مشورہ از سلسلہ تعلیم

حلیمہ

محفلین
السلام علیکم
امید ہے کہ تمام اراکینِ محفل خیریت سے ہوں گے۔میں کافی عرصہ سے محفل گردی کرتی رہی ہوں۔آج ایک مشورہ درکار تھا تو سوچا کہ محفلین سے ہی کیا جائے۔امید ہے کہ الجھن دور ہو گی۔
قصہ یہ ہے کہ میں نے آئی سی ایس کیا اور پھر2015 میں گریجویشن کے امتحانات دیے۔غلطی یہ ہوئی کہ غلطی سے ایک دم ہی گریجوایشن لیول پر معاشیات رکھ بیٹھی کہ کوئی اور اچھا مضمون کالج میں اس وقت میسر نہیں تھا سوائے اکنامکس اور علم التعلیم و ایجوکیشن ٹائپ مضامین کے۔لیکن لیکچررر چھٹی پر چلی گئیں۔قصہ مختصر کہ ایک لفظ نہیں پڑھا اور پیپر نہیں دیا۔سپلیمنٹری میں ٹیوشن رکھ کر تیاری کی تو تب سے اب تک فیملی پرابلمز اس قدر ہوئیں کہ پیپر کلئیر نہیں کر سکی۔اب لاسٹ چانس 2017 سالانہ میں ہے۔اب سب کا کہنا ہے کہ میں اس قصہ کو بھول جاوں اور بی ایس سی کر لوں۔لیکن پہلا مسئلہ کہ آئی سی ایس سے 3 سال کا وقفہ رہا تو مجھے نہیں لگتا کہ اب اتنا اچھا کر سکوں گی۔دوسرا مسئلہ کہ اب فیملی مسائل کی بنا پر اسلام آباد سے کہروڑ پکا شہر میں شفٹ ہو گئے ہیں اور یہاں کوئی اچھا تعلیمی ادارہ نہیں اور نہ ہی میں روز بہاورلپور آ جا سکتی ہوں۔ہوسٹل میں رہنے کا بھی کوئی سین نہیں۔تیسرا اور اہم مسئلہ کہ مجھے اپنے تعلیمی سال ضائع ہونے کا بہت دکھ ہے۔ سمتبر 1996 کی پیدائش ہے اور اب بیس برس کی ہوں۔بی ایس سی کے بعد بائیس برس کی ہو جاوں گی۔پھر اگر بی ایس سی کے ساتھ بی اے کا پیپر لاسٹ چانس میں دے دیتی ہوں تو اگر کلئیر ہو گیا تو مجھے پھر ڈبل بی اے کا کیا فائدہ؟؟
مجھے یہ پوسٹ کرتے ہوئے بہت عجیب محسوس ہو رہا ہے کہ کیونکہ کبھی میں دوسروں کو تعلیمی مشورے دیا کرتی تھی اور آج میری حالت اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟؟
 
حلیمہ سب سے پہلے تو آپ کو محفل میں خوش آمدید کہتی ہوں
اس سوال کا جواب تو جاسمن آپی ہی بہتر انداز میں دے سکتی ہیں کیونکہ وہ ابھی تک درس و تدریس سے وابستہ ہیں
 

Tahir Shahzad

محفلین
وعلیکم سلام،

اس سے پہلے کہ کوئی جواب تجویز کیا جائے۔ ہم کچھ دیر ک لئے سوچتے ہیں کہ جو تعلیم آپ حاصل کرنا چاہتی ہیں اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ بی اے/بی ایس سی کا مقصد صرف سند حاصل کرنا ہے؟ یا سبھی کرتے ہیں تو ہم بھی کر لیتے ہیں والی بات ہے؟
کہتے ہیں کہ منزل خوشگوار ہو تو راستوں کی پرواہ نہ کرو اور اگر راستہ خوشگوار ہو تو یہ ضرور دیکھ لو کہ کس منزل کو جاتا ہے۔
بی اے یا بی ایس سی کوئی منزل نہیں ہے۔ لہذا پہلے ہمیں منزل کا تعین کرنا ہے۔ اپنا مقصد واضح کرنا ہے۔ اور خود کو جانچنا ہے کہ ہم اپنے مقصد کی خاطر کتنی قربانی دے سکتے ہیں۔ ہم کچھ مثالیں لیتے ہیں۔

