مہر فونٹ ایک با قاعدہ کاتب کے ہاتھ کی تحریر ہے اس لیے نمایاں مقام پر شان سے ایستادہ ہے جب کہ نوری نستعلیق مرزا جمیل احمد کی بہ امر مجبوری کاوش ہے کیوں کہ انہیں مقررہ وقت تک کوئی کاتب دستیاب نہیں تھا اس لیے انہوں نے یہ بار عظیم اٹھایا جس میں کام یاب بھی ہوئے اور تاریخ میں اپنا نام بھی شامل کر لیا...
میرا خیال ہے کہ یہ فنا بلند شہری کا کلام ہے. فنا کا مشہورِ عام کلام میرے خیال کی تائید کرتا ہے.
میرے رشکِ قمر..
گزشتہ شب بھی میں نے اس کلام کے خالق کے نام سے متعلق جواب پوسٹ کیا تھا مگر بعدہٗ جواب غائب ہوگیا.
مجھے یہ کلام فناؔ بلند شہری کے علاوہ کسی اور کا نہیں لگ رہا۔ اسی رنگ و لہجے میں فنا کا یہ کلام مشہورِ عالم ہے
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
بالن نھیں ، لفظ بالیں ہے جس کا مطلب ہے۔
لیٹے ہوئے شخص کے سرہانے کی جگہ۔ براسل شاید "بڑا دل" ہے، یہ میرا قیاس ہے گلوکار کو بہ غور سننے پر بھی اس کی زبان سے براسل ہی سنا جب کہ براسل کوئی لفظ نھیں ہے
مجھے مہر نستعلیق فونٹ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں خود کسی دور میں کاتب رہ چکا ہوں اور نوری نستعلیق میں اپنے ہی نام کی شین ’شا‘ دیکھ کربہت کوفت محسوس کرتا تھا ۔آپ صاحبان کو بہت مبارک ہو۔
یہ بتائیے کہ عام یوزر کے لیے یہ فونٹ کہاں دست یاب ہے ، نیز اسے کورل ڈرا میں کیسے استعمال کیا جائے گا۔
یہ غزل "ناصر کاظمی" کی نہیں بلکہ اقبال صفی پوری کی ہے۔
کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا
آنکھ ساقی کی اُٹھے نام ہو پیمانے کا
۔۔۔۔۔
گرمئی شمع کا افسانہ سنانے والو
رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا
۔۔۔۔۔
کس کو معلوم تھی پہلے سے خرد کی قیمت
عالمِ ہوش پہ احسان ہے دیوانے کا
۔۔۔۔۔
چشمِ ساقی مجھے...
یہ عمدہ غزل جناب شہرت بخاری کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی ، کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی ، گذر جانا ہے جی سے
یا معرکہِ عشق بھی ، ایک کھیل تھا دل کو
وہ آئیں تو...
میرا خیال ہے کہ یہ تین اشعار غالباً کچھ اس طرح ہوں گے ۔
براہِ کرم رہ نمائی کی جاے ۔
۔۔۔۔۔
کوہ کن کا تھا یہی پیشہ جو کاٹا تھا پہاڑ
کام مشکل جاں کنی اے ہمتِ مردانہ ہے
ہم نے دیکھا ہی نہیں خالی نحوست سے کوئی
زاہدوں کو ہو مبارک سبحۂ صد دانہ ہے
داغ یہ ہے کوئے قاتل، مان ناداں ضد نہ کر
اٹھ یہاں سے...
حضرت داغ کی اس معروف غزل میں کافی اغلاط نظر آئیں جو فوری درستی کی متقاضی ہیں،براہ کرم ان کی درستی کی جائے،
ناچیز نے اندازے سے درستی کی جسارت کی ہے جس کو یقینی نہیں نہ سمجھا جائے۔
ﺗﯿﺮﮮ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﺖِ ﺣﯿﻠﮧ ﺟﻮ ﻧﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻗﯿﺎﻡ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ، ﮐﺒﮭﯽ ﺻﺒﺢ ﮨﮯ، کبھی صبح ہے،ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﺫﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺁ...