احمد وصال، غزل، ایک پہیلی

  1. احمد وصال

    ایک پہیلی کے اشارات میں رہتا ہے وہ

    اک پہیلی کے اشارات میں رہتا ہے وہ یوں مجسم سا میری ذات میں رہتا ہے وہ بند آنکھوں سے اسے روز یہاں دیکھتا ہوں ہاں مرے دل کے مضافات میں رہتا ہے وہ اس کو بھولا ہوں ؟ تری بات غلط ہے صاحب میری راتوں کی مناجات میں رہتا ہے وہ میں نے اک بار بنایا تھا جسے پنسل سے اسی خاکے کے نشانات میں رہتا ہے وہ...
Top