قلعہ میر چاکر

Qila-meer-chakar-300x336.png

ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ قلعے برصغیر پاک وہند میں تعمیر ہوئے۔ اسی طرح سرزمین بلوچستان میں جتنے قلعے واقع ہیں‘ شاید ہی اتنے کسی اور علاقے میں ہوں۔ یہاں چند قلعے قبل از تاریخ عہد سے بھی منسوب ہیں۔ اِن کا تذکرہ صرف کرم خوردہ کتابوں میں ملتا ہے‘ وہ اب معدوم ہو چکے۔ پھر بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں پچاس سے زائد قدیم قلعوں کی موجودگی ثابت ہے جو اپنے رقبے و طرز تعمیر کے لحاظ سے منفرد و یکتا ہیں۔ یہ بلوچ قوم کی تاریخ، ماضی اور تہذیب کے جیتے جاگتے آثار ہیں۔

بلوچستان میں ’’میری‘‘ شال کوٹ (قلعہ کوئٹہ) میری قلات، میری مستونگ، قلعہ چاکر‘ سبی، قلعہ خاران، قلعہ پُنہوں، چاکر ماڑی، قلعہ نمرود ، قلعہ ویول وغیرہ سب سے نمایاں ہیں۔ یاد رہے بعض قلعوں کو ’میری‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بلوچی اور سندھی زبانوں میں ’میری‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں حاکم وقت کی رہائش ہو اور جہاں وہ اپنا دربار لگائے۔
میرچاکر رند (1468ء 1565-ئ) بلوچوں میں لوک ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاریخ میں ’’چاکراعظم‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ سبی شہر کے مغرب میں سبی۔ ہرنائی ریلوے لائن کے قریب واقع ایک قلعہ میرچاکر کے نام سے منسوب ہے۔ واضح رہے کہ میرچاکر کے اس علاقے میں تین قلعے تھے۔ پہلا سوران، دوسرا بھاگ کے قریب گدڑ کے مقام پر اور تیسرا سبی قلعہ۔

اوّل الذکر دونوں قلعے زلزلوں میں منہدم ہو کر کھنڈر کی شکل اختیار کر چکے۔ جب کہ سبی قلعہ اب بھی موجود ہے، البتہ محکمہ آثار قدیمہ کی بے حسی کے سبب منہدم ہونے کو ہے۔ قلعہ چاکر کہنے کو بلوچستان کے تاج میں نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے مگر انسانوں کی طرح بستیوں اور عمارتوں کی بھی تقدیر ہوتی ہے۔ قلعہ چاکر کی تقدیر میں تباہی و تنہائی لکھی تھی۔ سو یہ عظیم قلعہ سبی کے پُر رونق شہر کے سنگ کسمپری کی تصویر بنا موجود ہے۔ اس کی دیواریں اپنی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہیں‘ مگر اس شاہکار کو دیکھنے کم ہی لوگ آتے ہیں۔

آپ اِس ویران اور اجڑے قلعے کی حدود میں داخل ہوں اور شعور کی آنکھیں کھلی رکھیں تو کمروں‘ راہداریوں اور درودیوار پر ماضی کے نقوش دیکھ سکتے ہیں۔ جنوب کی طرف مرکزی دروازے کے آثار موجود ہیں جو بارہ فٹ چوڑا ہے۔ اس کے اوپر دو بڑے برجوں کے نشان ہیں جن میں تیر انداز فروکش ہوتے تھے۔ پہلے برج پر چڑھنے کے لیے قریب ہی سیڑھیاں ہیں۔ وہ ایک دریچے پر ختم ہوتی ہیں۔ اس دریچے سے ملحق ایک گودام میں اناج ڈالا جاتا تھا۔ اس قلعے کی ہر چیز شاندار ہے لیکن اناج کے دو گودام لائق توصیف ہیں۔ پہلے گودام کی لمبائی 80 فٹ اور دوسرے کی 70 فٹ ہے، جبکہ ان کی کشادگی 30 فٹ تھی۔یہ پختہ اینٹوں سے بنائے گئے۔ نچلے حصے میں ایک دروازہ ہوتا تھا جہاں سے بوقت ضرورت اناج نکالا جاتا۔