نمبر ۱: آپ کو اردو ادب سے لگائو ہے تو آپ بی اے اردو کر لیں، اور کالج اچھا نہ بھی ملے آپ کو اس محفل کے ذریعے اور دوسرے ذرائع سے آج کے شعرا اور نقاد میسر ہو سکتے ہیں۔ آپ آپنا وقت دے کر بہترین نتائج حاصل کر سکتی ہیں اور مستقبل میں پیشہ کے طور پر درس و تدریس سے منسلک ہو سکتی ہیں۔

نمبر ۲: آپ کو کمپیوٹر اور آئی ٹی میں دلچسپی ہے [اس کے لئے آپ کی منطق / لاجک ، امیجنیشن ، ریاضی اچھی ہونی چاہئیے] ۔ آپ بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کر لیں۔ اس کے علاوہ آن لائن مفت کورسز ہیں جو آپ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ دور ہذا میں یہ واحد شعبہ ہے جس میں سند کے بجائے کام کے معیار کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کو پروگرامنگ / ڈیجیٹل گرافکس/ کوالٹی / مینیجمنٹ میں سے کسی بھی شعبے میں عبور حاصل ہو جائے تو آپ کو روزگار کی پریشانی نہیں ہو گی۔

المختصر آپ وہ بنیں جس میں آپ اچھی ہیں یا جس چیز کا آپ کو شوق ہے۔ اسی طرح دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں ورنہ بہت مشکل ہوگا۔ آپ زیادہ دیر تک کسی غیر مانوس چیز میں دلچسپی قائم نہیں رکھ سکیں گی۔

باقی رہ گئی عمر کی بات تو کہتے ہیں دیر آئے درست آئے، اگر آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے کسی بھی شعبہ میں جائیں گی [ماسوائے کسی سرکاری محکمہ میں] تو آپ کو عمر کے بجائے قابلیت پر پرکھا جائے گا۔ اور آپ کے سال ضائع نہیں ہوئے، آپ نے کچھ سیکھا ہی ہے ان سالوں میں، کون جانے کب یہ تجربہ اور تعلیم زندگی کے کسی موڑ پر آپ کے کام آجائے۔

- اپنے مقاصد کا تعین کریں
- اپنی پسند کے شعبہ کا انتخاب کریں
- خدا کا نام لے کر آغاز کر دیں اور چاہے مشکلیں آئیں اپنے کام کو ادھورا نہ چھوڑیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
حلیمہ! طاہر شہزاد نے صائب مشورہ دیا ہے۔ پہلے یہ سوچیں کہ آپ نے کس مضمون کو آگے لے کے جانا ہے۔ اگر اُس مضمون میں آگے پڑھنے کے لیے شرط ہو کہ بی اے اس میں کرنا لازمی ہے تو آپ بی اے میں وہی ایک مضمون لیں۔ اور باقی مددگار مضامین ایسے لیں جو آپ کو مارکس دے سکیں۔
معاشیات بغیر استاد سمجھنی بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔ بی ایس سی آپ خود بتا رہی ہیں کہ کہروڑ پکا میں کالج اچھا نہیں اور آپ کے لیے بہاولپور جانا مشکل۔ شاید ٹیوشن بھی مہیا نہ ہو سکیں۔
اگر پرائویٹ طور پہ کرنا ہے تو آسان مضامین کا انتخاب کریں۔اگر ایم اے میں یہ ضروری نہیں کہ اسی مضمون میں بی اے بھی ہو تو پھر کوئی بھی مضامین لے لیں۔
اب آپ کچھ بولیں تو بات آگے چلے۔۔۔۔
 

حلیمہ

محفلین
سب سے پہلے بہت معذرت کہ گھر سے باہر تھی،دیکھ نہیں سکی اور پھر آپ سب کا شکریہ۔
وعلیکم سلام،

