ہمیں اپنے رویے میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے

جاسمن

لائبریرین
آپ کسی بھی موضوع پہ بات کر رہے ہیں ،آپ کے دلائل جتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں،کسی کے دِل میں تب تک جگہ نہیں بنا سکتے جب تک اُن پر محبت کی خوشبو کا چھڑکاؤ نہ ہو۔ لہجہ کی سختی اور آواز کی بلندی سے قائل کرنا ۔۔۔ عبث۔ لیکن معزرت کے ساتھ۔۔۔ ہم میں سے اکثریت کا رویہ ایسا ہی ہے اور اُس پرمستزاد ہم طنز، طعنہ،حقارت۔۔۔ وغیرہ سے اپنی گفتگو کو مزید"خوبصورت" بناتے رہتے ہیں۔۔۔ عِلم ہمیں اِنکساری سکھاتا ہے اور ہم اِسی سبق کو سب سے پہلے بھُلاتے ہیں۔۔۔ کیا عِلم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں ناں۔۔۔ واقعی ۔۔ہمارے ان پڑھ بزرگ علم والے ہیں/تھے۔ اور ہمارے بعض ڈگریوں والے جاہل۔۔۔ ۔۔معاف کرنا ہم دُوسرے نمبر پر بھُلاتے ہیں۔۔۔ کیا ہؤا اگر ذرا سی چشم پوشی، مُروّت اور اخلاق سے معمولات میں سُدھار آ سکتا ہے۔۔۔ تھوڑی سی مُسکراہٹ۔۔۔ تازہ ہواؤں کے کتنے ہی دریچے کھول سکتی ہے۔۔۔ اور ہمیں تازہ ہواؤں کی اشد ضرورت ہے۔۔کیا خیال ہے۔۔
 
مسلم بہن بھائیوں کی خدمت ، اچھا سلوک
ایک معروف حدیث نبوی ؐ بھی ہے کہ روز حشررب کائنات اپنے بندے سے سوال کرے گاکہ
اے میرے بندے جب میں بھوکا تھا تو تو نے مجھے کھانا کیوں نہ کھلایا؟
بندہ پریشان ہو کر کہے گا کہ اے خالق کائنات تیری ذات مختارکل ہے اور کھانے پینے کی حاجتوں سے مبرا ہے
پھر اللہ تعالی سوال کریں گے کہ اے میرے بندے مجھے پانی کی ضرورت تھی تو نے مجھے پیاسا رکھا
پھر اللہ تعالی کہیں گے مجھے کپڑوں کی ضرورت تھی تو نے مجھے کپڑے نہ دیے؟
اس طرح کے سوالات پر اس کا بندہ پوچھے گا کہ میرے پروردگار تو ان حاجتوں سے بے نیاز تھا تجھے ان چیزوں کی کیا ضرورت تھی؟
اس وقت اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے کہ ہاں مجھے تو ان چیزوں کی ضرورت نہیں تھی مگر میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تو نے اسے کھانا نہ دیاگویا کہ مجھے کھانے سے محروم رکھا ،میرا فلاں بندہ پیاسا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا تو گویا مجھے پیاسا رکھا،میرا فلاں بندہ چیتھڑوں میں ملبوس تھا تو نے اسے برہنہ رکھا گویا کہ مجھے کپڑے عطا نہ کیے -
 
