آ یےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
محترم بھائیو! قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس سے انسانیت فلاح و فوز کا مقام حاصل کرسکتی ہے ، لیکن ہم میں‌سے اکثریت کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہم کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے اس راستے آشنا نہیں ہیں‌ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ قرآن ہمیں کیا پیغام دے رہا ہے؟ کس کام کے کرنے کا ہمارے رب نے ہمیں حکم دیا ہے اور کس سے روکا ہے ؟ ہم میں‌بہت سے لوگ نماز پڑھنے ہیں اور اللہ تعالی ہمیں معاف فرمائے نماز بندے کو رب سے ملاتی ہے ، نماز رب سے ملاقات اور اور خالق سے گفتگو کا ذریعہ ہے ، لیکن ہم نہیں جانتے کہ امام نے جو تلاوت کی اس میں‌ہمارے رب نے ہمیں کیا کہا اور نہ یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنے رب سے کیا کہہ رہے ہیں۔
کیا ہمیں زندگی کے باقی حصوں میں‌ بھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ہرگز نہیں ہمیں کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو ہم بھا گےپھرتے ہیں کسی پروفیسر ، سکالر ، انجینئر سے راہنما ئی کے لیے پہنچتے ہیں لیکن جس کتاب کے برحق ہونے پر ہمارا یقین ہے (اگر کسی بھا ئی کو اس بات میں شک ہو تو ضرور اس کا اظہار کرے لیکن انفرادی رابطہ کرکے اپنے ذہن کے شکوک و شباہت سے دوسرے بھائیوں کو متاثر نہ کرے)‌ اس کتاب کی بے ادبی پر ہم سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، اس کے تقدس کے لیے ہم اس کی طرف پاؤں نہیں کرتے ، اسے اپنے سے بلند رکھتے ہیں ، اسے غلافوں میں‌بند رکھتے ہیں یہ ساری محبت فقط الفاظ سے ہے، کاغذ کے ٹکڑوں سے ہے ( اللہ مجھے معاف فرمائے) کیا اس کے احکام فرشتوں کے لیے ہیں، یا صرف اس پر انبیاء ہی عمل پیرا ہوسکتے ہیں؟؟؟؟؟
میرے بھائیو ! اگر میری یہ گزارشات آپ پر گراں گزریں تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں لیکن ہے یہ سچائی اور سچ سننے کا حوصلہ اللہ ہمیں دے دے (آمین)
میرا ارادہ ہے کہ ہم عربی سیکھنے سکھانے کے لیے کوشش کریں میں اس سلسلے میں اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتا ہوں۔

منجانب سپر موڈ: براہ کرم تبصرہ و تجاویز کے لیے اس دھاگے کو استعمال کریں۔ موجودہ تبصرہ جات و تجاویز بھی اسی دھاگے میں منتقل کر دی گئی ہیں

آئیے اپنے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی زبان سیکھیں! تبصرہ و تجاویز
 

موجو

لائبریرین
اللغۃ العربیۃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمد للہ رب العلمیں والعاقبۃُ لِلمتقین والصّلٰوۃُ والسلام علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد
عربی زبان جو قرآن مجید کی زبان ہے انتہائی آسان ہے بالخصوص اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے تو یہ زبان اور بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو زبان میں بولے جانے والے 80 فیصد الفاظ عربی ہی کے ہیں صرف ایک سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہوئے ان میں کچھ تغیر واقع ہو گیا ہے ۔ لہذا اگر ہم صرف اس تبدیلی کو سمجھ لیں تو نصف سے زائد عربی زبان کے بارے میں آگاہی حاصل ہو جاتی ہے ۔

عربی زبان میں حروف الہجاء کو بنیادی حیثیت حاصل ہے عربی میں حروف الہجاء 28 یا 29 ہیں ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو لوگ ہمزہ اور الف کو ایک ہی حرف گنتے ہیں ان کے نزدیک ان حروف کی تعداد 28 ہے اور دوسروں کے نزدیک 29 ہے اور الف اور ہمزہ میں فرق یہ ہے کہ جب الف پر حرکت (زبر، زیر ، پیش یا سکون) آ جائے تو اب یہ ہمزہ کہلاتا ہے الف نہیں ۔
عربی کے حروف درج ذیل ہیں ۔
ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ ی
حروف کے ملنے سے الفاظ وجود میں آتے ہیں جو بے معنی بھی ہو سکتے ہیں اور بامعنی بھی ۔

ہر با معنی لفظ کَلِمَۃ کہلاتا ہے ۔

عربی میں کلمہ کی تین قسمیں ہیں ۔ جو درج ذیل ہیں ۔
اسم
فعل
حرف
اِسم:

