بے پر کی

زھرا علوی

محفلین
بعنوان " لنڈا داند" (دم کٹا بیل)

دسببرکی رات کی تاریکی اس گاؤں میں بھی بہت گہری تھی ہر طرف ہو کا عالم۔۔۔ چوہدری کے ڈیرے پہ چور آئے گائیں بھیسیں بشمول " لنڈا داند" کھولیں اور چل پڑے۔۔۔۔ٹرک ٹریکٹر کا زمانہ تو تھا نہیں کے چند لمحوں میں یہ جا وہ جا ہوتے۔۔۔"سو اللّہ کے بھروسے چل پڑے" کہ جتنی جلدی ہو سکے چوہدریوں کے متوقع عتاب سے جتنا ہو سکے اتنا دور بھاگ سکیں۔۔۔با آراز بلند دعائیں مانگتے کے بس اک دفعہ کامیاب ہو جائیں تو اس " لنڈے داند" کو اللّہ کی راہ میں قربان کر ڈالیں گے۔۔۔۔۔۔

صبح ہوئی گاؤں میں تو شور مچ گیا چوہدریوں کی چوری ہو گئی،،چوہدری ایک تو نقصان ہی پریشان دوسری جانب یہ فکر لاحق یہ مویشی ہی تو طرّح امتیاز تھا وہ بھی نہ ملے تو کاہے کی چوہدراہٹ کہاں کی چوہدراہٹ۔۔۔اے اللّہ بس ایک بار جانور مل جائیں وہ "لنڈا داند" تیری راہ میں قربان کر دیں گے۔۔۔۔۔۔۔

حالت تو "لنڈے داند" کی دیدنی تھی آگے کنواں تو پیچھے کھائی ۔۔چوروں کے ارادے تو سامنے دکھ ہی رہے تھے پیچھے مالکوں کی منّتوں کا بھی بخوبی اندازہ تھا اسے۔۔۔کے اپنی حیثیت کا جو مکمل ادراک تھا "لنڈا " جو ٹہرا ہر طرف سے پسنا اسے ہی تھا۔۔۔:(

ایک چھوٹی سی کہانی حاضر خدمت ہے۔۔۔۔۔اسے پڑھ کر آپ کا ذہن کیا کیا سوچتا ہے ضرور بتائیے گا;)





 
برارر عزیزم ابن۔ سعید

تمہارے نامہ کو دیکھ کر یک گونہ مسرت ہوئی۔ عنوان۔ پیغام گو بے پرکی تھا مگر کیا کہنے تمہارے پیغام بعنوان کلاسیکل اردو کے۔ میاں تمہارے اندر تو ایک جوہر۔ قابل پنہاں ہے اسے ضائع مت ہونے دو۔ پہلی فرصت میں دھیان کرو اس جانب اور کوئی استاد کامل پکڑو۔ کیا سنا کچھ کہ بڑے کہہ گئے جس کا پیر کوئی نہیں اس کا پیر شیطان۔ تو میاں پیشتر اس کے کہ تم کسی شیطانی دھندے میں پڑو ، بیٹھے ہو تو کھڑے ہو جاؤ۔ اور جو کھڑے ہو تو چل پڑو اور رستے میں ہرگز دم نہ لینا کہ منزل انھی کو ملتی ہے جو مسافران۔ شب پیزار ہوتے ہیں۔

مفہوم اس پیغام کا یہ ہے کہ منتظمین سے کہہ کہلا کر یہ کلاسیکل اردو کا ایک اور دھاگہ کھول لو اور یہ پیغامات اس میں منتقل کئے بغیر چین سے نہ بیٹھنا۔ جو سچ پوچھو تو خود مجھے بڑا شوق دامنگیر رہا کہ دھاگہ ہو کوئی ایسا کہ جس میں پھر خوشہ چینان۔ اردو کریں تازہ وہ انداز پرانا اردو لکھنے کا کہ مدتیں گزریں اور آنکھیں ترس گئیں ایسی اردو پڑھنے کو۔ اب تو نئے دور ہیں نئے لوگ ہیں جانے کیا شوق پالے بیٹھے ہیں۔ جو بولتے ہیں تو ہم کہہ اٹھتے ہیں تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے۔

