حسیؓن عالی شان ہیں، حسیؓن پاسبان ہیں

ابن رضا

لائبریرین
ہدیہِ عقیدت

جو کربلا کے دشت میں ہوے لہو لہان ہیں
حسیؓن عالی شان ہیں، حسیؓن پاسبان ہیں

نواسہِ رسول ﷺ ہیں، وہ گوہرِ بتول ؓ ہیں
وہ شاخِ زعفران ہیں، خدا کا ارمغان ہیں

حسیؓن کے حَسین تن پہ تیغِ بے دریغ سے
لگا رہے ہیں زخم جو، یہ کون دشمنان ہیں

حسیؓن کے لہو سے نم ہوے ہیں ریگ زار جو
جبینِ آسمان کے وہی تو اختران ہیں

جو ڈھال بن کے آپؓ کی ، رہے تھے ساتھ آپؓ کے
حسیؓن کے رفیق وہ، ہمارے محسنان ہیں

شہادتِ حسیؓن بھی یزید کی شکست ہے
یزید نامراد ہے ، حسیؓن کامران ہیں

جو زندگی کی لذتیں، رہِ خدا پہ وار دیں
وہی تو اصل میں رضؔا، خداکے بندگان ہیں
براے توجہ استادِ محترم محمد یعقوب آسی و جناب الف عین صاحب
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
آداب محترم ابن رضا بھائی
اللہ آباد و خوشحال رکھے
لکھے کو منظور و مقبول فرمائے
اور خوش بختی کا وسیلہ بنائے ۔۔۔۔ آمین صد آمین

میری اوقات و استطاعت و قابلیت ایسی نہیں کہ آپ کے لکھے پر کچھ کہہ سکوں
علمی اعتبار سے آپ مجھ فقیر و عاجز سے بہتر نہیں بلکہ بہترین میں سے ہیں

فقط ایک نکتے کی جانب توجہ راغب کرنا چاہوں گا

بالا شاعری کے مطلع کو میں سیدھا سیدھا اگر پڑھوں تو یوں پورا جملہ بن جائے گا

حسین رضی اللہ تعالی عنہ عالی شان ہیں، حسین رضی اللہ تعالی عنہ پاسبان ہیں جو
کربلا کے دشت میں پڑے لہولہان ہیں

بالا سطور میں نواسہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت بات کی گئی ہے
جو صحابی بھی ہیں ، محبوب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہیں
جو جنت میں جوانوں کے سردار بھی ہیں، جو جگرگوشہ فاطمہ و علی بھی ہیں
ایسی ہستی کے لئے لفظ ’’ پڑے ‘‘ شایان شان نہیں معلوم پڑتا
یہ لفظ ’’ پڑے ‘‘ تو مجھ جیسے حقیر کے لئے موزوں و مناسب رہا

ممکن ہو تو اس لفظ ’’ پڑے ‘‘ کو لفظ ’’ ہوئے ‘‘ سے تبدیل فرما لیں یا کسی اور لفظ سے جو بحر
کے اصولوں پر بھی مناسب ہو

آپ اس کو نثر میں یوں پڑھیں تو بہتر لگے گا جیسے
حسین رضی اللہ تعالی عنہ عالی شان ہیں، حسین رضی اللہ تعالی عنہ پاسبان ہیں جو
کربلا کے دشت میں ہوئے لہولہان ہیں


میری جانب سے معذرت گر میرے لفظوں نے بڑے بھائی کو ملال پہنچایا ہو

اللہ آباد و بے مثال رکھے آپ کو

عاجز و فقیر
س ن مخمور
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
آداب محترم اب رضا بھائی
اللہ آباد و خوشحال رکھے
لکھے کو منظور و مقبول فرمائے
اور خوش بختی کا وسیلہ بنائے ۔۔۔۔ آمین صد آمین

میری اوقات و استطاعت و قابلیت ایسی نہیں کہ آپ کے لکھے پر کچھ کہہ سکوں
علمی اعتبار سے آپ مجھ فقیر و عاجز سے بہتر نہیں بلکہ بہترین میں سے ہیں

فقط ایک نکتے کی جانب توجہ راغب کرنا چاہوں گا

بالا شاعری کے مطلع کو میں سیدھا سیدھا اگر پڑھوں تو یوں پورا جملہ بن جائے گا

حسین رضی اللہ تعالی عنہ عالی شان ہیں، حسین رضی اللہ تعالی عنہ پاسبان ہیں جو
کربلا کے دشت میں پڑے لہولہان ہیں

