روزوں کے متعلق چند اہم سوالات کے جوابات

زیک

مسافر
سارا مسئلہ ایسے ہی حل ہوجاتا ہے۔ جسے دوا کی ضرورت ہے وہ روزہ نا رکھے دوا استعمال کرے اور صحت مند ہوکر روزے کی قضا کر لے۔ کسی عالم دین کو یا شریعت کو کسی مسلمان کا روزہ توڑنے کا شوق نہیں ہوتا۔
بہت سے لوگ ہیں جو ویسے صحتمند ہیں مگر کسی ایک کنڈیشن یا بیماری کی وجہ سے روزانہ دوائی لینی پڑتی ہے ساری عمر
 

شمشاد

لائبریرین
ایسا فرد جو کسی بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا اور نہ آئندہ امید ہے کہ روزے کی قضا کر سکے گا۔ وہ فدیہ ادا کرے۔ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا اس کے مساوی رقم ادا کر دے۔
 

عثمان

محفلین
یعنی دیگر الفاظ میں اگر ہم کسی پیشے کے ماہر سے مشورہ لیتے ہیں تو اس کی غلطی پر گرفت کرنا بھی ہمارا حق ہوگا۔ کیا علمائے دین کی غلطی گرفت کی جا سکتی ہے؟
یہ ڈاکٹر اور مولوی کا موازنہ انتہائی بھونڈا اور غیر منطقی ہے۔
آپ ڈاکٹر کے مشورے کی پیروی اس لیے نہیں کرتے کہ کہنے والا ڈاکٹر ہے تو بس واجب ہے۔ بلکہ مشورے کے حق میں سائنسی تفصیل اور استدلال ہے، جس پر آپ بھروسہ کرتے ہیں۔ نیز آپ ڈاکٹر کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے من مانی کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے جسم کے خود ذمہ دار ہیں، نیز ڈاکٹر آپ پر گرفت نہیں کرے گا۔
مولوی کے فتوے کے پیچھے ماسوائے مذہبی اعتقاد کے اور کچھ نہیں۔ اعتقاد کو ثبوت ، منطق اور دلیل کی کوئی حاجت نہیں۔ نیز مولوی (اور مذہب) آپ کو اعتقاد سے اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ ڈاکٹر اور مولوی کا موازنہ انتہائی بھونڈا اور غیر منطقی ہے۔
آپ ڈاکٹر کے مشورے کی پیروی اس لیے نہیں کرتے کہ کہنے والا ڈاکٹر ہے تو بس واجب ہے۔ بلکہ مشورے کے حق میں سائنسی تفصیل اور استدلال ہے، جس پر آپ بھروسہ کرتے ہیں۔ نیز آپ ڈاکٹر کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے من مانی کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے جسم کے خود ذمہ دار ہیں، نیز ڈاکٹر آپ پر گرفت نہیں کرے گا۔
مولوی کے فتوے کے پیچھے ماسوائے مذہبی اعتقاد کے اور کچھ نہیں۔ اعتقاد کو ثبوت ، منطق اور دلیل کی کوئی حاجت نہیں۔ نیز مولوی (اور مذہب) آپ کو اعتقاد سے اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
جیتے رہئے :)
 
یہی تو سارا پوائنٹ ہے کہ عالمِ دین کو اتنا بنیادی سا مسئلہ نہیں دکھائی دے رہا کہ بیمار کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے کیا روزہ فسخ ہو جائے گایا نہیں :(
عالم دین کو نظر آتا ہے، یہ لوگوں کے سوالات ہیں، جن کا جواب علماء دیتے ہیں۔ لوگوں بیماری کی حالت میں روزہ رکھتے ہیں پھر پوچھتے ہیں کہ دوائی ڈال لیں؟ یا روزہ رکھنے کو دل کرتا ہے اس لئے پوچھتے ہیں، کیا روزہ رکھ کے دوائی ڈال سکتے ہیں یا نہیں؟
بلاوجہ کی علماء پہ تنقید رواج بنتا جا رہا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
 
