آہنی دورازہ، از صفحہ نمبر 26

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
زبان کی بجائے تلوار چلا رہا ہو!...
"میرا خیال ہے کہ بعض لوگ یہاں میرے دشمن ہو سکتے ہیں!" سردار داراب نے ایک طویل سانس لے کر کہا.
"ٹھیک... اب آئے ہیں آپ راہ پر...!" عمران جیب سے نوٹ بک نکالتا ہوا بولا!
"ٹھہرو! مگر میں کسی کا نام نہ لوں گا! کیونکہ یہ محض شبہ ہے! ثبوت نہیں رکھتا!"
"آپ ڈرپوک ہیں جناب!"... عمران چڑانے نے سے انداز میں کہا!
"تم بیہودہ ہو...!" سردار دارداب دہاڑا.
"میں کب کہتا ہوں کہ میں بیہودہ نہیں‌ ہوں!" عمران نے سنجیدگی سے کہا"خدا ایک مضبوط دل عطا کرے... خواہ دولت سے محروم رکھے!"
"ارے تم اپنی ہی ہانکتے رہو گے یا میری بھی سنو گے!..." سردار اس انداز میں بولا جیسے اپنا سر پیٹ لینے کا ارادہ رکھتا ہو.
"کیا سنوں!... آپ یہی فرمائیں گے کہ مہاتما گوتم بدھ کسی کے خلاف شبہ ظاہر کرنا بھی گناہ سمجھتے تھے!"
سردار داراب یک لخت خاموش ہو گیا! اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی لیکن جھنجھلاہٹ کی زیادتی الفاظ کی ترتیب میں حارج ہوئی اور وہ کچھ نہ بول سکا!
"جناب والا!" عمران کچھ دیر خاموش رہ کر بولا " اگر آپ نے یہی کرنا تھا تو معاملے کو کیوں آگے بڑھایا تھا! سر سلطان سے مدد حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی...!"
"محض اسی لئے کہ پوری تحقیق کئے بغیر اس معاملے کو پولیس کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتا تھا!"
"آپ سچ مچ گوتم بدھ ہیں!" عمران سر ہلا کر بولا! "لیکن جب تک آپ کسی پر شبہ نہ ظاہر کریں گے میں کچھ نہیں‌کر سکتا...!"
"میرے کچھ اصول ہیں ان پر سختی سے کاربند ہوں!"... سردار داراب نے کچھ دیر بعد کہا!.
"پھر میں کیا کروں...! آپ ہی کچھ بتائیے!" عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا!
"بچھو رکھنے والے کو تلاش کرو...!"
"میرے خیال میں ایک طریقہ بہترین رہے گا!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلا کر کہا!
"کیا...!"
"میں ایک اشتہار شائع کرا دوں... کہ جس نے بھی سگار کیس میں بچھو رکھے تھے دوبارہ کوشش کرے... پہلا انعام مبلغ پانچ سو رپے...دوسرا انعام... ڈھائی سو... تیسرا انعام پونے ایک سو... سب سے زیادہ حل بھیجنے پر چوتھا انعام مبلغ..."
لیکن جملہ پورا ہوانے سے پہلے ہی سردار داراب کمرے سے نکل گیا!.
 