وہ کلمہ ہے جو کسی شخص ‘جگہ ‘ چیز یا کام کا نام ہے ۔ اس تعریف میں پہلی تین یعنی شخص جگہ اور چیز کا نام تو بآسانی سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن۔۔’’ کام کا نام‘‘ سمجھ میں نہیں آتا۔ دراصل عرب ’مصدر‘‘ کو اسم میں شامل کرتے ہیں ۔
فعل:

وہ کلمہ ہے جس میں کسی کام کا کرنا یا واقع ہونا زمانے کی قید کے ساتھ پایا جائے ۔ ’’ زمانے کی قید‘‘ فعل کو اپنے مصدر سے ممتاز کرتی ہے ۔ جیسے ’’آنا‘‘ ایک مصدر ہے اس لئے کہ ’’آنے‘‘ کے ’’عمل‘‘ کا نام ہے جبکہ’ ’آیا‘‘ ایک فعل ہے جس میں زمانے ماضی میں آنے کا عمل واقع ہونے کی خبر ہے ۔
حرف:

حرف وہ کلمہ ہے جس کے کچھ معنی ہوتے ہیں تو لیکن جب تک یہ کسی اسم یا فعل کے ساتھ استعمال نہ ہو اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا جیسے اردو میں ’’پر ‘‘ ایک بامعنی لفظ ہے لیکن 100 مرتبہ بھی ’’ پر پر پر ‘‘ کی رَٹ لگائی جائے تو کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا جبکہ ایک ہی مرتبہ’’سر پر ’’یا‘‘ ٹرین پر‘ کہنے سے مطلب سمجھ میں آ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
جس طرح اردو زبان میں کسی اسم کو جملے میں استعمال کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دو باتوں کا علم ہونا ضروری ہے ایک یہ کہ آیا وہ اسم واحد ہے یا جمع اور دوسرے یہ کہ اس اسم کا اردو میں استعمال مذکر ہے یا مونث۔

مثلا کتاب کی اچھائی ظاہر کرنے کے لئے اگر ہم کوئی ایسا جملہ بنانا چاہیں کہ جس میں کتاب کو اچھا ظاہر کیا جائے تو سوال ہو گا کہ کتاب کو ’’اچھا ‘‘ کہا جائے ’اچھی ‘‘ اور پھر فعل بھی مناسب استعمال کرنا ہوگا جیسے
کتاب اچھی ہے اور کتب اچھی ہیں
قلم اچھا ہے اور قلم اچھے ہیں

دوسری مثال کے اندر پہلے جملے میں قلم واحد ہے اور دوسرے جملے میں قلم جمع ہیں جملہ بنانے سے پہلے ہم پر واضح ہونا چاہیے کہ ہم جس ’’قلم ‘‘ کو جملے میں استعمال کرنے چلے ہیں وہ واحد ہے یا جمع اور یہ بات تو ہمیں معلوم ہی ہونی چاہیے کہ قلم اردو زبان میں مذکر استعمال ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
عربی زبان میں استعمال ہونے والے کسی اسم کے بارے میں چار باتوں کا علم ضروری ہے اس کے بغیر نہ وہ لفظ سمجھ میں آ سکتا ہے اور نہ اس کو کسی جملے میں استعمال ہی کیا جا سکتا ہے ۔

اس کے بارے میں وہ چار باتیں درج ذیل ہیں ۔

1) اِسم کا’’معرفہ‘‘ یا’’نکرہ‘‘ ہونا ۔ (قِسم)

2) اِسم کا ’’واحد‘‘ ’’مثّٰنی‘‘ یا ’’ جمع ‘‘ ہونا۔ (عَدَد)

3) اِسم کا ’’مذکر‘‘ یا ’’مونث‘‘ ہونا۔ (جنس)

اِسم کا ’’اعراب ‘‘ یعنی جملے یا ترکیب میں اس کا مقام ۔
مندرجہ بالا چار باتوں میں سے پہلے تین سے چونکہ ہم لوگ کسی درجہ میں مانوس ہیں جبکہ چوتھی بالکل نئی ۔ لہذا ہم سب سے پہلے اسی کو بیان کرتے ہیں ۔
 