آپ کسی بھی موضوع پہ بات کر رہے ہیں ،آپ کے دلائل جتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں،کسی کے دِل میں تب تک جگہ نہیں بنا سکتے جب تک اُن پر محبت کی خوشبو کا چھڑکاؤ نہ ہو۔ لہجہ کی سختی اور آواز کی بلندی سے قائل کرنا ۔۔۔ عبث۔ لیکن معزرت کے ساتھ۔۔۔ ہم میں سے اکثریت کا رویہ ایسا ہی ہے اور اُس پرمستزاد ہم طنز، طعنہ،حقارت۔۔۔ وغیرہ سے اپنی گفتگو کو مزید"خوبصورت" بناتے رہتے ہیں۔۔۔ عِلم ہمیں اِنکساری سکھاتا ہے اور ہم اِسی سبق کو سب سے پہلے بھُلاتے ہیں۔۔۔ کیا عِلم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں ناں۔۔۔ واقعی ۔۔ہمارے ان پڑھ بزرگ علم والے ہیں/تھے۔ اور ہمارے بعض ڈگریوں والے جاہل۔۔۔ ۔۔معاف کرنا ہم دُوسرے نمبر پر بھُلاتے ہیں۔۔۔ کیا ہؤا اگر ذرا سی چشم پوشی، مُروّت اور اخلاق سے معمولات میں سُدھار آ سکتا ہے۔۔۔ تھوڑی سی مُسکراہٹ۔۔۔ تازہ ہواؤں کے کتنے ہی دریچے کھول سکتی ہے۔۔۔ اور ہمیں تازہ ہواؤں کی اشد ضرورت ہے۔۔کیا خیال ہے۔۔
باتیں کمال کی ہیں آپ کی محترم بہن ،
 
تعصب کے لغوی واصطلاحی معنی یہ ہیں۔ تَعَصَّبَ․ پٹی باندھنا تعصب سے کام لینا۔ تَعَصَّبَ علیہ مقابلہ کرنا اور عصبیت دکھلانا اَلْعَصَبِیَّةُ دھڑے بندی اَلْعَصَبِی تعصب کی وجہ سے ظلم میں قوم کی مدد کرنے والا۔ التَّعَصُّبُ دلیل ظاہر ہونے کے بعد بھی حق قبول نہ کرنا المنجد/۶۵۶ حق بات کی دلیل ظاہر ہوتے وقت حق قبول نہ کرنا قواعد الفقہ /۲۳۱ وکذا فی رد المحتار ۱/۶۴۲، مشکوٰة/۴۱۸۔
میرےرب ذوالجلال نے بڑے عمدہ پیرائے میں ایک جامع سبق انسان کو دیا ہے ۔ فرمایا:
یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (القرآن)
اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم وحوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے کیا) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔
حضرت امام ابوعیسیٰ ترمذی نے ابن عمر کی حدیث روایت کی ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا فرمایا اے لوگو آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ آدمی جو عند اللہ کریم و شریف ہے اور دوسرا آدمی وہ جو فاجر وبدبخت ہو عند اللہ ذلیل وبے وزن اور تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اس کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم نے وہ یہی آیت شریفہ یایہا الناس الخ پوری تلاوت فرمائی (ترمذی ۲/۱۶۲، مسند امام احمد بن حنبل ۲/۵۲۴) اور ایک روایت میں واضح طور سے ان تمام تعصبات کی سخت انداز میں بیخ کنی کرتے ہوئے سیدنا محمد عربی صلى الله عليه وسلم نے افضلیت کا مدار بزرگی و برتری کا مناط محض تقویٰ وپرہیزگاری کو قرار دیا۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی دعوت دی اور ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی خاطر قتال کیا اور ہم میں سے نہیں وہ جو عصبیت کی حالت میں مرگیا۔


یہ بات بھی قابل ملحوظ ہے کہ تعصب وہی مذموم ہے جس میں آدمی اپنی قوم کی محبت میں قوم کے ظالم ہونے کے باوجود اس کی مدد کرتا ہے ورنہ اپنی قوم اور اقرباء سے محبت کرنا ظلم کی ان سے مدافعت کرنا کوئی مذموم شئی نہیں بلکہ قابل تعریف ہے چنانچہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اقرباء سے ظلم کی مدافعت و دفاع کرتا ہے ۔ رواہ ابوداؤد، مشکوٰة/۴۱۸۔
اور حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے عرض کیاگیا یا رسول اللہ کیا اپنی قوم سے محبت کرنا بھی تعصب وعصبیت ہی کا حصہ ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

نہیں! (یعنی قوم سے محبت کرنا کوئی برا نہیں اور نہ یہ تعصب کہلاتا ہے بلکہ) عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرے۔ رواہ احمد وابن ماجہ، مشکوٰة/۴۱۸۔

