سید الشہداء حضرت حمزۃ بن عبدالمطلب کی شہادت کے متعلق حقائق

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسیب

محفلین
سید الشہداء حضرت حمزۃ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق حقائق

حضرت حمزۃ رضی اللہ عنہ ، نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا تھے ۔ آپ نے غزوہ احد میں لشکر اسلام کی اگلی صفوں میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سیدالشہداء حمزۃ بن عبدالمطلب۔ یعنی حمزۃ بن عبدالمطلب شہیدوں کے سردار ہیں ۔
غزوہ احد میں آپ کی شہادت کا واقعہ صحیح البخاری کتاب المغازی، باب قتل حمزہ میں یوں مذکور ہے :جعفر بن عمرو ابن امیۃ الضمری فرماتے ہیں کہ وہ عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ ملک شام کے سفر پر گئے تو وہاں وحشی سے ملے تا کہ اس سے حمزۃ بن عبدالمطلب کے قتل کا قصہ جان سکیں ۔ عبیداللہ نے وحشی سے کہا حمزہؓ کے قتل کا قصہ تو بیان کریں۔ انہوں نے کہا قصہ یہ ہے کہ:
" حمزہ ؓ نے بدر کے دن طعیمہؓ بن عدی بن خیار کو مار ڈالا تھا (جو عبیداللہ کے باپ کا چچا تھا)جبیر بن مطعمؓ نے جو میرے مالک تھے مجھ سے یہ کہا اگر تو حمزہؓ کو میرے چچا (طعیمہؓ) کےبدلے میں مار دو تو تم آزاد ہو۔ اس لیے جب قریش کے لوگ عینین کی جنگ کے سال لڑنے کے لیے نکلے ,میں بھی قریش کے ساتھ لڑنے گیا ۔ جب لوگوں نے جنگ کے لئے صف باندھی تو قریش کی طرف سے ایک شخص سباع بن عبدالعزی میدان میں نکلا اور کہا :مجھ سے کون لڑنے کو آتا ہے؟ یہ سنتے ہی حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نکلےاور اس کو اشتعال دلانے کو حقارت سے کہنےلگے: ارےسباع ارے ام انمار کے بیٹے تیری ماں ختنے کرتی تھی اور تو اللہ اور رسول سے مقابلہ کرتا ہے ۔ یہ کہہ کر حمزہؓ نے اس پر حملہ کیا اس کو کل کے دن کی مانند مٹا کر رکھ دیا "۔ وحشی نے کہا:" میں ایک پتھر کی آڑ میں حمزہ کو مارنے کے لئے چھپ کر بیٹھا رہا۔جب میرے قریب آئے تو میں نے اپناحربہ / ہتھیار ان پر پھینک مارا وہ ان کے پیٹ کے نچلے حصے میں لگا اور پشت کی جانب سے جسم کے پار ہو گیا ۔ حمزہ رضی اللہ عنہ اسی وقت شہید ہو گئے ۔ جب جنگ کے بعد لوگ واپس آئے میں بھی ان کے ساتھ واپس آیا اور مکہ ہی میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ اسلام وہاں تک پھیل گیا۔ اس وقت یعنی فتح مکہ کے بعد میں طائف چلا گیا۔ طائف کے لوگوں نے رسول اللہﷺ کے پاس کچھ سفیر بھیجے۔ لوگوں نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفیروں کو نہیں تکلیف نہیں دیتے ۔ میں بھی ان سفیروں کے ساتھ مکہ چلا گیا ۔ جب رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا آپؐ نے مجھ کو دیکھا تو فرمایا : کیا وحشی ہے ؟میں نے عرض کیا :جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا :حمزہ کو تو نے ہی قتل کیا تھا؟ میں نے کہا :آپ کو تو سب واقعے کا علم ہے کہ حمزہ کو میں نے کیوں مارا؟ آپ نے فرمایا : مگر کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ میرے سامنے نہ آیا کرو۔ یہ سن کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آ گیا ۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی اور مسیلمہ کذاب نامی جھوٹا نبی (یمامہ میں ) ظاہر ہوا تو میں نے ارادہ کر لیا کہ میں ضرور جا کر مسیلمہ کو ماروں گا شاید کہ اس طرح حمزہ کے قتل کے گناہ کا بدلہ ہو سکے ۔ پھر میں مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ نکلا ۔ مسیلمہ کے لوگوں نے بہت سے صحابہ کو قتل کیا ۔ میں نے دیکھا کہ خود مسیلمہ کذاب ایک دیوار کی روزن میں کھڑا ہے۔ سر کے بال بکھرے ہوئے ہیں ،راکھ کے رنگ کے اونٹ جیسا شخص ہے ۔ میں نے وہی نیزہ جس سے حمزہ کو قتل کیا تھا اس کے سینے کے درمیان میں دے مارا وہ اس کے دونوں کندھوں سے ہوتا ہوا جسم کے پار نکل گیا، اتنے میں ایک انصاری کود کر آ گیا اور اس کی کھوپڑی پر تلوار کا وار کر دیا ۔ "