قیصرانی

لائبریرین
صفحہ نمبر 27

5
دوپہر کے کھانے کی میز پرسردار داراب سے دوبارہ ملاقات یقینی تھی۔ عمران سمجھا تھا کہ میز پر تنہا ہوگا لیکن وہاں اسے کئی افراد نظر آئے تھے۔ شاہدہ اس کی سہیلی بلقیس اور وہ بوڑھا جو پچھلی شام سردار داراب کے ساتھ تھا۔ عمران کو دیکھ کر دونوں لڑکیاں مسکرائیں اور ان کی آنکھوں سے شرارت جھانکنے لگی!
سردار داراب نے صرف ایک بار سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا!
کھانا نہایت خاموشی کے ساتھ ختم ہوا۔۔۔ عمران نے ان میں سے کسی کو بولتے نہیں سنا تھا! کھانے کے بعد سردار داراب اٹھ گیا!۔۔۔ اور دوسرا بوڑھا بھی اس کے ساتھ ہی ڈائیننگ روم سے چلا گیا! بلقیس اور شاہدہ بیٹھی رہیں۔
اچانک عمران نے شاہدہ کو مخاطب کیا۔ "سردار داراب آپ کے کون ہیں!"
"آپ سے مطلب؟" بلقیس بول پڑی!
"جب میں آپ سے گفتگو شروع کروں تب مطلب پوچھیئے گا!"
اس جواب پر شاہدہ بھنا گئی اور تلخ لہجے میں بولی " میں آپ کا جغرافیہ سمجھنے سے قاصر ہوں!"
"جغرافیہ کے چند موٹے موٹے اصول یاد رکھیئے تو یہ دشواری کبھی نہ پیش آئے۔ "عمران نے ہمہ تن خوش اخلاق بنتے ہوئے کہا۔ "میں چونکہ خط استوا سے کافی فاصلہ پر واقع ہوا ہوں اس لئے سال بھر ٹھنڈا رہتا ہوں۔۔۔! اور میری اپر چیمبر چونکہ سطح سمندر سے زیادہ اونچی نہیں ہے اس لئے وہاں برف جمنے کا امکان کم رہتا ہے!۔۔۔ باپ موجود ہے لیکن صورت سے یتیم معلوم ہوتا ہوں گا۔! ویسے میں اتنا کام چور ہوں کہ مجھے بحرالکاہل میں ہونا چاہیئے تھا۔۔۔ اب آپ بتائیے کہ ڈول ڈرم کسے کہتے ہیں؟" بلقیس منہ دبائے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی! شاہدہ کے ہونٹوں پر کبھی ایک بے ساختہ قسم کی مسکراہٹ نظر آتی۔۔۔ اور کبھی پیشانی پر سلوٹیں پڑ جاتیں۔
عمران خاموش ہو کر احمقانہ انداز میں انہیں گھورتا رہا پھر بولا۔ "میں ایک پرائیوٹ سراغ رساں ہوں۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
28-29

"ہائیں!" دونوں کی زبان سے بیک وقت نکلا اور ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں.

"کیوں... کیا پرائیوٹ سراغرساں ہونا بری بات ہے!" عمران مسکرا ہکر بولا! لیکن پھر بھی لڑکیوں سے کوئی جواب نہ ملا! چند لمحے انتظار کرکے عمران پھر بولا!

"میرا خیال ہے کہ سردار کے علاوہ صرف آپ دونوں اس واقعہ سے واقف ہیں!"

"کس واقعہ سے!" شاہدہ نے پوچھا!

"بچھوؤں والا واقعہ...!"

"جی ہاں... ہم دونوں... کیوں!" بلقیس بولی!

"میرا خیال ہے کہ آپ دونوں کو سردار داراب سے ہمدردی بھی ہوگی...!"

"آپ اس گفتگو کا مقصد بیان کیجئے!" شاہدہ نے کہا!

"گفتگو ختم ہوجانے کے بعد...! فی الحال اگر آپ میں سے کوئی ایک صاحبہ میرے سوالات کا جواب دیتی رہیں تو میں مشکور ہوں گا!"

"لیکن آپ کو مشکور ہونے کی تکلیف کیوں دی جائے!"

"کیونکہ سردار داراب کی زندگی خطرے میں ہے!"

"کیا؟"... شاہدہ بے ساختہ اچھل پڑی!

"جی ہاں"! عمران مغموم انداز میں سر ہلا کر بولا! "میں غلط نہیں کہہ رہا!"

"ابھی تک آپ کی کوئی بات ہی سمجھ میں نہیں آئی!" بلقیس نے کہا!"غلط یا صحیح تو بعد کی باتیں ہیں!"

"میرا مطلب ہے کہ سردار داراب سے کوئی بات معلوم کر لینا آسان کام نہیں ہے... ویسے یہ دوسرے صاحب کون تھے...!"

"لیموں نچوڑ... ہاں میں ہاں ملانے والے!" بلقیس نے جواب دیا!

"یعنی وہ سردار داراب کے کوئی عزیز نہیں ہیں!"

"نہیں...!"

"خیر ہاں تومیں یہ کہہ رہا تھا کہ سردار صاحب سے کچھ معلوم کر لینا بہت مشکل ہے! لیکن میں جانتا ہوں کہ ایسے مواقع پر اس قسم کی عادتیں مہلک ثابت ہوتی ہیں!"

"میں سمجھی نہیں!" شاہدہ بولی!

"سردار داراب کسی پر شبہ ظاہر کنے کے لئے تیار نہیں ہیں!"

"آہا... ٹھیک ہے!" شاہدہ نے سر ہلا کر کہا "بابا اپنے اس اصول پر سختی سے کاربند ہیں کہ جب شبہ یقین کی حد تک بڑھ جائے اسی صورت میں شبہے کا اظہار کیا جائے، ورنہ نہیں!"

"اور اگر یقین آنے سے قبل ہی ان کی گردن کٹ جائے تو...!"

"کیا بیکار باتیں کر رہے ہیں آپ!" شاہدہ بگڑ گئی!

"میں بیکار باتیں نہیں کر رہا!... آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کس پر شبہ کر رہی ہیں!"