یہ موئے فرنگی بڑا اتراتے پھرتے ہیں اپنی زبان پر۔ دینا ان کو جواب ذرا اور سمجھانا کہ ہم بھی اپنے منہ میں اپنی ہی زبان رکھتے ہیں۔

سیفی بھائی سلام مسنون آپ کی بے پر کی بھی خوب ہے۔ :)

یوں تو اردو محفل میں اساتذہ کی کمی نہیں۔ جو مشہور و معروف ہیں وہ تو ہیں ہی ایک آپ اور شامل ہو گئے۔ مزاق نہین کر رہا آپ کی یہ صلاح کسی استاذ کی صلاح سے کم نہیں ہے۔

ویسے دماغ میں تو میرے بھی آیا تھا کہ کچھ کلاسیکی ادب جیسا دھاگہ ہونا چاہئے۔ پر اس خوف سے کہ کہیں وہ دھاگہ اس سال کے سنسان ترین دھاگے کا خطاب نا جیت جائے، ایسا کچھ کرنے سے باز رہا۔ اب چند احباب راضی ہوں ایسا لکھنے کو تو ایک تانا بانا اس نام سے شروع کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اتنی تو آزادی ہے ہی ہر خاص و عام کو۔ منتظمین تک بات پہونچانے کی نوبت تو تب آئے گی جب کوئی زمرہ بنانا ہو۔

ایک اور پر دار بات یہ کہ میں اپنی پوسٹس بکھیرنے کے حق میں نہیں ہوتا۔ میری سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم تانے بانے میں زیادہ سے زیادہ پوسٹس سموئے جائیں۔ ورنہ تصفح ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔
بقول شاعر

کچھ بلبلوں کو یاد ہے کچھ قمریوں کو حفظ
عالم میں ٹکڑے ٹکڑے میری داستاں کے ہیں

اپنے اس دعوے کی چند مثالیں دیتا ہوں۔
چھو منتر: میرا شروع کردہ شعبدوں کا دھاگہ (کچھ لوگ ایک ایک شعبدے کیلئے الگ دھاگے بنانے کو فوقیت دینگے)
میری تک بندی: میری ساری تک بندیاں ایک جگہ (عموماً لوگ ایک ایک شعر کے لئے الگ دھاگے بناتے ہیں)
بے پر کی: جو کہ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔

اب اس بے پر کی کو تھوڑا اور آگے اڑاتے ہیں۔

یوں تو لوگوں کا اپنا اپنا انداز کہ کسے کونسا طریقہ بھا جائے پر سچ پوچھئے تو بات بے بات دھاگے شروع کرنا مجھے ایسے لگتا ہے جیسے تانے بانے نا ہوئے سرکاری میٹنگیں ہو گئیں۔ جہاں میٹنگ کیسے بلانی ہے اس کے لئے بھی میٹنگ بلا لی جاتی ہے۔ اور ان میٹنگوں میں فیصلے بھی کیسے ہوتے ہیں کہ اگلی میٹنگ کی تاریخ طے ہو جاتی ہے۔

(بھئی یہ خالص بے پر کی ہے اگر کوئی پر دار بات نکال سکیں تو یہ آپ کا اپنا کمال ہے۔ ہاں برا کسی بات کا مت مانئے گا) :)
 
کسی غیر مسلم بزرگ نے نام نہاد مسلمانوں کی ایک جماعت سے قرآن کے ایک نسخے کی فرمائش کی۔ کار ثواب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے لوگوں نے انہیں ان کی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن کا ایک نسخہ مہیا کرا دیا۔

چند روز بعد موصوف واپس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے یہ والا نہیں بلکہ دوسرا قرآن دیجئے!

لوگوں نے کہا قرآن تو ایک ہی ہے اور اسی کے نسخے بلا کم و کاست جوں کے توں بے شمار دستیاب ہیں پر کوئی دوسرا قرآن موجود نہیں۔ وہ تو بائبل وغیرہ کے ساتھ ایسا ہے کہ اس کے کئی قسم کے نسخے دستیاب ہیں۔

بوڑھے نے کہا نہ، آپ لوگ کچھ چھپا رہے ہیں۔ دوسرا قرآن ہے ضرور!

لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے وثوق سے یہ بوڑھا اس بات پر کیوں اڑا ہے اور دوسرے قرآن کے وجود پر کیوں بضد ہے۔

آخر کار تھوڑی دیر بعد بوڑھے نے کہا کہ اس قرآن میں تو ساری باتیں بہت پاکیزہ اور درست ہیں۔ اس کو ماننے والے تو بہت اچھے لوگ ہوتے ہوں گے۔ ان کا معاشرہ تو انتہائی سلجھا ہوا ہوتا ہوگا۔ پر مجھے وہ قرآن چاہئے جس پر آپ لوگ عمل پیرا ہیں۔

وہ نسخہ کہاں ہے؟؟
 
کہتے ہیں کہ ایک شخص کمانے کی غرض سے اپنے گاؤں سے دور کسی شہر کو گیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے واپسی کی ٹھانی اور گھر تار بھیج کر اطلاع کرا دی کہ فلاں روز گھر آؤں گا۔

خیر اس گاؤں سے چند کیلو میٹر کی دوری پر ایک ریلوے اسٹیشن تھا جہاں سے ایک کچی سڑک گاؤں کو جوڑتی تھی۔ ٹرین آ کر پلیٹ فارم پر رکی تو وہ شخص اس سے باہر آیا اور چاروں سمت نظریں دوڑائیں کہ سامان لیجانے کے لئے گھر سے نوکر اور استقبال کے لئے دوسرے افراد خانہ ضرور آئے ہونگے۔

تھوڑی دیر بعد اس کی نگاہ نوکر پر جا پڑی جو کہ منھ لٹکائے مردہ چال سے ادھر ہی بڑھا آ رہا تھا۔ قریب پہونچنے پر جو مکالمہ سننے میں آیا ملاحظہ فرمائیے۔

پردیسی: کیا ہوا منھ کیوں لٹکائے ہو۔ باقی لوگ کہاں ہیں۔
نوکر: حضور آپ کا کتا مر گیا۔
پردیسی: میرا کتا مر گیا! کیسے؟
نوکر: لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے گھوڑے کا سڑا گوشت کھا لیا تھا۔
پردیسی: گھوڑے کا سڑا گوشت! کہاں سے آیا گھوڑے کا سڑا گوشت؟
نوکر: وہ مالک کیا ہے کہ جب اصطبل میں آگ لگی تو لوگ گھوڑے کو اس سے زندہ نکال پانے میں ناکام رہے۔
پردیسی: کیا کہا! میرا گھوڑا مر گیا! کیسے آگ لگی اصطبل میں؟
نوکر: حضور اس وقت میں تو تھا نہیں پر جو موجود تھے وہ بتاتے ہیں کہ جب گھر میں آگ لگی تو ایسی بے قابو ہوئی کہ اصطبل تک جا پہونچی۔
پردیسی: کیا بکتے ہو گھر میں آگ لگ گئی! کیسے؟
نوکر: ہاں حضور آپ والد صاحب کا جنازہ گھر سے نکل رہا تھا تو بے دھیانی میں مشعل کی آگ دروازے کے پردے کو جا لگی۔
پردیسی: بند کرو یہ بکواس! میرے والد کا انتقال کیسے ہوا آخر؟ کیونکر ہوا؟
نوکر: حضور میں کیا بتاؤں ویسے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس عمر میں جوان بہو کی ناگہانی موت کی خبر برداشت نہ کر سکے اور دل کا دورہ پڑ گیا۔
پردیسی: باپ رے!!!!!

ڈاکٹر بلاؤ شاید دل کا دورہ پڑا ہے!!
 
