آداب نماز

توحید و رسالت کے اقرار کے بعد نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ ہر مسلمان پرشرائط و ارکان اور آداب کی پابندی کرتے ہوئے دن میں پانچ مرتبہ اس فرض کی ادائیگی لازم ہے۔نماز کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ نمازی قیام کی حالت میں اپنی نگاہیں ادب کےساتھ جھکاکر رکھے اور خیال کرے کہ وہ اللہ رب العالمین کے دربار میں کھڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب نماز ادا فرماتے تو اپنا سر مبارک جھکا کر رکھتے تھے اور نگاہیں زمین پر مرکوز کر دیتے تھے (اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور ادب کا اتنا خیال تھا کہ) جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں سے نکلنے تک اپنی نظر سجدے کی جگہ سے نہیں اٹھائی ۔
ذیل میں نماز کے کچھ آداب کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا خیال رکھناضروری ہے۔
توجہ بٹانے والی چیزوں سے اجتناب:
نمازی کے لیے ان تمام چیزوں سےا جتناب کرنا ضروری ہے جواس کی توجہ نماز سے ہٹا کر کسی دوسری چیز میں لگا دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ (مسند احمد باقی مسند الانصار حدیث امراۃ من بن سلیم، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 2030)
"مناسب نہیں کہ گھر (یعنی بیت اللہ ، اور اسی کے حکم میں مسجد،مصلیٰ ، نماز پڑھنے کی جگہ ) میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کر دے (یعنی اس کی توجہ نمازسے ہٹا دے)"
آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی ممانعت:
نماز میں آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاس حرکت سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ أَوْ لَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ ( وفي رواية : لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ) (صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ۔صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب النھی عن رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ)
"جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں انہیں اس سے باز آ جانا چاہیے یا پھر ان کی نظرواپس نہ لوٹ سکے گی" دوسری روایت میں ہے کہ "یا ان کی بینائی اچک لی جائے گی"۔
دائیں بائیں التفات نہ کرنا:
نماز میں ادھر ادھر دھیان دینے اور قبلے کی جانب سے چہرہ پھیرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے:
فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ (سنن ترمذی کتاب الامثال باب ما جاء فی مثل الصلاۃ و الصیام و الصدقۃ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2863)
" جب تُم لوگ نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ مت کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ مبارک نماز پڑہنے والے کے چہرے کی طرف کیے ہوئے پوری طرح سے متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ (نماز سے)اپنی توجہ اِدھر اُدھر نہ کر لے "
التفات یعنی نمازی کے دائیں بائیں متوجہ ہونے کو شیطان کی کاروائی بتایا:
اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ)
"یہ بندے کی نماز (کے خشوع و خضوع میں سے کچھ حصہ ہے) جو شیطان جھپٹ کر لے جاتا ہے"
اور فرمایا:
لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ وَهُوَ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ فَإِذَا الْتَفَتَ انْصَرَفَ عَنْهُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الالتفات فی الصلاۃ، صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 554۔ حسن لغیرہ)
"جب بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہتا ہے جب تک وہ بندہ (نماز سے) اپنی توجہ ادھر ادھر نہ کر لے۔ پھر جب بندہ اپنا چہرا پھیر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے رخ پھیر لیتا ہے"
تین چیزوں کی ممانعت:
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں تین چیزوں سے منع فرمایا ہے جن کی تفصیل یہ ہے:
عَنْ نَقْرَةٍ كَنَقْرَةِ الدِّيكِ وَإِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ وَالْتِفَاتٍ كَالْتِفَاتِ الثَّعْلَبِ (صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 555، مسند احمد مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ حسن لغیرہ)
"مرغ کے چونچ مارنے کی طرح (جلدی جلدی سجدہ کرنے سے)۔
کتے کی طرح ہاتھ ٹیک کر بیٹھنے سے۔
اور لومڑی کی مانند(سراور آنکھیں) ادھر ادھر گھمانے سے۔
آخری نماز سمجھ کر پڑھو
ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
صل صلاة مودع كأنك تراه ، فإن كنت لا تراه ، فإنه يراك (صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 3350۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1914۔ حسن لغیرہ)
"نماز اس طرح پڑھا کر گویا کہ وہ تیری زندگی کی آخری نماز ہے اور گویا کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے"۔
اچھی طرح وضو کرنا اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا:
نماز کے لیے بہترین انداز میں مکمل وضو کرنا چاہیے اور اللہ کے سامنے اس طرح کھڑے ہونا چاہیے کہ جسم و جاں پر اس کی ہیبت طاری ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنْ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضو ء و الصلاۃ عقبہ)
"جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آ جائے اور وہ اچھی طرح وضو کرے ، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے اوربہترین انداز میں (اطمینان کےساتھ) رکوع (سجدے)ادا کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے(صغیرہ) گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے جب تک کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے (کیونکہ کبیرہ گناہ سچی توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں)۔ اور یہ (فضیلت) ہمیشہ کے لیے ہے"
نقش و نگار سے پرہیز
مصلٰی اور نماز پڑھنے کی جگہ پر نقش و نگار کی موجودگی نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنتی ہے اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ کر نماز ادا فرمائی جس پر کچھ نقوش تھے۔ نماز میں ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نظر اس پر پڑی تو سلام پھیرنے کے بعد فرمایا:
اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلَاتِي ( وفي رواية : ( فإني نظرت إلى علمها في الصلاة فكاد يفتني ) (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اذا صلی فی ثوب لہ اعلام و نظر الی علمھا)
"میری یہ بیل بوٹوں والی چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس کی سادہ چادر میرے لیے لاؤ۔ اس چادر نے ابھی میری توجہ نماز سے ہٹا دی تھی"۔دوسری روایت میں ہے کہ" میری نظر اس کے نقوش پرپڑی اور(ان نقوش کی وجہ سے) قریب تھا کہ یہ مجھے آزمائش میں ڈال دیتی"۔
اسی سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک کپڑا تھا جس پر (بے جان اشیاء کی) تصویریں بنی ہوئی تھیں۔انہوں نے سجاوٹ کے لیے وہ کپڑا ایک دیواری طاق کے نچلے حصے تک لٹکایا ہوا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس طرف چہرہ مبارک کرکے نماز ادا فرمایا کرتے تھے تو فرمایا:
أَخِّرِيهِ عَنِّي (صحیح مسلم کتاب اللباس و الزینۃ باب تحریم تصویر صورہ الحیوان و تحریم اتخاذ ما فیہ صورۃ)
"اسے مجھے سے دور کر دو"
فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ لِي فِي صَلَاتِي (صحیح البخاری کتاب اللباس باب کراھیۃ الصلاۃ فی التصاویر)
"کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں مسلسل مجھے پریشان کرتی رہی ہیں"۔
بھوک اور حوائج ضروریہ سے فراغت:
بھوک کی حالت میں کھانا سامنے آ جائے تو کھانے سے فراغت کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے تا کہ دل پوری طرح نماز کی طرف متوجہ ہو جائے۔اورجسے حوائج ضروریہ سے فراغت کی ضرورت ہو تو اسے قضائے حاجت کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس بارے میں اپنی مبارک راہنمائی سے ان الفاظ میں آگاہ فرمایا ہے:
لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب کراھۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام الذی یرید اکلہ فی الحال)
"اس شخص کی نماز نہیں جس کے سامنے کھانا رکھ دیا جائے اور نہ اس شخص کی جسے دو ناپاک چیزوں (پیشاب پاخانے) کی حاجت محسوس ہو رہی ہو"۔
 
Top