بالا سطور میں نواسہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت بات کی گئی ہے
جو صحابی بھی ہیں ، محبوب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہیں
جو جنت میں جوانوں کے سردار بھی ہیں، جو جگرگوشہ فاطمہ و علی بھی ہیں
ایسی ہستی کے لئے لفظ ’’ پڑے ‘‘ شایان شان نہیں معلوم پڑتا
یہ لفظ ’’ پڑے ‘‘ تو مجھ جیسے حقیر کے لئے موزوں و مناسب رہا

ممکن ہو تو اس لفظ ’’ پڑے ‘‘ کو لفظ ’’ ہوئے ‘‘ سے تبدیل فرما لیں یا کسی اور لفظ سے جو بحر
کے اصولوں پر بھی مناسب ہو

آپ اس کو نثر میں یوں پڑھیں تو بہتر لگے گا جیسے
حسین رضی اللہ تعالی عنہ عالی شان ہیں، حسین رضی اللہ تعالی عنہ پاسبان ہیں جو
کربلا کے دشت میں ہوئے لہولہان ہیں


میری جانب سے معذرت گر میرے لفظوں نے بڑے بھائی کو ملال پہنچایا ہو

اللہ آباد و بے مثال رکھے آپ کو

عاجز و فقیر
س ن مخمور
تشکر! جناب۔آپ کی رائے صائب ہے ۔ سلامت رہیے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب ہے منقبت۔
ویسے غلط تو نہیں ہیں، لیکن قوافی اختران، محسنان بندگان وغیرہ پر شک ہو رہا ہے۔ باقی تو عربی ا لنسل ہیں لیکن اختر بہرحال فارسی ہے۔ اس کی عربی کے مطابق جمع بنانا میرے خیال میں درست نہیں۔ محمد یعقوب آسی کی کیا رائے ہے۔
شاخ زعفران سے مراد۔ عموماً زعفران سے مراد ہنسنے ہنسانے والی شخصیت ہوتی ہے۔ کربلا کے کرب و بلا سے اس کا کیا تعلق؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایسی ہستی کے لئے لفظ ’’ پڑے ‘‘ شایان شان نہیں معلوم پڑتا
یہاں جو اعتراض کیا گیا ہے اگر چہ اس کی بنیاد محبت احترام و عقیدت ہی ہے مگر بیان کے اعتبار سے پڑے کا لفظ محض ظاہری مطابقت پر مبنی ہے۔ یعنی بیشک لہو ہان حسین کا لاشہ کربلا کی میدان میں پڑا تھا ۔
مگر یوں پڑا رہنے کواس ہستی کی اس باطنی و حقیقی بلندی کی طرف اشارہ سمجھا جائے جس کا خراج قیامت تک لکھے ،کہے اور پڑھے جانے والے قصیدوں میں دیا جاتا رہے گا اور پھر بھی بیان کا حق ادا نہ ہو گا۔
اس طرح کی شعری جموع بنانا عموما کوئی خاص عیب نہیں البتہ انداز واسلوب محاورے کی قدر سے جتنا منحرف ہو گا اتنا ہی کمزور لگے گا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
حوصلہ افزائی کے لیے ممنون ہو استاد جی۔
ویسے غلط تو نہیں ہیں، لیکن قوافی اختران، محسنان بندگان وغیرہ پر شک ہو رہا ہے۔ محمد یعقوب آسی کی کیا رائے ہے۔
چشم براہ ہوں۔
باقی تو عربی ا لنسل ہیں ۔لیکن اختر بہرحال فارسی ہے۔ اس کی عربی کے مطابق جمع بنانا میرے خیال میں درست نہیں
متبادل حاضر ِ خدمت ہے
حسیؓن کے لہو سے نم ہوے ہیں ریگ زار جو
جبینِ آسمان کے وہی تو اختران ہیں
وہ بن گئے ستارہِ جبینِ آسمان ہیں
شاخ زعفران سے مراد۔ عموماً زعفران سے مراد ہنسنے ہنسانے والی شخصیت ہوتی ہے۔ کربلا کے کرب و بلا سے اس کا کیا تعلق؟
استادِ محترم یہاں شاخِ زعفران کو خاص ترین ہستی اور بہت اہمیت کے حامل کے معنوں میں لیا گیا ہے
http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=شاخ_زعفران
 