اس سے پہلے کہ کوئی جواب تجویز کیا جائے۔ ہم کچھ دیر ک لئے سوچتے ہیں کہ جو تعلیم آپ حاصل کرنا چاہتی ہیں اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ بی اے/بی ایس سی کا مقصد صرف سند حاصل کرنا ہے؟ یا سبھی کرتے ہیں تو ہم بھی کر لیتے ہیں والی بات ہے؟
کہتے ہیں کہ منزل خوشگوار ہو تو راستوں کی پرواہ نہ کرو اور اگر راستہ خوشگوار ہو تو یہ ضرور دیکھ لو کہ کس منزل کو جاتا ہے۔
بی اے یا بی ایس سی کوئی منزل نہیں ہے۔ لہذا پہلے ہمیں منزل کا تعین کرنا ہے۔ اپنا مقصد واضح کرنا ہے۔ اور خود کو جانچنا ہے کہ ہم اپنے مقصد کی خاطر کتنی قربانی دے سکتے ہیں۔ ہم کچھ مثالیں لیتے ہیں۔

نمبر ۱: آپ کو اردو ادب سے لگائو ہے تو آپ بی اے اردو کر لیں، اور کالج اچھا نہ بھی ملے آپ کو اس محفل کے ذریعے اور دوسرے ذرائع سے آج کے شعرا اور نقاد میسر ہو سکتے ہیں۔ آپ آپنا وقت دے کر بہترین نتائج حاصل کر سکتی ہیں اور مستقبل میں پیشہ کے طور پر درس و تدریس سے منسلک ہو سکتی ہیں۔

نمبر ۲: آپ کو کمپیوٹر اور آئی ٹی میں دلچسپی ہے [اس کے لئے آپ کی منطق / لاجک ، امیجنیشن ، ریاضی اچھی ہونی چاہئیے] ۔ آپ بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کر لیں۔ اس کے علاوہ آن لائن مفت کورسز ہیں جو آپ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ دور ہذا میں یہ واحد شعبہ ہے جس میں سند کے بجائے کام کے معیار کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کو پروگرامنگ / ڈیجیٹل گرافکس/ کوالٹی / مینیجمنٹ میں سے کسی بھی شعبے میں عبور حاصل ہو جائے تو آپ کو روزگار کی پریشانی نہیں ہو گی۔

المختصر آپ وہ بنیں جس میں آپ اچھی ہیں یا جس چیز کا آپ کو شوق ہے۔ اسی طرح دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں ورنہ بہت مشکل ہوگا۔ آپ زیادہ دیر تک کسی غیر مانوس چیز میں دلچسپی قائم نہیں رکھ سکیں گی۔

باقی رہ گئی عمر کی بات تو کہتے ہیں دیر آئے درست آئے، اگر آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے کسی بھی شعبہ میں جائیں گی [ماسوائے کسی سرکاری محکمہ میں] تو آپ کو عمر کے بجائے قابلیت پر پرکھا جائے گا۔ اور آپ کے سال ضائع نہیں ہوئے، آپ نے کچھ سیکھا ہی ہے ان سالوں میں، کون جانے کب یہ تجربہ اور تعلیم زندگی کے کسی موڑ پر آپ کے کام آجائے۔