موجو

لائبریرین
قرآنی عربی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعراب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اعراب کے لفظی معنی ہیں ’’کسی ( چیز) کو عربی بنانا‘‘ اعراب عربی زبان کا سب سے بڑا اہم وصف ہے ۔ یاد رہے کہ اعراب کے معنی ’زبر زیر اور پیش‘‘ نہیں ہیں بلکہ زبر زیر پیش کو تو حرکات کہتے ہیں چونکہ ان کے ذریعے سے کسی آواز کو کسی سمت میں حرکت دی جاتی ہے ۔ یہی کام انگریزی میں (a, e, I, o, u)کرتے ہیں جو واولز کہلاتے ہیں ۔ چونکہ ہم اردو میں ان حرکات ہی کو عام طور پر ’’اعراب ‘ کہہ دیتے ہیں لہذا یہ بات عربی زبان سیکھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اور پیچیدگی کا باعث بن جاتی ہے لہذا براہ کرم اس بات کو ابتداء ہی میں پلے باندھ لیجئے کہ حرکات اور سئنیئ ہے اور اعراب بالکل دوسری چیز ہے ۔ اعراب کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل جملوں پر غور کریں ۔

میں دفتر جا رہا تھا راستے میں میری گاڑی خراب ہو گئی۔ مجھے ایک دوست نے لفٹ / رائیڈ دی۔

اِن تینوں جملوں میں میں نے ’’اپنا‘‘ ہی ذکر کیا ہے لیکن کبھی میں نے خود کو لفظ ’’میں‘‘ سے ظاہر کیا ہے اور کبھی’’ مجھے‘‘ سے اور کبھی‘‘ میری‘‘ سے ۔ میں نے ایسا اس لئے کیا ہے کہ تینوں جملوں میں جملے کے فعل کے حوالے سے میری مختلف حیثیتیں ہیں ۔ پہلے جملے کا فعل ’’جانا ‘‘ہے اور میں اس فعل کا ’’فاعل‘‘ ہوں لہذا میں نے اپنے لئے ضمیر متکلم کی ’’فاعلی حالت‘‘ استعمال کی ہے ۔ دوسرے جملے میں فعل’’ خراب ہونا‘‘ یا ’خراب ہوگئی ہے ‘‘ اور اس فعل کا فاعل گاڑی ہے لیکن میرا ’’قصور‘‘ یہ ہے کہ وہ گاڑی میری تھی لہذا میرا ذکر وہاں ضمناً آیا ہے لہذا میں نے اپنے لئے ضمیر متکلم کی اضافی حالت استعمال کی ہے جبکہ تیسرے جملے کا فعل ’’لفٹ/ رائیڈ دی‘‘ ہے اور اس کا فاعل’ ایک دوست “ ہے اور میں اس فعل کا مفعول ہوں لہذا میں نے اس جملے میں ضمیر متکلم واحد کی مفعولی حالت خود کے لئے استعمال کی ہے ۔ حالت اسم کی یہ تبدیلی ‘تبدیلیء اِعراب‘ کہلاتی ہے ۔

اب مندرجہ جملوں پر بھی غور کریں ۔

مسلمانوں نے کفار کو قتل کیا
کفار کو مسلمانوں نے قتل کیا
قتل کیا کفار کو مسلمانوں نے

ان تمام جملوں میں ’’مسلمان‘‘ فاعل ہیں اور کفار’’مفعول‘ اور تمام جملوں کا فعل’’قتل کیا‘‘ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی فاعل کا ذکر پہلے ہے کبھی مفعول کا اور کبھی فعل کا لیکن انگریزی کے کسی جملے میں ہم آسانی سے جملے کے اجزاء کی ترتیب کو نہیں بدل سکتے ہیں ’’killed ‘‘ کا فعل استعمال کرنے کے لئے ہمارے پاس اس مفہوم کو بیان کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ’kuffar killed Muslims ‘ اگر میں نے کفار کو پہلے اور مسلمز کو بعد میں لے جانے کی کوشش کی تو جملے کا مفہوم بالکل الٹ ہو جائے گا ۔ ایسا اردو کے جملے میں کیوں نہیں ہوا تھا ۔ اس کی وجہ غور کرنے پر یہ معلوم ہو گئی کہ اردو جملے میں فاعل کی علامت کے طور پر ہم نے لفظ ’’ نے‘‘ اور مفعول کی علامت کے طور پر ہم نے لفظ’’ کو‘‘ استعمال کیا تھا جبکہ انگریزی جملے میں ترتیب ہی فاعل و مفعول کی خبر دیتی ہے۔

