بدو کلچر

نامعلوم
سعودی عرب میں ہمارے ایک جاننے والے تھے،جو قدرے زیادہ عیش سے زندگی گزار رہے تھے ہر جا کہ کمائی انکی مناسب تھی،مگر گاڑی انہوں نے خاصی تھکی ہوئی رکھی تھی اوپر سے ظلم یہ تھا کہ وہ گاڑی ہفتہ دو ہفتہ بعد صیانہ سیارات یعنی موٹر مکینک کے ٓاستانہ پر پہنچی ہوئی ہوتی تھی ان سے متعدد مرتبہ کہا کہ قبلہ اس بلیلہ سے نجات حاصل کرلیں، مگر حضرت کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ ٓائی- سال دو سال بعد ہم پر یہ سنگین انکشاف ہوا کہ حضرت کے پاس وہ گیڈر سنگھی فارمولا تھا جو پیر قدرت اللہ قدرت خوشبو لگا کے والے کے پاس ہو نہ ہو مرحوم قدرت اللہ شہاب کے پاس ضرور تھا- وہ فارمولا جو انہوں نے اپنی سوانح میں ہالینڈ جانے والے طالب علموں کی کمائی کیلئے لکھا تھا- ہالینڈ میں پاکستانی ٹائپ کے غریب مگر عقلمند طلبا اپنی ٹانگوں پر چار ٹانگوں والے کتوں کو راغب کرنے کے لیے کچھ خاص مسالہ اپنے جوتوں یا ٹانگوں پرلگا لیتے تھے، نتیجتا راہ چلتے امرا کے ٹرینڈ تمیزدار کتے بھی یار لوگوں کی ٹانگیں سامنے ٓانے پر انہیں چومنے کے لیے لپک پڑتے تھے ، جو کتوں کے ٹانگوں کو بوسہ دیتے ہی اللہ دتہ ہائے مار دتہ کا نعرہ لگاتے ار مجبورا کتے کے مالک کو مقامی قانون کی رو سے ٹھیک ٹھاک مال بصورت جرمانہ سگ گزیدہ معصوم انسان کو دینا پڑتا ، جو اس بھتے سے اپنے پورے مہینے کا گزارہ کرتا اور اگلے ماہ کی پہلی کو پھر کسی نئے علاقے میں کسی نئے کتے کی تلاش میں نکل جاتا ( بار ثبوت کتے کے دانتوں کے نشان کم ازکم پینٹ پر بننے ضروری تھے)
ہمارے اس بھائی نے بھی سعودی عرب کو ہالینڈ بنا رکھا تھا اور انکی گیدڑ سنگھی یہ تھی کہ یہ اپنی مکمل انشورڈ کھٹارا لے کر سڑک پر امرا کے کسی سنسان علاقے میں نکل جاتے تھے- جہاں انکا شکار گاڑی چلاتے ایسے شباب ( سعودی لڑکے) ہوتے تھے جو ۱۸ سال سے بہت کم عمرکے ہوں ( چاہے وہ شباب سڑک کے اس طرف ہو یا اس پار) جہاں ان کو ایسا کوئی نمونہ اکیلا گاڑی چلاتا نظر ٓتا ، یہ بس اپنی کار موڑ کر اس کا پیچھا کرتے اور کسی نہ کسی طرح موقع دیکھ کر اپنی گاڑی جان بوجھ کر شکار یعنی اس انوکھے لاڈے کی گاڑی میں دے مارتے- پھر فی الفور پہلے سے تیار کیمرہ نکالتے اور بظاہر جائے حادثہ ،مگر درحقیقت ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بچہ سعودی کی تصویر بھی بنا لیتے- لامحالہ، اب چونکہ اس انوکھے لاڈلے کا ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں بنا ہوتا تھا، اس لیے ان صاحب کو پتہ ہوتا تھا کہ شباب کے ہاتھ پیر پھولنا لازم ہیں اس لئے یہ بھی جلد ازجلد اس پر چڑھ دوڑتے کہ تمھیں گاڑی تو چلانا آتی نہیں،کون گدھا ہے جس نے تمھیں لائسنس جاری کرکے قائد سیارہ ( ڈرائیور) بننے کی اجازت دی ہے ، بس میں تو ابھی شرطے مرور (ٹریفک پولیس) کو بلاتا ہوں
پولیس کو بلانا تو محض ایک بہانہ ہوتا تھا نتیجتا شباب اپنی جیب سے ہزار دوہزار ریال نکالتا یا اپنے بھائی باپ کسی کو فون کرتا جو جائے حادثہ پر پہنچ کر فوری مک مکا کراتا اور یہ صاحب بادل ناخواستہ اپنی گاڑی کی دو تین سو ریال کی مرمت کے لیے دو تین ہزار ریال چپ رہنے کی قیمت کے طور پر اینٹھ لیتے اگر کوئی راضی نہ ہوتا تو اسکی غلطی کیونکہ یہ تو بضد ہوتے تھے کہ شرطہ مرور کو بلاو ، اس لڑکے کو بلا لائسنس ڈرائیونگ کی اجازت دینا قتل کرنے کے اجازت دینے کے برابر ہے ظاہر ہے کہ تھانے جانے کی صورت میں بلا لائسنس گاڑی چلانے پر لڑکے کا کم ازکم کا ، نو سو ریال کا مخالفہ ( چالان) تو کٹتا ہی توڑ پھوڑ کی مد میں مزید جرمانے ،گاڑیوں کی مرمت کے اخراجات،تھانے میں دو تین گھنٹے سے دو تین دن کی خواری اور یار لوگوں میں بدنامی کے ڈر سے شاذو نادر ہی کوئی شکار انکے ہاتھ سے بچ پاتا – مزید یہ کہ بقول انکے میں نے آج تک اس راز میں کسی کو شریک بھی نہیں کیا کہ مبادا اور لوگ بھی اس پر عمل کرنا نہ شروع کردیں ( اور میری کمائی ماری جائے) بہر کیف بقول انکے انکو کبھی بھی کسی حادثہ میں نقصان نہیں ہوا تھا – کیا آپ مانیں گے کہ ان حضرات نے تین سال میں بقول انکے جانتے بوجھتے پینتیس حادثات کئے تھے جبکہ سرکاری کمپیوٹر میں اندراج ، کسی ایک کا بھی نہیں ہوا اور تمام حادثات میں بقول انکے انہیں پچاس سے ستر ہزار ریال تک کا منافع ہوا- مسٹر ٹھوکو تیری کیا بات!
 
Top