 
،رسول اکرمﷺ نے مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی عزت وتوقیر اورخدمت کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ،ایک مقام پررسول اکرمﷺنے مہمان کی عزت واحترام اورخدمت کرنے کوجزء ایمان بتاتے ہوئے فرمایا:
’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ‘‘
جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے
صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باللہ....وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار والضیف ولزوم الصمت إلا من خیر۔

، دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ جائزتہ... ‘‘
صحیح بخاری ،کتاب الأدب، باب إکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ وصحیح مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ.
جو شخص اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہو تواسے اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق اداکرنا چاہئے، صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ !اس کا حق کیاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک رات اورایک دن( یعنی اپنی بساط کے مطابق ایک دن بہترضیافت کرے) اورمہمان نوازی تین دن ہے ،اور اس سے زائد صدقہ ہے

آج ہم نے ام سلیم اورابوطلحہ رضی اللہ عنہماکے واقعہ کو بھلادیا کہ گھرمیں سوائے بچوں کے کھانے کے کچھ اورنہیں ہے لیکن رسول اکرمﷺ کے مہمان کو گھرلے جاتے ہیں، بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیتے ہیں اورمہمان کوکھانا کھلادیتے ہیں، لاکھوں رحمتیں نازل ہوں ام سلیم وابوطلحہ تم پر ،کیا درس تم دونوں نے اپنے اخلاف کودیا،بہانہ سے چراغ بجھاکر مہمان کے سامنے کھانا چن دیا گیا، حضرت ابوطلحہ بھی مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے،لیکن بیوی کی سکھائی ہوئی ترکیب کے مطابق ہاتھ کھانے تک اور پھر منہ تک تولے جاتے مگر نوالہ نہ اٹھاتے اورنہ کھاتے، تاکہ مہمان کوکھانے کی کمی کا احساس نہ ہو۔
صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار
 
میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ میت کے لواحقین او راس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمے ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔“(ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے میں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعزیت کومیت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں

انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا اور اس کی فضیلت
جب کسی کی وفات کا علم ہو تو اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔

اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون صرف کسی کی موت پر پڑھنا مسنون ہے‘حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نقصان کی صورت میں اسے پڑھا مسنون عمل ہے
ام سلمہ سے روایت ہے کہ ر سول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ہمارے گھر) تشریف لائے۔ اس وقت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بند کرکے فرمایا:۔’’جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کے تعاقب میں جاتی ہے۔‘‘گھر والے اس بات پر رونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’اپنے مرنے والوں کے حق میں اچھی بات کہو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے حق میں )یہ دعا فرمائی ’’اے اللہ، ابوسلمہ کو بخش دیجیئے، اسے ہدایت یافتہ لو گوں میں بلندمرتبہ عنایت فرمائیے اور اس کے ورثاء کی حفاظت فرمائیے، اے ربّ العالمین، ہم سب کو اور مرنے والے کو معاف فرمادیجئے، میت کی قبر کشادہ اور اسے نورسے بھر دیجیئے۔‘‘(مسلم۔عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا )
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹافوت ہو گیا۔ تیسرے دن انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگواکر استعمال کی اور کہا :۔ ’’ہمیں (مسلمان عورتوں کو) شوہر کے علاوہ کسی اور پر 3 دن سے زیادہ سوگ کا اظہار کرنے سے منع کیا گیاہے۔‘‘(بخاری)
’’جب جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر آئی توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اہل و عیال کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایاکہ ان لوگوں کو ایسی پریشانی آئی ہے جس میں وہ کھانا نہیں پکاسکیں گے۔‘‘(ابوداؤد۔ عن عبداللہ رضی اللہ عنہ )

روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں، یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر

اپنی "میں" مار کر دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا، دوسروں کو آگے کرنا، بہت مشکل کام ہے۔
 
فضول خرچی کرنے والے...

