آدھا رستہ

الف نظامی

لائبریرین
انسان عجیب مخلوق ہے۔۔۔ سوچتا ہے۔۔۔ عمل کرتا ہے اور عمل کے عین دوران پھر سوچتا ہے اور اپنے عمل پر نظر ثانی کرتے کرتے اپنی اس سوچ پر بھی نظر ثانی کرتا ہے جس کے تحت سفر کا آغاز کیا تھا۔۔۔ اور یہ کھیل جاری رہتا ہے ، آری کے دندانوں کی طرح۔۔۔ اور انجام کار یہ سوچ در سوچ کی آری افراد کو اور قوموں کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے ۔۔۔ جذبے سرد پڑ جاتے ہیں۔۔ سفر کی لذت ختم ہوجاتی ہے اور سفر بند ہوجاتے ہیں۔۔ قافلے پڑاو پر پڑے رہتے ہیں۔۔۔ منزل سے محروم ، بد دل مسافر ایک نئی سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور نئی بستیاں بسانے کے درپے ہوجاتے ہیں۔۔۔ گھر چھوڑ کر سفر پہ نکلے اور مسافرت میں منزلیں فراموش کرکے نئے گھر بنانے شروع کردیتے ہیں۔۔۔ کل کی سوچ کو غلط سمجھ کر انسان آج کی سوچ پر ناز کرتا ہے۔۔۔ آنے والے کل میں یہ سوچ بھی غلط ہوسکتی ہے۔ بس تذبذب کے اس مقام کو ہی آدھا راستہ کہتے ہیں۔۔۔ واپس جانا ناممکن ہے۔۔۔ آگے جانے کی ہمت نہیں ہوتی۔۔۔یہی زوال ملت ہے کہ مقصد ہی بھول جائے۔۔۔ اور مقصد ہی نہ رہے تو سفر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ انسانی عقل راستوں میں رہ جاتی ہے ، منزل پر پہنچانے والی کوئی اور سوچ ہے۔۔۔ وہ دانش نورانی ہے۔۔۔ وہ علم آسمانی ہے۔۔۔ وہ فیصلہ کسی اور طرف سے آتا ہے۔۔۔ انسانی سوچ کو تذبذب سے بچانے کے لئے پیغمبر تشریف لائے۔ اور لوگوں کو بتایا کہ یہ عارضی اور فانی سوچیں ہیں۔۔۔ اصل بات خدا کی بات ہے۔۔۔ اور اصل سفر اطاعت کا سفر ہے ، جس سے منزل نصیب ہوتی ہے۔۔۔۔ ابلیس نے اطاعت نہ کی۔۔۔ اس نے غرور کیا ، تکبر کیا ، اس نے سوچا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مٹی سے بنے ہوئے آدم کو سجدہ کیا جائے ، جبکہ وہ نار سے پیدا ہوا۔۔۔ یہی سوچ کا زوال ہے۔۔۔ آدھے رستے کا مسافر ابلیس تھا۔۔۔ مقرب تھا ، معتوب ہوگیا ، رجیم ہوگیا۔۔۔ جب سوچنے کے بعد کوئی فیصلہ کرلیا جائے تو اللہ پر بھروسہ کرکے منزل پر ہی ڈیرے ڈالنا چاہئیں۔۔۔یہی کامیابی ہے۔۔۔بدنصیب ہیں وہ مسافر جو آدھے سفر کے بعد ذوقِ سفر سے محروم ہوجائیں۔۔۔ مقصد فراموش قومیں اور افراد آدھے رستے پر رک جاتے ہیں۔۔۔

بعض اوقات ہم اکثریت کے فیصلے پر سفر اختیار کرتے ہیں۔۔۔ یہ سفر بھی مشکوک ہوتا ہے۔۔۔ اکثریت متلون ہوسکتی ہے ، بے خبر ہوسکتی ہے ، بے علم ہوسکتی ہے ، غافل ہوسکتی ہے ، آرام پرست اور آرام طلب ہوسکتی ہے۔۔۔ جہاں اکثریت کاذب ہو وہاں صداقت کا سفر کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ اگر منافقین کی اکثریت کے حوالے کردیا جائے ، تو بھی فیصلہ غلط ہوگا۔۔۔ اللہ نے بیان فرمایا کہ "اگر منافقین رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آکر اعلان کریں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تو اے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جانتا ہوں کہ تو رسول ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ منافق غلط کہتے ہیں" یعنی جھوٹے لوگ سچ بولیں تو بھی جھوٹ ہے ، وہ کوئی صحیح فیصلہ کریں تو بھی غلط ہے۔۔۔ وہ کسی صحیح منزل کی نشان دہی کریں تو بھی نتیجہ غلط ہوگا۔۔۔ سچ جو سچے گروہ کا فیصلہ ہو۔۔۔ سچی اقلیت کاذب اکثریت سے بہت بہتر ہے۔۔۔ محض اکثریت پر مبنی سب فیصلے قابل غور ہیں۔۔۔ جب تک سچے لوگوں کی اکثریت نہیں ہوتی ، جمہوری فیصلے غلط ہیں۔۔۔ سربراہ ، امیر المومنین ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔امیر الکاذبین اور امیر المنافقین ملت پر عذاب کا باعث ہوسکتے ہیں۔۔۔جھوٹے کے مقدر میں آدھا رستہ ہے۔۔۔ جھوٹے راہی کی منزل آدھا رستہ ہے۔۔۔ صداقت کی منزلیں صادقوں کے لئے ہیں۔۔۔ بعض اوقات امیر کی صداقت قوم میں صداقت فکر پیدا کردیتی ہے۔۔۔