عرصہ ہوا کسی بنگالی محترم نے یار دوستوں کی کسی محفل میں ایک شعر سن کر اپنی ڈائری میں محفوظ کر لیا تھا۔ کیوں کہ اس پر بہت تالیاں بجی تھیں۔ :)

شعر کچھ یوں تھا۔

نہ شکوہ کرتا ہوں نہ گلہ کرتا ہوں
تو سلامت رہے بس دعا کرتا ہوں


کسی اور تقریب میں موصوف کو موقع ملا کہ بھئی کچھ سنائیں آپ بھی۔ تو اپنی ڈائری کھول کے یہی شعر عرض کر بیٹھے۔ پر اپنے لہجے میں۔

نہ شوکھا کرتا ہوں نہ گیلا کرتا ہوں
تو شالا مت رہے بد دعا کرتا ہوں

تالیاں اس بار بھی بجیں۔۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
لنڈا ڈاند

بعنوان " لنڈا داند" (دم کٹا بیل)

دسببرکی رات کی تاریکی اس گاؤں میں بھی بہت گہری تھی ہر طرف ہو کا عالم۔۔۔ چوہدری کے ڈیرے پہ چور آئے گائیں بھیسیں بشمول " لنڈا داند" کھولیں اور چل پڑے۔۔۔۔ٹرک ٹریکٹر کا زمانہ تو تھا نہیں کے چند لمحوں میں یہ جا وہ جا ہوتے۔۔۔"سو اللّہ کے بھروسے چل پڑے" کہ جتنی جلدی ہو سکے چوہدریوں کے متوقع عتاب سے جتنا ہو سکے اتنا دور بھاگ سکیں۔۔۔با آراز بلند دعائیں مانگتے کے بس اک دفعہ کامیاب ہو جائیں تو اس " لنڈے داند" کو اللّہ کی راہ میں قربان کر ڈالیں گے۔۔۔۔۔۔
صبح ہوئی گاؤں میں تو شور مچ گیا چوہدریوں کی چوری ہو گئی،،چوہدری ایک تو نقصان ہی پریشان دوسری جانب یہ فکر لاحق یہ مویشی ہی تو طرّح امتیاز تھا وہ بھی نہ ملے تو کاہے کی چوہدراہٹ کہاں کی چوہدراہٹ۔۔۔اے اللّہ بس ایک بار جانور مل جائیں وہ "لنڈا داند" تیری راہ میں قربان کر دیں گے۔۔۔۔۔۔۔
حالت تو "لنڈے داند" کی دیدنی تھی آگے کنواں تو پیچھے کھائی ۔۔چوروں کے ارادے تو سامنے دکھ ہی رہے تھے پیچھے مالکوں کی منّتوں کا بھی بخوبی اندازہ تھا اسے۔۔۔کے اپنی حیثیت کا جو مکمل ادراک تھا "لنڈا " جو ٹہرا ہر طرف سے پسنا اسے ہی تھا۔۔۔:(
ایک چھوٹی سی کہانی حاضر خدمت ہے۔۔۔۔۔اسے پڑھ کر آپ کا ذہن کیا کیا سوچتا ہے ضرور بتائیے گا;)
یہ لنڈا داند تو میرے اپنے لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جو چوہدریوں اور چوروں میں پھنسے ہوئے ہیں
 
بعد جاگنے کے از عرصہ طویل بیہوشی و غفلت کے۔ دیکھا تو رنگ سماں بدلا تھا۔ کہ ہر شے تھی چادر اجنبیت کا اوڑھے سوائے کچھ زنانہ خاکوں کے کہ جن کا لباس بے تار تھا اور شفاف منظر آر پار تھا۔ کہ آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ زبان اجنبی سبھی کے منھ میں تھی کہ لفظ مفہوم سے عاری تھے جو کہ لگاتار جاری تھے۔ ما سوا اشاروں کے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ تاریخ پوچھا تو سن عیسوی میں تین سیکڑے زیادہ تھے۔ عرصہ چند اجنبیت کے دور ہونے، فکر و فن سے آشنائی اور زبان سمونے میں لگے۔ دوست یار بنے تو داستان آگے بڑھی۔