"میں کس پر شبہ کروں گی جب کہ اس حرکت کا مطلب ہی نہیں سمجھ سکی!"

"پھر کسی نے مذاقاً ایسی حرکت کی ہوگی...!"

"کس کی مجال ہے، جو بابا سے اس قسم کا مذاق کر سکے!"

"پھر یہ چیز حیرت انگیز ہے یا نہیں...!"

"سو فیصد حیرت انگیز ہے... مگر...!"

"مگر کیا..." عمران اس کے چہرے کے طرف دیکھنے لگا!

"اوہ... یونہی زبان سے نکہل گیا تھا... میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتی تھی!"

"ڈاکٹر نجیب سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟..."

"وہ میرے پھوپھی زاد بھائی ہیں!"

"اوہ...تو آپ سردار صاحب کی پوتی ہیں! حالانکہ یہ لفظ مجھے قطعی ناپسند ہے... پوتی... لاحول ولا قوۃ... آپ اتنی شاندار لڑکی... اور پوتی... کیا تک ہے... پوتی... پوتی... کتنی بار لاحول پڑھوں... خیر لاحول ٹو دی پاور ٹو ہنڈریڈ...!"

"آپ کیوں بے تکی بکواس کر رہے ہیں! آپ سراغرساں تو کیا محکمہ سراغرسانی کے کلرک بھی نہیں معلوم ہوتے...!"

"اے کیا بات کرتی ہیں آپ!" عمران نے غصیلی آواز میں کہا! "میں شرلاک ہومز ہوں..." دونوں لڑکیاں مضحکہ اڑانے والے انداز میں ہنسنے لگیں!

"آپ لوگوں کو پچھتانا پڑے گا!" عمران میز پر گھونسہ مار کر بولا. "میں چیلنج کرتا ہوں! میرے ڈاکٹر واٹسن نے ایک یتیم خانہ کھول لیا ہے. ورنہ بتاتا آپ کو!"

"آپ نہیں داخل ہوئے اس یتیم خانے میں!" بلقیس نے سنجیدگی سے پوچھا!

"میرے والد صاحب ابھی زندہ ہیں!" عمران اکڑ کر بولا!

"اس کے باوجود بھی آپ یتیم یتیم سے نظر آتے ہیں!"

"محض اس لئے کہ آپ جیسی لڑکیوں کو مجھ پر رحم آئے..."
 

قیصرانی

لائبریرین
32-33

ثابت کروں کہ یہ بچھو سو فیصدی نقلی ہیں! پھر واٹسن میرا عزیز اسی قسم کے اصلی بچھوؤں کی تلاش میں نکل جائے... اور دن بھر مارت پھرے ادھر ادھر جھک اور واپس آئے شام کو اس خبر کے ساتھ کہ وہ نقلی بچھو بھی نہیں تھے... یعنی سرے سے بچھو ہی نہیں تھے... بلکہ کیڑے کی ایک کمیاب نسل کیکڑی کم ڈب ڈب کے چند آوارہ افراد... ہپ..."

شاہدہ ہنس رہی تھی... عمران ہاتھ نچا کر بولا! "مگر ڈاکٹر واٹسن آج کل ایک یتیم خانہ چلا رہا ہے اس لئے میں اپنی سکیم کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا!"

"آپ بابا سے کیوں نہیں پوچھتے...؟"

"کیا پوچھوں...؟"

؟یہی کہ کیا اس معاہدہ سے بھی زیادہ اہم کوئی چیز تھی...!"

"آپ ہی بتا دیجئے نا... بابا تو..."

دفعتاً... ایک نوکر نے ڈائنینگ ہال میں آ کر عمران کو اطلاع دی کہ سردار داراب لائبریری اس کا انتظار کر رہا ہے...

"پھر سہی!" عمران شاہدہ کی طرف دیکھ کر سر ہلاتا ہوا مسکرایا!

پھر وہ لائبریری میں آیا... سردار داراب ٹہل رہا تھا! اسے دیکھ کر رک گیا! چند لمحے اسے گھورتا رہا پھر مکا مارتا ہوا بولا!"میں تم سے انتقام لوں گا!... تمہاری بدتمیزی کا انتقام! تمہیں بھاگنے کا راستہ نہ ملے گا...! بس اب جاؤ!... میں نے یہی کہنے کے لئے بلایا تھا!..."

