱ئ) سن پچاس کی دہائی میںمرزا صادق اور خواجہ حسین نامی دو بزرگوں نے خواجہ یوسف علی کے ”آگرہ اخبار“ کو اردو کا سب سے قدیم اخبار ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا(دیکھےے معارف،جنوری۱۵۹۱ءاور مئی ۱۵۹۱ءکے شمارے) فاضل مضمون نگار، خواجہ یوسف علی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ چند سال بعد اردو صحافت کے ایک محقق نادم سیتاپوری نے فورٹ ولیم کالج کے مولوی اکرام علی کے متعلق یہ انوکھا انکشاف کیا کہ موصوف نے۰۱۸۱ءمیں ”اردو اخبار“ جاری کیا تھااور ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کوئی اور اردو اخبار نہیں نکلا تھا(”فورٹ ولیم کالج اوراکرام علی“ مطبوعہ ۹۵۹۱ئ) احرار الحسن نقوی نے بھی اس دعوے کی تائید کی (فروغ اردو، جولائی۹۵۹۱ئ) ۔نادم سیتاپوری نے اپنے متعدد مضامین میں اپنے بے بنیاد خیال کی تشہیر شروع کردی (مثلا رسالہ العلم، اکتوبر تا دسمبر۱۷۹۱ئ) گربچن چندن نے اس کی تحقیق کی تو کھلا کہ نادم سیتاپوری نے یہ نظریہ اپنے بزرگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے گھڑا تھا کیوں کہ اکرام علی کا وطن سیتاپورتھا(حوالہ متذکرہ ص ۲۲)۔شکر خدا کا کہ ۳۶۹۱ءمیں یہ قضیہ آخر کا ر طے پاگیا۔“
(ڈاکٹر طاہر مسعود، ارد وصحافت انیسویں صدی میں،ص ۸۸۰۱، مطبوعہ ۹۰۰۲ءایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س دہلی۶۔)
یہ تو ڈاکٹر طاہر مسعود کی حتمی رائے تھی اوراب ان کے نزدیک ۳۶۹۱ءمیںیہ قضیہ طے پا چکا ہے کہ اردو کا پہلا اخبار” جام جہاں“ نما ہی ہے۔ تاہم معصوم مرادابادی کی رائے اور عندیہ اس سے ذرا مختلف ہے وہ لکھتے ہےں:
”گربچن چندن نے ٹیپو سلطان کے ’فوجی اخبار‘ کی اصلیت جاننے کے لیے کافی تگ ودو کی لیکن اس تک ان کی رسائی نہیں ہوسکی۔ہر چند کہ یہ موضوع ہماری تحقیق کا نہیں ہے تاہم اس بات کی ضرورت باقی ہے کہ ٹیپو سلطان کو اردو صحافت کا موجد قرار دینے کی جو کوشش کی گئی ہے اس پر مزید تحقیق کی جائے کیوں کہ جہاں تک ’فوجی اخبار‘ کے شماروں کی عدم دستیابی کا سوال ہے تو اس سلسلے میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو چیلنج کرنے والی تمام دستاویزوں اور اخباروں کو تلف کردیا تھا۔یہی دعویٰ ’فوجی اخبار‘ کے بارے میں بھی کیا گیا ہے اس ’فوجی اخبار‘ کے کسی شمارے کا دستیاب نہ ہونا اس کے عدم اجراءکا ثبوت نہیں ہے۔ شمیم طارق کا کہنا ہے کہ انہوں نے شرنگا پٹنم میں ایک صاحب کے پاس اس کے شمارے دیکھے تھے۔شمیم طارق کے مطابق اس پر تو بحث ہوسکتی ہے کہ ’فوجی اخبار‘ مکمل تھا یا نہیں کیوں کہ اس میں فوجیوں کے لےے ہدایات ہوتی تھیں مگر اس وجود تو تھا۔
ہم یہاں خصوصی طور پر مرزا بیدار بخت کے اخبار’پیام آزادی‘ کا ذکر کرنا چاہیں گے جس کی تفصیلا ت اس کتاب میں آگے چل کر آئیں گی کیوں کہ آج دنیا میں اس کا کوئی ایک شمارہ بھی دستیاب نہیں ہے۔“
(معصوم مرادابادی، اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857، ص ۳۹مطبوعہ۸۰۰۲، خبردار پبلیکیشن، موتی محل اسٹریٹ، دریا گنج، نئی دہلی۲)
معصوم مرادابادی کا یہ استدلال کہ ”فوجی اخبار“ کے کسی شمارے کا دستیاب نہ ہونا اس کے عدم اجراءکی دلیل نہیں بڑی حد تک درست معلوم ہوتاہے کیونکہ یہ دلیل تو دوسرے خبارات کے بارے میں بھی دی جاسکتی ہے اور ان کے وجود کا انکار بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ”پیام آزادی“ اور” سید الاخبار“کہ ان دونوں اخباروں کی بھی کوئی فائل کہیں دستیاب نہیں تاہم ان کا وجود ثابت کیا جاتاہے۔
ڈاکٹر طاہر مسعود نے” سید الاخبار“ کے بارے میں لکھاہے :