قائد اعظم کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ صادق تھے ۔۔۔صداقت ہی ان کی خوبی تھی۔۔۔ان کا اپنا کردار قوم میں وحدت کردار پیدا کر گیا۔۔۔لوگ ان کے حکم پر مر مٹے۔۔۔ وطن سے بے وطن ہوئے۔۔۔ مہاجرین بن گئے۔۔۔ سب کچح لٹا کے بھی خوش بختی کا احساس رہا۔۔۔ ایک عظیم مقصد کے لئے جان اور آن کی پرواہ کئے بغیر لوگ آمادہ سفر ہوئے۔۔۔بات بہت دور تک نکل جاتی اگر قائد کچھ دیر اور زندہ رہتے۔۔۔ وحدت کا تصور دینے والا مر گیا اور قوم میں انتشار سا پیدا ہوگیا۔۔۔ قائد کی بے وقت رحلت نے سفر کی رفتار کم کر دی ۔۔۔ سفر کا رخ وہ نہ رہا۔۔۔ ان کی بنائی ہوئی صادق اکثریت ، بے مقصد ہجوم میں تبدیل ہوکر رہ گئی۔۔۔ اکثریت کو صداقت آشنا کیا جائے ، اس میں حق گوئی اور بیباکی پیدا کی جائے۔۔۔ یہ مرحلہ طے ہوجائے تو جمہوریت سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔۔۔ ورنہ بس وہی بات کہ بس آدھا سفر ۔۔۔آدھا راستہ۔۔۔ خدانخواستہ۔۔۔

انسان فطری طور پر انقلاب پسند ہے۔۔۔ اسے یکسانیت پسند نہیں۔۔۔ یہ ورائٹی چاہتا ہے۔۔۔ یہ بدلتا رہتا ہے۔۔۔ انسان لباس بدلتا ہے ، لہجے بدلتا ہے ، دوست بدلتا ہے ، جماعتیں بدلتا ہے ، پارٹیاں بدلتا ہے ، ہارس ٹریڈنگ کرتا ہے ، یہ محسن فراموشیاں کرتا ہے ، رشتے بدلتا ہے اور مقصد بھی بدل دیتا ہے۔۔۔ اس کے پاس ہر کام کا جواز ہے ۔۔۔ پرانے فیصلے کا اس کے پاس قوی جواز تھا ، آج نئے فیصلوں کا جواز ہے ، غالبا یہی انقلاب کا باعث ہے۔۔۔

آدم کو بہشت میں رہنا اس لئے بھی راس نہ آیا کہ وہاں کوئی ہنگامہ نہیں تھا ، کوئی انقلاب نہیں تھا ، بولنے کے لئے کوئی فورم نہیں تھا ۔۔۔ انہوں نے ایک ترکیب سوچی۔۔۔ شجر ممنوعہ کا ذائقہ چکھ لیا۔۔۔ بس انقلاب آگیا۔۔۔ ہنگامہ برپا ہوگیا۔۔۔ اگر اخبار ہوتے تو شہ سرخیاں چھپ جاتیں۔۔۔بہشت ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔۔۔انقلاب کامیاب ہوگیا اور زندگی ناکام۔۔۔اللہ نے آدم کے لئے شیطان کو نکال دیا اور آدم نے شیطان کے لئے اللہ کے امر کو چھوڑ دیا۔۔۔بہشت کا سفر آدھے رستے ہی میں ختم ہوگیا۔۔۔پھر زمین کا سفر۔۔۔ زمین کے مقاصد ، عزائم اور عمل ۔۔۔ سب نامکمل۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معراج کے علاوہ تو ابھی سب کچھ راستے میں ہی ہے۔۔۔ ابھی آدھا رستہ ہی طے ہوا ہے۔۔۔ابھی تو ملت آدم تفریق ہوئی ہے۔۔۔ یہ سفر مکمل ہوگا وحدت آدم پر۔۔۔ ستاروں کی وحدت کہکشائیں پیدا کرتی ہے ، ننھے چراغوں کی وحدت سے چراغاں پیدا ہوتے ہیں ، قطروں کی وحدت سے قلزم اور دریا کے جلوے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔

آدھے رستے کے مسافروں کو جگایا جائے ، انہیں پھر سے آمادہ کیا جائے۔۔۔ان میں باہمی احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ کارواں پھر سے رواں ہوجائے۔۔۔ منزلیں انتظار کر رہی ہیں اور مسافر ہیں کہ آدھے رستے میں سوئے پڑے ہیں۔۔۔

