سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سُن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سُن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِشام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن
ہر نفس...