جنگ گروپ کی تعلیمی مہم "ذرا سوچیے" اور آپ کی رائے۔

"ذرا سوچیے" تعلیمی مہم کے بارے میں آپ کی رائے؟


  • Total voters
    16
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .
تصویری خبریں سنسنی خیز تو ہوتی ہیں لیکن اُن میں جان نہیں ہوتی۔ تاہم فیس بک جیسی سوشل ویب سائٹس پر سطح بین قارئین کے دل کو گرمانے کا کام خوب کرتی ہیں۔

اگر یہ خبر مستندہے تو اسے زیادہ قابلِ اعتبار بنانے کے لئے بہتر ہوتا کہ خبر کے ساتھ کسی معتبر صحافتی ادارے کا ربط بھی شامل کیا جاتا۔
اچھا مذاق کرتے ہیں آپ۔
 

سید ذیشان

محفلین
اچھا مذاق کرتے ہیں آپ۔

ایک اعشاریہ دو ارب پاونڈ بہت زیادہ رقم ہے۔ اتنی رقم تو پاکستان کو امریکہ نہیں دے رہا، تو جیو کو اتنی رقم کیسے دے سکتا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ تصویر پوسٹ کر کےآپ طنز کر رہے ہیں اہل فیس بک پر۔
 
تو پھر اب کیا کرنا چاہے اسد صاحب؟؟؟ تمام تعلیمی ادارے بند کرکے سارے پاکستان کو سگنلز اور گیراجوں میں لگا دیا جائے تو ٹھیک رہے گا؟
یہ اگر آپ کی سوچ ہے تو واقعی افسوسناک حد تک منفی سوچ ہے؟ مثبت سوچنے کی عادت ڈالئے حضرت ۔۔ کوئی بھی چاہے وہ کتنا جاہل اور گنوار کیوں نا ہو خوشی سے اپنے بچوں کو گیراجوں اور سگنلز کی زینت بنا دیکھنا پسند نہیں کرسکتا۔۔ کیوں ایسے معاشی حالات پیدا نہیں کیے جاتے کہ لوگ اپنے معصوم بچوں کو گیراجوں اور سگنلز پر بھیجنے کے بجائے اسکول بھیجیں۔۔۔
 
بہت معذرت عمر بھائی! اگر کوئی بات بری لگی لیکن ہر خبر کا بہتر حوالہ تو ضروری ہے نا؟
208085_421389154590605_1796950748_n.jpg
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ اگر آپ کی سوچ ہے تو واقعی افسوسناک حد تک منفی سوچ ہے؟ مثبت سوچنے کی عادت ڈالئے حضرت ۔۔ کوئی بھی چاہے وہ کتنا جاہل اور گنوار کیوں نا ہو خوشی سے اپنے بچوں کو گیراجوں اور سگنلز کی زینت بنا دیکھنا پسند نہیں کرسکتا۔۔ کیوں ایسے معاشی حالات پیدا نہیں کیے جاتے کہ لوگ اپنے معصوم بچوں کو گیراجوں اور سگنلز پر بھیجنے کے بجائے اسکول بھیجیں۔۔۔

اسد صاحب،

اگر آپ نے یہ پورا دھاگہ پڑھا ہوتا تو شاید آپ ایسا نہ کہتے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بات ہم نے آپ کی درج ذیل پوسٹ سے متاثر ہوکر ہی لکھی ہے۔ :)

ویسے جو اسکول کے اندر ہیں ان سے بھی کوئی اچھی اُمید نہیں رکھیئے گا۔۔۔ :frustrated: جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور برسر روزگار ہیں وہ بیچارے آوارہ گردی نہیں کررہے ان میں سے کوئی سارا سارا دن سگنلز پر گاڑیوں کے پیچھے بھاگتا ہے، کوئی گیراجوں میں گاڑیوں کے نیچے دھول مٹی کھا کر اپنے گھر والوں کے لئے دال روٹی کا بندوبست کر رہا ہوتا ہے اصل گل تو زرداری، حفیظ شیخ، شوکت عزیز، حسین حقانی ، توقیر صادق، جماعت علی شاہ ،شاہ رخ جتوئی وغیرہ وغیرہ جیسے کانونٹ،سٹی اسکول اور بیکن ہاوئس کے شہزادے کہلاتے ہیں۔۔۔ ۔ کیا ہمارے پارلیمنٹ سے بڑھ کر بھی دنیا میں کہیں اتنے زیادہ جرائم پیشہ لوگوں کا مجمع اکھٹا ہو سکتا ہے؟
 