اب ہم عربی کے چند جملوں پر غور کرتے ہیں جن کا بنیای مفہوم ایک ہے ۔

قَتَل المسلمونَ الکافِرِینَ
قَتَلَ الکافِرینَ المسلمون
الکافرین قتل المسلمونَ

ان تینوں جملوں کا مطلب ہے ’’ مسلمانوں نے کافروں کو قتل کیا‘ لیکن یہاں نہ تو’’نے‘‘ اور’’کو‘‘ کی طرح کا کوئی لفظ استعمال کیا گیا ہے اور نہ ہی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے ۔ اب ہم عربی کے ایک ہی مفہوم کے تین اور جملوں پر غور کرتے ہیں ۔ جن کا مطلب پہلے بیان کردہ تین جملوں کا الٹ ہے یعنی کافروں نے مسلمانوں کو قتل کیا۔

قَتَل الکافرونَ المسلِمِینَ
قَتَلَ المسلِمین الکافرونَ
المسلمینَ قَتَل الکافرونَ

غور کیجئے ۔ تو پتہ چلے گا کہ پہلے تین جملوں میں مسلمانوں کا ذکر ’’المسلمون ‘‘ لفظ سے ہوا ہے جب کہ کفار کا ذکر‘‘ الکافرین‘‘ کے لفظ سے اسی طرح دوسرے تینوں جملوں میں کفار کا ذکر ’’الکافرون‘ کے لفظ سے ہوا ہے جبکہ مسلمانوں کا ذکر’’ المسلمین‘‘ کے لفظ سے ۔ معلوم ہوا کہ ان مثالوں میں لفظ کے آخر میں ’’ونَ‘‘ یا ’’ینَ‘‘ کی آواز پیدا کرنے سے اسم کی فاعلی یا مفعولی حالت کو ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ اسی عمل کو اعراب کہا جاتا ہے ۔

اعراب کا مطالعہ درج ذیل ذیلی عنوانات کے تحت کیا جا سکتا ہے ۔

(1) حالت اعراب
(2) اظہارِ اعراب
(3) اعراب کا ہلکا یا بھاری ہونا
(4) اعراب کی پکار پر اسم کا رد عمل
 

