سید عمران آپ آدم علیہ السلام کا پھل کھانا، موسی علیہ السلام کا جلد طور پر پہچنا اور قبطی کو گھونسا مار کے قتل کرنا، سیدنا یونس علیہ السلام کا جلد اپنے مقام کو چھوڑ دینا، سورہ انفال میں بدر کے قیدیوں پر رحم پر عتاب بھول رہے ہیں۔
عبد القیوم چوہدری آپ کے علم میں ہو گا اربا ہا ارب انسانوں کا حال الگ الگ ہے سو نافرمانی بھی الگ الگ ہو گی۔ صدیق کی نافرمانی، شہد مجاہد، صالح، مومن اور عام مسلمان، فاسق، کافر، مشرک سے مختلف ہو گی۔ ہر شخص اپنا حال اور اسکی نافرمانی خود جانتا ہے۔ لیکن آپ نے اکمل زیدی کے لیے بات سے صرف نظر کیا۔
سید رافع بھائی
میں چوندہ چوندہ پڑھیا، باریکی کے ساتھ نہیں۔ پھر اصل مراسلے کی اہمیت ہے، باقی ساریاں تے باتاں ای نیں۔ میں گفتگو کو کچھ آسان کرتا ہوں۔ بالکل ایک عام سے انسان کے لیے نافرمانی کیا ہو گی ؟ نماز نا پڑھنا، روزہ نا رکھنا وغیرہ۔ کیا ایسے کیا جائے ؟
سید عمران آیت یہ ہے سورہ النساء 4 آیت 136۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کے حد شریعت کے کن خصوصی ابواب کو مذید مضبوط کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ دو دفعہ امنو کہنا قابل غور ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔سورہ النساء 4 آیت 136۔
سید عمران امنو امنو دو دفعہ ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے ساتھ کسی چیز پر ایمان نہیں ہے۔ یہ آپ کی حد شریعت قائم نہ رکحنے یا اس سے باہر ہونے کا جواب یا دلیل ہے۔ ورنہ دوسرا امنو یونہی ہے۔ یا ہمارے دور کے حساب سے لوگ ایمان کے ساتھ نافرمانی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں بلا معرفت۔ اس آیت کا خطاب مومنین، اہل کتاب اور منافقین سب کے لیے ہے۔
محمد تابش صدیقی آپ نے غور نہیں کیا۔ صاف سی بات ہے ایمان لانے کو اسے ہی کہا جائے گا جو کسی مخصوص قسم کے ایمان سے خالی ہے۔ یا یوں کہیے کہ اس معاملے کی معرفت نہ رکحنے کے باعث نافرمانی پر نافرمانی کیے جاتا ہے۔ آپ دور کی بات کر رہے ہیں اس سے اگلی پچھلی آیت پڑھ کر دوسرے امنو سے صرف نظر کرنے والوں کا انجام بھی ملاحظہ کیجیے۔ اللہ ہم سب کو برے انجام سے بچائے۔ آمین
نافرمانی کرنے کا حکم کہاں ہے۔ نافرمانی تو انسان سے ہوتی ہی ہے، اسی لیے اسے بار بار ایمان کا کہا جا رہا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ایمان لانے کے لیے جان بوجھ کر نافرمانی کرو۔
باقی اجازت چاہتا ہوں۔ جو بات کہنی تھی، وہ وضاحت سے کہہ چکا ہوں۔
گناہ کرنے کی ترغیب کس سند سے ثابت ہے؟
بقول آپ کے کم از کم ایک گناہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہوا زیادہ سے زیادہ لاکھوں گناہ کریں۔۔۔
اس طرح تو ساری شریعت ہی ختم ہوگئی یعنی کہ!!!