199 وارڈز کے الیکشن نتائج: مسلم لیگ ن نے 67 نشستیں ، آزاد امیدوار 55، ُی ٹی آئی 43۔ پی پی 7

42 کنٹونمنٹ بورڈز کے 199 وارڈز کے الیکشن نتائج: مسلم لیگ ن نے 67 نشستیں لیکر میدان مار لیا: آزاد امیدوار 55 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ، پی ٹی آئی کی 43 پیپلز پارٹی صرف 7 نشستیں لے سکی

لاہور/ کراچی/ پشاور/ کوئٹہ (خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگاران) 18 سال بعد ہونیوالے کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات کے غیرسرکاری، غیرحتمی نتائج کے مطابق حکمران مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا جبکہ دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار رہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے مکمل 199 وارڈز کے غیر حتمی، غیرسرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے 67 جبکہ آزاد امیدواروں نے 55 نشستیں حاصل کیں۔ تیسرے نمبر پر تحریک انصاف 43 سیٹوں کے ساتھ رہی۔ دیگر جماعتوں میں ایم کیو ایم 19، پیپلز پارٹی 7، عوامی نیشنل پارٹی 2 اور جماعت اسلامی کو 6 نشستیں ملیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کیلئے پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہا۔ کچھ شہروں میں الیکشن کمشن اور پولنگ ایجنٹس کے وقت پر نہ پہنچنے کے باعث پولنگ تھوڑا تاخیر سے شروع ہوئی۔ ووٹنگ کیلئے ایک ہزار 225 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے جن میں سے 130 کو انتہائی حساس اور 310 کو حساس قرار دیا گیا۔ 199 وارڈز میں 1151 امیدوار مدمقابل تھے۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں 610 آزاد امیدوار جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے 541 امیدواروں نے الیکشن لڑ رہے تھے۔ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ 137 امیدوار میدان میں اتارے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 128 امیدوار انتخابی عمل میں شریک تھے
 
لاہور: 2 کنٹونمنٹس میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت‘ این اے 125 میں دھاندلی کے الزام کو دھچکہ
لاہور (فرخ سعید خواجہ) وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقہ این اے 125 کے لگ بھگ 80 فیصد علاقوں پر مشتمل لاہور کینٹ اور والٹن کنٹونمنٹس کے 20 وارڈوں میں سے 15 پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی نے تحریک انصاف کے اس حلقہ میں دھاندلی کے الزام کو دھچکہ لگا ہے۔ عام انتخابات میں این اے 125 میں سعد رفیق نے 1 لاکھ 23 ہزار 416 ووٹ حاصل کئے تھے۔ تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان 84 ہزار 495 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ لاہور کے ان دونوں کنٹونمنٹس کے انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو 11 مئی والا ووٹروں کا رجحان تاحال برقرار دکھائی دیتا ہے۔ جن لوگوں کی رائے تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی اور پنجاب حکومتیں کارکردگی نہیں دکھا سکیں جس کے باعث مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف گر گیا ہے‘ وہ غلط ثابت ہوئے۔ ان انتخابات نے تحریک انصاف اور عمران کے اس دعوے کو بھی نقصان پہنچایا کہ لاہور اب مسلم لیگ (ن) کی بجائے تحریک انصاف کا قلعہ بن چکا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے پس پردہ رہ کر اپنے ساتھیوں کو انتخابی میدان میں نکالا اور کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ اس پر سیاسی حلقے انکی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے جس طرح جوتیوں میں دال بانٹی اس سے واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔
 
دوسری طرف تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے جس طرح جوتیوں میں دال بانٹی
:cool2:
۔۔
تحریک انصاف مختلف مواقع پر یہ دعوی کرتی آئی ہے کہ پڑھا لکھا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ووٹر اس کے ساتھ ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں تحریک انصاف کا جو حال ہوا ہے اس پر عمران خان کو اپنا طرز سیاست کو تبدیل کرنے کا ضرور سوچنا چاہیے۔ یہ الیکشن ان علاقوں میں ہوئے جہاں ایلیٹ اور عسکری کلاس رہتی ہے اور یہ علاقے تحریک انصاف کا گڑھ سمجھے جاتے تھے مگر کل کے الیکشن کے بعد یہ کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ عوام کی اکثریت منفی طرز سیاست کو ناپسند کرتی ہے اور نون لیگ کے دہشت گردی اور معیشت کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کو بہتر جانتی ہے۔ اور اسی لیے ایک بار پھر عوام نے نون لیگ پر زیادہ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
۔۔۔
کل الیکشن کے روز لاہور کے اخبارات میں چھپنے والے دو اشتہارات کو بغور دیکھیں تو دونوں جماعتوں کے انداز سیاست کا فرق واضح ہو جائے گا۔

znpksz.jpg

یاد رہے۔۔۔۔۔ ووٹر کا انگوٹھا، ایمپائیر کی انگلی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ :):)
 