آخری تدوین:
خوب ہے منقبت۔
ویسے غلط تو نہیں ہیں، لیکن قوافی اختران، محسنان بندگان وغیرہ پر شک ہو رہا ہے۔ باقی تو عربی ا لنسل ہیں لیکن اختر بہرحال فارسی ہے۔ اس کی عربی کے مطابق جمع بنانا میرے خیال میں درست نہیں۔ محمد یعقوب آسی کی کیا رائے ہے۔
شاخ زعفران سے مراد۔ عموماً زعفران سے مراد ہنسنے ہنسانے والی شخصیت ہوتی ہے۔ کربلا کے کرب و بلا سے اس کا کیا تعلق؟
 
سلام، منقبت، ہدیہ، نعت؛ اس نوع کی شاعری میں سب سے اہم عنصر شاعر کے عقائد اور عقیدت کا عنصر ہے۔ قاری اور ناقد کا نکتہء نظر مختلف بھی ہو سکتا ہے، اور موافق بھی؛ سو، بات بہت سنبھل کر کرنی پڑتی ہے کہ عقیدے اور عقیدت میں جذباتی ہونا، یا جذباتی ہو جانا بالکل فطری عمل ہے۔ اس لئے یہ فقیر ایسی تحریروں پر خاموشی اختیار کر لینا اولیٰ جانتا ہے کہ کسی کے جذبات کے نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ علمی اور فقہی مباحث کے قطع نظر یہاں ہم فن پر بات کرتے ہیں؛ پھر بھی جب میں اپنے عقائد اور عقیدتوں سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تو میں دوسرے سے ایسی توقع کیوں کر رکھ سکتا ہوں۔
 
منقبت، سلام، نعت ان سب کے لئے ایک بہت موزوں لفظ ہے: مدح
مدح نگاری میں اول اہمیت ہے ممدوح کا مقام اور وقار؛ ایک شاعر اپنے ممدوح کو کس مقام پر دیکھتا ہے اور اپنے قارئین کو دکھانا چاہتا ہے، یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ مدح میں شعر کو بالترجیح ارفع اور اعلیٰ ہونا چاہئے؛ نہ صرف فکری اور نظری سطح پر بلکہ اسلوب اور اظہار کی سطح پر بھی، زبان و بیان اور صنائع بدائع کی سطح پر بھی، معنوی، لفظی اور صوتیاتی روانی کی سطح پر بھی۔ ایسی شاعری میں یہ بات نہیں چلتی کہ "جناب، معانی درست ہیں؛ لفظ ٹھیک ہے، اوزان درست ہیں وغیرہ: سو ٹھیک ہے"۔ یہاں فن کو بھی صاحبِ کلام کی استعداد کے مطابق ممکنہ بلندی پر ہونا چاہئے۔ شعر کا تو عمومی منصب یہ ہے کہ ہمیں اپنی بات کو بنا سنوار کر پیش کرنا ہے؛ مدح میں تو منصب بھی خصوصی ہو جاتا ہے سو یہاں سارے اہتمام بدرجہء اولیٰ لازم ہیں۔ کجا آں کہ صاحبِ کلام کو گنجائش کی رعایت لینی پڑے۔
 
قوافی کے ضمن میں بات جمع بنانے کے قواعد کی بھی ہوئی۔ الف نون کے ساتھ جمع بنانے کا قاعدہ بنیادی طور پر فارسی کا ہے عربی کا نہیں ہے۔ جناب الف عین کی اجازت سے کسی قدر تفصیل میں بات کرنا چاہوں گا۔

عربی میں جمع کے دو معروف طریقے ہیں: جمع سالم اور جمع مکسر۔ صالح سے صلحاء جمع مکسر ہے؛ جمع سالم کی تین صورتیں بنتی ہیں: مجرور، منصوب، مرفوع۔ صالحِین (مجرور، منصوب)، صالحُون (مرفوع)۔ تثنیہ عربی سے خاص ہے بمعنی دو (2) اس کی بھی تین صورتیں ہیں: صالحَین (مجرور، منصوب)، صالحان (مرفوع)۔
شذرہ: جمع (صالحِین) میں یائے معروف ہے، اور تثنیہ (صالحَین) میں یائے لین ہے۔

یہ ساری صورتیں اردو میں بعینہٖ استعمال نہیں ہوتیں بلکہ جمع سالم کے لئے ہم فارسی کا قاعدہ (الف نون والا) جمع کے لئے اکثر لاتے ہیں اور اس کو درست مانا جاتا ہے، شرط صرف ایک ہے کہ اسم یا تو فارسی سے ہو یا عربی سے۔
فارسی اسماء: سگ سے سگان، بزرگ سے بزرگان، بچہ سے بچگان، سروَر سے سروران، دوست سے دوستان، یار سے یاران
عربی اسماء: غلام سے غلامان، قاتل سے قاتلان، ظالم سے ظالمان، حکیم سے حکیمان، رفیق سے رفیقان
واضح رہے کہ جمع مکسر اردو میں بھی صرف عربی اسماء پر لاگو ہوتی ہے۔ علماء، رسل، کتب، نجوم، دروس، قصص، حصص، اثمار، ایام