(6)

عمران شام تک داراب کیسل کی کمپاؤنڈ میں مارا مارا پھرتا رہا... بوڑھا داراب حقیقتاً اس کے لئے معمہ بن کر رہ گیا تھا!... اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس طرح راہ پر لائے... شاہدہ کی گفتگو نے اسے الجھن میں ڈال دیا تھا! اس معاہدے سے زیادہ اہم کیا چیز تھی جس نے کسی کو داراب کا ہاتھ بیکار کر دینے پر مجبور کر دیا تھا!... لیکن اگر اس کا ہاتھ وقتی طور پر بیکار ہی ہو جاتا تو اس سے اس نامعلوم آدمی کو کیا فائدہ پہنچتا!... اگر وقتی طور پر داراب معاہدے پر بیکار ہی ہو جاتا تو کیا معاہدے کی تکمیل میں دیر ہو جانے پر بھی کسی کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ عمران نے اس کے امکانات کا بھی جائزہ لیا... لیکن یہ خیال بے وزن ثابت ہوا... معاہدے کی تکمیل میں دیر ہوجانے سے حالات میں کوئی خاص فرق نہیں پڑ سکتا تھا! عمران کی تفتیش کا ماحصل صرف یہی تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بات کچھ بھی ہو! سرادار داراب اسے اپنی زبان سے نہیں دہرانا چاہتا!... شاہدہ کے متعلق بھی اس کا یہی اندازہ تھا! اس نے ایک بار ڈاکٹر نجیب کے سامنے بھی یہی تذکرہ چھیڑا... لیکن اس نے لاعلمی ظاہر کی. اسے تو معاہدے کے متعلق بھی علم نہیں تھا! وہ تو چوبیسوں گھنٹے پلاسٹک سرجری میں غرق رہتا تھا! عمران بہت جلدی اس کی باتوں سے اکتا گیا! کیونکہ اس نے اس فن کے مستقبل پر روشنی ڈالنی شروع کر دی تھی. ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ گرلز کالج کی کئی بدصورت لڑکیوں کو پلاسٹک سرجری کے ذریعہ خوبصورت بنانے کی پیش کش کر چکا ہے! لیکن اس کے خیال کے مطابق مشرقی لڑکیاں بڑی بے حس واقعی ہوئی تھیں کیونکہ انہوں نے اس کی پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا! انہیں اپنی بدصورتی کا غم ہی نہیں تھا!... ڈاکٹر نجیب نے اس پر بڑی حیرت ظاہر کی...

بہرحال عمران نے اس سے جلدی ہی پیچھا چھڑانے کی کوشش کی تھی!... وہ تھکا ہارا عمارت میں داخل ہوا.... برآمدے میں کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیئے ایک نوکر نے اطلاع دی کہ سردار داراب بہت دیر سے اس کا منتظر ہے.

وہ ڈائننگ ہال میں شام کی چائے پی رہا تھا!

عمران چپ چاپ جا کر بیٹھ گیا!... بلقیس نے چائے بنا کر پیالی اس کی طرف بڑھائی... اور شاہدہ نے داراب سے کہا "آپ بولیں گے ڈبیٹ میں...!"

"اوہو! کیوں نہیں!... میں ڈبیٹ کی صدارت کروںگا! ایسی صورت میں مجھے کچھ نہ کچھ بولنا ہی پڑے گا!"

پھر شاہدہ نے عمران سے کہا! "آج کالج میں مباحثہ ہے! موضوع ایسا ہے کہ بڑی شاندار تقریریں ہوں گی...!"

"کیا موضوع ہے...!" عمران نے پوچھا!

"عورتیں مردوں سے برتر ہیں!..." داراب اپنی پھٹی ہوئی آواز میں غرایا...

"بیشک! بیشک!" عمران سر ہلا کر بولا... "بلکہ سبحان اللہ.... بہترین موضوع ہے!"

"تم بھی چلو گے...!" داراب نے پوچھا!

"ضرور... ضرور!..." عمران نے بڑے خلوص سے کہا!

"لیکن میں اس موضوع کی مخالفت میں تقریر کرنے والوں یا والیوں کو ہوٹ کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا... میں اسے برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ عورتوں پر مردوں کی برتری ثابت کی جائے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
34-35

"مخالفت میں یقیناً تقاریر ہوں گی، مباحثے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے!" شاہدہ نے کہا!

"تب میں یقیناً ہوٹ کروں گا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا.

چائے ختم کرنے کے بعد وہ اٹھ گئے! عمران نے بہت چاہا کہ وہ مباحثے وغیرہ کے چکر میں نہ پڑنے پائے! لیکن سردار داراب نے اسے مجبور کر دیا!

اس نے کہا. "اس سے بہتر موقع اور کون سا ہوگا! میں تمہیں اپنے پرائیوٹ سیکرٹری کی حیثیت سے روشناس کراؤں گا... میرا مطلب ہے کہ اسی حیثیت سے متعارف ہوگے! اور پھر تمہیں کام کرنے میں آسانی ہوگی! ابھی داراب کیسل کے بہت کم لوگ تم سے متعارف ہوئے ہیں!"