- اپنے مقاصد کا تعین کریں
- اپنی پسند کے شعبہ کا انتخاب کریں
- خدا کا نام لے کر آغاز کر دیں اور چاہے مشکلیں آئیں اپنے کام کو ادھورا نہ چھوڑیں۔
طاہر بھائی بہت بہت شکریہ!مجھے آپ کے جواب سے بہت مدد ملی۔واقعی گریجوایشن کبھی بھی منزل نہیں ہے لیکن منزل کا راستہ ضرور ہے۔
تعلیم کا مقصد اگر ڈگری کا حصول ہی ہوتا تو میں کبھی بھی کئی اسناد کے حصول کے "قیمتی مواقع" ضائع نہ کرتی۔۔مسکراہٹ۔میرا مقصد معیاری تعلیم کا حصول رہا ہے اور ہے۔جو پڑھا سمجھ کر پڑھا۔ٹپاؤ کام البتہ فزکس میں کیا ہے کیونکہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔اب رہ گیا یہ مسئلہ کہ تعلیم کے حصول کا مقصد کیا ہے تو پہلی بات علم کی تشنگی و پیاس بجھانا اور دوسرا کام جاب کا حصول۔اس سے پہلے چونکہ ایسے حالات نہیں دیکھے تھے لہذا بے فکری کی زندگی تھی کہ جو پسند ہے پڑھیں گے۔ہم نے کون سا جاب کرنی ہے؟لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب میں خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بننا لازم سمجھتی ہوں تا کہ کل کو وہ اپنے خاندان کو سپورٹ کر سکیں۔
سال قبل میں آل راونڈر تھی۔مجھے ریاضی سے بہت دلچسپی تھی اور اردو ادب اور انگریزی بھی بہت پسند تھیں۔اگر آج یہ حالات نہ ہوتے تو میں بی ایس ٹی اینڈ آئی کرتی۔لسانیات میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔لیکن اب چار سال گھر سے باہر ہوسٹل میں رہنا نا ممکن ہے،کچھ فیسز اس دفعہ بڑھ گئی ہیں۔لہذا دوسرا چانس ایم اے انگلش تھا اور ہے(اب پہلے جیسا شوق نہیں رہا)۔لیکن اس میں بھی مجھے امید نہیں کہ کسی اچھی یونیورسٹی جوائن کر سکوں گی۔صادق وومن یونیورسٹی کا ابھی آغاز ہوا ہے۔معلوم نہیں کہ کیا صورتحال ہے؟پھر کسی عام ادارے سے ایم اے کے بعد اچھی جاب کا حصول مشکل ہے۔لیکن تا حال یہی قرار پایا ہے کہ وہاں سے ایم اے انگلش کروں۔لیکن میری منزل ایم اے انگلش نہیں بلکہ اسی مضمون میں اعلی تعلیم کا حصول ہے۔خیریہ تو رہی مجموعی رائے۔لیکن میں چاہتی ہوں کہ ریاضی یا کمپیوٹر بھی ساتھ لیکر چلوں تا کہ اپنا شوق بھی پورا کر سکوں اور جب موقع ملے ماسٹرز کر لوں۔کیا پتا ایم اے انگلش کیا رنگ لائے؟؟
یعنی بی ایس سی یا بی سی ایس میرا اپنا شوق ہے اور اس کو میں ساتھ ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہوں۔جہاں تک آپ نے کہا ہے تو انٹر لیول تک اتنی گہرائی میں تو کمپیوٹر پڑھائی جاتی ہے نہ ریاضی کہ میں پرکھ سکوں کہ مجھ میں اس مضمون کو پڑھنے کی کتنی قابلیت ہے؟دوسری یہ بات کہ فی الحال تو مجھے اپنا ذہن بالکل صاف کاغذ محسوس ہوتا ہے لیکن امید ہے کہ شروع کرنے پر بہت مشکل نہیں ہو گی۔مجھے کمپیوٹر میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی ریاضی میں ہے۔اس حوالے سے آپ کیا مشورہ دیں گے؟؟دوسری یہ بات کہ میں یہ پڑھائی ورچوئل یونیورسٹی سے جاری رکھ سکتی ہوں۔ورچوئل کے متعلق آپ سب کا کیا تجربہ ہے؟؟
حلیمہ! طاہر شہزاد نے صائب مشورہ دیا ہے۔ پہلے یہ سوچیں کہ آپ نے کس مضمون کو آگے لے کے جانا ہے۔ اگر اُس مضمون میں آگے پڑھنے کے لیے شرط ہو کہ بی اے اس میں کرنا لازمی ہے تو آپ بی اے میں وہی ایک مضمون لیں۔ اور باقی مددگار مضامین ایسے لیں جو آپ کو مارکس دے سکیں۔
معاشیات بغیر استاد سمجھنی بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔ بی ایس سی آپ خود بتا رہی ہیں کہ کہروڑ پکا میں کالج اچھا نہیں اور آپ کے لیے بہاولپور جانا مشکل۔ شاید ٹیوشن بھی مہیا نہ ہو سکیں۔
اگر پرائویٹ طور پہ کرنا ہے تو آسان مضامین کا انتخاب کریں۔اگر ایم اے میں یہ ضروری نہیں کہ اسی مضمون میں بی اے بھی ہو تو پھر کوئی بھی مضامین لے لیں۔
اب آپ کچھ بولیں تو بات آگے چلے۔۔۔۔
بہت شکریہ۔اوپر طاہر بھائی کے جواب میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔آپ کی رائے درکار ہے۔
 