اس حدیث کے ساتھ ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دوسری روایت درج کی ہے کہ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک عبداللہ بن فضل کہتے ہیں مجھ کو سلیمان بن یسار نے بتایا انہوں نے عبداللہ بن عمرسے سنا وہ کہتے تھے :"جب مسیلمہ کذاب قتل ہو ا تو ایک لونڈی گھر کی چھت پر چڑھ کریوں کہنے لگی ہائے امیر المومنین یعنی مسیلمہ کو ایک کالے غلام نےمار ڈالا۔"
گویا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کی توثیق فرمائی کہ مسیلمہ کذاب کا قتل حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا عظیم کارنامہ تھا جو انہوں نے اسلام کی صفوں میں مرتدوں کے مقابلے میں لڑتے ہوئے انجام دیا ، اور یوں دور جاہلیت میں سید الشہداءحضرت حمزۃ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا گناہ دھونے کی کوشش کی ۔
حقیقت میں اسلام قبول کرتے ہی انسان اپنے دورِ جاہلیت کے تمام گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی حضرت عمرو بن العاص سے فرمایا:أما علمت يا عمرو أن الإسلام يهدم ما كان قبله ؟ وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها ؟ وأن الحج يهدم ما كان قبله ؟"کیا تم نہیں جانتے عمرو کہ اسلام اپنے سے پہلے گناہوں کا کفارہ ہے ، اور ہجرت اپنے سے پہلے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج اپنے سے پہلے گناہوں کا کفارہ ہے ؟ لیکن چونکہ حضرت حمزۃ رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلام کا ایک بہت بڑا نقصان تھی اس لیے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا کمال خلوص ہے کہ انہوں نے چاہا کہ وہ اسلام کو اپنی ذات سے ایسا ہی بڑا فائدہ پہنچائیں جیسا کہ وہ ماضی میں نقصان کر چکے ہیں ۔وہ اپنی نیت میں سچے تھے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ اس جھوٹے نبی مسیلمۃ کذاب کو جہنم میں پہنچائیں جس کی فوج سے جنگ کے دوران حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے شہادت پائی ۔ مسیلمۃ کا قتل اس جنگ کا کلیدی واقعہ تھا ، اس کا قتل ہونا تھا کہ اس کے ساتھیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور مسلمانوں کو فتح ہوئی ۔
یہ ہے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی شہادت کا اصل قصہ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے حسنِ اسلام کا ایک ناقابل تردید ثبوت ، اس کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی زبان طعن دراز کرے کیوں کہ وہ اسلام لے آئے تھے اور اسلام سابقہ تمام گناہوں کا کفارہ ہے ، اس پر مزید مسیلمۃ کذاب کے قتل کا شرف حاصل کرنا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی کی گواہی ان کے حسن اسلام کا روشن ثبوت ہے ۔
لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھنے والے لوگوں کی مکاری دیکھیے کہ وہ عمّ رسول حضرت حمزۃ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق ایک ضعیف و غیر مستند قصے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا نے وحشی کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہا کے قتل پر مامور کیا اور جب حضرت حمزۃ رضی اللہ عنہا قتل ہو گئے تو ان کے ناک اور کان کاٹ کر ان کا مثلہ کیا جب کہ ان کا کلیجہ نکال کر چبانے کی کوشش کی ۔ یہ روایت کسی بھی سند سے پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی ، جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ وحشی رضی اللہ عنہ کو جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے طعیمۃ بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کے بدلے حضرت حمزۃ رضی اللہ عنہ کے قتل پر مامور کیا تھا ۔