تحریک انصاف کا اشتہار تو واقعی منفی باتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر واقعی تحریک انصاف نے اپنے صوبے میں کچھ کیا ہے تو وہ ان کارناموں کا ذکر اپنے انتخابی اشتہار میں کر سکتے تھے۔ اور شاید عوام کو توقع بھی اسی بات کی تھی کہ بلند بانگ دعوے کرنے والے ضرور کر کے دکھائیں گے مگر ظاہر یہی ہوا ہے کہ عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔
 
تحریک انصاف کا اشتہار تو واقعی منفی باتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر واقعی تحریک انصاف نے اپنے صوبے میں کچھ کیا ہے تو وہ ان کارناموں کا ذکر اپنے انتخابی اشتہار میں کر سکتے تھے۔ اور شاید عوام کو توقع بھی اسی بات کی تھی کہ بلند بانگ دعوے کرنے والے ضرور کر کے دکھائیں گے مگر ظاہر یہی ہوا ہے کہ عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، تحریک انصاف ابھی تک تحریک ہی ہے، سیاسی جماعت میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ انھیں اس اضطراری کیفیت، بے تحاشہ، بے سروپا اور منفی بیان بازی سے آگے نکلنا ہو گا اور عملی میدان میں کچھ کر کے دیکھائیں۔ ورنہ مجھے خدشہ ہے کہ جیسے بھٹو مزید زندہ نہیں رہ پا رہا ویسا ہی کچھ تحریک انصاف کے ساتھ بھی نہ ہو جائے۔
 
فی الحال تو مجھے تحریک بھی کپتان کے ہاتھ سے نکلتی نظر آرہی ہے۔ آج کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں۔
عمران خان نے انٹراپارٹی الیکشن ٹریبونل تحلیل کردیا،جسٹس وجیہہ نے حکم مسترد کردیا
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ،خبر نگار) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لئے بنایا گیا الیکشن ٹربیونل تحلیل کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ ایک نوٹیفیکیشن میں عمران خان نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے دوران بعض بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لئے 12 اکتوبر 2013ء کو جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی سربراہی میں الیکشن ٹربیونل تشکیل دیا تھا جس نے 17 اکتوبر 2014ء کو اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا ہے لہٰذا اس کے بعد ٹربیونل خود ہی کالعدم ہو گیا ہے اور اس کے ارکان کے پاس کوئی اختیارات نہیں رہے کیونکہ یہ ٹربیونل ایک خاص مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا۔دوسری جانب جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی سربراہی میں قائم الیکشن ٹریبونل نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی طرف سے ٹریبونل کو معطل کرنے کا حکم مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پارٹی کے اندر انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں تحقیق کرنے والا ٹریبونل بدستور اپنا کام جاری رکھے گا اور 27 اپریل کو معمول کے مطابق شکایت کی سماعت کرے گا۔
[/QUOTE]
 
مندرجہ بالا خبر کے بعد تو مجھے جسٹس (ر) وجیہ الدین کا مستقبل بھی تحریک انصاف میں جاوید ہاشمی کی طرح خطرے میں نظر آرہا ہے۔
 
فی الحال تو مجھے تحریک بھی کپتان کے ہاتھ سے نکلتی نظر آرہی ہے۔ آج کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں۔
[/QUOTE]
میرا خیال ہے فی الوقت ایسا نہیں ہے، اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ تحریک انصاف کا بحیثیت قومی سیاسی جماعت، پاکستانی سیاست میں موجود رہنا ریاست پاکستان کے لیے نہایت مفید ہے۔
ویسے موصوف نے اس ٹریبونل کو دوسری بار تحلیل کیا ہے اور دونوں بار جسٹس صاحب نے ان احکامات کو مسترد کر دیا ہے:)
 