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا.
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے.(27 سُورة الْإِسْرَاء / بَنِيْ إِسْرَآءِيْل)

فرد سے لے کر معاشرہ تک آج فضول خرچی کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ آدمی اپنی ناک اونچی کرنے کی خاطر اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں پریشانیوں میں پڑتا ہے اور ذلت و رسوائی تک برداشت کرنے کی نوبت آپہنچتی ہے۔ نمود و نمائش کے لئے آدمی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سوچ میں اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس کے لئے یا تو اسے قرض کے بوجھ سے پریشان رہنا پڑتا ہے یا ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنے کی فکر کرنی پڑتی ہے۔جس سے معاشرے میں خرابیاں جنم لیتی ہیں۔...
دوستوں ...اسلام خرچ میں اعتدال پسندی کی تعلیم دیتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آدمی کو بخل پر ابھارتا ہے اگر اللہ نے مال دیا ہے تو اس کا حق ادا کرنا جس حد تک واجب ہے اس میں کوتاہی پر سخت عذاب ہے
اس کے علاوہ بھی کارخیر میں خرچ کرنا باعث خیر و برکت و ثواب ہے۔ حسب استطاعت نیکی کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ نعمتوں میں اور اضافہ فرماتاہے۔....!

یاالله ہمیں ہدایت عطا فرما.آمین
یا الله ہمیں مانگے کا طریقہ نہیں آتا پر تجھے عطا کرنا آتا ہے، هم گناہ گار ہیں پر تو بخشنے والا ہے. ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے اور ہماری دعا قبول فرما. آمین!
 
رات کے وقت کے لیے رحمت للعالمین:pbuh: کی ہدایت
حضرت جابر :abt: سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جب تم رات کے وقت کتے کے بھونکنے یا گدھے کے چلانے کی آواز سنو تو اللہ کی پناہ مانگا کروکیونکہ یہ جانور وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھ سکتے،جب رات ڈھل جائے تو گھر سے کم نکلا کروکیونکہ رات کے وقت اللہ تعالی اپنی بہت سی مخلوق کو پھیلا دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔دروازے بند کرتے وقت اللہ کا نام لیا کروکیونکہ جس دروازے کو بند کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے اسے شیطان نہیں کھول سکتا،مشکیزوں کا منہ باندھ دیا کرو،مٹکے ڈھک دیا کرواور برتنوں کو اوندھا کر دیا کرو - مسند احمد بن حنبل
 
سرور کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کی امید بھی ہو اور اس کے عذاب کا ڈر بھی ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ بندہ نہ تو خدا کی رحمت سے بالکل مایوس ہو جائے اور نہ ہی اس کے عذاب سے اتنا ڈرے کہ اس کی رحمت کی امید ہی باقی نہ رہے بلکہ بین بین حالت ہو۔ قرآن پاک میں جہاں جہاں بندوں کو عذات الیم کی وعید سنائی گئی ہے وہاں اس کی بے پایاں رحمت و مغفرت کا وعدہ بھی دیا گیا ہے چانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے مگر وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے اور فرمایا میری رحمت سے مایوس نہیں ہوتے مگر کافر لوگ‘‘ (القرآن)

یہ اس لئے ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے خطا کاری اس کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ فرشتوں کی طرح معصوم نہیں کہ غلط کاری کا تصور بھی محال ہو بلکہ اس کے ساتھ تو دو ازلی دشمن نفس امارہ و شیطان ہیں جن کی ہر لمحہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر قعر مذلت میں گرا دیا جائے اور ایسا کرنا ان کے لئے نہایت آسان ہے ۔ مگر ایسے میں خدا کی رحمت اس کے آڑے آتی ہے اور انسان کو کفر و ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف واپس لاتی ہے چانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ اللہ تعالیٰ دوست ہے ایمان والوں کو جو انہیں گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ان کے دوست شیطان ہیں جو انہیں ہدایت کے نور سے نکال کر کفر وضلالت کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں ‘‘ (القرآن)
 
