فیض اور فلسطین - سحر انصاری

حسان خان

لائبریرین
فیض احمد فیض جدید اردو شاعری کی اُس منتخب اور کم یاب صف سے تعلق رکھتے ہیں جن کی شاعری نظریات، سیاست اور انسانی مسائل کی بھرپور ترجمانی کے باوجود بنیادی طور پر شاعری ہی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ فیض کو مزدور، کسان، طلبہ اور نظریاتی حلقوں میں جتنی مقبولیت حاصل تھی اُتنی ہی بیوروکریسی، صنعتی اور سیف و تفنگ سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں بھی تھی۔ کسی حلقۂ سامعین میں انہیں اپنا کلام تامّل کے ساتھ پڑھنا پڑتا تھا اور نہ کسی مصلحت کے تحت ترمیم و تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی جتنی کسی غیر نظریاتی یا خالص شاعر کو ہو سکتی ہے۔ یہ وصف دراصل فیض کے اُس شاعرانہ ہنر میں پوشیدہ تھا کہ انہوں نے کلاسیکی فضا، اپنے تہذیبی اور ثقافتی رموز کو جدید دنیا کے مسائل کی ترجمانی سے اس طرح ہم آہنگ کر دیا تھا کہ ظاہری پیرہن بہت جدید نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی ساخت اور بافت میں ایک ناگزیر جدت اور ندرت راہ پا گئی تھی۔
فیض نے کس طرح ذاتی غموں سے گریز کر کے ایک اجتماعیت کو سارے محسوسات کا پیمانہ بنا لیا، اس کا بیان خود فیض کی کئی تحریروں میں ملتا ہے۔ جس قسم کی زندگی اور اس کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی رشتے فیض اور ان کی نسل کے حصے میں آئے تھے انہوں نے شاعری میں اپنے اظہار کے لیے ایک راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔
اقبال نے 'بچے کی دعا' کا ایک شعر یوں ادا کیا ہے:
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
فیض نے جب 'رقیب' کے روایتی مفہوم کو تبدیل کر کے پہلی بار اُسے ایک علامتی حیثیت دی اور 'رقیب' سے خطاب کیا تو اُن کے ہاں ایک مصرع یوں سامنے آیا:
عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
اس کے بعد کے مصرعے یہ ہیں:
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیردستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے، رخِ زرد کے معنی سیکھے
فیض کا یہ مزاج روایتی رومانیت سے ہٹ جانے کے بعد بنا۔ اگرچہ ان کی شاعری میں اول تا آخر ایک نوع کی رومانی فضا اور عشقیہ کسک برابر قائم رہی لیکن جس آدرش کو انہوں نے اپنی ذات اور ضمیر کا حصہ بنایا، وہ اپنے اندازِ قد سے صاف پہچانا جاتا ہے۔ فیض کا یہ مزاج اور یہ آدرش الگ سے اوڑھا ہوا یا طاری کردہ نہیں تھا۔ انہوں نے گرد و پیش کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ذہن اور محسوسات کی سطح پر یکساں برتنے اور اسے ایک منتخب ہیئت دینے کی کوشش کی ہے۔
برِ صغیر میں غیر ملکی راج، آزادی کی جد و جہد، لیلائے وطن کا وصل و ہجر، اور ہم وطنوں کی دلداری اور دل آسائی تو فیض کی شاعری کا بنیادی رخ ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر بھی انہوں نے اپنے عہد کے بعض انتہائی اہم اور سنگین واقعات پر بھی جن کا تعلق عالمی اقوام سے تھا، بے مثال نظمیں لکھی ہیں۔ 'ایرانی طلبہ کے نام'، روزن برگ کی سزائے موت (ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے) سے لے کر عرب اسرائیل جنگ اور فلسطینیوں کی جد و جہدِ آزادی تک فیض کی سیاسی اور نظریاتی شاعری پوری طرح شعورِ عصر کا ساتھ دیتی اور آگے ہی آگے سفر کرتی نظر آتی ہے۔