آگے ایک اور ویسا ہی برج ہے جس کے دائیں طرف چند سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ اس حصے میں نہایت موٹی فصیل واقع ہے۔ یہاں کچھ بوسیدہ کمرے مورچوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔یہ دراصل فوجیوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ وہیں سے قلعے کی حفاظت ہوتی‘ حملہ آور لشکر کی نگرانی اور بوقت ضرورت دشمن کے لشکر پر تیراندازی کی جاتی تھی۔ نیچے نظر دوڑائیں تو سبی کے خوبصورت شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ قلعے کے وسیع آنگن میں ایک خوبصورت باغ تھا‘ اب وہ بھی اجڑ چکا۔ وہاں خود رو جھاڑیاں، ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کے ڈھیر‘ چاروں طرف پھیلی بلند و بالا فصیل اور اس کے ہیبت ناک برج عالم گریہ میں ہیں۔

قلعے کے دوسرے کونے پر بھی ویسا ہی برج واقع ہے۔ اس کے ساتھ کمروں کے آثار ہیں۔ ان کمروں کی دیواریں خوب چوڑی اور دروازے نہایت ہی مضبوط ہیں۔ کمروں کی چھتیں ڈھل چکیں۔ کمروں کی یہ قطار قلعے کے تیسرے کونے تک چلی گئی ہے۔

چاکر کی نجی رہائش گاہ

قلعے کی مغربی فصیل کے اندرونی جانب چاکر کی نجی رہائش گاہ واقع تھی۔ اس کی حفاظت کے لیے دو چھوٹی چوکیاں بنائی گئی تھیں۔ نزدیک ایک تہ خانے کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ تہ خانے سے زیر زمین ایک راستہ شمالی چوکی کو جاتا تھا۔ ایک پرانی مسجد کے آثار بھی ہیں جو شہید ہو چکی۔ مسجد کے ساتھ کئی حجروں کے کھنڈر نظر آتے ہیں۔ فصیل کے آخری کونے میں منہدم دیواریں ایک وسیع اصطبل کی ہیں، جہاں اعلیٰ نسل کے اسپ تازی رکھے جاتے تھے۔ فصیل کے ساتھ ساتھ آگے جائیں تو آخری برج پر پہنچ جائیں گے۔ یہ برج دوسرے برجوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹا ہے۔ ساتھ ہی سیڑھیاں ہیں۔ ان پر چڑھیں تو فصیل پہ پہنچ جائیں گے۔

فصیل کے ساتھ کئی کمرے نظر آئیں گے۔ بارش اور طوفانوں کی وجہ سے اب یہ اپنی اصل شکل و صورت کھو چکے۔ آپ قلعہ کی فصیل پر چڑھتے جائیں تو دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ قلعے کے درمیان چند سیدھی دیواریں منہدم حالت میں ملتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اُس زمانے میں ان پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہو۔ قلعے کے تینوں جانب فصیل کے نشانات موجود ہیں۔قدیم زمانے میں فصیل یا دیواریں دفاع کے مقبول ترین انداز تھے۔ قلعہ کی بیرونی فصیل قریباً کئی ایکڑوں پر محیط ہے۔ یہ پرانی چونگی تک چلی گئی ہے۔ یہ چونگی میرچاکر کی بیرونی آمدروفت اور ناکہ (وصولی) کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس فصیل کے آثار چاکر روڈ کے ساتھ ساتھ تقریباً آدھے کلومیٹر تک اب بھی موجود ہیں۔ یہ فصیل 8 سے 10 فٹ چوڑی ہے۔

قلعے کی دیواری مٹی مقامی آبادی گھروں کی تعمیر میں استعمال کر چکی۔ قلعہ کی بیرونی چار دیواری کے نشانات بھی مدھم پڑ چکے۔ لیکن ابھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ قلعے کے بیرونی جانب چاروں طرف مورچہ نما کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ان کمروں میں چھوٹے چھوٹے دریچے (تیرکش) نمایاں نظر آتے ہیں۔

قلعے کے سامنے چھوٹے سے شہر کے بھی آثار نمایاں ہیں۔ وہاں دوران موسم گرما دور دراز علاقوں سے کثیر تعداد میں قبائل کی آمد کی وجہ سے قلعہ کے باہر میدان میںخیموں کا شہر آباد ہو جاتا تھا۔ لوگوں کی مختلف ضروریات پوری کرنے کے واسطے منڈی میں خوجوں کی بڑی بڑی دکانیں کھل جاتی جن میں ہرات کا مخمل اور عطر، تبریز کے عجائبات، دمشق و قاہر ہ کے اسلحے موجود ہوتے۔ ان دکانداروں نے سبی کے قریہ قریہ میں اپنے کارندے متعین کر رکھے تھے۔ وہ سرداروں اور معززین کی مانگ پر سبی آ کر انھیں چیزیں فراہم کرتے۔