مدیر کی آخری تدوین:
ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ایمان کے تین درجے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برائی کو ہوتا ہوا دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو کم از کم اس برائی کو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے (متفق علیہ) اس کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ اگریہ آدمی برائی کو برائی سمجھے گا تو ایک نہ ایک دن اسے ضرور توبہ کی توفیق ہو جائے اور اگر اس کام کو برائی نہیں سمجھے تو پھر تو بہ کی توفیق محال ہے۔ جیسا کہ اکثر آج کل یہ دکھا جاتا ہے کہ کسی ناجائز کام کو رسم و رواج یا زمانے کا دستور یا نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کے نتائج کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ مثلاً رشوت کو ’’چائے پانی ‘‘ یا اللہ کا فضل قرار دیا جاتا ہے اس طرح فلم ڈرامہ اور دیگر فحاشی کے کاموں کو ’’ثقافت ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اس طرح کے کام ہمارے معاشرے میں اکثر ہوتے ہیں مگر اس کے نقصان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔

سرور کائنات ﷺ سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا کہ گناہ کی نشانی کیا ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو اس بات سے ڈرے کہ لوگ میرے اس فعل پر مطلع ہو جائیں (المشکوۃ)
 
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایک آدمی راستے پر چَل رہا تھا کہ وہ شدید پیاسا ہوگیا، اس نے کنواں پایا، اُس میں اُترا ، پانی پیا، باہر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کُتا سخت پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکالے ہوئے ہے اور کیچڑ کھا رہا ہے، آدمی نے محسوس کیا کہ اِس کتے کو شدید پیاس لگی ہوئی ہے جیسا کہ مجھے شدید پیاس لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اُترا اور اپنے موزہ کو پانی سے بھرا، پھر اس کو منہ سے پکڑا اور اوپر چڑھ آیا، کتے کو پانی پلایا، اللہ نے اُس کے عمل کی قدر فرماتے ہوئے اُس کو معاف کردیا۔
صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا جانوروں کے ساتھ ہمدردی کرنے میں ثواب ملتا ہے؟
آپ نے فرمایا: ہر جاندار (کے ساتھ ہمدردی کرنے) میں ثواب ملتا ہے۔

روایت کیا اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے۔
بحوالہ ریاض الصالحین: 126
 
" آج فجر کی نماز کے بعد ایک حکایت یاد آئی، غالباً شیخ سعدی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی ہے۔

ایک دفعہ شیخ سعدی نے اپنے بیٹے کو تہجد کی نماز کیلیئے اُٹھایا،
بیٹا اُٹھا ، وضو کرکے تہجد پڑھنے کیلیئے کھڑا ہوا
تو کہنے لگا:
ابا جان!! یہ دنیا والے کیسے ہیں؟
اتنے مقرب اور قبولیت والے وقت میں سوئے پڑے ہیں
جبکہ یہ وقت تو جاگ کر عبادت کرنے کا ہے۔
حضرت شیخ سعدی نے جواب میں فرمایا:
بیٹا! اِس جملہ سے تو بہتر ہے کہ تو بھی پڑا سویا رہتا۔

مطلب: یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھنے سے اندیشہ ہے کہ اپنی عبادات ضائع ہوجائیں۔
اور یہ حکایت مجھے فجر میں اسلیئے یاد آئی
کہ جب انسان کے دل میں ایک خیال آتا ہے
کہ لوگ رمضان میں نمازوں کیلیئے آتے ہیں،
مسجدیں بَھر جاتی ہیں
لیکن عام دنوں میں یہ لوگ غائب ہوجاتے ہیں۔
تو یہ سوچ اگر آئے تو اسکو فوراً جھٹک دیں۔
کیونکہ کسی کو کیا معلوم کی کس کی عبادت اللہ کے نزدیک کیا حیثیت رکھتی ہے؟؟ "
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ
اگر ناراض ہونا چھوڑدیں تو سب چیز میں خیر نظر آئے گا۔
ہم سب سے زیادہ اس بات کو روڈ اور بازاروں میں آزماسکتے ہیں
 
Top