دواکر راہی

  1. کاشفی

    اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے - دواکر راہی

    غزل (دواکر راہی) اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے ہر ہاتھ میں دولت ہے، ہر آنکھ سوالی ہے شاید غمِ دوراں کا مارا کوئی آجائے اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے اُس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤ گے جو آنکھ پسِ پردہ بھی...
  2. کاشفی

    کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی - دواکر راہی

    غزل (دواکر راہی) کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی رسّی تو جل گئی ہے مگر بَل ہیں آج بھی انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہیں آج بھی اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی مطلب یہ ہے کہ ذہن مقفل ہیں آج بھی باتیں تمہاری شیخ و برہمن خطا معاف پہلے کی طرح غیر مدلل ہیں آج بھی...
Top