امام جعفر صادق علیہ السلام (متوفی ۱۴۸ھ)فقہ تشیع کے مروج، ابو حنیفہ (متوفیٰ ۱۵۰ھ)اور مالک بن انس (متوفیٰ ۱۷۹ھ)کے استادہیں اس طرح سے آپ سنی مذہب کے دو معروف مسلک ،حنفی ومالکی کے اماموں کے استاد رہے اسی لئے ابو حنیفہ کا یہ کہنا تھا ”لولا السنتان لھلک النعمان“اگر وہ دو سال (جو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلا م کی خدمت میں گزارے ہیں)نہ ہوتے تو نعمان (ابو حنیفہ )ہلاک ہو جاتا۔اسی طرح مالک بن انس کا کہنا ہے ”مارایت افقہ من جعفر بن محمد “میں نے جعفر بن محمد(امام صادق علیہ السلام ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ، (فی سبیل الوحدة الاسلامیة ص۶۳و۶۴)

ابن ابی لیلیٰ سے منقول ہے کہ مفتی وقت ابوحنیفہ اور میں بزم علم حکمت صادق آل محمد ، حضرت امام جعفر صادق۔ میں وارد ہوئے ۔

امام نے ابو حنیفہ سے سوال کیا تم کون ہو ؟

میں :ابو حنیفہ

امام: وہی مفتیِ اہلِ عراق ؟

ابو حنیفہ : جی ہاں

امام: لوگوں کوکس چیز سے فتویٰ دیتے ہو؟

ابو حنیفہ : قرآن سے

امام : کیا پورے قرآ ن نا سخ اور منسوخ سے لیکر محکم اور متشابہ تک کا علم ہے تمہارے پاس؟

ابوحنیفہ: جی ہاں

امام : قرآن میں سورۂ سبا کی ۱۸وی آیت وَجَعَلنَا بَینَہُم وَبَینَ القُرَی الَّتِی بَارَکنَا فِیہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَقَدَّرنَا فِیہَا السَّیرَ سِیرُوا فِیہَا لَیَالِی وَأَیَّامًا آمِنِینَ

ان میں بغیر کسی خوف کے رفت و آمد کرو ۔

اس آیت میں خدا وند عالم کی مراد کونسی جگہ ہے ؟

ابو حنیفہ : اس آیت میں مکّہ اور مدینہ مراد ہے

امام : ( امام نے یہ جواب سن کر اہل مجلس کو مخاطب کر کے کہا ) کیا ایسا ہوا ہے کہ مکّہ اور مدینہ کے درمیا ن میں تم نے سیر کی ہو اور اپنے جان اور مال کا کویی خوف نہ رہا ہو؟

اہل مجلس : با خدا ایسا تو نہیں ہے ۔

امام : افسوس ای ابو حنیفہ خدا حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ذرا یہ بتاؤ کہ خدا وند عالم سورۂ آلِ عمران کی ۹۷وی آیت میں کس جگہ کا ذکر کر رہا ہے : ومن دخلہ کان آمنا۔

ابو حنیفہ : خدا اس آیت میں بیت اللہ الحرام کا ذکر کر رہا ہے ۔

امام نے اہل مجلس کی طرف رخ کر کے کہا کیا عبد اللہ ابن زبیر اور سعید ابن جبیر بیت اللہ میں قتل ہونے سے بچ گیے ؟

اہل مجلس : آپ صحیح فرماتے ہیں ۔

امام : افسوس ہے تجھ پر اے ابو حنیفہ خدا حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔

ابو حنیفہ : میں قرآن کا نہیں قیاس کا عالم ہوں ۔

امام : اپنے قیاس کے ذریعہ سے یہ بتا کہ اللہ کے نزدیک قتل بڑ ا گناہ ہے یا زنا ۔

ابو حنیفہ : قتل

امام :پھر کیوں خدا نے قتل میں دوگوا ہوں کی شرط رکھی لیکن زنا میں چار گوا ہوں کی شرط رکھی۔

