مجھے تم محبت سے دو چار کر کے
کہاں جا رہے ہو مجھے تار کر کے
کہا تھا جو ہم نے کہ تم باز آؤ
مگر تم ہٹے ہو وہی کار کر کے
ہمیں عشق میں کچھ نہ تم سے ملا ہے
یہی سوچتے ہیں اہ و زار کر کے
جو بسمل مرے دل کو دیکھا ہے اس نے
ستمگر تڑپتا ہے خود وار کر کے
جہاں ہم کو کوئی نہ پوچھے نہ روکے
کہیں ہم چلیں یہ جہاں...
یہ شہر خراب حالوں کا ہے
کچھ آفتوں کچھ وبالوں کا ہے
معلوم نہیں یہ بات مجھ کو
اب ہجر یہ کتنے سالوں کا ہے
کیونکر ہو عزیز مجھ کو فرقت
بس شوق مجھے وصالوں کا ہے
ہر سمت جواب کی ہے طالب
گویا یہ عدم سوالوں کا ہے
خوش شکل و خوش بدن وہ ہائے
کیسا یہ نشہ خیالوں کا ہے