ویسے حسیب بھیا، مسکراہٹوں کا تو ویسے ہی بہت توڑا ہے ہمارے ہاں۔ جتنا بھی مُسکرائیں کم ہیں۔ فی الحال حدف یہی ہے کہ مسکراہٹ ایک رُخ سے دوسرے رُخ تک سفر کرتی رہے یہاں تک کہ سارا گلشن مسکرا اُٹھے۔ اگر حدف پورا ہو گیا یعنی سب جگہ مسکراہٹیں پھیل گئیں تو یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا انعام ہے۔
مزید براں یہ کہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے خصوصی انعام کی بابت بھی سوچا جا سکتا ہے۔
ماشااللہ ۔۔۔ دنیا کو عموماً اور پاکستان کو خصوصاً آپ جیسی سوچ رکھنے والے اہل مسکراہٹ کی ضرورت ہے۔ یونہی مسکراہٹیں بکھیرتے رہیے، میری اخلاقی حمایت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گی۔
ایک صاحب دیسی گھی کا ڈبہ لیے ٹرین میں سوار ہوئے۔ کچھ دیر تو پکڑ کر کھڑے رہے لیکن تھک گئے۔ جب اور کوئی جگہ نہ ملی تو زنجیر سے باندھ دیا۔ وزن پڑا تو ٹرین رک گئی۔ گارڈ اور پولیس والے آئے اور ان صاحب کو جرمانہ کر گئے ۔ جب ٹرین دوبارہ چلی تو کسی نے جرمانے پر افسوس کیا۔ تو صاحب بولے دیکھی پھر۔۔۔ دیسی گھی کی طاقت، پوری ٹرین روک دی