مجھے امید ہے تحریک تو قائم رہے گی بلکہ اگر چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت اختیار کرے تو زیادہ بہتر ہے مگر تحریک پر عمران کی آمرانہ گرفت مجھے کمزور پڑتی نظر آرہی ہے۔ یا ممکن ہے کہ نظریاتی لوگ خود ہی عمران سے کنارہ کر لیں۔
ویسے یہ ججوں سے عمران کی بنتی کیوں نہیں؟ اپنی مرضی کا انصاف لینے کی ضد تو اس کی وجہ نہیں؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یاد رہے۔۔۔۔۔ ووٹر کا انگوٹھا، ایمپائیر کی انگلی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ :)
عبدالقیوم چوہدری بھائی ۔ ہمارے خیال میں "امپائر" کی انگلی کے سامنے ووٹر کا انگوٹھا ہی نہیں بلکہ ووٹر خود کچھ نہیں ہوتا۔
امپائر تو ووٹر کا ہاتھ اور ضرورت پڑنے پر گردن ہی کاٹ دیتا ہے۔:)۔(صرف ہماری سیاست کے لیے۔)
 
عبدالقیوم چوہدری بھائی ۔ ہمارے خیال میں "امپائر" کی انگلی کے سامنے ووٹر کا انگوٹھا ہی نہیں بلکہ ووٹر خود کچھ نہیں ہوتا۔
امپائر تو ووٹر کا ہاتھ اور ضرورت پڑنے پر گردن ہی کاٹ دیتا ہے۔:)۔(صرف ہماری سیاست کے لیے۔)
سید صاحب میرا تو مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایمپائر نے ہمیشہ اسی وقت ہی حکومت کو برطرف کیا ہے جب اس وقت کی حکومت عوام میں مقبلولت کھوچکی تھی۔
ایوب خان کو تو خیر سکندر مرزا نے خود مارشل لاء کی دعوت دی تھی۔
ایوب خان کی حکومت بھٹو کی تحریک کے نتیجے میں بدنام ہوچکی تھی تب یحی خان آیا
بھٹو کی حکومت کے خلاف اچھی خاصی عوامی تحریک چل رہی تھی
نواز کی حکومت بھی کارگل واقعے کی وجہ سے مقبولیت کھو چکی تھی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سید صاحب میرا تو مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایمپائر نے ہمیشہ اسی وقت ہی حکومت کو برطرف کیا ہے جب اس وقت کی حکومت عوام میں مقبلولت کھوچکی تھی۔
ایوب خان کو تو خیر سکندر مرزا نے خود مارشل لاء کی دعوت دی تھی۔
ایوب خان کی حکومت بھٹو کی تحریک کے نتیجے میں بدنام ہوچکی تھی تب یحی خان آیا
بھٹو کی حکومت کے خلاف اچھی خاصی عوامی تحریک چل رہی تھی
نواز کی حکومت بھی کارگل واقعے کی وجہ سے مقبولیت کھو چکی تھی۔
لئیق بھائی دیکھیے ۔یہ میرا خیال ہے ۔ آپ کا مشاہدہ مجھ سے کھیں بہتر اور درست ہو سکتا ہے میں تو طاقت کی بات کر رہا تھا ۔باقی،،،،، جو چاہے اور جب چاہے امپائر کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
:)
 
عبدالقیوم چوہدری بھائی ۔ ہمارے خیال میں "امپائر" کی انگلی کے سامنے ووٹر کا انگوٹھا ہی نہیں بلکہ ووٹر خود کچھ نہیں ہوتا۔
امپائر تو ووٹر کا ہاتھ اور ضرورت پڑنے پر گردن ہی کاٹ دیتا ہے۔:)۔(صرف ہماری سیاست کے لیے۔)
ہماری سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کی بات سولہ آنے ٹھیک ہے۔
لیکن سابقہ سپہ سالار عسکریوں کو ایک نئی جہت سے روشناس کروا گئے ہیں۔ جب آپ، اپنی مرضی کا سب کچھ سیاستدانوں سے کروا سکتے ہیں تو فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔!!!
:winking:
 
لیکن سابقہ سپہ سالار عسکریوں کو ایک نئی جہت سے روشناس کروا گئے ہیں۔ جب آپ، اپنی مرضی کا سب کچھ سیاستدانوں سے کروا سکتے ہیں تو فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے کی کیا ضرورت ہے۔۔
لیکن آمر مطلق بن کر 8 ، 10 سال تک فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔
 
Top