فرخ منظور
لائبریرین
اجڑ گیا ہے چمن، لوگ دل فگار چلے
کوئی صبا سے کہو، اب نہ بار بار چلے
یہ کون سیر کا ارماں لیے چمن سے گیا
کہ بادِ صبح کے جھونکے بھی سوگوار چلے
یہ کیا کہ کوئی ہی رویا نہ یاد کرکے انہیں
وہ چند پھول جو حسنِ چمن نکھار چلے
نقاب اٹھا، کہ پڑے اہلِ درد میں ہلچل
نظر ملا، کہ چھری دل کے آر پار چلے
خوشا کہ در پہ ترے سر جھکا لیا ہم نے
یہ ایک قرضِ جبیں تھا جسے اتار چلے
کہے جو حق وہ کرے کیوں مآلِ حق سے گریز
کوئی چلے نہ چلے ہم تو سوئے دار چلے
اب اس کے بعد چمن جانے یا صبا جانے
گزارنے تھے ہمیں چار دن گذار چلے
پلٹ کے دیکھا نہ اک بار کارواں نے ہمیں
گرے پڑوں کی طرح ہم پسِ غبار چلے
جو ان کی یاد میں چمکے کبھی سرِ مژگاں
وہ چار اشک مری عاقبت سنوار چلے
کسی کی یاد سے تسکینِ جاں ہے وابستہ
کسی کا ذکر چلے اور بار بار چلے
تمہاری بزم سے تاثیر اٹھ گئی شاید
بہ حالِ زار ہم آئے، بہ حالِ زار چلے
غریبِ شہر کی میّت کے ساتھ روتا کون
مرا سلام ہو ان پر جو اشکبار چلے
قفس میں روز دکھاتا ہے آشیاں صیاد
نصیرؔ آگ لگا دوں جو اختیار چلے
(پیر سید نصیر الدین نصیرؔ)
آخری تدوین: