آچے کا سندھی

ڈاکٹر عباس

محفلین
عبدل حمید
ملابو، آچے
انور حسین کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد انڈونیشیا میں آ کر بس گیا تھا
سماٹرا میں میدان ائرپورٹ کے باہر جس شخص سے میرا پہلا رابطہ ہوا وہ محمد صالح ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو اسکے لہجے میں گرمجوشی کچھ مزید بڑھ گئی۔ وہ مجھ پر اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی، عربی اور ’بہاسا‘ زبان آزمانے کی کوشش کرنے لگا۔ اسکی معلومات تبلیغی جماعت اور رائیونڈ کے بارے میں مجھ سے یقیناً زیادہ تھیں۔
محمد صالح خود ایک تبلیغی ہے اور اسکا بھائی کراچی کے کسی دینی مدرسہ میں پڑھتا رہا ہے۔ اس نے میری معلومات میں یہ اضافہ کر کے مجھے کافی حیران کیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، اسامہ بن لادن پاکستانی مجاہدین کی پناہ میں ہے اور پاکستان کے اسلامی ایٹم بم پر اسے فخر ہے۔ وہ جنرل مشرف سے کچھ خفا لگ رہا تھا مگر اسے یقین تھا کہ پاکستان سے اسلام کی روشنی ساری دنیا میں پھیل کر رہے گی۔

میدان سے ہوتے ہوئے کچھ دن آ کر بند آچے میں قیام کیا لیکن مجھے تو آچے میں تیس سالہ خانہ جنگی کے خاتمہ پر پہلے آزادانہ انتخابات دیکھنے تین ہفتوں کے لیے آچے کے تین دور دراز ضلعوں میں جانا تھا۔ خواہش تو تھی کہ سڑک کے ذریعے سفرکریں مگر سونامی کے بعد سے ابھی تک کئی ندی نالوں اور دریاؤں پر پل نہیں بنائے گئے۔ کوشش بسیار کے بعد یو این کے ایک چھوٹے سے چارٹر جہاز میں جگہ مل گئی اور اسطرح میں آچے کے ضلعی صدر مقام تک جا پہنچا۔

یہ ’ملابو‘ شہر ہے ، بحرہند میں آچے کے مغربی ساحل پر آباد ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ۔ علاقہ میں زندگی ایسے رواں دواں ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو حالانکہ ابھی دو سال پہلے ہی سونامی اور زلزلوں سے یہ شہر ملیامیٹ ہو گیا تھا۔ تباہی کی داستان سنانے والوں کے چہروں پر اس طوفان کا ذکر کرتے ہوئے دہشت آج بھی عیاں ہوتی ہے۔


اے دنیا کے رکھوالے

میں اپنے مترجم دوست کے ہمراہ گھومتا گھماتا ان تباہ حال بستیوں تک جا پہنچا جہاں ابھی ریکنسٹرکشن کا ڈول نہیں ڈالا گیا۔ بہت سے لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ہم ایک خیمے کے پاس سے گذر رہے تھے کہ رفیع کے ایک گانے کی آوازنے میرے قدم روک لیے۔ یواین کے نشان والے خیمہ سے گانے کی آواز آ رہی تھی۔ ’اے دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے‘



’ملابو‘ شہر کی ساٹھ فیصد آبادی اس سمندری طوفان کی نذر ہوگئی تھی۔ لوگ بتاتے ہیں کہ پندرہ میٹر بلند سمندری لہریں ایک سو تیس کلومیٹر فی گھٹہ کی رفتار سے جب ساحل سے ٹکرائیں توشہر میں موجود لکڑی سے بنے ہوئے گھروندے توایک طرف کنکریٹ کی بلند و بالاپختہ عمارتیں بھی تنکوں کی طرح بہہ گئیں ۔

شہر کے مرکزی علاقہ میں رونقیں اب بحال ہیں مگر شہرسے ذرا ہٹ کر نظر دوڑائیں تو حالات ایسے خوش کن نہیں ہیں۔ میں اپنے مترجم دوست کے ہمراہ گھومتا گھماتا ان تباہ حال بستیوں تک جا پہنچا جہاں ابھی ریکنسٹرکشن شروع نہیں ہوئی۔ بہت سے لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ہم ایک خیمے کے پاس سے گذر رہے تھے کہ رفیع کے ایک گانے کی آوازنے میرے قدم روک لیے۔ یواین کے نشان والے خیمہ سے گانے کی آواز آ رہی تھی۔ ’اے دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے‘۔


اسلام کا قلعہ
محمد صالح خود ایک تبلیغی ہے اور اسکا بھائی کراچی کے کسی دینی مدرسہ میں پڑھتا رہا ہے۔ اس نے میری معلومات میں یہ اضافہ کر کے مجھے کافی حیران کیا کہ پاکستان اسلام کا دینی قلعہ ہے، اسامہ بن لادن پاکستانی مجاہدین کی پناہ میں ہے اور پاکستان کے اسلامی ایٹم بم پر اسے فخر ہے۔ وہ جنرل مشرف سے کچھ خفا لگ رہا تھا مگر اسے یقین تھا کہ پاکستان سے اسلام کی روشنی ساری دنیا میں پھیل کر رہے گی



میں نے اپنے مترجم ساتھی سے پوچھا تو اس نے مقامی زبان میں آواز دی تو درمیانی عمر کے ایک صاحب خیمہ سے نمودار ہوئے۔ خالص عربی نما علیک سلیک کے بعداپنے مترجم ساتھی کے ذریعے میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ ہندوستانی گانا یہاں کہاں سے آگیا۔ میں تو خود مہینہ بھر سے اردو پنجابی سننے کو ترسا ہوا ہوں، تو مذکورہ شخص نے مترجم کے ذریعہ مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اورگانے کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہوں۔

ان صاحب سے جب تعارف ہوا توپہلے تو اس نے ٹوٹی پھوٹی ہندی میں بات شروع کی جبکہ اسکا لہجہ اسکے سندھی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ جب میں نے اپنی گلابی سندھی میں اس سے بات کی تو یہ شخص مجھ سے بغلگیر ہوگیا۔

اسکا نام انورحسین تھا جسکا خاندان انیس سو سینتالیس میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت بمبئی سے ٹھٹہ آیا، پھر کاٹھیاواڑ، گجرات میں آباد ہونے کی کوشش کی مگر یہاں بھی ناکامی کے بعد جاوا، انڈونیشیا میں مقیم ہوا۔ جہاں یہ خاندان پچپن سال سے ہے۔ انیس سو سینتالیس سے پہلے انور حسین کا والد نور حسین بمبئی میں مچھلی کا تاجر تھا۔

تقسیم ہند نے بھی کیا کیا کہانیاں جنم دی ہیں۔


میری دنیا اندھیر ہے
دنیا میرے لیے اندھیر ہے، میرا نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے، نہ گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ، میں اس خیمہ میں اسلیے رہتا ہوں کہ یہاں میرے پیاروں نے جان دی ہے میں اس جگہ سے دور نہیں جانا چاہتا


انور حسین

انور کے ماں باپ گھر میں سندھی بولتے تھے مگر انور کہتا ہے کہ زبان کی پریکٹس نہ ہونے کی وجہ سے اسکی سندھی کافی کمزور ہوگئی ہے جو کہ اسکے لہجہ سے عیاں تھی مگر وہ انڈونیشیائی زبان ’بہاسا‘ بڑی روانی سے بولتا ہے۔ کوئی بیس سال قبل انور کاروبار کے سلسلہ میں جاوا سے ’ملابو‘ منتقل ہوگیا۔

سونامی سے پہلے ملاگو میں انورمچھلی کا ایک متمول تاجر تھا اور اس نے اپنا مکان شہر سے باہر ساحل پر تعمیر کیا تھا جو کہ سونامی میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔طوفان کے وقت گھر میں انور کا والد، سات بچے اور اسکی بیوی موجود تھی جو سب طوفان کی نظر ہوگئے۔انور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔

دو سال ہوگئے ہیں سونامی کو گذرے ہوئے مگر انور آج تک اپنے خاندان کی تباہی کے صدمہ سے باہر نہیں نکل پایا۔ نہ ہی اس نے اب تک اپنا مکان دوبارہ تعمیر کرنیکی کوشش کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’دنیا میرے لیے اندھیر ہے، میرا نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے، نہ گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ، میں اس خیمہ میں اسلیے رہتا ہوں کہ یہاں میرے پیاروں نے جان دی ہے میں اس جگہ سے دور نہیں جانا چاہتا۔

البتہ موسیقی اسے سکون دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہندوستانی موسیقی خصوصاََ لتا منگیشکر اور محمد رفیع نے میرا بڑا ساتھ دیا ہے۔ ’میں جب بہت بے چین ہوتا ہوں تو اپنی آبائی موسیقی سنتا ہوں کہ میری جڑیں تو ہندوستان میں ہی ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں واپس انڈیا چلاجاؤں لیکن پھر خیال آتا ہے وہاں تو مجھے کوئی بھی نہیں جانتا۔ آچے، جاوا اور سماٹرا میں میرے یار بیلی ہیں میں ان کے ساتھ بیٹھ کر غم غلط کرنے کی کوشش تو بہت کرتا ہوں مگر بات بنتی نہیں‘۔

ملابو میں زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے

ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں اسکی معلومات واجبی سی ہیں۔ دونوں ممالک کی سائنسی، معاشی اور سیاسی ترقی کے بارے میں اسکی معلومات کچھ زیادہ نہیں،البتہ اسے اتنا ضرور پتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کا صدر ہے اور واجپئی الیکشن ہار چکے ہیں۔

انور مجھ سے ملکر بہت خوش ہورہا تھا۔ اس نے بہت دیر تک میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ میں جب بھی اٹھنے کی کوشش کرتا کہتا ’سائیں ایک اور سی ڈی سن لو میرے ساتھ، ایسا راگ آپ نے پہلے کبھی نہیں سناہوگا۔ یہ کہہ کر وہ اپنے راگ میں پھر گم ہوجاتا۔ اس دوران اس نے مچھلی چاول بھی کھلائے اور دودھ پتی چائے سے میری تواضع کی۔بہت دنوں بعد دودھ پتی پینے کا جو مزا انور کے خیمہ میں بیٹھ کر آیا وہ بہت دنوں یاد رہے گا۔ جب میں اس سے بات کرکے واپس آرہا تھا تومیں نے اپنے دل میں انور حسین کے ذہنی سکون اور چین کے لیے خواہش کی۔

آچے میں اسلام صدیوں پہلے گجراتی کاٹھیاواڑی تاجروں کے ذریعہ پھیلا اور بہت سے کاٹھیاواڑی گجراتی یہاں آکر آباد ہوگئے جنکی ثقافت کا رنگ مقامی معاشرہ میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔انڈین فلمیں اورموسیقی ہر جگہ دستیاب ہے، شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے کے پوسٹرجگہ جگہ نظر آتے ہیں۔مقامی ٹی وی چینلز انڈین فلمیں ’آچوی‘ یا ’بہاسا‘ سب ٹائٹلز کے ساتھ دکھاتے ہیں۔ہالی وڈ سے زیادہ یہاں بالی وڈ سے شناسائی ہے۔ لوگ ہندوستانی زبان تو نہیں سمجھتے مگر میرے ساتھ بات چیت میں کچھ لوگوں نے ہندوستانی فلموں کے ڈائیلاگ ضرور بولنے کی کوشش کی۔اور تو اور میں شریعت کورٹ کے جج سے انٹرویو کرنے گیا تو مسکراتے ہوئے اس نے بھی ’دل تو پاگل ہے‘ اور ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ کا مطلب مجھ سے پوچھا۔

از بی بی سی
 
Top