نہیں میرے دوست! کسی بھی اسم میں تقدیس یا توہین اس کے مسمیٰ کی طرف نسبت تک محدود ہوتی ہے۔ جب نسبت نہ ہو تو وہ خالی ہے۔ یہ لسانیات کا مسئلہ ہے۔ اس باب میں بہت سارے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
یہ غزل پڑھ کر ہمیں اچھا لگا
ورنہ تھے بیٹھے ہوئے بیزار سے
واہ!
واہ واہ!
واہ واہ! زبردست!
مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ بہرحال مزہ آیا،محمد احمد! داد قبول کیجے۔ اور 7 نمبر دیکھ لیجئے۔
جی ہاں! دراصل غزل کا ایک خاص رنگ، خاص زبان ہے، جس کے بارے میں فن کی کتابوں میں مذکور ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کلام غزل نہیں لیکن یہ کہنا کوئی عیب اور برائی بھی نہیں۔
بہت خوب، بہت بہتر۔ آپ نے برائے اصلاح لکھا ہے اس لئے کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔
غزل میں ہر شعر میں ایک مضمون وہ بھی پورا ہونا چاہئے۔ شعرا کے کلام میں شاذو نادر کہیں قطعہ واقع ہوجاتا ہے، کسی ضرورت سے کہیں ہوجائے تو گوارا ہے نہ ہو تو اچھا ہے۔ قطعہ یعنی ایک مضمون ایک سے زائد اشعار میں تمام ہو۔
غزل...
چند تازہ اشعار
نہ کر پائے کبھی اس سے جفا ہم
کہا کرتے ہیں جس کو بے وفا ہم
خفی رہتی نہیں اپنی محبت
گو ظاہر میں ہوں کتنے ہی خفا ہم
اماؔن اب یہ گماں ہوتا ہے خود پر
ہیں راہِ شوق کے اہلِ صفا ہم
میرے خیال میں نوید ناظم نے کیجے ہی باندھا ہے، غلطی سے کیجئے لکھ دیا۔ یہ اس لئے کہ اس حد تک موزوں کرنے والے کو یہ بات معلوم ہی ہوتی ہے۔
بحر حال اچھا لکھا ہے ماشاء اللہ۔