کیا قربانی کرنا ظلم ہے؟؟!

سرور احمد

محفلین
کیا قربانی کرنا ظلم ہے؟
قربانی:قُرْبَانْ سے ہے،صراح میں لکھا ہے"قُربان بالضم وھو ما یتقرب بہ الی اللہ تعالی..... یقال:قربت للہ قربانا.
یعنی قربان اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتا ہے... چنانچہ کہا جاتا ہے:"قربت اللہ قربانا..
چونکہ قربانی سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس لیے اس فعل کا نام بھی"قربانی"ہوا.(احکامِ اسلام عقل کی نظر میں)
قربانی کا حکم خود اللہ تعالی نے دیا ہے"فصل لربک وانحر"پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو...
اور خود اللہ تعالی نے جانوروں کا گوشت کھانا حلال فرمایا ہے"والانعام خلقھا لکم فیھا دفأ ومنافع ومنها تأكلون"اور چوپائے اسی (اللہ)نے پیدا کئے جن میں تمہارے لیےسردی سے بچاؤ کا سامان ہے، اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں، اور انہیں (جانوروں)میں سے بعض کو تم کھاتے ہو!
قربانی رب کائنات کی طرف سے بشکل فریضہ عطا کردہ ایک اہم انعام ہے ...جس کی ادائیگی ہر صاحب نصاب پر ضروری ہے... قربانی سے محض اپنی بندگی کا اظہار اور خود کو اللہ کے لیے قربان کردینے کا جذبہ معلوم ہوتا ہے... نہ اللہ کو قربانی کے جانوروں کی کھالیں پہونچتی ہیں... نہ ان کے خون اور نہ ہی گوشت! لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم... لیکن آج تقوی کم اور دکھاوا زیادہ ہوگیا ہے خود سوچیے کہ اللہ تعالی تک کیا پہونچتا ہوگا!!
تمام دنیا میں یہ دستور ہے کہ چھوٹی اور ادنی چیزوں کو بڑی اور اعلی چیزوں پر قربان کردیا جاتا ہے جیسے بدن کے کسی حصے میں پوائیزن ہوجائے تو اس حصے کو پورے بدن کی حفاظت کے لیے قربان کردیا جاتا ہے... کوئی مہمان آجائے تو گھر میں موجود مرغی بکری اور دوسری قیمی چیزیں اس کے لیے قربان ہوجاتی ہیں...
جو لوگ اسے ظلم کہتے ہیں اور جیو ہتھیا کا الزام لگاتے ہیں خود ان کے ہی ہاتھوں میں مچھر مار بیٹ منٹن کثرت سے موجود ہوتا ہے... چوہے مار دوا کثرت سے خریدتے ہیں...ان جانوروں کو اپنی حفاظت کے لیے مارنا یہ بھی قربان کرنا ہے...
کوئی بڑا آدمی نیتا یا لیڈر آجائے اس کی راحت کے لیے ملازموں کو جو سخت محنت کرنی پڑتی ہے یہ بھی قربانی ہے ...چھوٹے لوگوں کی راحت کو بڑے آدمی کی راحت کے لیے قربان کیا جاریا ہے...!
جب پوری دنیا کا یہی دستور ہے اور فطرت کا یہی اصول ہے کہ ادنی اعلی کے لیے قربان ہوگا تو اس پر اس طرح واویلا مچانا اور ذبح کو ظلم کہنا سراسر ظلم ہے...
جانور کا ذبح کرنا انہیں ظلم دکھائی دیتا ہے اور جب انسان ذبح کیے جاتے ہیں تو ؟؟؟
اعلی اعلی کو اشرف اشرف کا قتل کرتا ہے تو؟؟؟
کوئی فطرت کے خلاف انسانیت کا جنازہ نکالتا ہے تو؟؟؟
کیا یہ آواز اس وقت بھی آئی تھی جب انسانیت کا غیر فطری طریقے سے قتل کیا جارہا تھا... گجرات فساد میں یہ آوازیں کس ڈھیر تلے دبی ہوئی تھیں... مظفر نگر میں جب قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا تو "ظلم ظلم"چیخنے والے کہاں مرگئے تھے؟؟ آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کے ساتھ بھیمانہ سلوک کیا جارہا ہے... ان پر میزائیلیں چھوڑی جارہی ہیں... بم برسائے جارہے ہیں... گھروں میں گھس کر عورتوں بچوں کو مارا پیٹا جارہا ہے...دفاع کرنے والے نوجوانوں کا بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہے...کشمیر کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے... لیکن "رحم دل "لوگ اسی طرح خاموش ہیں جیسے کوئی ماردھاڑ والی فلم دیکھ رہے ہوں... کیا دنیا میں ہو رہا انسانوں کا یہ قتلِ عام ظلم نہیں ہے... کیا فطرت کے خلاف عمل نہیں ہے...