”یہ شمالی ہند کادوسرا اردو اخبار ہے۔ اسے سرسید احمدخاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں نے جاری کیا تھا۔ اس اخبار کے شمارے بدقسمتی سے دست برد زمانہ سے تلف ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس کے بارے میں تفصیلی معلومات کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔یہاں تک کہ سال اجراءکے بارے میں بھی کسی حد تک اختلاف پایا جاتاہے۔“
(ڈاکٹر طاہر مسعود، اردو صحافت انیسویں صدی میں، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س، دہلی ،۹۰۰۲۔ص ۲۰۲)
اور ویسے بھی تحقیق کے میدان میں مشکل ہی سے کسی تحقیق کو حرف آخر مانا جاتاہے۔یہ تو ایک ناپیدا کنار سمندر ہے جس کی تہہ سے ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ نیا نکلتا ہی رہتاہے۔
بہر حال جب تک ’فوجی اخبار‘ سے متعلق ٹھوس شواہد نہیں مل جاتے ، اس کا کوئی شمارہ دستیاب نہیں ہوجاتا یا اس وقت کے معاصر انگریزی اخبارات میں سے کسی میں ”فوجی اخبار“ سے متعلق اس طرح کی کوئی شہادت نہیں ملتی جس طرح کی شہادتیں سرسید کے بڑے بھائی سید محمد خاں کے اخبار”سید الاخبار“ اوربہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت کے اخبار ”پیام آزادی“سے متعلق ملتی ہیںتب تک جام جہاں نما ہی کو اولیت کا مقام حاصل رہے گا۔
تقریبا ایک صدی کی طویل بحث وتمحیص اور تلاش وجستجو کے بعد یہ ثابت ہوا کہ ۷۲مارچ ۲۲۸۱ءکو ”جام جہاں نماں“(اردو) منظر عام پر آیا اور اس وقت تک پورے ملک میں کوئی بھی اردو اخبار موجود نہیں تھا۔
”جام جہاں“ نما نے خاصی لمبی عمر پائی ۔ یہ ۶۷۸۱ءتک کم وبیش پچپن سال جاری رہا۔اس کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ لعل تھے جو مرزا پور کے رہنے والے تھے اور ناشر کلکتہ کی ایک انگریز ی تجارتی کوٹھی وسیم پیٹرس ہاپ کنس اینڈ کمپنی تھی۔یہ اردو کا پہلا باقاعدہ اخبار تھا، اس کے اجراءسے اردو کے نثری اور شعری ادب کے فروغ کے دروازے کھل گےے اور جرا¿ت مندانہ دیسی صحافت کی داغ بیل پڑی۔
اردوکے نثری اور شعری ادب بطور خاص ہندوستانی صحافت کے قائدانہ رول اور رہنمایانہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر گیان چندن جین لکھتے ہیں:
”جامِ جہاں نماہماری دیسی صحافت کی وہ اولین دستاویز ہے جس میں آج کے اخبار کی شکل اور تقطیع ، اور صحافت کی نثر،خبروں کی تحریر، کالموں کی ترتیب، سرورق کے مشمولات اور رائے زنی کے انداز کی پوپھٹی۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں جاری ہونے والے اردو کے بیشتر اخبابر اسی کے نقوش پر چلے۔“
(گربچن چندن، اردو صحافت کا سفر،ص ۶۷، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س،دہلی ۶ )
جام جہاں نما کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی مصلحتوں کے تحت جاری کروایا تھا، اس کے اجراءکے پس پردہ انگریزوں کی اردودوستی سے زیادہ ان کی اپنی مصلحتیں کارفرما تھیں۔بالکل اسی طرح جس طرح ۰۳۸۱ ءمیںانگریز حکومت کی طرف سے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے پس پردہ اردو نوازی کاکوئی جذبہ کارفرما نہیں تھا،بلکہ یہ ایک طرح کا تعصب تھااس وقت کی سرکاری زبان فارسی کے خلاف ۔اور اسی تعصب نے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ تو برطانوی حکومت کی چال تھی اب قدرت کی چال بھی دیکھئے کہ یہی اردو زبان جو اس وقت عوامی زبان تھی برطانوی حکومت کو گھر کا راستہ دکھانے میں ہندوستان کی دیگر تمام زبانوں میں ہراول دستے کے طور پر پیش پیش رہی۔ہندوستان کی عوام کے اندر جذبہ¿ حریت پیدا کرنے میں جو کردار اردو نے ادا کیا شاید فارسی زبان عوامی زبان نہ ہونے کی وجہ سے اس درجہ کا کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی تھی۔tt

محمد الیاس ندوی رام پوری​
 
Top