امام : اچھا نماز افضل ہے یا روزہ ۔

ابو حنیفہ: نماز

امام: یعنی تمہارے قیاس کے مطابق حایضہ پر وہ نمازیں جو اس نے ایامِ حیض میں نہیں پڑ ھی واجب ہیں نہ روزہ ، جبکہ خدا نے روزہ کی قضا واجب کی ہے نہ نماز کی ۔

امام : اے ابو حنیفہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی ؟

ابو حنیفہ : پیشاب۔

امام : تمہارے قیاس کے مطابق پیشاب پر غسل واجب ہے نہ منی پر ، جبکہ خدا نے منی پر غسل واجب کیا ہے نہ پیشاب پر ۔

ابو حنیفہ : میں صاحبِ رای ہوں ۔

امام: اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہاری نظر ا سکے بارے میں کیا ہے ، آقا اور غلام دونوں ایک ہی دن شادی کرتے ہیں اور اسی شب میں اپنی اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستر ہوتے ہیں ، ا سکے بعد دونوں سفر پر چلے جاتے ہیں اور اپنی بیویوں کو گھر پر چھوڑ دیتے ہیں ایک مدّت کے بعد دونوں کے یہاں ایک ایک بیٹاپیدا ہوتا ہے ایک دن دونوں سو تی ہیں ، گھرکی چھت گر جاتی ہے اور دونوں عورتیں مر جاتی ہیں ، تمہاری رأی کے مطابق دونوں لڑ کوں میں سے کون غلام ہے کون آقا کون وارث ہے کون مورث ؟

ابو حنیفہ : میں صرف حدود کے مسائل میں باہر ہوں ۔

امام : اس انسان پر کیسے حد جاری کرو گے جو اندھا ہے اور اس نے ایک ایسے انسان کی آنکھ پھوڑ ی ہے جسکی آنکھ صحیح تھی اور وہ انسان جسکے ہاتھ نہیں ہیں اور اسنے ایک دوسرے فرد کا ہا تھ کاٹ دیا ہے

ابو حنیفہ : میں صرف بعثتِ انبیا ء کے بارے میں جانتا ہوں

امام: اچھا ذرا دیکھیں یہ بتاؤ کہ خدا نے موسیٰ اور ہارون کو خطاب کر کے کہا کہ فرعون کے پاس جاؤ شاید وہ تمہاری بات کو قبول کر لے یا ڈر جاے ٔ: (فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی.طہ ۴۴ )یہ لعلّ تمہاری نظر میں شک کے معنیٰ میں ہے ؟

ابو حنیفہ : ہاں

امام : خدا کو شک تھا جو کہا شاید ؟

ابو حنیفہ : مجھے نہیں معلوم

امام : تمہارا گمان ہے کہ میں کتاب خدا کے ذریعہ فتویٰ دیتا ہوں جبکہ تم ا سکے اہل نہیں ہو ، تمہارا گمان ہے کہ تم صاحبِ قیاس ہو جبکہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا اور دینِ اسلام قیاس کی بنیاد پر بنا ہوا نہیں ، تمہارا گمان ہے کہ تم صاحب رأی ہو جبکہ دین اسلام میں رسول خدا کے علاوہ کسی کی رأ ی درست نہیں ہے اس لیے کہ خدا وندِ عالم فرماتا ہے :

فاحکم بینہم بما انزل اللہ۔.

