خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے
جانے کیا دُکھ نفس میں رہتا ہے
جان کا کچھ نہیں بھروسہ پر
دل مُسلسل ہوس میں رہتا ہے
روح رہتی ہے جسم میں جیسے
اک پرندہ قفس میں رہتا ہے
سلطنت لاکھ سُکھ میں جیتی ہو
ایک نالہ جرس میں رہتا ہے
ہو جو اک بار آنکھ سے اوجھل
کون پھر دسترس میں رہتا ہے
کب مچل جائے کیا کہیں دل...