فیض کو اقوامِ عالم میں ظالم و مظلوم کی آویزشوں کی پوری خبر تھی۔ وہ ذاتی طور پر بیشتر ممالک کا سفر کر چکے تھے۔ جہاں نہیں گئے تھے وہاں کے قابلِ ذکر اہلِ قلم سے وہ عالمی اجتماعات میں مل لیتے تھے۔ پھر اپنے عہد سے حقائق کی سطح پر واقف ہونے کا ایک اور ذریعہ اُن کا مطالعہ تھا۔ ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ واقعات کو اُن کے صحیح اور معروضی تناظر میں دیکھنے کا ملکہ بھی انہیں حاصل تھا۔
فیض کے سیاسی شعور کی ایک جھلک اُس تقریر میں بھی ملتی ہے جو انہوں نے 'لینن امن انعام' کی تقریب میں کی تھی۔ وہ کہتے ہیں، 'سامراجی اور غیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلافات موجود ہیں، جنہیں حال ہی میں آزادی ملی ہے۔ ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریمی ہمسایے ہندوستان میں موجود ہیں، بعض عرب ہمسایہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔'
اس کے بعد فیض نے امن کی ضرورت پر زور دیا ہے، لیکن امن جب محض ایک خواب رہ جائے اور خواب دیکھنے والی آنکھوں میں میزائلوں کا زہر اور آتش زدہ انسانی بستیوں کا دھوان نشتر زنی کرنے لگے تو 'پڑ ہی جاتی اُدھر کو بھی نظر کیا کیجیے'۔
عرب اسرائیل کشمکش ہمارے عہد کی ایک سنگین صورتِ حالات ہے جس کو ہمارے ہاں مختلف زاویوں سے دیکھا، سمجھا اور پیش کیا جاتا ہے۔ فیض کو عرب کاز سے لگاؤ تھا۔ وہ عربی زبان و ادب سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ جب وہ پہلی بار قید و بند کی صعوبتوں سے گذر رہے تھے تو انہوں نے ایلس فیض سے جن کتابوں کی جیل میں فرمائش کی تھی اُن میں نکلسن کی 'تاریخِ عربی ادب' بھی شامل تھی۔ فیض کے کلام کے ترجمے دیگر زبانوں کے علاوہ عربی میں بھی ہوئے۔ مصر، عراق، شام اور لبنان کے لیے وہ اجنبی نہیں تھے، لیکن اُن کی اصل وابستگی کا بھرپور اظہار 'سرِ وادیِ سینا' سے ہوا جو ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد لکھی گئی۔
جدید عربی شعرا میں نزار قبانی کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے 'کتاب پسپائی کے حاشیے' کے عنوان سے جون ۱۹۶۷ء کے المیے پر ایک بہت مؤثر اور باغیانہ نظم لکھی جو اگست ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی۔ اُس نظم کے شائع ہوتے ہی ساری عرب دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور کئی ممالک میں اُس نظم کی درآمد اور اشاعت ممنوع قرار دی گئی۔ لیکن چونکہ واقعہ سنگین تھا اور عرب شعرا اُس کو ایک ہی طرح محسوس کر رہے تھے اس لیے نہ صرف نزار قبانی کی اس نظم کو وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا بلکہ دوسرے شعرا اور ادبا نے بھی جون کے اِس المیے پر لگاتار نظم و نثر میں اپنے محسوسات کا اظہار کیا۔ عربی میں چونکہ ماہِ جون کو 'حزیران' کہتے ہیں، اس لیے اس ذیل میں لکھا جانے والا سارا ادب 'الادب الحزیرانی' (جون کا ادب) کہلاتا ہے۔ فیض کی نظم 'سرِ وادیِ سینا' بھی ۱۹۶۷ء میں لکھی گئی تھی اور اِسے بھی حزیرانی ادب میں شامل کرنا چاہیے۔ فیض اِس المیے سے اِس حد تک متاثر ہوئے کہ اپنے شعری مجموعے کا نام بھی 'سرِ وادیِ سینا' رکھا اور اس کے سرورق میں جو اُن کی بیٹی نے بنایا تھا، اُس المیے کا عکس جھلکتا ہے۔
فیض کی نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدۂ بینا