"تو آپ دوسروں پر یہی ظاہر کرتے رہے ہیں کہ میں آپ کا پرائیوٹ سیکرٹری ہوں!"

"قطعی، قطعی...! اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ تم پرائیوٹ سراغرساں ہوں تو تمہیں اپنے کام میں دشواریاں پیش آئیں گی!"

"اگر آپ چاہیں تو منٹوں میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے!"

"کیوں؟... میں سمجھا نہیں!..."

"میری دانست میں معاہدے کے علاوہ بھی کوئی اور کام ہو سکتا ہے، جس کی تکمیل کسی کو ناگوار ہے!"

"کیوں!... یہ تم نے کیسے کہا؟"

"موٹی سی بات ہے سردار صاحب! اگر وقتی طور پر معاہدہ کی تکمیل نہ ہو سکے تو اس کا اثر اس معاہدے پر کیا پڑے گا... کیا وہ وقت گذر جانے پر معاہدے کی تکمیل نہ ہو سکے گی...؟"

"دس سال بعد بھی ہو سکتی ہے!" سردار داراب بولا...!

"پھر اس معاہدے کو خارج از بحث سمجھئے!"

"چلو سمجھ لیا... پھر!"

"پھر کچھ دنوںکے لئے آپ کا ہاتھ بیکار ہو جانے سے کسی کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟"

"گڈ...!" سردار داراب چٹکی بجا کر بولا."ویری گڈ! مجھے توقع ہے کہ تم بہت جلد معاملات کی تہہ تک پہنچ جاؤ گے! بس اب مباحثہ شروع ہونے میں تھوڑی ہی دیر رہ گئ ہے، ہمیں چلنا چاہیئے... تم دیکھو شاہدہ تیار ہو گئی ہے یا نہیں! وہ بہت اچھا بولتی ہے...!"

عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلاتا ہوا وہاں سے رخصت ہو گیا. پھر تھوڑی دیر بعد عمران، سردار داراب، بلقیس اور شاہدہ کالج کی عمارت کی طرف جا رہے تھے!...

مباحثہ کالج کی لڑکیوں کے درمیان تھا! لیکن آدھا ہال مردوں سے بھا ہوا تھا! اس میں سردار گڈھ کے معززین بھی تھے! اور داراب کیسل کے رہنے والے بھی!

تقریریں شروع ہوئیں اور کافی دیر تک جاری رہیں! دس لڑکیوں نے حصہ لیا تھا! آخیر میں شاہدہ بولی! اس کی تقریر دوسری تقریروں پر بھاری رہی تھی! لیکن وہ انعامی مقابلے میں شریک نہیں تھی! کیونکہ اس کا تعلق کالج سے نہیں تھا. اس کے بعد جج صاحبان فیصلہ کرنے کیلئے اٹھ گئے!

پھر دفعتاً سردار داراب نے جو صدارت کر رہا تھا اٹھ کر مجمع کو مخاطب کیا!

"خواتین و حضرات... جب تک جج صاحبان فیصلہ مرتب کریں. آپ اپنے ملک کی ایک عظیم ہستی جناب ڈاکٹر علی عمران ایم. ایس. سی. ڈی. ایس. سی آکسن سے موضوع کی موافقت میں ایک بصیرت افروز تقریر سنیئے!... آپ سائنٹیفک طور پر یہ ثابت کریں گے کہ عورت مرد سے برتر ہے... ڈاکٹر صاحب سے استدعا ہے کہ ڈائس پر تشریف لائیں!..."

عمران کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے ہی والے تھے کہ اس نے انہیں بڑی مشکل سے پکڑا اور پھر اپنا سر کھجانے لگا! وہ حقیقتاً بوکھلا گیا تھا!... اسے خواب میں بھی گمان نہیں ہو سکتا تھا کہ سردار دارداب اس طرح اس کی ٹانگ لے گا... آج دوپہر ہی کو اس نے اسے آگاہ کر دی تھا کہ وہ اس سے اس کی بدتمیزیوں کا انتقام لے گا! مگر وہ اسے مجذوب کی بڑ سمجھتا تھا!... اسے کیا معلوم تھا کہ وہ اسے بھرے مجمع میں الو بنانے کی کوشش کرے گا...! عمران اور تقریر... خدا کی پناہ...! اس کے پاس مواد بھی نہیں تھا!... اگر اس نے تقریریں سنی ہوتیں تو انہیں کے سہارے کچھ نہ کچھ بولنے کی کوشش کرتا! مگر وہ تو ذہنی طور پر قطعی غیر حاضر رہا تھا!... اسے بھلا عورتوں کی برتری سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کہ دھیان دے کر تقریریں ہضم کرتا! سنجیدہ موضوعات اسے ہمیشہ سے کھلتے آئے تھے!... بہرحال وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر اپنی جگہ سے اٹھا! لوگ اس نئے آدمی کو دیکھنے کے لئے بے چین تھے! جیسے ہی عمران اٹھ کر ڈائس کی طرف بڑھا! ہال میں تالیوں کا طوفان آ گیا.

مائیک کے قریب پہنچ کر اس نے بڑی بے بسی سے گلا صاف کیا... اور مردہ سی آواز میں بولا!"خواتین و حضرات...!"

ٹھیک اسی وقت اس کی شرارت آمیز ذہانت جاگ اٹھی!... وہ چہک کر بولا. "دیکھئے مرد پر عورت کی برتری ثابت ہو گئی!... پہلے خواتین پھر حضرات....! جو لوگ موضوع کی مخالفت میں بولے ہیں انہوں نے آپ کو اسی ترتیب سے مخاطب کیا تھا! خواتین و حضرات...! انہوں نے حضرات و خواتین نہیں کہا تھا!... یہ ہے سائنٹیفک ثبوت! یعنی مرد کے تحت الشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ عورت مرد سے برتر ہے... اسی لئے وہ پہلے خواتین کو مخاطب کرتا
 

قیصرانی

لائبریرین
36-37

اور پھر حضرات کو...!"

اس پر بہت زور و شور سے تالیاں بجیں! عمران نے مڑ کر سردار داراب کی طرف دیکھا اور پھر بولا!"جناب صدر و خواتین و حضرات... عورت کو اللہ پاک نے مرد سے برتر بنایا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسے مردوں کے مقابلہ میں بہتیری سہولتیں میسر ہیں! مثلاً اسے صبح صبح اٹھ کر مردوں کی طرح شیو نہیں کرنا پڑتی...! سبحان اللہ... اس نے عورتوں کو فارغ البالی عطا کردی ہے! اور جناب تیسرا سائنٹیفک ثبوت یہ ہے کہ مرد ایک اور ایک دو نہیں ہو سکتا مگر عورت ایک اور ایک تین ہو جاتی ہے... چار ہو جاتی ہے... پانچ ہو جاتی ہے اور علی ھذالقیاس سمندر پار تو ایک درجن اور ڈیڑھ درجن ہوجانے والی خواتین کو انعامات ملتے ہیں خطابات ملتے ہیں...! اس لئے جناب... عورت مرد سے برتر ہے...!"

ہال میں بیٹھی ہوئی عورتیں اور لڑکیاں بغلیں جھانکنے لگیں... مرد قہقہوں پر قہقہے لگا رہے تھے!... دوسری طرف سردار داراب کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا...!

عمران نے شور ختم ہو جانے پر ہانک لگائی "برتر وہی ہے، جو بیوقوف ہے! جتنا بیوقوف اتنا برتر...! پہلے مرد عورت پر حکومت کرتا تھا... طاقت سے...! اب بیوقوف یعنی برتر بنا کر حکمرانی کرتا ہے!... برتر بنا کر حکومت کرنے میں اسے دوہرا فائدہ ہے... یعنی عورت پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں... وہ خود انہیں اپنے دوش بدوش کام کرنے کا موقع دیتا ہے. رہ گئے چار دیواریوں والے فرائض تو عورتیں انہیں عادتاً انجام دیتی ہیں!... یعنی مرد عورتوں کے دوش بدوش بچوں کو دودھ نہیں پلاتا... عورتوں کے دوش بدوش باورچی خانے میں جھک نہیں‌ مارتا... عورتوں کے دوش بدوش گھر کی صفائی نہیں کرتا... بچوں کے کپڑے نہیں دھوتا... اس وقت وہ پلنگ پر لیٹ کر چین کی بنسری بجاتا ہے یا دوستوں کو سمیٹ کر تاش کھیلتا ہے... سبحان اللہ... عورت اسی لئے برتر ہے کہ اس نے دوہری ذمہ داریاں اٹھا رکھی ہیں! یہی وجہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں نہ تو گنجی ہوتی ہیں اور نہ ہی توندیں رکھتی ہیں... سبحان اللہ... بلکہ ماشاء اللہ...!"

اس بار بہت زور و شور سے تالیاں بجیں! مجمع سے کچھ جھلائے ہوئے لوگ "بیٹھ جاؤ...! بیٹھ جاؤ...!" کے نعرے بھی لگا رہے تھے! اتنی دیر میں جج صاحبان فیصلہ مرتب کرکے اپنی جگہوں پر واپس آ گئے... سردار داراب بہت بے چین نظر آ رہا تھا... یک بیک وہ اٹھ کر مائیک میں بولا!"خواتین و حضرات... ڈاکٹر صاحب! اس وقت مزاح کے موڈ میں تھے! بہرحال انہوں نے آپ کو فیصلے کے انتطار میں بور ہونے سے بچا لیا! ہم ڈاکٹر صاحب کے شکر گزار ہیں. اب آپ معزز جج صاحبان کا فیصلہ سنیئے!..."

