محمد عرفان ذاتی پسند وناپسند کی بھینٹ چڑھ گیا

article-doc-99yn-6W1z00suQ-HSK1-321_634x951.jpg

محمد عرفان ذاتی پسند وناپسند کی بھینٹ چڑھ گیا




محمدعرفان کو اگرچہ کیریئر کا آغاز کرنے کا موقع کافی تاخیر سے ملا ہے مگر اُس کی اُٹھان پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین فاسٹ بولرز سے کم نہیں ہے ۔جس نے اب تک کیریئر کی موجودہ اسٹیج تک عمران خان اور وسیم اکرم سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے
Kamran-Irfan-Asad-Shafiq.jpg

محمد عرفان کو شاندار کارکردگی کے باوجود بورڈمیں مخصوص لابی کی پسندوناپسند کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دستیاب چیزیا فرد کو کبھی وہ اہمیت اور وقعت نہیں دی جاتی جس کے وہ حقیقی حقدار ہوتے ہیں ۔اپنے دفتر کے ’’باس ‘‘سے لیکر موجودہ حکومتی سربراہان کوکوسا اور برابھلا کہاجاتا ہے لیکن جب یہ لوگ ’’سابق‘‘ہوجاتے ہیں تو اُن کی تعریفوں کے پل باندھتے بھی دیر نہیں لگائی جاتی کہ ’’فلاں‘‘کا دور تو بہت ہی اچھا تھا۔ماضی میں مشرف دورکو برابھلاکہنے والے آج اُسی کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں۔اس طرح کیریئر کے دوران کئی بارشائقین اور ماہرین کا نشانہ بننے والے کرکٹرز کے دور کو اب ’’بہترین‘‘کہاجاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ کھلاڑیوں کو اُن کا مقام دینے کیلئے تیار نہیں ہے حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کھلاڑیوں کو ماہرین اور شائقین سمیت بورڈکی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جس کی بدولت وہ میدانوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتے ہیں مگر ہم اُنہیں یہ چیزیں اُس وقت دیتے ہیں جب اُن کی حیثیت چوسے ہوئے آم کی گٹھلی جیسی ہوتی ہے لیکن اس تعریف اور حوصلہ افزائی کا فائدہ کسی کو نہیں ہوتا،نہ کھلاڑی کو اورنہ ہی ٹیم کو۔ آج اگر ہم وسیم اکرم اوروقاریونس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ہی کیوں نہ ملادیں مگر اس سے ہماری ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑنا۔ہم اگر ملکی کرکٹ کو فائدہ دے سکتے ہیں تو صرف اور صرف موجودہ کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ اورصلاحیتوں کی پہچان کرکے اُن کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہی ممکن ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سب کچھ اُلٹ ہوتارہاہے اور ہورہاہے۔ مصباح الحق کی مثال سب کے سامنے ہے جو بہترین اندازمیں نہ صرف ٹیم کی قیادت کررہاہے بلکہ انفرادی طورپربھی عمدہ کارکردگی دکھارہاہے مگر اُس کے خلاف ہرروزنئے محاذ کھولے جاتے ہیں اور جب میچوں کے نتائج اور انفرادی کارکردگی کا ’’تھپڑ‘‘منہ پر پڑتا ہے تو پھرپلٹ کراُس کی عمر کی باتیں شروع کردی جاتی ہیں۔ الغرض، ہرصورت میں تنقید ہی کرنی ہے۔اس طرح حالیہ عرصے میں محمدعرفان کے ساتھ یہی سلوک کیا جارہاہے جسے سپراسٹار بولرہونے کے باوجود نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں ڈی کیٹیگری دیدی گئی ہے حالانکہ فاسٹ بولر کی اہمیت اس وقت اے کیٹیگری کے حامل کرکٹرزسے کم نہیں ہے۔ بورڈکے عام ورکر سے لیکرچیئرمین تک ہرکوئی محمدعرفان کی اہمیت سے واقف اور اُسکی فٹنس کیلئے پریشان ہے کیونکہ سب کو یقین ہے کہ ورلڈکپ میں طویل قامت پیسرکی موجودگی سے پاکستانی بولنگ اٹیک انتہائی مہلک بن جائیگاجس کا ثبوت وہ حالیہ چند برسوں کے دوران متعدد بار دے چکا ہے۔اس وقت وہ انجرڈہونے کے سبب ٹیم سے باہر ضرور ہے مگر اُس کی جلد واپسی یقینی ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود نجانے کس کی ایماء پر محمد عرفان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور اُسے بے حوصلہ کیاجارہا ہے۔
Muhammad+Irfan+with+Ramiz+Raja._www.hdmela.com.jpg

