یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اب بھی لوگ " پہلے بھی غلط تھا اور اب بھی غلط ہے " کی مثال کیسے دے لیتے ہیں۔ اس کے عشر عشیر بھی عدالت کی بے حسی ، سفاکی اور آئین کا قتل تھا تو مثالیں دیں۔
بھٹو کا عدالتی قتل اس کی واضح مثال ہے۔ اور مثالیں بھی ہیں جب سیاسی افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں وہ ڈیل کر ملک سے باہر نکل لیے۔ اب یہ عمران سے بھی ڈیل کی توقع رکھے ہوئے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں تو پرو اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں، یا ایسا بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سو اس رویے کے ساتھ جمہوریت کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔ آخر ان سب باتوں کا حل نکلنا چاہیے لیکن جب تک مخلص لوگوں کی ایک جماعت تیار نہیں ہوتی اس کے آثار نظرنہیں آتے۔
ایک جماعت سے بات بن سکتی ہے؟ ایسا صرف تب ہو سکتا ہے جب عوام کی اکثریت اس ایک جماعت کی ہم نوا ہو وگرنہ اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑانے کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو ایکا کرنا ہو گا اور سیاسی جماعتوں کا حال آپ کے سامنے ہے۔ یہ تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی وقت اسٹیبلشمنٹ کو مائی باپ بنانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
ویسے آپ نے مسئلے کی نشاندہی بہرصورت درست کی ہے۔
ایک جماعت سے میری مراد ہم خیال اور مخلص لوگوں کی طرف سے کوشش ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کے داخل ہونے کا کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ کوئی شریف آدمی ہمارے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ وہاں پہنچ کر تبدیلی کی کوشش کرنا تو کارِ محال ہی ہے۔
یہ بھی توہین ہے عدالت کی