اردو ہندی اسماء کی جمع کا معاملہ پھر کبھی سہی۔
 
آخری تدوین:
فارسی والے نونِ آخر (ماقبل حرفِ علت) کو عام طور پر نون غنہ باندھتے ہیں اور یہ نون وہاں ناطق ہوتا ہے جہاں اس پر کوئی حرکت (زیرِ اضافت، واوِ عطف وغیرہ) نافذ ہو جائے۔ بعضوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ترکیب (اضافی، توصیفی، عطفی) میں ایسا نون لازماً غنہ ہونا چاہئے، بعض اس میں لچک لے لیتے ہیں، یعنی ناطق لے آتے ہیں۔

جناب ابن رضا کے پیش کردہ اشعار میں قوافی کا مسئلہ لسانی سے زیادہ عدمِ ملائمت کا لگتا ہے۔ ہم کچھ اظہاریوں سے بہت زیادہ مانوس نہیں ہیں؛ مثلاً:
یہ کون دشمنان ہیں (یہ کون دشمن ہیں)، ہمارے محسنان ہیں(ہمارے محسن ہیں)
وضاحت: یہاں فاضل شاعر نے اردو محاورے کو نظر انداز کیا ہے۔
 
کچھ مزید باتیں:
نواسا ۔۔ میرا خیال ہے یہ ہندی سے ہے فارسی سے نہیں، فارسی اور عربی میں سبط کہتے ہیں۔ ترکیب "نواسہء رسول" مشکوک ہے، اگرچہ بہت سارے منقبت گویوں نے اس کو استعمال کیا ہے۔
"وہ شاخِ زعفران ہیں، خدا کا ارمغان ہیں" یہاں رعایات میں تعلق کمزور ہے، سو، شعر میں چاشنی نہیں آئی۔
"جو کربلا کے دشت میں پڑے لہو لہان ہیں" اس پر بات ہو چکی۔ عالی شان میں میرے نزدیک ی گرانا عیب ہو گا۔
"حسیؓن کے حَسین تن پہ تیغِ بے دریغ سے" صنعتِ تجنیس سے کام لینے کی کوشش بہت بار آور نہیں ہوئی۔ "تیغ بے دریغ" اچھی صنعت ہے۔
محسنان، دشمنان کی بات ہو چکی۔
"یزید بے نشان ہے ، حسیؓن کامران ہیں" یہاں صنعتِ تضاد ہونی چاہئے تھی۔
"وہی تو اصل میں رضؔا، خداکے بندگان ہیں" ۔۔ یا تو خدا کے بندے کہئے یا بندگانِ خدا کہئے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
کچھ مزید باتیں:
نواسا ۔۔ میرا خیال ہے یہ ہندی سے ہے فارسی سے نہیں، فارسی اور عربی میں سبط کہتے ہیں۔ ترکیب "نواسہء رسول" مشکوک ہے، اگرچہ بہت سارے منقبت گویوں نے اس کو استعمال کیا ہے۔
"وہ شاخِ زعفران ہیں، خدا کا ارمغان ہیں" یہاں رعایات میں تعلق کمزور ہے، سو، شعر میں چاشنی نہیں آئی۔
"جو کربلا کے دشت میں پڑے لہو لہان ہیں" اس پر بات ہو چکی۔ عالی شان میں میرے نزدیک ی گرانا عیب ہو گا۔
"حسیؓن کے حَسین تن پہ تیغِ بے دریغ سے" صنعتِ تجنیس سے کام لینے کی کوشش بہت بار آور نہیں ہوئی۔ "تیغ بے دریغ" اچھی صنعت ہے۔
محسنان، دشمنان کی بات ہو چکی۔
"یزید بے نشان ہے ، حسیؓن کامران ہیں" یہاں صنعتِ تضاد ہونی چاہئے تھی۔
"وہی تو اصل میں رضؔا، خداکے بندگان ہیں" ۔۔ یا تو خدا کے بندے کہئے یا بندگانِ خدا کہئے۔
استادِ محترم نہایت ممنون ہوں کہ آپ نے اس قدر مفصل وضاحت و نکتہ آفرینی اور تنقید فرمائی. مذکور ہدایات کی روشنی میں نشان زدہ اسقام دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سلامت رہیے۔ جزاکم اللہ خیرا
 
Top