اگرچہ محمد عرفان کو 2010ء کے متنازعہ دورۂ انگلینڈ کے دوران ہی ون ڈے ڈیبیو کرنے کا موقع مل گیا تھا مگر اُس کے کیریئر کا حقیقی آغاز 2012ء کے دورۂ بھارت سے ہوا تھا جس نے بھارتی بیٹسمینوں کو اُن کی اپنی ملکی آئیڈیل کنڈیشنز کو بھی اُن کیلئے قبرستان بناکر رکھ دیا تھا جس نے پہلے ٹوئنٹی20انٹرنیشنل میچ میں اپنے کوٹے کے چار اوورزمیں صرف25جبکہ دوسرے ہائی اسکورنگ میچ میں صرف20رنز دئیے تھے۔2012ء کے دورۂ بھارت سے اب تک محمد عرفان نے مجموعی طورپر25 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں جن میں سے 17میچوں میں اُس نے حریف بیٹسمینوں کو 5رنز فی اوورسے بھی رن ریٹ سے رنز بنانے دئیے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے 11 میچوں میں اُس کا اکانومی ریٹ4یا اس سے بھی کم رہا ہے۔اس سے محمد عرفان کی کلاس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔یہ اعدادوشمار اس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ مخالف بیٹسمینوں کیلئے محمد عرفان کو کھیلنا کسی بھی طرح آسان کام نہیں ہے ۔
محمدعرفان کو اگرچہ کیریئر کا آغاز کرنے کا موقع کافی تاخیر سے ملا ہے مگر اُس کی اُٹھان پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین فاسٹ بولرز سے کم نہیں ہے ۔جس نے اب تک 27ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں جن میں 4.66کے اکانومی ریٹ اور 27.12 کی اوسط سے 39وکٹیں حاصل کی ہیں باوجود اس کے، کہ اُسے 2010ء کے دورۂ انگلینڈمیں عامر اور آصف کی معطلی کے سبب اچانک ہنگامی طورپرانگلینڈطلب کرکے میدان میں اُتار دیا گیا تھا جہاں نامناسب تیاری اور طویل سفر کی تھکان کے سبب وہ دونوں میچوں میں کوئی وکٹ تک نہیں لے پایاتھامگر اس کے باوجود اُ س کے تاحال مجموعی اعدادوشمارقابل رشک ہیں۔اگر اُن کا موازنہ پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین پیسرزعمران خان، وسیم اکرم اور وقاریونس کے ساتھ کیا جائے تو محمدعرفان کیریئر کی جس اسٹیج پر آج کھڑا ہے،وہ ان ٹاپ اسٹارزبولروں سے ہرگزکم نہیں ہے بلکہ اُس نے پہلے27 میچوں میں وسیم اکرم اور عمران خان سے بھی زیادہ وکٹیں حاصل کرلی ہیں جبکہ اسٹرائک ریٹ بھی بہترین ہے جس نے عمران خان کے مقابلے میں فی وکٹ سات گیندیں پہلے حاصل کی ہے جبکہ وسیم اکرم کے مقابلے میں اُسے فی وکٹ کیلئے صرف ایک زائد گیند پھینکنا پڑی ہے۔اگرچہ اوسط اور اکانومی ریٹ کے اعتبار سے محمد عرفان کچھ پیچھے ہے لیکن 70s،80sء کی دہائیوں اورآج کی کرکٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لئے دَور کے اعتبار سے عرفان کی کارکردگی کو باآسانی بہترین قرار دیاجاسکتا ہے۔
کیرئیرکی موجودہ اسٹیج (27ون ڈے)پرعرفان کا دیگر ملکی ٹاپ بولرز کے ساتھ موازنہ
بولروکٹیں اوسط اکانومی اسٹرائک ریٹ
وقاریونس 53 14.96 3.90 22.9
محمد عرفان 39 27.12 4.66 34.8
عمران خان 35 22.42 3.21 41.8
وسیم اکرم 3520.803.2133.7