اسد صاحب،

اگر آپ نے یہ پورا دھاگہ پڑھا ہوتا تو شاید آپ ایسا نہ کہتے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بات ہم نے آپ کی درج ذیل پوسٹ سے متاثر ہوکر ہی لکھی ہے۔ :)
پورا دھاگہ پڑھ کر ہی یہ بات لکھی تھی شائد آپ میری بات سمجھ نہیں سکے۔۔۔ ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کا میکنیکل اور انفرادی حل ڈھونڈتے ہیں۔۔۔ اجتمائی اور معاشی حل ڈھونڈتے ہوتے تو یقیناً یہ ملک آج بہت بہتر حالت میں ہوتا۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
:(
ویسے اردو کا حال اردو میڈیم میں بھی اس سے ملتا جلتا ہی ہے کیونکہ ہمارے یہاں اردو کو گھر کی مرغی سمجھا جاتا ہے اور سکولوں میں اس کو زبان کے طور پر اس طرح پڑھایا ہی نہیں جاتا جیسا ایک زبان کو پڑھانا چاہئیے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بقیہ تبصرے کا انتظار ہے۔ :)

500 سال والی ویڈیو پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟؟؟
اس ویڈیو میں دراصل تعمیرات پر طنز کے تیر اچھالے گئے ہیں۔ حقیقت میں فن تعمیر اس قدر بلندی کو چھو رہا تھا کہ بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان، لال قلعہ اور تاج محل جیسے شاہکار وجود میں آئے۔ یہ سب علم تعمیرات کے بنا ممکن نہ تھا۔ ٹھٹہ کی مسجد میں بناء کسی سپیکر کے آواز کا ہر گوشے تک پہنچنا، تاج محل کا عجوبہ قرار دیا جانا۔۔۔ یا ایسی عمارات کا کھڑا کرنا جس کی فصیلوں پر گھوڑے دوڑ سکیں۔ جن پر ہاتھ چڑھ سکیں۔ یہ کیا مذاق تھا۔ کیا یہ سب بغیر کسی علمی بلندی کے سر انجام پا گیا۔ تو مقصود یہ ہے کہ اس دور میں فن تعمیر کو آپ ترقی کا زینہ سمجھیے۔ یعنی جیسا آجکل کمپیوٹر کی تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ عین ممکن ہے اس وقت تعمیراتی علم کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہو۔ اور زیادہ دولت کمانے کا ذریعہ ہو۔ اگر یہ اتنا ہی آسان تھا تو ابھی تک تاج محل جیسی عمارات کا ڈھیر کیوں نہیں کھڑا کر دیا گیا۔ اس ضمن میں اوریا مقبول جان کا کالم بھی ہے۔ جس کو اسی دھاگے میں شئیر کیا گیا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس ویڈیو میں دراصل تعمیرات پر طنز کے تیر اچھالے گئے ہیں۔ حقیقت میں فن تعمیر اس قدر بلندی کو چھو رہا تھا کہ بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان، لال قلعہ اور تاج محل جیسے شاہکار وجود میں آئے۔ یہ سب علم تعمیرات کے بنا ممکن نہ تھا۔ ٹھٹہ کی مسجد میں بناء کسی سپیکر کے آواز کا ہر گوشے تک پہنچنا، تاج محل کا عجوبہ قرار دیا جانا۔۔۔ یا ایسی عمارات کا کھڑا کرنا جس کی فصیلوں پر گھوڑے دوڑ سکیں۔ جن پر ہاتھ چڑھ سکیں۔ یہ کیا مذاق تھا۔ کیا یہ سب بغیر کسی علمی بلندی کے سر انجام پا گیا۔ تو مقصود یہ ہے کہ اس دور میں فن تعمیر کو آپ ترقی کا زینہ سمجھیے۔ یعنی جیسا آجکل کمپیوٹر کی تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ عین ممکن ہے اس وقت تعمیراتی علم کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہو۔ اور زیادہ دولت کمانے کا ذریعہ ہو۔ اگر یہ اتنا ہی آسان تھا تو ابھی تک تاج محل جیسی عمارات کا ڈھیر کیوں نہیں کھڑا کر دیا گیا۔ اس ضمن میں اوریا مقبول جان کا کالم بھی ہے۔ جس کو اسی دھاگے میں شئیر کیا گیا ہے۔ :)

اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ اس قدر اعلیٰ تعمیری شاہکار بغیر علم اور قابلیت کے ممکن ہی نہیں ہیں۔

دراصل اعتراض عمارتوں پر نہیں ہے بلکہ اُن کے مصارف پر ہے۔ مغلوں نے بے تحاشا قلعے، باغ اور مقبرے بنوائے جو سب کے سب اُن کے اپنے لئے تھے اور اُن میں عوام کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ اعتراض یہ ہے کہ ان عمارات پر جو پیسہ خرچ کیا گیا اُن کی جگہ بڑی بڑی درس گاہیں (یونی ورسٹیز) بنائی جا سکتی تھیں جیسا کہ یورپ والوں نے کیا۔ تاریخ کی کیاری میں جو بھی بویا جائے مستقبل کے پودے ویسا ہی بار لاتے ہیں۔ ہمارا آج ہمارے کل کا مرہونِ منت ہے اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مغلوں کو اپنے اقتدار سے دلچسپی تھی اور انہیں عوام سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ اور یہ کہ مغل سلطنت "فلاحی ریاست" ہرگز نہیں تھی۔
 

x boy

محفلین
اچھی سوچ اور کوشش ہے
لیکن کتابوں سے بہت سارے مواد نکالنے کی سوچ غلط ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی سوچ اور کوشش ہے
لیکن کتابوں سے بہت سارے مواد نکالنے کی سوچ غلط ہے

اب تو یہ کوشش بہت پرانی ہوگئی۔ بلکہ حاملِ معاملہ اس سے تائب بھی ہو چکے ہیں۔

یہ ایک خالصتاً تجارتی معاملہ تھا جسے تعلیمی مہم کی شکل دی گئی تھی اور اپنی اقدار بیچ کر خوب پیسے کمائے گئے۔ اس سلسلے میں مبشر لقمان نے کئی ایک پروگرام کیے اور یہ بات ثابت کی یہ سب "پیڈ کیمپین" تھی اور اس کا مقصد کچھ خاص نظریات کے حامل لوگوں کے نظریات کا پرچار کرنا تھا اور بس۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرا امت سے ”تعلق“ صرف ایک ”قاری“ کا ہے۔ اور ایک قاری کسی اخبار والے کو کسی کار خیر کے لئے کیسے راضی کرسکتا ہے۔ ویسے آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ اُمت ماضی قریب میں عوام کے فلاح بہبود کے کئی پروجیکٹس میں حصہ لیتا رہا ہے۔ جیسے کراچی کی غریب ترین بستیوں کے سروے کے دوران بے یار و مددگار خاندانوں کے لئے ماہانہ راشن کی فراہمی کے انتطامات، ناقابل رہائش گھروں کی تعمیر و مرمت وغیرہ۔ غریبوں کے سروے رپورٹ تو تقریباً سارے ہی اخبار شائع کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عملی مدد کی ایسی مثال شاید ہی کسی اور اخبار نے پیش کی ہو۔
نوائے وقت میں اکثر بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان عرصہ دراز سے پھنسے لوگوں کے لئے مالی تعاون کی اپیل اور لوگون کی طرف سے کوششوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُردو ڈائجسٹ بھی اِس طرح کی کوششیں مستقل بنیادوں پہ کرتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا کہ "اِن" سے اچھی امیدیں نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے چینل پہ ایسے اخلاق سوز پروگرام دیتے رہتے ہیں۔ اُن کی اِس کوشش کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں ؟ اگر اُنہیں پاکستان میں تعلیم عام کرنے سے واقعی دلچسبی ہوتی تو اپنے چینل پہ سیکھنے سکھانے والے تعلیمی پروگرامز پیش کر رہے ہوتے، اپنے ڈراموں میں مثبت مقاصد کے لئے بہت کچھ دکھا سکتے ہیں۔ اتنا پیسہ ہے اُن کے پاس۔۔۔۔پر کتھوں!
 
Top