حضرت ہند رضی اللہ عنہا ، حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں ، یہ دونوں ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے والدین ہیں جن کا اصل نام رملۃ بنت ابی سفیان ہے ،کنیت ام حبیبہ ہے ، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز بیوی اور مومنوں کی ماں ہیں ، یوں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساس اور سسر ہیں ، حضرت ام حبیبہ رملۃ ان دونوں سے پہلے اسلام لے آئی تھیں اور ہجرت حبشہ کے دوران ان کا نکاح ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا ۔ جب کہ ان کے والدین فتح مکہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ یہ وہی ابوسفیان ہیں جن کے بارے میں فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا : جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے وہ امان میں ہے ۔من دخل دار أبي سفيان فهو آمن۔ سنن ابی داود حدیث ۳۰۲۲۔ گویا ان کو اور ان کے اہل خانہ کو کوئی گزند نہ پہنچائی جائے حالاں کہ ابھی انہوں نے قبول اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ آج یہ دریدہ دہن روافض ان مقدس ہستیوں کے متعلق زہر اگل رہے ہیں جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول اسلام سے قبل ہی امان دے دی تھی تو قبول اسلام کے بعد ان کا مرتبہ کیا ہو گا ؟ یہ وہ ہند رضی اللہ عنہا ہیں جو اسلام قبول کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتی ہیں ، آپ دوسری عورتوں کے ساتھ ان سے بیعت لیتے ہیں ، بیعت کے بعد یہ کہتی ہیں : آج سے پہلے میرے لیے آپ اور آپ کے گھر والوں سے زیادہ نفرت انگیز کوئی نہ تھا ، لیکن خدا کی قسم آج کے بعد میرے لیے اس روئے زمین پر آپ اور آپ کے گھر والوں سے زیادہ پیارا کوئی نہیں ۔ اور اسلام لانے کے بعد وہ اپنی اس بات کو ثابت کرتے ہوئے پوری گرمجوشی سے اسلام کی اعانت کرتی ہیں ۔ وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنی رائے کا بھرپور اظہار کرنے والی متحرک اور نمایاں شخصیت والی خاتون تھیں ، اسلام کی حمایت میں بھی قول و عمل سے جہاد کرنے والی غیور خاتون بن کر سامنے آتی ہیں ، زمانہ کفر میں ان کے بیٹے اور شوہر کفار کی جانب سے لڑتے تھے اور یہ لشکر کفار کا حوصلہ بڑھاتی تھیں ، اسلام لاتے ہی ان کے بیٹے اور شوہر مجاہدین اسلام کی پہلی صفوں میں شامل ہو گئے یہاں تک کہ آپ اپنے شوہر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ معرکہ یرموک میں رومیوں کے خلاف میں جہاد میں شریک ہوتی ہیں اور لشکر اسلام کا حوصلہ اپنی باتوں سے بڑھاتی ہیں ،اپنے جنگی اشعار پڑھ پڑھ کر ان کو بڑھ چڑھ کر حملوں کی ترغیب دیتی ہیں ، آپ کی فصاحت و بلاغت اور جرات مشہور ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں کوئی ایسا محب رسول نہیں بچا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریبی رشتہ دار صحابہ پر ، مجاہد صحابہ پر زبان طعن دراز کرنے والوں کو زبانی جواب ہی دے سکے ؟ آخر ہماری غیرت ایمانی کو کیا ہو گیا ہے ؟ کیا ہم مسلمانوں کو قرآن کی یہ آیت بھول گئی ہے :
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْۗ وَأُولُو الْأَرْ*حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّ۔هِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِ*ينَ
پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیاده حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں، اور رشتے دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیاده حق دار ہیں۔۔۔ سورۃ الاحزاب ۶۔