اگرچہ یہ انتہائی مایوسی اور پسپائی کا دور تھا لیکن فیض کی رجائیت نے اسے ارضی اور تاریخی سطح پر فردا کی ایک کامیاب و کامران ساعت کے نزول کا پیش خیمہ قرار دیا۔ چونکہ صدیوں سے مفتیِ دیں کا شعار تائیدِ ستم رہا ہے، اس لیے فیض قانونِ فطرت کی سمت اشارہ کرتے ہوئے لوحِ دل پر ایک نئے فرمان کے رقم ہونے کا مژدہ سناتے ہیں:
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تو، نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اس کے بعد عرب کاز سے رفتہ رفتہ فیض کی عملی دلچسپی بڑھتی گئی۔ وہ 'لوٹس' کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے۔ اُس کا دفتر بیروت منتقل ہو گیا۔ فلسطینی تحریکِ مزاحمت کے سربراہ یاسر عرفات سے فیض کے ذاتی مراسم تھے۔ انہوں نے فیض کی وفات پر ایک ذاتی خط میں انہیں ہدیۂ تبریک اور خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
فیض کا مجموعۂ کلام 'مرے دل مرے مسافر' ایک طرح سے قیامِ بیروت کی یادگار ہے۔ اس مجموعے کو انہو‌ں نے یاسر عرفات کے نام معنون کیا ہے۔ اس میں کئی نظمیں بیروت اور اہلِ فلسطین کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح فیض کی کلیات 'نسخہ ہائے وفا' کا آخری حصہ جو 'غبارِ ایام' کے نام سے موسوم ہے، بیروت کی یادگار نظموں کا حامل ہے۔ فیض نے زندگی کے آخری دور میں بیروت ہی سے تعلق رکھا۔ وہاں ۱۹۸۲ء کی بمباری میں وہ اور ایلس 'لوٹس' کے دفتر کے ایک حصے میں مقیم تھیں۔ بیروت کی تباہی اور فلسطینیوں کے انخلا پر اُن کی نظم 'عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جولاں لے چلا' گہرا حزنیہ تاثر چھوڑتی ہے:
لوٹ کے آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سرخ تھا، زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پانو میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
'رسن در گلو' پا بجولاں ہمیں
اُسی قافلے میں کشاں لے چلا
فیض اُس دور کی شاعری میں اُس فضا سے بہت قریب رہے جو عرب شعرا کی مزاحمتی شاعری کا خاصہ ہے۔ فیض جدید عرب شعرا سے یوں بھی مزاجاً قریب ہیں۔ جس طرح فیض نے کلاسیکی اسالیب کو اردو، فارسی اور عربی سے اخذ کیا اور جدید مغربی اسالیب سے ہم آہنگ کر کے ایک اپنا انفرادی اسلوب وضع کیا ہے، اُسی طرح پانچویں اور چھٹی دہائی کے جدید شعرائے عرب نے مغربی ممالک کے نظریاتی شاعروں کی تقلید اور ترجموں کے ذریعے ایک نیا مزاجِ شاعری تخلیق کیا تھا۔ ان میں بدر الشاکر السیاب، عبدالوہاب البیاتی، اور نازک الملائکہ کے نام بہ طورِ خاص اہم ہیں۔ ان شعرا کے زیرِ اثر جدید معاصر عربی شاعری کا یہ مزاج بن گیا کہ نظم خواہ محبت کے بارے میں ہو خواہ گذشتہ یادوں حتیٰ کہ خود رحمی جیسے انتہائی داخلی جذبے پر مبنی ہو، بنیادی طور پر اُس کے آہنگ اور علامات میں سیاسی حالات کا پرتو، وطن کی یاد اور بے وطنی کا غم یا اپنی جد و جہد پر فخر و یقین کا عکس ضرور نمایاں رہے گا۔ فیض کے تراجم سے جدید عربی شعرا کو یوں محسوس ہوا جیسے فیض بھی انہی میں سے ہے۔ پھر دیگر مشترکہ اجزا نے انہیں فلسطینیوں سے اور قریب کر دیا۔
جدید فلسطینی شعرا کے یہاں نظم کی جدید ہیئتوں پر اصرار ملتا ہے۔ اُن کے یہاں 'کمٹمینٹ' کو بہت اہمیت دی جاتی ہے جسے انہوں نے 'التزام' کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔ 'کمٹمینٹ' یا 'التزام' فیض کا بھی بنیادی مسئلہ ہے۔