تو سمجھتا ہے کہ حدود میں وارد ہے جس پر قران نازل ہوا ہے تجھ سے زیادہ حدود میں علم رکھتا ہو گا تو سمجھتا ہے کہ بعثتِ انبیا ء کا عالم ہے خود خاتمِ انبیاء، انبیائ کے بارے میں زیاد ہ واقف تھے اور میرے بارے میں تونے خود کہا فرزندرسول اور کوئی سوال نہیں کیا ، اب میں تجھ سے کچھ نہیں پوچھونگا اگر صاحبِ قیاس ہے تو قیاس کر۔

ابو حنیفہ : یہاں کے بعد اب کبھی قیاس نہیں کرونگا ۔

امام: ریاست کی محبّت کبھی تمکو اس کام کو ترک نہیں کرنے دیگی جسطرح تم سے پہلے والوں کو حبّ ریاست نے نہیں چھوڑ ا۔

(احتجاج طبرسی ج۲ ص۲۷۰تا ۲۷۴)
یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف سراسر جھوٹا واقعہ گھڑا گیا ہے۔ اسکی کوئی سند نہیں ہے۔ ابو حنیفہ کا یہ قول موجود ہے ”لولا السنتان لھلک النعمان“۔ امام پر یہ بہتان باندھا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایسے بندے کو حب ریاست والا کہا جسے قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔
 

دلاور خان

لائبریرین
آپ ثابت کر دیں کہ قرآن و حدیث کے مطابق بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا فرض ہے؟ آنکھ میں یا کان میں دوائی تبھی ڈالی جائے گی نا، جب کوئی بیماری یا تکلیف ہو۔۔۔
اگر کوئی ایسی بیماری ہے جو روزے کی راہ میں رکاوٹ ہے تو اسے عذر کہا جاتا ہے۔
ایسے میں روزہ چھوڑا جاسکتا ہے لیکن بعد میں اس کی قضاء کرنی ہوتی ہے۔
 
یہ ڈاکٹر اور مولوی کا موازنہ انتہائی بھونڈا اور غیر منطقی ہے۔
قیصرانی صاحب نے کس جگہ ڈاکٹر اور مولوی کا موازنہ کیا ہے؟:eek:
اگر کسی نے موازنہ کیا بھی ہے تو اپ کے دونوں اعتراضات کی حقیقت کا جائزہ کچھ یوں ہو گا:laugh:
مولوی کے فتوے کے پیچھے ماسوائے مذہبی اعتقاد کے اور کچھ نہیں۔ اعتقاد کو ثبوت ، منطق اور دلیل کی کوئی حاجت نہیں

اصولی طور پر اسلامی علما کے فتوی کے پیچھے قرآن و سنت کی دلائل اور ثبوت ہوتے ہیں اور ایک مسلم کے لیے یہ سائنسی اور عقلی دلائل سے (جو کہ وقتا فوقتا بدلتے ہیں یا بدل سکتے ہیں) زیادہ قابل بھروسہ اور قابل اعتماد ہیں اور اس کا ایمان ان پر ہوتا ہے،
ہاں یہ بات الگ ہے کوئی بندہ کسی نیم ملا کے ہاتھ چڑھ گیا ہو اور اس کی بات سن کر غلط قسم کے نتائج اخذ کر چکا ہو:laugh:
نیز غیر مسلم کے لیے بھی بات الگ ہے اس کے لئے سائنسی اور عقلی دلائل ہی حرف آخر ہیں
نیز مولوی (اور مذہب) آپ کو اعتقاد سے اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
؎
ڈاکٹر بھی آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ فلاں بات طب کے خلاف ہے لیکن پھر بھی تم اس پر عمل کرو۔
اسلامی علماء بھی اجازت نہیں دیتے کہ فلاں مسئلہ مذہب کے خلاف ہے لیکں تم اس پر عمل کر سکتے ہو

