نظیر صدیقی

  1. فرخ منظور

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں ۔ نظیر صدیقی

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں کس کس کے در پہ مانگیں دعا تیرے شہر میں مجرم ہیں سارے اہلِ وفا تیرے شہر میں کیا خوب ہے وفا کا صلہ تیرے شہر میں اہلِ ہوس کے نام سے ہیں روشناس خلق ملتی ہے جن کو دادِ وفا تیرے شہر میں رکھتے ہیں لوگ تہمتیں اپنے نصیب پر کرتے ہیں یوں بھی تیرا گلا تیرے شہر میں...
  2. فرخ منظور

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ۔ نظیر صدیقی

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ایک کانٹا سا دل میں کھٹکتا رہا ایک حسرت سی دل کو مسلتی رہی اپنے غم کو ہمیشہ بھلایا کئے کثرتِ کار میں سیرِ بازار میں الغرض کسمپرسی کے عالم میں بھی زندہ رہنے کی صورت نکلتی رہی عقل کی برتری دل نے مانی تو کیا اس نے چاہا کبھی عقل کا مشورہ...
Top