اسی میدان کے ایک حصے میں اعلیٰ نسل کے مواشی کی وسیع منڈی لگتی۔ دوسرے حصے میں اہم ترین میلے کا انعقاد ہوتا۔ واضح رہے کہ رندو لاشار قبائل کی تیس سالہ جنگ کا موجب بھی یہی میلا بنا تھا جس میں چاکر کے بیٹے‘ ریحان اور گہرام کے بیٹے‘ رامین نے گھڑ دوڑ میں حصہ لیا۔ اس میں جیت و ہار پر تنازع پیدا ہوا جو بعد میں بلوچ حاکمیت کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن گیا۔

جب بلوچستان انگریزوں کی عمل داری میں آیا‘ تو انھیں یہ میلا بہت بھایا۔ چناںچہ انھوں نے اس کے انعقاد کی خاطر بڑے میدان اور خصوصی عمارات مثلاً جرگہ ہال، گورنر ہائوس، سرکٹ ہائوس وغیرہ تعمیر کرائیں۔یہ میلاآج بھی روایتی شان سے منایا جاتا ہے۔ چند سال قبل تک ہر سال میلے کا افتتاح صدر مملکت فرمایا کرتے تھے۔

اس موقع پر سبی کی ترقی کے لیے خاطر خواہ رقوم کا اعلان ہوتا۔ لیکن بانی میلا کے قلعے کی بحالی کے لیے نہ کسی نے اعلان کیا اور نہ ہی کہیں سے مطالبہ ہوا۔ ہاں سردار اختر مینگل نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں اس کی مرمت کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے مشیر ملک طوقی نے کچھ کوششیں بھی کیں‘ لیکن ان کا منصوبہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔
قلعے کے آثار کا نظارہ آدمی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ حرم خانے، دیوان خانے، قید خانے، اسلحہ خانے وغیرہ یہ سب عہد ماضی کی یادگاریں ہیں۔ انھیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہر شے زبان خموشی سے کہہ رہی ہے: ’’دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔ صرف ذات باری تعالیٰ فنا سے ماورا ہے۔‘‘

آج کل یہ قلعہ مختلف جانوروں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ قلعے کے اندر خود رو پودے بڑی تعداد میں اگ آئے ہیں۔ اس وجہ سے سانپ، زہریلے کیڑے مکوڑے اور دوسرے بے شمار حشرات اِن میں پائے جاتے ہیں۔ خوفناک کُتے ہر وقت قلعے کے آس پاس اور اندر منہ کھولے دندناتے پھرتے ہیں۔ قلعے کے قریب سبی چھائونی واقع ہے جہاں تعمیر و ترقی کے نئے باب دکھائی دیتے اور صفائی کا نادر نمونہ بھی نظر آتا ہے۔ ہر طرف خوبصورت عمارتیں، سڑکیں اور تفریحی مقامات بنائے گئے ہیں۔ لیکن اس تاریخی قلعے کی حالت اب بھی افسوس ناک ہے۔ مختلف علاقوں کے لوگ یہاں خزانے کی تلاش میں دیواریں گرا کر اور زمین وغیرہ کھود کر قلعے کی حالت مزید خراب کر کے چلے جاتے ہیں اور انھیںکوئی پوچھنے والا نہیں۔

یہ قلعہ اپنے قیام سے مختلف طوفانوں کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے۔ کبھی یہ قبائلی جھگڑوں اور کبھی بیرونی حملہ آوروں کا شکار رہا ۔ پھر صدیوں تک اسے نظرانداز کر دیا گیا اور اس کی دیکھ بھال اور مرمت پہ کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قلعہ تقریباً منہدم ہو گیا۔ جو قومیں اپنے ماضی کے ورثے کی حفاظت نہیں کر سکیں‘ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔
یہ اشد ضروری ہے کہ حکومت قلعہ کے خستہ حال حصوں کی از سر نو تعمیر و مرمت کی جانب توجہ دے۔ ایک ماہر آرکیٹیکٹ کے ذریعے اس کی بحالی کا کام کرائے۔ یوں یہ قلعہ سیاحوں کے لیے پُرکشش اور قابل دید تفریحی مقام بن سکتا ہے۔
ربط
http://urdudigest.pk/qila-main-chakar/
 
آخری تدوین:
Top