آگ یہ کیسی لگی ہے سینۂ دلگیر میں
چھالے آجاتے ہیں نظر آئینہ تقدیر میں
ظالم ومظلوم ان کے زورِ بازو پر نثار
چھوڑتے ہیں دل پہ چٹکی لے کے پائے تیر میں
نامہ لکھتے وقت کیا جانے قلم کیوں کر چلا
اضطراب دل نظر آنے لگا تحریر میں
نالے کرتا جا کہ زورِ ناتوانی ہے بہت
جھک چلا ہے چرخ گرجائے گا دو اک تیر میں...
پتی پتی سے نہ خون اُبلے تو مجرم جاننا
ذبح میں ہولوں تو پھر رنگ گلستاں دیکھنا
کائناتِ موت دامن میں لئے ہیں دل کے زخم
درد اگر کم ہو تو تم سوئے نمکداں دیکھنا
ہستی فانی پہ اک اصرار تھا تقدیر کو
ورنہ کب منظور تھا خواب پریشاں دیکھنا
پیس ڈالا خواہش بے جا نے کوہِ طور کو
دل کی قوت دیکھ لے پھر روئے...
خود اپنے محضر عصیاں پہ دستخط ہیں میرے
ثبوت یہ ہے کہ سچاگناہ گار ہوں میں
در کعبہ ہو کبھی ہو میرے سرکار کا در
کاش یوں دربدری میرا مقدر ہو جائے
سرشار صدیقی
دعا اور بد دعا کے درمیاں جب رابطے کا پل نہیں ٹوٹا
تو میں کس طرح پہنچا بد دعائیں دینے والوں میں
میں ان کی ہمنوائی پر ہوا مامور
ہم آواز ہوں ان کا
کہ جن کے نامئہ اعمال میں ان بد دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کے کہے پر آج تک بادل نہین برسے
کبھی موسم نہیں بدلے
کوئی طوفاں، کوئی سیلاب ان کی آرزوؤں سے...