یہ غزل میرے ایک عزیز نے لکھی ہے اور اصلاح چاہی ہے۔۔میرے لیے محترم ہیں۔۔ مہربانی فرما کر کوئی استاد اصلاح فرما دیں اس غزل کی
بسمل کو شب کا روگ تڑپ صبح نور کی
غالب نے کوئی بات یہاں پر ضرور کی
مانا سبھی کا ذوقِ نظر ہے جدا جدا
پھر بھی چلو کہ سیر کریں کوہ طور کی
فردا کی فکر ہے تو...
بہت بہتر استاد محترم۔
دھیاں کے بارے میں ابھی شاید تھوڑی اور رہنمائی مجھے درکار ہے۔
میر کا شعر
پر نہیں ہے ان کو مطلق یاں کی صحبت کا دھیاں
تجھ پہ ظل اللہ کا اطلاق شاہا راست ہے
شاد لکھنوی
اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف
میرا ترے سوا نہیں دھیاں اور کی طرف
دھیان کو دھیاں استعمال کیا ہے ۔ کیا...
اصلاح فرما دیں
خصوصاً آخری شعر میں "دھیاں" کا استعمال درست ہے یا نہیں رہنمائی فرما دیں
لاتا نہیں میں لب پہ جو باتیں گماں میں ہیں
جل جائے گی زبان کہ شعلے بیاں میں ہیں
پیروں تلے ہمارے زمیں جب کھسک گئی
ہم کو ہوا یہ وہم کہ ہم آسماں میں ہیں
ہم پیشتر چلے ہیں کہ پسماندہ ہیں ہم
کہتے ہیں کہ بہار ہے...
یہ قد و قامت یہ خدوخال اور گیسوئے تابدار دی ہے
تمھاری صورت میں گویا قدرت نے اک قیامت اتار دی ہے
گھنی سیاہی جو رات کی ہے تمھاری زلفوں کی ہے عنایت
تمھارے گالوں نے چاند تاروں کو روشنی کچھ ادھار دی ہے
تمھارے ہونٹوں کی دلکشی جیسی بات اس میں ذرا نہیں ہے
اگرچہ قدرت نے نازکی تو کلی کو بھی بے شمار دی...
خصوصاً "نا" کے استعمال کے بارے میں رہنمائی فرما دیں ۔ یہ استعمال قابلِ قبول ہے؟
زندگی جسکو کہیں یہ زندگی وہ نا رہی
تم سے جو پہلے تھی ہم کو دل لگی وہ نا رہی
ہاں تعلق اب بھی ہے اے دوست لیکن سچ کہوں
دل یہ کہتا ہے کہ اپنی دوستی وہ نا رہی
پھر فریبِ عشق میں آ جائیں ایسا بھی نہیں
جو ہوا کرتی تھی آگے...
اس غزل میں ردیف "نا ہے" قابلِ قبول ہے یا نہیں۔ استاذہ کرام برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔
نیز اور کوئی خرابی ہو تو وہ بھی بتا دیں
صدا بلبل کی نا ہو جس میں وہ گلزار نا ہے
نہیں ہے فصلِ گل جب دل بے برگ و بار نا ہے
نہ پگھلائے جو پتھر وہ نہیں فریاد میری
لہو گرما نہ دے جو وہ مری گفتار نا ہے
کہ...
مرے شب کے اندھیرے میں دیا ہیں آپ کی آنکھیں
مرے ظلمت کدے کا آسرا ہیں آپ کی آنکھیں
ہیں کلیاں٬ چاند٬ تارے٬ جھیل یا پھر رات کی رانی
اگر یہ سب نہیں تو اور کیا ہیں آپ کی آنکھیں
اگر محفل میں ہیں تو پھر تو ہیں یہ رونق محفل
ہیں تنہا گر کہیں تو پھر دعا ہیں آپ کی آنکھیں
یہ فن پارے کسی قابل مصور کے بھی...
سدا دروازے پر آنکھیں رہیں گی
مسلسل جاگتی راتیں رہیں گی
وہ آئیں گے تو پھر خوشیاں بھی ہونگی
وگرنہ غم کی سوغاتیں رہیں گی
یہ ساون بھی ہے وابستہ تمہی سے
تم آؤ گے تو برساتیں رہیں گی
مٹا دو فاصلے۔ اب درمیاں میں
مری جاں کب تلک راہیں رہیں گی
ابھی آنا ہے تو آؤ وگرنہ
نہ یہ موسم نہ یہ راتیں رہیں گی...
السلام علیکم
خاکسار کو ان اصطلاحات کی تعریف مع امثلہ درکار ہیں
اگر کوئی دوست مدد فرما دیں تو شکر گذار ہوں گا
اشد ضرورت ہے۔
عینیت
داخلیت
خارجیت
آفاقیت
قنوطیت
رومانیت
کلاسیکیت
علامتیت
رمزیئت و ایمائیت
تغزل
تنوع
سھل ممتنع
غرابت
معاملہ بندی
مضمون آبیتی
خیال آفرینی
حقیقت آفرینی
مقفی و مسجع نثر
عاری نثر