قیامِ بیروت نے فیض کو فلسطینیوں کے معاملات و مسائل سے بہت قریب کر دیا۔ بیروت کی دیگر شہرتیں اپنی جگہ لیکن مصر، شام، عراق اور دیگر ممالک کے جلا وطن شعرا کے لیے وہ ایک جنت سے کم نہیں تھا۔ شعرا یہاں مختلف الوطن ہونے کے باوجود خود کو متحد الخیال محسوس کرتے تھے۔ جب فیض نے بیروت کے بارے میں ایک نظم کہی کہ:
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئنے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رخشاں ہے ارضِ لبنان
۔۔۔۔۔
یہ شہر ازل سے قائم ہے
یہ شہر ابد تک دائم ہے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
تو یہ ایک خوبصورت جدید شہر کی قصیدہ خوانی نہیں تھی بلکہ اُس کی علامتی اور معنوی حیثیت کا ایک نادر شاعرانہ اظہار تھا۔
البیاتی نے اپنی کتاب 'کلمات لاتموت' (الفاظ جو کبھی نہیں مرتے) میں ایک نظم ٹی ایس ایلیٹ کے لیے لکھی ہے جس میں اُس نے ایلیٹ کی 'ویسٹ لینڈ' پر طنز کیا ہے، اُس کے خرابے میں نہ کوئی شاعر ہے نہ عاشق، نہ شہید ہے نہ کوئی قطرۂ آب۔ ایلیٹ کا خرابہ اجنبیوں اور آسیبوں کا مسکن ہے، پھر آخر میں البیاتی، ایلیٹ کو بیروت آنے کی دعوت دیتا ہے کہ یہاں آؤ اور زندگی کی حقیقی جد و جہد کا ذائقہ چکھو۔
فیض نے قیامِ بیروت کے زمانے میں زندگی کی حقیقی جد و جہد کا ذائقہ اپنے سارے وجود میں محسوس کیا جس کی گواہی میں اُن کی وہ نظمیں اور غزلیں ہیں جو انہوں نے فلسطینیوں کی جد و جہدِ آزادی اور بے مثال قربانیوں کے سلسلے میں لکھیں۔ جون ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر کے بیروت پر قبضہ کر لیا۔ پی ایل او کو بیروت سے اپنا مستقر ہٹانا پڑا۔ حزیران کا تجربہ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۸۲ء تک رہا اس کے بعد کی شاعری فلسطینی مقاومت اور المیۂ بیروت کے ایک نئے رخ کو ظاہر کرتی ہے جس میں تلخی، تڑپ اور شکایت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ ایک مشہور فلسطینی شاعر خلیل ہاوی جو بیروت یونی ورسٹی میں عربی ادبیات کے استاد تھے، ۱۹۸۲ء میں اسرائیل کے قبضۂ بیروت سے اِس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے خود کشی کر لی۔
نزار قبانی، فدوی طوقانی، سمیع القاسم، معین بسیسو، راشد حسین، محمود درویش، صالح نیازی، سعدی یوسف وغیرہ نے جدید مزاحمتی شاعری میں نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ سیاست دان اسٹریٹجی پر جان چھڑکتا ہے، جب کہ شاعر کے سامنے اپنے آدرش کی حرمت اور نظریے کی کلیت ہوتی ہے جس کی فتح میں کسی گروہ یا پارٹی کی نہیں بلکہ سارے عالمِ انسانیت کی فتح مضمر ہے۔ یہ نقطۂ نظر جدید عرب اور فلسطینی شعرا کی شاعری کا کلیدی نکتہ ہے۔ فیض احمد فیض کی شاعری اس طرزِ فکر کا ایک انتہائی سلیقہ مندانہ اظہار ہے۔ آخری دور میں فیض نے نہ صرف شاعرانہ اور نظریاتی حیثیت سے بلکہ عملی حیثیت سے بھی خود کو فلسطینیوں کی جد و جہدِ آزادی سے وابستہ کر لیا تھا اور اُن کا انجام اس ایقان پر ہوا:
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
(ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے)
 

حسان خان

لائبریرین
فیض کی وفات پر یاسر عرفات کا خط

جب شاعرِ انقلات اور 'لوٹس' کے ڈپٹی ایڈیٹر اِن چیف معین بسیسو نے پہلے پہل مجھے اُن سے متعارف کروایا تو میرے سامنے ایک مسکراتا چہرہ اور آنکھیں تھیں جو گرم جوشی اور اولوالعزمی اور پختہ یقین کے جذبے سے تمتما رہی تھیں۔
