غزل
یہ صبح تاریکیوں کو گردوں سے عاق کرتی کہ رو دیا میں
سکوت ِ شب کو خیال ِ جاں نے دی ایسی تھپکی کہ رو دیا میں
مجھے لگا تھا سفر اندھیروں کا جان لے لے گا آج میری
چراغ ِ مدہم نے بیچ شب کے یوں آنکھ جھپکی کہ رو دیا میں
جناب ِ ساقی نے تذکرہ ءِ شباب چھیڑا تھا میکدے میں
تو جام پیتے ہی تجھ پہ...