جو روز محشر پر یقین رکھتا ہے اسے خوب معلوم ہونا چاہیے ایک دن آئے گا جب ہم سے سوال ہو گا کہ ہم اپنی ذات کے لیے ، اپنے ماں باپ کے لیے، اپنے دوستوں کے لیے غصہ کرتے تھے ، یا اپنے نبی اور مومنوں کی ماوں، ان کے جاں نثار ساتھیوں اور ان کے مسلمان مجاہد قرابت داروں کے لیے ۔ اس دن کسی کے یاروں دوستوں کے جتھے ، تعلقات کے وسیلے کام نہ آئیں گے ۔ وہ دربار صاحب عرش عظیم کا دربار ہو گا جہاں خود ہمارے ہاتھ پاوں اور زبانیں ہمارے بارے میں سچی گواہی دیں گے ۔ جس نے ذرہ برابر بھی نیک و بد کام بھی کیا ہو گا وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ اور ہم پر صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ۔ وما علینا الا البلاغ ۔
 
جس طرح آپ کے بیان کردہ مکار لوگ غلو کرتے ہیں بعینہ آپ کی کمپنی بھی غلو میں کسی سے کم نہیں۔

آپ جنگ حنین کے واقعات پڑھ لیں ابو سفیان کتنا مال لے کر گیا اور تو اور اس کا بیٹا جو کہ جنگ میں شریک بھی نہیں ہوا تھا اس کے حصے کا مال بھی لے گیا اور پھر کہتا کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا مال دیتے ہیں کہ غربت کا کوئی خوف نہیں رہتا ہے ۔
خدا را اتنا بھی غلو نہ کریں اللہ کو جان دینی ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی شان سب سے بلند ہے ۔
امت مسلمہ کیسے جہانوں میں کھو گئی ۔ ۔
اللہ کرے ان کو کہیں مل جائے " ٹائم مشین "
تاکہ " شخصیت پرستی " کی حقیقت کھل سکے ۔۔۔۔
عمل سے دور ہوئے ہم " حب " کا دعوی کرتے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
والعصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

سید ذیشان

محفلین
وحشی، ایک ایسا نام جو کہ بربریت کے لئے ضرب المثل بن چکا ہے، اور ڈکشنری میں تمام برائیوں کے مترادف ہے، اب رضی اللہ بن گیا ہے۔ استغفر اللہ۔
 
جس بات کے بارے میں علم نہ ہو جب تک خود تحقیق نہ کر لی جائے کوئی بھی حتمی رائے قائم کر لینا مناسب نہیں۔اللہ تعالیٰ بہت بہتر جانتا ہے کہ اس کے نزدیک کس کا کیا درجہ ہے۔ ہمیں ایمان صرف ان باتوں پر لانا ضروری ہے جن کا اللہ تعالیٰ اور حضرت محمدﷺ نے حکم فرمایا ہے۔ جہاں تک ادبِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تعلق ہے سب کا ادب کرو او جو متنازع ہستیاں ہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ بس ان کی توہین نہ کریں ۔توہین نہ کرنے اور گالیاں نہ دینے سے گناہ نہیں ہوتا۔


نایاب سید ذیشان محمد خلیل الرحمٰن روحانی بابا
 
آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top