Tahir Shahzad

محفلین
خدا آپ کو خوشیاں نصیب کرے اور آپ کے ارادوں میں کامیاب کرے۔ میرا مقصد اپنی سی کوشش کرنا ہے باقی کیا بہتر ہے وہ خدا ہی جانتا ہے اور اپنی کہانی کی تکمیل کے لئے آپ کو اس مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ پھر زندگی کی کسی شام آپ کو احساس ہو گا کہ شاید مجھے یوں نہیں یوں کرنا چاہئے تھا۔ یا شاید میں نے ٹھیک کیا۔ آللہ کا شکر ہے۔ جو ہمت اور عزم والے لوگ ہوتے ہیں وہ حالات کو الزام نہیں دیتے۔ مشکل حالات سونے کو کندن بنانے کے لئے ہی آتے ہیں، اب یہ انسان کی مرضی کہ وہ راضی بہ رضا ہو یا شاکی ہو۔ آپ نے ایک عزم کیا ہے تو یقینا آپ بہادر بھی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں پر نظر ڈالیں اور زیادہ مت سوچیں۔ جس در سے امید ہے، اور جو بھی موقع مل رہا ہے اسے بروئے کار لائیں نہ کہ ٹپ ٹاپ جامعات کا سوچ کر احساس کمتری کا شکار ہوں۔

ابتدائی تعلیم میں سبھی مضامین کو ساتھ لے کر چلا جا سکتا ہے مگر جونکہ اعلی تعلیم میں آپ کسی ایک شعبہ کے فلسفہ کو سمجھ رہے ہوتے ہیں تو یہ نسبتا کٹھن کام ہے۔ ایسے میں آپ ریاضی، کمپیوٹر اور انگریزی کو ایک ساتھ لے کر نہیں چل سکیں گی۔

جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ کا مقصد جاب کا حصول بھی ہے تو اس لئے ریاضی کو نکال دیں۔ اس ماحول میں رہتے ہوئے کوئی عملی ریاضی سمجھانے والا ملے گا وہ ریاضی جو کائنات کے راز تسخیر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اور نہ ہی کالج میں لیکچرر سے زیادہ جاب ملنی ہے۔
میرا پسندیدہ مضمون کمپیوٹر ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ آپ اگر کمپیوٹر کی پراگرامنگ یا گرافکس میں تھوڑی سی بھی مہارت حاصل کر لیں تو گھر بیٹھیں روزی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس شعبہ میں اور بھی بہت سی سمتیں ہیں۔ بی سی ایس اور پھر ایم سی ایس کر کے جاب شروع کی جاسکتی ہے۔
انگریزی کے میں ایم اے کرلیں، اچھی بات ہے۔ مگر اصل بات یہ نہیں کہ آپ نے کس جامعہ سے ایم کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا آپ نے صرف امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے کتابی انگریزی پڑھ کر یا آپ نے کالج یونیورسٹی کے علاوہ بھی انگریزی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ کتنے ناول پڑھے ہیں انگریزی کے، کتنی فلمیں دیکھی ہیں انگریزی کی۔ انگریزی میں مہارت کے ساتھ دو اور کام کر لیں تو یقینا آپ کو جاب کی پریشانی نہیں ہو گی۔ پہلا کام presentation دینے میں مہارت اور دوسرا کام لوگوں کو psychologically سمجھیں۔ ایم اے انگریزی کی بعد آپ لیکچرر تو بن ہی سکتی ہیں اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں میں presenter یا mentor بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ SPELT ایک ادارہ ہے ان کے ساتھ منسلک ہوں۔
جہاں تک ورچوئل یونیورسٹی کی بات ہے تو میرا اپنا تجربہ نہیں مگر کچھ لوگوں نے وہاں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ یقینی طور پر ان کا طریق کار مختلف ہے۔ مگر آگے کی زندگی میں آپ کو خود پر بھروسہ کرنا ہے نہ کہ اداروں پر۔
جامعات کا نظام تعلیم مختلف ہوتا ہے مگر میں جانتا ہوں جو لوگ کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ انٹرنیٹ سے بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں اور اپنی استعداد بڑھاتے ہیں۔
 
Top