موجو

لائبریرین
قرآن عربی

نمبر۱۔ حالت اعراب: عربی میں اعراب کی درج ذیل تین حالتیں ہوتی ہیں ۔
(الف) حالتِ رفع: اس حالت میں ہونے والے اسم کو مرفوع کہتے ہیں ۔
(ب) حالتِ نصب: اس حالت میں ہونے والے اسم کو منصوب کہتے ہیں ۔
(ج) حالتِ جرّ: اس حالت میں ہونے والے اسم کو مجرور کہتے ہیں ۔
نمبر۲۔ اظہار اعراب: اعراب کو ظاہر کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔
(الف) ضمائر میں : اسم ضمیر کے معاملے میں عرب لوگ حالت رفع میں ضمیر کو ایک مکمل لفظ کے طور علیحدہ سے استعمال کرتے ہیں جیسے ھُوَ اللّٰہٗ میں ’’ھُوَ‘‘ غائب مذکر جمع کی ’ ضمیر مرفوع‘‘ یعنی حالت رفع میں ہے اور ایک مکمل لفظ ہے اور یہ علیحدہ سے ایک لفظ کا ہونا اس کا حالت رفع میں ہونا ظاہر کرتا ہے ۔ جبکہ’’کتابُہٗ‘‘، ’’ہٗ‘‘ ضمیر مجرور ہے اور اب یہ کوئی علیحدہ لفظ نہیں رہا بلکہ یہ کتاب کے ساتھ ’متصل‘‘ ہے اور اس کا متصل ہونا اس ضمیر کے ’’جر/ نصب‘‘‘ کے اعراب کو ظاہر کر رہا ہے ۔
(ب) اعراب بالحرف: جیسا کہ ہم اوپر جمع مذکر کی مثالوں مسلمون مسلمین اور کافرون اور کافرین میں دیکھ چکے ہیں کہ ’’رفع‘‘ کا اعراب لفظ کے آخر میں ’’ونَ‘‘ کے اضافے سے اور نصب اور جر کا اعراب لفظ کے آخر میں ’’ینَ‘‘ کے اضافے سے ظاہر کیا جا رہا ہے ۔
(ج) اعراب بالحرکۃ: عربی کے اکثر اسماء میں اعراب کے ظاہر کرنے کے لئے اسم کے آخری حرف کی حرکت کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ جیسے
حالت رفع نصب جر
کتابٌ کتاباً کتابِِ
مُسلِمٌ مُس٘لِماً مُس٘لِمٍ
کافِرٌ کافِرًا کافرٍ
نمبر۳۔ اعراب کا ہلکا یا بھاری ہونا:عربوں کے محاورے کو غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر عرب لوگ اسم کے اعراب کو ظاہر کرتے ہوئے ایک اضافی نون کی آواز بھی پیدا کر تے ہیں ۔ یہ آواز اعراب بالحرکۃ کے معاملے میں ایک اضافی حرکت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ’’کتابُ‘ ‘ ’’کتابَ‘‘ اور’’کتابِ‘‘ سے بھی اعراب تو ظاہر ہو گیا لیکن دوسری حرکت سے (تنوین لانے سے) ایک نون ساکن کی آواز بھی پیدا ہو گئی اسی طرح اعراب بالحرف کے معاملے میں اوپر دی گئی مثالوں میں رفع کا اعراب’’و‘‘ سے اور نصب اور جر کا اعراب اصلاً ’’ی٘‘ سے ظاہر ہو گیا لیکن دونوں صورتوں میں ’’و٘‘ ‘ اور ’’ی٘‘‘ کے بعد اور ’’نَ‘‘ کا اضافہ کیا گیا ۔ عرب لوگ کئی دفعہ لفظ کے آخر سے نون کی آواز پیدا کرنے والی وجہ( ّدوسری حرکت یا’’ن‘‘) کو حذف کر دیتے ہیں ۔ اس کو اعراب کا ہلکا کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً
بھاری اعراب ہلکا اعراب
کتابٌ کتابُ
مُس٘لِماً مُس٘لِمَ
کافِرٍ کافِرِ
مُس٘لِمُو٘نَ مُس٘لِمُو٘ا
مُس٘لِمِینَ مُس٘لِمِی٘
نمبر۴: اعراب کی پکار پر اسم کا رد عمل:اعراب کی تبدیلی جملے کا تقاضہ ہوتی ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس تقاضے پر اسماء کا رد عمل مختلف ہوتا ہے کچھ اسماء اعراب کی تبدیلی کو نمایاں طور پر ظاہر کرتے ہیں جبکہ دوسرے اس کو ایک حد تک نمایاں کرتے ہیں لیکن کچھ اسماء اس معاملے میں بالکل تعاون نہیں کرتے اور اپنی شکل میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتے ۔ اس اعتبار سے اسماء کو تین قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔
(الف) مکمل تعاون کرنے والے اسمائے( مُن٘صَرِف/ مَعَرب)
(ب) جزوی تعاون کرنے والے اسماء (غیر مُنصرِف)
(ج) بالکل تعاون نہ کرنے والے اسمائے(مَب٘نِی)
معرب یا منصرف اسماء: ایسے اسماء اعراب کے سلسلے میں جملے کے ساتھے مکمل تعاون کرتے ہیں اور اعراب کو نمایاں طور پر ظاہر کرتے ہیں ۔ جیسے ۔
رفع نصب جر
کتابٌ کتاباً کتابٍ
مُس٘لِمٌ مُس٘لِماً مُس٘لِمٍ
عابدٌ عابداً عَابدٍ
(ب) غیر منصرف: (جزوی تعاون کرنے والے اسماء ) ایسے اسماء جملے کے ساتھ اعراب کے سلسلے میں جزوی تعاون کرتے ہیں اور ’’حالتِ جّر‘‘ کے اظہار کے لئے ایسے اسماء آخری حرف پر کسرہ ( - ِ) قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ’’حالتِ جر‘‘ کو بھی فتحہ(- َ) ہی سے ظاہر کیاجا تاہے اور یہ اسماء تنوین بھی قبول نہیں کرتے
نوٹ:یاد رہے کہ ’’زبر‘‘(- َ) کو عربی میں ’’فتحہ ‘‘ اور ’’زیر‘‘(- ِ) کو عربی میں ’’کسرہ‘‘ اور پیش(- ُ) کو عربی میں ’’ضمّہ" کہتے ہیں عربی میں استعمال ہونے والے کئی انواع کے اسماء اس زمرے میں آتے ہیں ان میں چند درج ذیل ہیں۔
نمبر۱:عجمی اسماء: غیر عربی مخصوص نام جب عربی زبان میں استعمال ہوتے ہیں تو عرب انہیں غیر منصرف استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے
رفع نصب جّر
مریم٘ مریمَ مریمَ
سلیمانُ سلیمانَ سلیمانَ
دٰوٗدُ داو٘دَ داوٗدَ
ابراہیم٘ اِبراھیمَ اِبراھیمَ
ماسوائے ایسے اسماء کے جو عربی کے فعل کے وزن سے مشابہ ہوں مثلاً
نوحٌ نوحاً نوحٍٍ لوطٌ لوطاً لوطٍ ھُودٌ ھوداً ھودٍ
 
Top