ذوق سفر کا پیدا کرنا قیادت کا فرض ہے۔۔۔ قائد کو چاہیے کہ وہ قوم میں بیداری کی روح پھونک دے۔۔۔ ذوق سفر عطائے رحمانی ہے۔۔۔ رحمت حق کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے کہ اے مہربان اللہ ، دے ہمیں کوئی حدی خواں جو زندگی پیدا کردے اس قوم میں۔۔۔ مطلب پرستی جمود پیدا کر رہی ہے ، وطن پرستی تحریک پیدا کردے گی۔۔۔ یہ قوم ۔۔۔ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
غریبوں کو نان نفقہ کے مسائل اور مراحل سے آزاد کریا جائے۔ ان کی زندگی میں امید کی شمع روشن ہونی چاہئے۔۔۔ انہیں مایوسی کی تاریکی سے نکالنا چاہئے۔۔۔ تاکہ وہ بھی وطن پرستی کے عظیم مقصد اور سفر میں شامل ہوں۔۔۔ امیروں سے پیسے کی محبت نکال لی جائے۔۔۔ انہیں مال کی نمائش کا موقع نہ دیا جائے۔۔۔ ان کی شادیوں کو اسلامی رنگ میں ڈھالا جائے۔۔۔ انہیں سادہ زندگی کا شعور دیا جائے تاکہ وہ بیچارے بھی حصول منزل ملت کے عمل میں شریک ہوسکیں۔۔۔ ورنہ آدھے راستے کی بدقسمتی سے بچنا مشکل ہوگا۔۔۔ یہ سب کا سفر ہے سب کے لئے ، یہ سب کا مقصد ہے سب کے لئے ۔۔۔ غور کیا جائے۔۔۔ اللہ آسانیاں پیدا کردے گا۔۔۔ جس مقصد کے لئے یہ ملک بنایا تھا۔۔۔ یاد تو ہے ۔۔۔ اگر یاد ہے تو حاصل کرنے میں کیا دیر ہے۔۔۔

کیا اب اکثریت سے پوچھا جائے گا کہ اسلام کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اسے کیسے حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ یہ بات خدا سے پوچھی جائے ، قرآن سے معلوم کیا جائے ، اللہ کے رسول کے فرامین سے روشنی حاصل کی جائے۔۔۔ گردش لیل و نہار پر نگاہ رکھنے والے بیدار روح انسانوں سے رجوع کیا جائے ، وحدت عمل اور وحدت افکار کا پھر سے پیدا ہونا مشکل نہیں ہے۔۔۔صاحبان اقتدار صادق ہوجائیں ، ہر طرف صداقت ہی صداقت ہوجائے گی۔۔۔ شکر ہے کہ بہت کچھ ہورہا ہے لیکن ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔۔۔ قافلہ آدھے رستے میں تھک کر سستا رہا ہے۔۔۔ جاگو اور جگاو۔۔۔ وقت انتظار نہیں کرتا۔۔۔ مواقع اپنے آپ کو دہراتے نہیں۔۔۔ مرتبے اور آسائشیں ملتی ہیں کہ اپنے آپ کو خوش نصیب بنایا جائے۔۔۔ خوش نصیب بننے والا سب کو خوش نصیبی عطا کرئے۔۔۔ قافلہ بددل ہوگیا ہے۔۔۔ اس کی تکالیف کا ازالہ کیا جائے ، اسے گلے اور تقاضوں سے نجات دی جائے۔۔۔ یہ قوم جاگ گئی تو قوموں کی امامت کا فریضہ اسی کو سونپا جائے گا۔۔۔ حال کی خوشحالی میں مست ہوکر مستقبل کے فرائض فراموش نہ ہوں۔۔۔ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب اقبال کے خواب کی تعبیر میسر ہو۔۔۔ قائد اعظم کی محنت کا صلہ حاصل ہو۔۔۔ قوم کے لئے شہید ہونے والوں کی روحوں کو قرار نصیب ہو۔۔۔ ہم منزل فراموش نہ ہوں تو آنے والی نسلیں ہمیں عزت سے یاد کریں گی۔۔۔اپنی لاڈلی اولاد کے لئے پیسہ جمع کرنا ہی مقصد نہیں ہے ۔۔۔ اگر اولاد نے مفت حاصل ہونے والا مال گناہ میں لگایا تو اس گناہ کی سزا ، پیسہ مہیا کرنے والوں کو بھی ملےگی۔۔۔ اگر اولاد کو تصور پاکستان سے متعارف نہ کرایا گیا ، شعور عظمت اسلام کی تعلیم نہ دی گئی تو خدا نہ کرے ہمارے لئے "آدھے رستے کے مسافروں" کا طعنہ ہوگا۔۔۔ خدا ہمیں اس عذاب سے بچائے۔۔۔ ہم عظیم قوم ہیں۔۔۔ ہمیں عظیم تر ہونا ہوگا۔۔۔ یہ ملک خدا کا ہے ، خدا کے رسول کا ہے ، انہی کی منشا کے مطابق چلنا چاہئے۔۔۔
حرف حرف حقیقت از واصف علی واصف سے لیا گیا
 
Top