اے خان جو کام اچھے کریگی اسپر تعریف ہوگی جیسے اس کیس میں سیاسی مداخلت کرنے والوں کے باوجود ملزمان تک انصاف کی رسائی ممکن بنائی گئی۔ باقی جو پولیس کا عملہ آن ڈیوٹی تماشہ دیکھتا رہا اسکے خلاف انٹرنلی کاروائی ہونی چاہیے اور متعلقہ افسران کو معطل
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ قانون کی باتیں کرتے ہیں وہ اپنے جذبات کو تب تک قابو کیوں نہیں کر لیتے جب تک قانون اس بات کو ثابت نہ کر دے کہ مشال پہ الزام۔گا تھا یا وہ واقعی گستاخی کے گناہ کا مرتکب ہوا
گستاخی قتل۔کے خوف سے اگر ختم نہیں ہوتی تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھے تماشا کرتے رہیں اور ان کے سامنے ان۔کے نبی کی شان میں گستاخی ہوتی رہے.
ابھی یہ چند قتل کے واقعات ہیں لیکن اگر گستاخی جاری رہتی ہے تو جنگ عظیم سوم بھی چھڑ سکتی ہے اور چھپن مسلم ممالک اس جنگ کے لئیے اتفاق بھی کر سکتے ہیں تمام تر نا اتفاقیوں کے باوجود انشاء اللہ
جہاں تک بات ہے مشال کے بہیمانہ قتل کی تع اس پوری گفتگو کے دوران تمام حضرات مسلسل بیان کرتے رہے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیئے تھے لیکن یہ بات چند افراد کے کان پہ اثر تک نہیں کر رہی وہ اپنا ہی راگ الاپے جا رہے ہیں.
اور بجائے اس کے کہ تنقید کمزور قانونی نظام پر ہو لوگوں نے اسلام پہ تنقید کو اپنا محبوب مشغلہ بنا لیا ہے. اگر ملک کا قانونی نظام درست ہوتا تو یونیورسٹیوں میں دہریے نہ پل رہے ہوتےطلبہ اسلحہ لے کے نہ گھوم رہے ہوتے پولیس مشال کے قتل کا تماشہ نہ دیکھ رہی ہوتی
یہاں مسئلہ اسلام کا نہیں ملک کے دفاعی نظام کی کمزوری کا ہے. اس ملک میں کسی کو بھی انصاف کی توقع نہیں لوگوں نے ذہنی طور پہ اس حقیقت کو تسلیم۔کر لیا ہے کہ پولہس کچھ نہیں کرے گی جو کرنا ہے خود کرنا ہے.
عمران نامی لڑکے کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا. جماعت اسلامی کے کارکن بہت کم تعداد میں ہیں یونیورسٹی میں. اسلحہ تو ہر کوئی لاتا ہے. مشال کے پاس بھی پستول ہوا کرتی تھی. زیک
محترم زیک دیکھنے کے لئیے جنگ کا انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے تشریف لائیے اور مشال کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کریں. خالی باتیں کرنے سے کیا ہو تا ہے اور جب مشال قتل ہوا تو بھی آپ دیکھتے ہی رہ گئے