"نہیں پہلے صدارتی تقریر...!" کسی نے مجمع سے ہانک لگائی... عمران اتنی دیر میں اپنی جگہ پر واپس جا چکا تھا!...

"صدارتی تقریر...!" سردار داراب نے کہا!"صدارتی تقریر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا... کیونکہ صدر کے لئے کوئی انعام ہی نہیں رکھا گیا!... اور پھر صدر کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ موضوع کی مخالفت یا موافقت کرے... بوڑھا صدر اپنے پچھتر سالہ تجربات کی بناء پر صرف یہ کہہ سکتا ہے... ان دونوں‌میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے برتر نہیں ہے!... عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیئے ہیں... اور بس! ہاں اب فیصلہ سنیئے...!"

اس کے بعد اس نے اول، دوئم اور سوئم آئی ہوئی لڑکیوں کے ناموں کا اعلان کیا.

واپسی پر سردار داراب عمران پر بری طرح برس رہا تھا. بلقیس اور شاہدہ ہنس رہی تھیں.

"ارے جناب آپ نے کون سی بھلائ یکی تھی میرے ساتھ." عمران برا سا منہ بنا کر بولا. "اب میں سوچتا ہوں کہ مجھ پر ہارٹ اٹیک کیوں نہیں ہوا."

"تمہاری وجہ سے میری بڑی بے عزتی ہوئی."

"اور آپ کی وجہ سے میرا ہارٹ فیل ہو گیا ہوتا تو میں کس سے شکایت کرتا. خدا کی پناہ... زبانی بولنا... یہ حادثہ بھی میرے لئے یادگار رہے گا. مجھے حیرت ہے کہ حاضرین نے میرے آٹو گراف کیوں نہیں‌لئے..."

"میں بھی اس تجویز سے متفق ہوں." شاہدہ نے کہا. "میں سوچ رہی ہوں کہ آپ کو کیسل کے میوزیم کے لئے اسپرٹ میں محفوظ کر لیا جائے." بلقیس بول پڑی. دفعتاً وہ سب چلتے چلتے رک گئے قریب ہی کہیں سے کچھ اس قسم کی آوازیں آ‌رہی تھیں جیسے کوئی بند دروازہ ہلایا جا رہا ہو.

"ارے... یہ ہم کدھر آ گئے." شاہدہ نے خوفزدہ آواز میں کہا.

"اوہ... سب بکواس ہے..."سردار داراب کہتا ہوا آگے بڑھ گیا. "کوئی بیہودہ آدمی ہم سب کو ہراساں کرنا چاہتا ہے. میں کسی دن اسے گولی... مار دوں گا."

"کیا قصہ ہے." عمران نے شاہدہ سے پوچھا.

"لوہے والا پھاٹک." شاہدہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی. "وہ آسیب زدہ ہے." پھر وہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ کر سردار داراب کے قریب پہنچ گئی. بلقیس نے بھی قدم بڑھائے اور عمران رو دینے والی آواز میں بولا... "ارے تو تم لوگ مجھے کیوں موت کے منہ میں چھوڑے جا رہے ہو."

وہ تینوں پھر رک گئے اور عمران تقریباً دوڑتا ہوا ان کے پاس جا پہنچا. آوازیں اب بھی
 

قیصرانی

لائبریرین
38-39

آ رہی تھیں. لیکن اب ان کے ساتھ ہی ساتھ کسی بھیڑیئے کے بولنے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی.

"تم لوگ خوامخواہ بات کا بتنگڑ بناتے ہو." سردار داراب بولا. "ہو سکتا ہے کہ وہاں کسی طرح کوئی بھیڑیا ہی پہنچ گیا ہو."

"مگر بابا. دروازہ کوئی آدمی ہی ہلاتا ہے." شاہدہ بولی.

"کل بھی میں نے اسے کھلوا کر دیکھا تھا. وہاں کچھ بھی نہیں تھا."

"آپ اندر کب گئے تھے. آپ تو پھاٹک ہی کھڑے رہے تھے."

"وہاں اس ویرانے میں گھس کر اپنے کپڑے خراب کرتا. کیوں؟"

"کسی کو اندر بھیجنا چاہئے تھا."

"سبھی کم بخت اسے آسیب زدہ سمجھتے ہیں جاتا کون."