ایسے وقت میں "رحم دلوں" کی خاموشی اور قربانی کے موقعہ پر واویلا کچھ اور ہی کہتا ہے...انسانیت کا قتل جو کہ ایک غیر فطری عمل ہے اس پر خاموشی.... اور جانوروں کو فطرت کے تقاضے سے ذبح کیا جائے تو ظلم؟؟! خود جن کی مذہبی کتابیں قربانی کے فضائل اور اس کے طریقوں کے بارے میں بھری پڑی ہوں (چنانچہ دیکھیے: رگوید کے منڈل :۱، سوکت :۱۶۲، انوواک:۲۲ کے منتر ۴۰۳، ۹ تا ۱۶، ۱۸ تا ۲۰ منتروں میں ذبح کرنے ، گوشت کاٹنے ، پکانے، کھانے کا طریقہ تفصیل سے موجود ہے اور ساتھ ہی پکوان کا بھی ذکر مذکور ہے)وہ اگر اپنے ہی عقائد اور مذہبی کتابوں کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا...
ہم یہاں صرف ایک مثال دے کر باقی حوالہ پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں.. مثال سے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ بقیہ حوالوں میں کیا باتیں لکھی ہوں گی... اگر مزید تحقیق مقصود ہو تو کسی ہندو مذہب کے ماہر سے رجوع کر لیا جائے..
مثال:
وشنو دھرمو ترپران میں ہے کہ:وہ جو ان کا گوشت کھاتے ہیں جو کھانے کے لائق ہیں، وہ کوئی اپرادھ (گناہ) نہیں کرتا، چاہے وہ ایسا روزانہ ہی کیوں نہ کرے، کیونکہ کھانے کے لائق جانور اور نہ کھائے جانے کے لائق جانور کو برہما جی نے پیدا کیا ہے، قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے، اسے دیوی رسم و رواج کے مطابق دیوتاؤں کا حکم مانا جاتا ہے۔ (۳۰۳)
مزید حوالے :
”رگ وید“ (منڈل:۱۰، سوکت منتر:۱۳)اس میں بیل کا پکانے اور اس کو کھانے کا تذکرہ ہے
(۶-۱۱-۱۷)اس میں بھینس کے کھانے کا تذکرہ ہے.
(۱۰-۲۷-۲) (۱۰-۲۷-۱۳)ان دونوں میں بیل کے پکانے کا تذکرہ ہے.
رگ وید (۱۰-۸۵-۱۳)گائے کا تذکرہ ہے.
(۱۰-۸۶-۱۴)بیل کے گوشت اور اس کے فوائد بتائے گئے ہیں.
اتھروید کے کھنڈ ۹، انوواک: ۱۹، منتر:۶ اس میں گوشت کو جل (پانی)اور گھی سے پکا ہوا سب سے اعلی کھانا بتایا گیا ہے.
ہندو قانون کی بنیادی اور مسلمہ کتاب (مہابھارت انو شاسن پرو، ادھیائے:۸۸، شلوک :۵، منوسمرتی :۳۶۸)اس میں کہا گیا ہے کہ جو ایک خاص موقعہ پر گوشت نہیں کھائے گا وہ نرک میں جائے گا.
ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب’’اچھوت کون تھے اور اچھوت کیوں بنے‘‘کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کے ہندو گائے کو مقدس مانتے تھے... لیکن وہ اس کی قربانی بھی کرتے تھے اور اس کا گوشت بھی کھاتے تھے.
آج جب کہ سائینس سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے(جسے قرآن نے چودہ سو سال پہلے بتادیا تھا)کہ نباتات میں بھی زندگی ہوتی ہے وہ بھی سانس لیتے ہیں... کھاتے ہیں پیتے ہیں... احساس کرتے ہیں... تو کیوں یہ"رحم دل "ان کی قربانی کرتے چلے جارہے ہیں... اپنی آسائش کے لیے انہیں کاٹا جارہا ہے.... جنگل کے جنگل صاف کیے جارہے ہیں... کیا یہ ظلم نہیں ہے...آپ ایک مخلوق کو قربان کر رہے ہیں اپنی آسائش کے لیے...بنا اس مخلوق کے رب کی اجازت کے.... اور ہم ایک مخلوق قربان کر رہے ہیں لیکن اپنی آسائش کے لیے نہیں.. بلکہ اس مخلوق کو پیدا کرنے والے کے حکم اور اس کی اجازت سے....بس فرق یہ ہے کہ آپ جاندار غیرماشی کو قربان کر رہے ہیں.. اور ہم جاندار ماشی کو... بتائیے ظالم کون؟
یہ فطرت کا تقاضہ ہے کہ شرعا جن جانوروں کا ذبح کرنا جائز ہے انہیں ذبح کیا جائے.... یہی وجہ ہے کہ حلال جانور کثرت سے پیدا ہوتے ہیں... اللہ تعالی کا نظام ایسا ہے کہ جو چیز دنیا کے استعمال میں زیادہ ہے اور انسانوں کو جس چیز کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے... اسے اتنا ہی عام اور وافر مقدار میں پیدا کیا ہے... دو چیزیں انسانوں کے لیے بہت ضروری ہیں جن کی روز ہی ضرورت پڑتی ہے... ہوا پانی... دیکھ لیجیے یہ دونوں چیزیں کتنی عام ہیں... ان میں سب سے زیادہ ضروری ہوا تھی اسے ہر جگہ موجود کردیا اور پانی کی ہوا کے مقابلے میں کم ضرورت تھی اس لیے اسے متعینہ جگہوں پر ہی موجود کیا...