قبل ازیں معین فیض احمد فیض کو مجاہدین کے ٹھکانوں پر لے گئے تھے۔ تاہم جب ہم نے بیٹھ کر گفتگو شروع کی اور تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے فیض ساری زندگی ہمارے درمیان رہے ہوں اور انہوں نے ہماری تمام صعوبتیں برداشت کی ہوں اور جد و جہد کے اِن طویل سالوں میں ہماری تمام امیدوں میں شریک رہے ہوں۔
فیض جیسے شخص کے لیے جو اُس وقت ۷۰ برس کے ہو رہے تھے، یہ فقیدالمثال بات تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تمام تکلیف دہ سالوں کے بعد محسوس کیا تھا کہ اُن کی جگہ ہمارے درمیان، فلسطینی مجاہدینِ آزادی کے درمیان تھی۔ انہوں نے ہمیں اپنی محبت دی، فلسطین کو اپنی محبت دی، بیروت کو اپنی محبت دی۔
کیا جس چیز کے لیے انہوں نے عمر بھر جد و جہد کی تھی، انقلابِ فلسطین یا بیروت اُس کی نمائندگی کرتا تھا؟
یقیناً ایسا ہی تھا۔ تبھی تو فیض احمد فیض جیسا اردو کا پہلا اور عظیم شاعر، بین الاقوامی شہرت کا پاکستانی انقلابی اور عالم اپنے ابدی خواب کی تکمیل کے لیے ہمارے درمیان آ پہنچا تھا۔
وہ متین و سنجیدہ ہونے کے ساتھ پُرجوش اور پُرامید شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اُن تمام مرحلوں سے ایک لگن اور ولولے کے ساتھ گذرے۔ یہ لگن اور جذبہ محض گہرا انقلابی احساس رکھنے والے شاعر اور انسان کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔
فیض احمد فیض صرف 'لوٹس' کے ایڈیٹر اِن چیف ہی نہیں تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ اور ہمارے درمیان رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ اس رسالے کا صدر دفتر بیروت میں تھا بلکہ اس لیے کہ اُس عظیم انقلابی شاعر کا جذبہ اُسے انقلابیوں کے پاس لے جاتا تھا، خواہ وہ کہیں ہوتے۔۔۔ اور اُس وقت، اُس روز، یہ جذبہ انہیں انقلابِ فلسطین کے پاس لے گیا تھا۔
اور محاصرۂ بیروت کے دوران، اُس جنگ کے دوران جو اسرائیل نے امریکا کی مجرمانہ اعانت، اُس کی امداد اور اسلحے کے زور پر شروع کی تھی، اور اُس ساری تباہی و بربادی کے دوران فیض احمد فیض نے بیروت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اِس زبردست شیطانی اسرائیلی امریکی جارحیت کے خلاف سینہ سپری کے دوران مَیں اپنے ابدی خواب کی تعبیر دیکھ رہا ہوں۔ یہ تجربہ قوتِ برداشت سے بڑھ کر اور میرے خوابوں سے زیادہ شاندار ہے۔ اِس لیے میں اِس کے ایک ایک لمحے میں مسحور ہونا چاہتا ہوں۔ میں اِسے کیونکر چھوڑ کے جا سکتا ہوں؟
فیض احمد فیض میرے دوست تھے اور جنگِ بیروت میں میرے رفیق تھے، اِس دہکتے جہنم میں بھی اُن کے چہرے کی لازوال مسکراہٹ ماند نہیں پڑی اور اُن کی آنکھیں ناقابلِ شکست عزم و یقین سے دہکتی رہیں۔
فیض احمد فیض ہمیں چھوڑ گئے لیکن ہمارے دلوں میں محبت کا انمٹ نقش چھوڑ گئے۔ انہوں نے انقلابیوں، دانشوروں اور فنکاروں کی آنے والی نسلوں کے لیے بے نظیر اثاثہ چھوڑا ہے۔ اب جبکہ وہ دل جو حصولِ آزادی کے بے مثال جذبے کے ساتھ دھڑکتا تھا، دنیا کے عوام کے مستقبل کی بہبود اور انصاف کے لیے دھڑکتا تھا، دھڑکنا بند کر چکا ہے۔ فیض کی انقلابی تخلیقات آنے والی نسلوں کی یادداشت میں اُس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک آزاد و خودمختار فلسطین کے حصول کے لیے اُن کا عظیم خواب پورا نہیں ہوتا۔۔۔ اور ایک ایسی دنیا کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا جہاں ترقی ہو، بہبود ہو، انصاف ہو اور محبت کا بول بالا ہو۔

یاسر عرفات
چیئرمین مجلسِ عاملہ، تحریکِ آزادیِ فلسطین
کمانڈر اِن چیف، افواجِ انقلابِ فلسطین
 
Top