القصہ بعد بہزار اصرار یاراں راضی بر شمولیت تقریب ہوئے کہ جشن سال نو تھا۔ بھیڑ مرد و زن کی جمع ایک نیچی چھت کے کمرے میں ہوئی لباس زریں زیب تن کئے ہوئے۔ ہر چہار جانب مخملیں قالین بچھے تھے اور مسندیں لگی تھیں کہ مکھن تازہ کی ملائمیت بھی ان پر شرمسار تھی۔ سالخوردہ مصوری کے نمونے زینت دیوار تھے۔ مومی شمعیں کمرے کے گوشوں میں جا بجا روشن تھیں کہ ملگجا سا اندھرا زخمی زخمی سا دکھتا تھا۔ موسیقی کی لہریں مدھم سروں میں محو رقص تھیں۔ مشروبات و نمکیات سے ضیافت جاری تھی بدست غلمان کے۔ پوچھا کہ یہ گوشہ بشاہانہ ناز ونعم ہے کیا؟ جواب اس اجنبی زبان میں کوئی پب یا بار تھا۔

القصہ ابھی حیران حیران سے کسی گوشے کی تلاش میں تھے کہ اچانک موسیقی اونچی ہونے لگی کہ بڑھ کر نا قبل برداشت ہو گئی۔ حاضر تمام پاؤں موسیقی کے ساتھ از خود ہم آہنگ ہو گئے۔ مسندوں پر ڈھیر مرد و زن شکار بے خودی کے ہوئے کہ ان کے بدن تیرتے ہوئے یکجا خالی جگہ میں ہوئے۔ اور محو رقص بے ہنگم ہوئے۔

از بس کہ مصروف مشاہدہ تھا۔ ایک گوشے میں بیٹھا سب سے علیحدہ تھا۔

بوتل سبز رنگ و جام زرد رنگ کہ ان کا عرق آنکھوں میں رنگ سرخی بھرتا تھا کہ یہ رنگ باعث دلپسندی یار تھا۔ انسان کہ زیب تن لباس بے شکن لحظے بھر میں وحشی ہوتا تھا۔ حلق سوکھے تو شفاف پانی بھی مشکوک و مشتبہ ہو۔ دعوت و ترغیب کا عالم یہ کہ گرنا تھک کر اور پھر سے کھینچا جانا کہ شریک ہنگامہ ہو۔ فرق شاہ و غلام، ادنیٰ و اولیٰ غرض مرد و زن تک سے مٹ چکا تھا۔ کہ خمار مشروبات و جنس مخالف دو چند تھا۔ بے ہنگم اچھل کود کہ ہم آہنگی جن کی مخزن تھی ہنگامے کی۔ اللہ، خدا، رام، رحیم، بھگوان، کرشنا، گاڈ کہ یہ الفاظ عاری از مفہوم تھے بجز لے، سر اور تال کی خانہ پری کے۔ آنا کئی زاویوں سے روشنی اور اندھیرے کے سایوں کا مسکراتے چہروں کو خبیث کر دیتا تھا۔ چیخ کہ دیواروں سے نکلتی تھی اور سکون ہوا کی پرتوں کا ہوتا تھا غارت کہ اس کی کراہ اس اجنبی زبان میں نام پاتی تھی میوزک کا۔

وقت نکلنے کے اس مقام نیم تاریک سے ایک کوندا بجلی کا وارد خیال ہوا کہ جس کی زبان بھی اجنبی تھی "آئی ایم ٹو اولڈ ٹو ڈانس"۔۔۔۔
 

زین

لائبریرین
اوففففففففففففف اللہ ۔ ہم بے چاروں کو سمجھنے کے لیے اب کیا کرنا پڑے گا؟

ویسے بہت اچھا سلسلہ ہے ۔
اس طرح‌ اگر کچھ مزید پرانے اور اچھے دھاگے ہیں‌تو ان کو بھی آگے لایا جائے تو اچھا ہوگا۔
 
اگر ایک بار باغ‌ و بہار پڑھ لیں تو یہ شکایت نہیں رہے گی بیٹا۔ اور اگر طلسم ہوش ربا پڑھ لیا تو اپنی بات واپس لے لیں گی۔
 
Top