راحیل فاروق
یہ حضرت سلطان باہو کا کلام ہے جو کہ مکمل کچھ اس طرح ہے
ہِک جاگن ہِک جاگ نہ جانن، جاگدیاں اوہ ستّے ہُو
ہِک ستّیاں جا واصِل ہوئے، جاگدیاں ہِک مُٹھّے ہُو
کیہ ہویا جے گھُگّو جاگے جو لَیندا ساہ اپُٹھّے ہُو
مَیں قُربان تِنھاں توں جِنھاں کُھوہ پریم دے جُتّے ہُو
میں اس کا مطلب واضح کرنے کی کوشش کرتی ہوں :)
ایک طرف تو وہ ہیں کہ جو راتوں کو جاگتے ہیں اور ایک وہ جو کہ جاگنا نہیں جانتے..وہ ظاہری طور پر جاگ کر بھی سوئے ہوئے ہیں..
ایک وہ ہیں کہ جو سو کر بھی وصال اختیار کر لیتے ہیں ایک وہ جو کسی جگہ بھیج دیئے گئے آزاد چھوڑ دیے گئے وہ جاگ کر بھی دھوکے میں آ گئے جیسے شیطان جان کر بھی انجان بن بیٹھا اور پھر اس کو آزاد چھوڑ دیا گیا..
اس کا کوئی فائدہ نہیں اگر الو رات کو جاگتے ہیں جو الٹے سانس لیتا ہے
میں تو ان کے قربان جاؤں جو راتوں کو جاگ کر پریم کے کنویں چلاتے ہیں گویا اس حقیقی خالق کی محبت میں دل سے سرشار رہتے ہیں..
ہِک مٹھے کو ہِک مُتّے بھی لکھا جاتا ہے اسی طرح اپُٹھّے کو اپُتّے بھی کہا یا لکھا جاتا ہے..الٹے سانس لینا ایک مشق ہے جو عموماً فقیر درویش کرتے ہیں ذکر میں..ویسے یہاں الو کے الٹے سانس لینے سے مراد اس کا دکھ اور غم میں آہیں بھرنا ہے گویا صرف تکلیف میں جاگنے اور آہیں بھرنے سے کچھ حاصل نہیں جب تک کہ اس کی محبت سے جی سرشار نہ ہو اور اسی کے ذکر کا کنواں ہمہ دم رواں نہ رہے.. راحیل فاروق