موجودہ وقت کی تیزکرکٹ میں بھی محمدعرفان نے اپنی صلاحیتوں سے حقیقی معنوں میں انصاف کیا ہے۔ 30دسمبر2012ء کوطویل قامت پیسر کی ون ڈے کرکٹ میں واپسی کے بعد سے اب تک 30یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کرنے والے15 بولروں میں صرف جیمز اینڈرسن ہی ایسا فاسٹ بولرہے جس نے محمد عرفان سے بہتر اکانومی ریٹ سے بولنگ کرائی ہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ انگلش پیسرز کو فاسٹ بولنگ کیلئے آئیڈیل سیمنگ کنڈیشنز میں کھیلنے کا زیادہ موقع ملا ہے۔اس طرح اوسط کے اعتبار سے اینڈرسن کے علاوہ صرف جنید خان اور ریان میکلارن ہی32سالہ پاکستانی پیسر سے آگے ہیں مگر ان دونوں کا اکانومی ریٹ طویل قامت پیسر سے کافی کمتر ہے۔محمد عرفان نے اس عرصے میں کھیلے گئے25 ایک روزہ میچوں میں 14میڈن اوورزکرائے ہیں جو 25 یا اس سے کم میچوں میں کسی بھی بولر کے سب سے زیادہ میڈن اوورزہیں۔عرفان نے اس عرصے میں جن بیٹسمینوں تین یا اس سے زائد بار آؤٹ کیا ہے جن میں صرف ڈیل اسٹین ہی اسپیشلسٹ بیٹسمین نہیں ہے جبکہ اُس نے ہاشم آملہ کو 6بار اورابراہام ڈی ویلیئرزکو 4بار میدان بدرکرنے کے علاوہ جونسن چارلس، کولن انگرام اور فاف ڈوپلیسی کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ٹاپ کلاس بیٹسمینوں کے خلاف عرفان نے کس قدر اچھی کارکردگی دکھاکر حریف ٹیم کو مشکلات سے دوچارکیا ہے۔
30 دسمبر 2013ء سے کامیاب ون ڈے بولرز
بولرمیچز وکٹیں اوسط اکانومی
جیمز اینڈرسن 16 33 16.24 4.16
محمد عرفان 25 39 25.15 4.57
بھونیشورکمار 35 37 37.32 4.74
لونوابوٹسوٹسوبے 26 35 29.88 4.84
مچل جونسن 24 34 27.73 4.89
حالیہ عرصے میں جنید خان اور محمد عرفان کے علاوہ ایک بھی ایساپاکستانی پیسر دکھائی نہیں دیتاجس کی کارکردگی کو سراہا جائے یا کم ازکم تسلی بخش قرار دیاجاسکے۔ عمرگل نے حالیہ عرصے میں محمد عرفان کے مقابلے میں کہیں کمترکارکردگی دکھائی ہے مگر محض سنیارٹی کی بنیاد پر اُسے بی کیٹیگری سے نواز دیاگیا ہے جہاں اُسے ماہانہ تین لاکھ15ہزار روپے دئیے جارہے ہیں جبکہ گزشتہ دو سالوں سے پاکستان کیلئے شاندار خدمات انجام دینے والے عرفان کو ڈی کیٹگری کا بولر کہہ کر 90ہزارماہانہ سے بھی کم معاوضے پر ’’ٹرخا‘‘دیا گیا ہے۔اس طرح تقریباً محمد عرفان جیسی کارکردگی کا حامل جنید خان اے کیٹیگری پانے کے بعد ماہانہ ساڑھے چار لاکھ روپے حاصل کرنے کا حقدار ہے۔میرا یہاں کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ جنید خان اہلیت کے بغیر یہ سب حاصل کررہا ہے بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ تقریباً اُس جیسی کارکردگی کے حامل محمد عرفان کے ساتھ سراسرناانصافی ہورہی ہے جسے انورعلی،بلاول بھٹی،سرفرازاحمد،ذوالفقاربابر،احسان عادل،رضاحسن، راحت علی،شان مسعوداورمحمد طلحہ جیسے کرکٹرزکی کیٹیگری میں ڈال دیا گیاہے جبکہ ان کھلاڑیوں اور محمدعرفان کی کارکردگی اور کلاس میں زمین وآسمان کافرق ہے۔ میری دانست میں اگر محمدعرفان کو اے کیٹیگری نہیں دی جاسکتی تھی تو کم ازکم اُسے بی کیٹیگری ملناچاہیے تھی۔جہاں اُس سے کمترکارکردگی کے حامل کھلاڑی موجودہیں۔اس طرح سات فٹ سے زائد قدکے مالک پیسر سے بہتردرجہ پانے والے کھلاڑیوں میں اسدشفیق،اظہرعلی،عدنان اکمل،خرم منظوراورعبدالرحمن بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ سال عرفان کے مقابلے میں کافی کم میچز کھیلے ہیں 2013ء میں طویل القامت پیسر نے مجموعی طورپر 33 انٹرنیشنل میچز کھیلے تھے جو کہ بی کیٹیگری پانے والے کھلاڑیوں میں سے عمراکمل(29)اورعمرگل(10) سے کہیں زیادہ تعداد ہے جبکہ اس کیٹیگری میں شامل تیسرا کھلاڑی احمد شہزاد ہے جس نے گزشتہ سال محمدعرفان کے مقابلے میں صرف ایک زائد میچ کھیلا ہے۔اس طرح عرفان سے ایک درجہ(سی کیٹیگری)پانے والے کھلاڑیوں میں ناصرجمشید(32)،اسدشفیق(19)، عبدالرحمن(8)،اظہرعلی(8)،عدنان اکمل(5)اور خرم منظور(5میچز) نے گگومنڈی کے پیسر کے مقابلے میں کافی کم مواقعوں پر پاکستان ٹیم کے کام آئے ہیں۔جن میں سے آخری چار کے میچو ں کی مجموعی تعداد(24) بھی عرفان کے 33میچوں سے کم ہے۔اس طرح ڈی کیٹیگری میں شامل صہیب مقصود اور سرفرازاحمد کو نکال کر اگر دیگر 13کرکٹرزکے میچوں کی مجموعی تعداد بھی اکیلے عرفان کے میچوں سے کم بنتی ہے جن میں رضاحسن نے پورے سال پاکستان کیلئے ایک میچ تک نہیں کھیلا جس کی فٹنس پر ہنوزسوالیہ نشان ثبت ہے۔
30 دسمبر 2012ء سے پاکستانی بولرزکی کارکردگی
بولرمیچز وکٹیں اوسط اکانومی
جنید خان 33 57 23.43 4.97
محمد عرفان 25 39 25.15 4.57
عمرگل 13 15 38.25 5.71
وہاب ریاض 14 8 66.50 5.72
سہیل تنویر 8 6 60.00 5.66
پاکستان کرکٹ بورڈ نے2014ء کے لئے آٹھ ویمنز کرکٹرزکو بھی سینٹرل کنٹریکٹ دئیے ہیں جو محمدعرفان کے مقابلے میں زیادہ رقم کی ’’حقدار‘‘ٹھہری ہیں بلکہ ’’ٹھہرائی‘‘گئی ہیںیعنی پی سی بی حکام کی نظرمیں محمدعرفان کی کلاس اور اہمیت ویمنز کرکٹرزجتنی بھی نہیں ہے جو سال بھرمیں ایک آدھ کامیابی پرہی اکتفاکرتی ہیں۔یہ ساری صورتحال ثابت کررہی ہے کہ پی سی بی میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے،جہاں ذاتی پسندوناپسند کی بنیاد پرفیصلے کئے جاتے ہیں۔گزشتہ دنوں چیف سلیکٹرمعین خان نے کہاتھا کہ اُن کے دورمیں کسی سے زیادتی نہیں ہوگی اور نہ وہ ایسا ہونے دیں گے۔میرا اُن سے سوال ہے کہ کیااُن کی نظر میں شاندار کارکردگی کے حامل محمد عرفان ڈی کیٹیگری کا کھلاڑی ہے؟
( محمد عرفان سے متعلق یہ تجزیہ اسپورٹس لنک کے خاص سلسلے ’’اعدادی حقائق‘‘سے لیاگیا ہے جہاں ہر موضوع کا جائزہ اعدادوشمار اورحقائق کی روشنی میں لیا جاتا ہے)

ربط
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
معلوماتی
کوئی انہونی بات نہیں یہ پاکستان ہے۔
بڑے بڑے ملکوں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوجاتی ہیں۔
 
Top