اگر حلال جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہوتا... اور خالق کائینات کو ان کا ذبح کرنا پسند نہیں ہوتا تو دوسرے جانوروں کی طرح ان کی نسل بھی ختم یا کمیاب کردیتا... لیکن حلال جانوروں کی کثرت اور ان کی افزائش بتاتی ہے کہ یہ کام رب کائینات کی منشا کے عین مطابق ہے...
نیز گوشت کھانا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے... انسان کو متوازن غذا کے لیے چھ اجزاء کی بنیادی طور پر ضرورت پڑتی ہے
1)لحمیات (Protein
حیاتین (Vitamins)
3)ریشہ دار اجزاء (Fibre)
4)نشاستہ (Carbohydrates)
5)معدنی نمکیات(Minerals salts)
6)شحمیات (Fat)
اور یہ چھ اجزاء گوشت میں وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں...سبزیوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن بہت کم...
اللہ تعالی کی مخلوقات میں غور کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ جن جانوروں کی فطرت میں اللہ تعالی نے گوشت خوری رکھی ہے ان کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں.. جیسے شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ شکاری جانور... اور جن کی فطرت میں گوشت خوری نہیں ہے ان کے دانت سپاٹ ہوتے ہیں جیسے بکری بھینس گائے بیل وغیرہ گھاس چارا کھانے والے جانور..
اور انسانوں کے دانتوں کو دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے اسے دونوں طرح سے بنایا ہے... نوکیلے بھی ہیں اور سپاٹ بھی... جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ہی گوشت کھانا ہے... جس کے لیے نوکیلے دانت ہیں.. اور سبزی وغیرہ کھانے کے لیے سپاٹ دانت...
اور گہرائی میں ہم جائیں گے تو دیکھیں گے کہ جن جانوروں کی عادت گوشت کھانے کی نہیں ہے انہیں اگر گوشت کھلادیا جائے تو ان کا نظام ہضم تحمل نہیں کرپاتا ہے وہ بدہضمی کا شکار ہوجاتے ہیں... کیونکہ ان کی فطرت میں گوشت خوری نہیں ہے اس لیے اللہ تعالی نے ان کے معدوں میں گوشت کو ہضم کرنے کا سسٹم ہی نہیں رکھا ہے... جبکہ انسان گوشت کھا کر اسے ہضم کر لیتا ہے... اگر اللہ تعالی کو انسانوں کی گوشت خوری پسند نہ ہوتی تو وہ ان کے معدوں میں گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا... نہ گوشت ہضم ہوتا نہ انسان گوشت کھاتے... انسان کے پیٹ میں گوشت ہضم ہورہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کو انسان کا جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھانا ناپسند نہیں ہے...
روح چھوٹی ہو یا بڑی بہر حال روح ہے.. وہ روح چھوٹے جسم میں رہے یا بڑے جسم میں بہر حال جان ہے... اور جان چیونٹی کی ہو یا انسان کی یا جانور کی سب کو ایک طرح کی ہی تکلیف ہوتی ہے... اس لیے ان "رحم دلوں"کو چاہیے کہ آج سے وہ گھاس پر نہ چلیں اس میں بھی جان ہوتی ہے... چلتے وقت خوب پھونک پھونک کر قدم رکھیں کہیں کوئی جانور چیونٹی مکھی کاکروچ وغیرہ پیر کے نیچے نہ دب جائیں اور بھیانک پاپ ہوجائے!!!
اتنا تو طے ہے کہ ہر جاندار کی موت اس کے متعینہ وقت پر ہی آتی ہے... نہ ایک پل آگے نہ ایک پل پیچھے... اگر ہم جانوروں کو ذبح نہ کریں تو بھی ان کی موت ہوگی لیکن یہ موت ان جانوروں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگی... تڑپ تڑپ کر ان کی روح نکلے گی... کبھی کبھی تو پورا دن اسی جانکنی کے عالم میں گزر جاتا ہے... پھر جب ہم ان کے موت کے وقت انہیں آسان موت دے دیں اور انہیں تڑپنے اور جانکنی کی لمبی مدت سے بچالیں تو بتائیے یہ ظلم ہوا یا ان جانوروں پر رحم؟؟!
رحم دلوں! رحم دلی کا رخ موڑو... تاکہ انسانیت کا کچھ بھلا ہوجائے!
 
Top