کسی بھی دو ہم جنس یا غیرہم جنس اشیا یا تصورات کے درمیان موازنہ کچھ مخصوص پہلووں سے کیا جا سکتا ہے
کہ اکثر اوقات ہم جنس اشیا یا تصورات میں بھی مکمل ہم آہنگی نہیں ہوتی اورفرق موجود ہوتے ہیں تو پھر کیا ان کا موازنہ بھی نہ کیا جائے؟:laugh::laugh::laugh:
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
قیصرانی صاحب نے کس جگہ ڈاکٹر اور مولوی کا موازنہ کیا ہے؟:eek:
اگر کسی نے موازنہ کیا بھی ہے تو اپ کے دونوں اعتراضات کی حقیقت کا جائزہ کچھ یوں ہو گا:laugh:


اصولی طور پر اسلامی علما کے فتوی کے پیچھے قرآن و سنت کی دلائل اور ثبوت ہوتے ہیں اور ایک مسلم کے لیے یہ سائنسی اور عقلی دلائل سے (جو کہ وقتا فوقتا بدلتے ہیں یا بدل سکتے ہیں) زیادہ قابل بھروسہ اور قابل اعتماد ہیں اور اس کا ایمان ان پر ہوتا ہے،
ہاں یہ بات الگ ہے کوئی بندہ کسی نیم ملا کے ہاتھ چڑھ گیا ہو اور اس کی بات سن کر غلط قسم کے نتائج اخذ کر چکا ہو:laugh:
نیز غیر مسلم کے لیے بھی بات الگ ہے اس کے لئے سائنسی اور منطقی دلائل ہی حرف آخر ہیں
؎
ڈاکٹر بھی آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ فلاں بات طب کے خلاف ہے لیکن پھر بھی تم اس پر عمل کرو۔
اسلامی علماء بھی اجازت نہیں دیتے کہ فلاں مسئلہ مذہب کے خلاف ہے لیکں تم اس پر عمل کر سکتے ہو

کسی بھی دو ہم جنس یا غیرہم جنس اشیا یا تصورات کے درمیان موازنہ کچھ مخصوص پہلووں سے کیا جا سکتا ہے
کہ اکثر اوقات ہم جنس اشیا یا تصورات میں بھی مکمل ہم آہنگی نہیں ہوتی اورفرق موجود ہوتے ہیں تو پھر کیا ان کا موازنہ بھی نہ کیا جائے؟:laugh::laugh::laugh:
عقائد کے دائرے میں مقید دلائل آفاقی حثیت نہیں رکھتے۔ یہ اس عقیدے کے حامل افراد کے ہاں مقدم تو ہوسکتے ہیں لیکن وہ اس سے کچھ ثابت کر سکتے ہیں نا غیر ثابت۔ اس کے برعکس سائنسی اور منطقی دلائل کسی شے کی objectivity پر مبنی ہوتے ہیں اور آفاقی حثیت رکھتے ہیں۔
اگر کوئی ہندو ، یہودی یا عیسائی ہے تو اس کے مذہبی دلائل اس کے لیے اتنے ہی مقدم اور برتر ہونگے جتنے آپ کے لیے آپ کے عقیدہ سے اخذ کردہ دلائل۔ آپ میں سے کوئی بھی کسی بھی منطقی یا سائنسی دلیل سے ایک دوسرے کو نہیں جھٹلا سکتا۔
بات بلکل صاف ہے۔ مذہب کی بنیاد ایمان اور تقلید پر ہے۔ سائنس کی بنیاد تشکیک اور تحقیق۔ دونوں کا موازنہ آگ اور پانی جیسا ہے۔ سائنس میں ایمان اور تقلید کی گنجائش نہیں۔ مذہب کے ہاں تشکیک حرام۔ موازنہ کیسا ؟

قیصرانی اور میں ایک دوسرے کا فکری پس منظر سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے میرا تبصرہ اور بین السطور مطالب سمجھنا مشکل نہیں۔ آپ کا تعجب یہاں بے جا ہے۔
آپ کا بچکانہ انداز تبصرہ اور ناپختہ دلائل اس بات کا ازخود ثبوت ہیں کہ آپ کو کیوں نظر انداز کیا جائے۔
 
Top