"یہ کیا قصہ ہے جناب؟" عمران نے پوچھا.

"انہیں لوگوں سے پوچھنا." سردار داراب نے بیزاری سے کہا. "مجھے تو اس قصے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے..."

"خیر... نہ بتائیے. آپ نے مجھے کچھ نہ بتانے کی قسم کھا رکھی ہے... گویا..."

کوئی کچھ نہ بولا. پھر وہ جلد ہی رہائشی عمارت میں‌ پہنچ گئے. سردار داراب تو اپنی خواب گاہ میں لباس تبدیل کرنے چلا گیا اور وہ تینوں ڈائننگ روم میں آ بیٹھے.

"آپ کی تقریر بالکل چوپٹ تھی." عمران نے شاہدہ سے کہا.

"شکریہ." شاہدہ نے جواب دیا "آپ سے تعریف کرنے کو کس نے کہا تھا؟"

"کوئی بات نہیں ہے... یہ لوہے والا پھاٹک کیا بلا ہے؟"

"ایک عمارت کا پھاٹک جو استعمال میں نہیں‌ ہے. اس کے صحن میں اچھا خاصا جنگل اگ آیا ہے. ادھر پچھلے پندرہ دنوں سے وہاں سے عجیب قسم کی آوازیں آنے لگی ہیں. رات گئے لوہے کا پھاٹک اس طرح ہلنے لگتا ہے جیسے کوئی آدمی اسے ہلا رہا ہو."

"اس لئے وہ آسیب زدہ قرار دیا گیا ہے."

"پھر آپ اور کیا کہیں گے...؟"

"مجھے کیا پڑی ہے کہ کچھ کہوں. ہوگا آسیب ہی ہوگا. مگر اتنا یاد رکھو کہ یہاں کوئی بہت بڑی واردات ہونے والی ہے. سردار داراب اپنی دھن میں ہیں لیکن انہیں پچھتانے کا بھی موقع نہ مل سکے گا."

"کیا مطلب؟"

"مطلب بتانے سے پہلے میں پھر انہیں سوالات پر زور دوں گا، جو میں نے آج دوپہر کو کئے تھے."

شاہدہ کچھ نہ بولی. اس نے اپنے ہونٹ مضبوطی سے بند کر لئے تھے. ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے خدشہ ہو کہ کہیں زبان سے کوئ بات نکل نہ جائے. عمران اسے غور سے دیکھتا رہا. کچھ دیر بعد سردار داراب بھی لباس تبدیل کرکے رات کے کھانے کے لئے وہیں آ‌گیا. عمران اس کے چہرے پر گہری تشویش کے آثار دیکھ رہا تھا. کھانے کے دوران میں خاموشی ہی رہی. شائد وہ بلقیس کی موجودگی میں کسی قسم کی گفتگو نہیں کرنا چاہتے تھے. غالباً بلقیس نے بھی اسے محسوس کر لیا تھا لہٰذا وہ کھانے کے بعد وہاں نہیں ٹھہری.

"بابا." شاہدہ نے اسے مخاطب کیا. "یہ کہتے ہیں کہ معاہدے کے علاوہ کوئی دوسرا معاملہ بھی ہو سکتا ہے."

"ہاں مجھے بھی معلوم ہے..."

"تو کیا آپ انہیں دوسرے معاملے کے متعلق نہیں بتائیں گے."

"کیسا دوسرا معاملہ." سردار داراب اسے گھورنے لگا. پھر بولا. "اگر تم کسی دوسرے معاملے سے واقف ہو تو ضرور بتادو."

"میں آپ کے کسی معاملے سے واقف نہیں ہوں. لیکن اس معاملے میں اپنی زبان سے کچھ نہیں کہنا چاہتی."

"نہ یہ اپنی زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں اور نہ آپ." عمران نے تشویش کن لہجے میں کہا. "میرے خیال میں آپ دونوں اپنی زبانوں کا بیمہ کرا لیجئے تاکہ اگر کچھ کہتے وقت آپ کی زبانوں کے چیتھڑے اڑ جائیں تو نقصان کی ذمہ داری بیمہ کمپنی پر عائد ہو."

"تم الو ہو." سردار داراب نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا. عمران اور شاہدہ تنہا رہ گئے.

"اگر اب الو بولنا شروع کر دے تو یہ عمارت ویران ہو جائے گی..." عمران الوؤں کی طرح‌ دیدے نچا کر بولا.

"سنیئے عمران صاحب..."

"سنائیے شاہدہ صاحبہ... ورنہ اگر میں پاگل نہ ہوا تب بھی اپنے کپڑے چیر پھاڑ کر جنگل کی راہ لوں گا."

"آپ بولتے بہت ہیں."
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top