یہ فونٹ تاج نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق سے کہیں بہتر ہے، بلکہ سارے ہی یونی کوڈ فونٹز سے بہتر ہے۔لیکن اس فونٹ کی اتنی کم پذیرائی یہاں دیکھ کر حیرانی ہوئی۔
درست۔ علاوہ ازیں پاکستان میں توہین مذہب کا قانون صرف 295 سی ہی نہیں ہے بلکہ 298، 298 اے، 295، 295 اے بھی ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کی مذہبی دل آزاری، کسی بھی مقدس شخصیت کی توہین، جائے عبادت یا عبادت گاہ کی توہین قابل سزا جرم ہے۔
اگر چارلی ایبڈو پر حملہ آور مسلمز تھے تو فرنچ پولس آفیسر احمد جس نے چارلی ایبڈو کے حملے کے خلاف جان دی اور کوشر مارکیٹ میں یہودیوں کی جان بچانے والاLassana Bathing بھی تو مسلمان تھے، ان کے پیغمبر کی توہین کیوں؟ ان کے افعال ایک مثبت تحریک اسلام کے بارے میں کیوں فرانس میں نہیں بپا کرتے یعنی...
توہین کے حق کی آزادی اور وہ بھی منتقمانہ اندھے جذبے کے تحت جبکہ حملہ آور مار بھی دیے گئے اب انتقام ایک مذہب اور اس کے ہم نواؤں سے لیا جارہا ہے، اب عدل و انصاف کو سب بھول گئے؟ ا گر عدل و انصاف کے پیمانے و تقاضے یہی ہیں تو یورپ و فرانس کے ایسے تمام، مع ان تیس لاکھ افراد جو ان سے یکجہتی کے لیے...
بحوالہ ایں مضمون، صاحب مضمون کی عقل کی سان اور منطق کی دھار پر کسی بھی زبان کو پرکھ لیجیے سب کا حال یکساں ہی ہو گا، کہ یہ ہجو کا گھڑا گھڑیا وہ سانچہ ہے جو بقراط کو بکرا، اور ارسطو کو رسوا کر دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ذرا بولڈ الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں، کیا یہ بہتر نہ ہو کہ سنجیدہ نوعیت کی ایسی تحریر کو ایک نظر، پوسٹ کرنے سے قبل پھر دیکھ لیا جائے؟ یہ صرف املا کی اغلاط نہیں بلکہ ایک آیت و چند تراکیب و اصطلاحات آپ نے بالکل غلط لکھ دی ہیں، اور سونے پہ سہاگا یہ آپ کی پرانی پوسٹ ہے
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح بعض کتب کے کئی طرح کے اڈیشن شائع ہوتے ہیں مجلد، غیر مجلد، سفید آفسٹ کاغذ پر یا لبنانی باریک اور بہت عمدہ کاغذ پر یا نیوز پیپر پر وغیرہ وغیرہ اور قیمت کا تعین بھی اسی اعتبار سے ہوتا ہے۔
شکیل اوج صاحب نے اپنی حیات میں ہی اس فتوی کی تصدیق جب متعلقہ دارالعلوم سے کروائی تو پتہ چلا کہ وہ فتوی جعلی ہے اور اس دارالعلوم نے ایسا کوئی فتوی نہیں دیا.