بلا عنوان۔۔۔۔۔۔۔۔ نور سعدیہ شیخ ۔

نور وجدان

لائبریرین
کبھی کبھی گھر میں رہتے ہوئے انسان گھر کی دیواروں کے رنگ کے پھیکے پڑنے سے ، سیم لگنے سے اور خستہ حالی سے انجان رہتا ہے ۔ یہ خستہ حالی اُس کی نظر آتی ہے مگر محدود ذرائع ہونے کی وجہ سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔

کچھ ایسا ہی حال ہم نے ''مذہب'' کا کردیا ہے ۔ اس کا رنگ پھیکا کرکے ، اس کو سیم کا شکار کرکے ،جب مذہب کے بارے میں سوال پوچھا جاتا ہے تو ہمارا جواب ''آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو'' تک آجاتا ہے ۔ ہمارا دفاع اتنا پرسنل ہوتا ہے کہ گویا مذہب صرف ہمارا ہے ۔

''اسلام کیا ہے ؟ دین محمدی صلی علیہ والہ وسلم کی بنیاد دو اصولوں پر قائم تھی : ایک روایت اور دوسرا اجتہاد ۔ اس لحاظ سے دین روایت کے ساتھ جڑا قدیم اور اجتہاد کے ساتھ منسلک نئے زمانے کے علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرتا زندگی گزارنے کے ڈھب کے بارے میں بتاتا تھا۔

اب ہم نے کیا کیا ہے : روایت کو اپنا کر اجتہاد کے دروازے بند کر دئے ہیں ۔ اور جب کوئی نئ بات سامنے آتی ہے ، ہم اس سے بھی لایعنی بات سامنے پیش کرکے یہ کھرا ثبوت دے دیتے ہیں کہ واقعی ہی ہمارا دین اتنا کمزور ہے جتنا کہ ایک ٹوٹی پھوٹی ریسرچ ظاہر کر رہی ہے ۔

امت مسلمہ کے چار نامور مجتہد جناب امام ابو حنفیہ ،امام شافعی ، امام مالک اور امام ابو حنبل تھے ۔۔۔ انہوں نے '' اجماع '' یعنی کنسیسز آف اوپینئن کے ذیعے وہ نئے قانوں متعارف کروائے جس سے دین کی نئی زندگی ملتی رہی ۔۔۔۔۔۔

پھر یوں ہوا : ہم غلام ہوگئے اور شیخ عبد الوہاب نے بدعتوں کے ڈر سے اجتہاد کے دروازے بند کر دیے ہیں ۔۔۔ ہمارے ڈر نے ہماری شناخت کی جڑیں اکھاڑ کر ہمیں ایک بریدہ درخت بنا دیا ہے۔ اس بریدہ درخت کی قدرو قیمت کے لیے تو ہم جان وارنے کو تیار ہیں مگر اس کے لیے سوچنے اور فکر کرنے سے بدعتیں بڑھ جائیں گے اور فرقہ بازی شروع ہوجائے گی۔ اس لیے ہم وہیں کے وہیں بیٹھے رہتے ہیں اس سوچ کے ساتھ : ارے ! یہ دیواروں کا سیم اور خستہ حالی ہمیں عزیز ہے ، دنیا چاہے جتنی لایعنی باتیں کریں ، ہمیں پرواہ نہیں ہے ۔ اور یہی بے فکری ہمارے زوال و انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ ہم سے کون مجتہد بن کر اپنے عہدے اور ذمہ داری کو پورا کرے گا ؟؟؟ جانے کون آئے گا ۔۔۔۔!!!
 
آخری تدوین:
Top