محفل میں بار بار کسی پر نظر گئی
ہم نے بچائی لاکھ مگر پھر اُدھر گئی
ان کی نظر میں کوئی تو جادوضرور ہے
جس پر پڑی اُسی کے جگر تک اُتر گئی
اس بے وفا کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑے
حسرت بھری نِگاہ بڑا کام کر گئی
ان کے جمالِ رُخ پہ انہیں کا جمال تھا
وہ چل دیے تو رونقِ شام...
وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سِدھارا
طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا
گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا
نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا
خوں ریز و کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
ہنستا ہوا مہتاب، دمکتا ہوا تارا
خوش...
کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں
نورِ منزل مجھے نصیب کہاں
میں ابھی حلقۂ غبار میں ہوں
یہ ہے تاکید سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
تم جسے نورِ صبح کہتے ہو
میں اسےگردِ شام بھی نہ کہوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم...
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے پیار نے پھر سے سجا دِیا...
.
شبِ اسریٰ
ماہرالقادری
معراج کی شب ایسے انوار نظر آئے
بے پردہ خدائی کے اسرار نظرآئے
تھا مسجد اقصیٰ میں جھرمٹ جو رسولوں کا
ان سب سے حسیں میرے سرکار نظرآئے
جبریل رکے رک کر کی عرض خدا حافظ
جب قرب تجلیّ کے آثار نظر آئے
اب وقت و مکاں کی بھی تمئیز نہیں...
OTE="محمد تابش صدیقی, post: 1737069, member: 12202"]بہت خوب، ماشاءاللہ
اللہ تعالٰی سب کو نصیب فرمائے۔ آمین
آمین ثم آمین۔۔۔۔۔شکریہ پسندفرمائی کا تابش صاحب
...
حج بیت اللہ کے بعد مدینہ کا سفر
ماہرالقادری
پاک دل پاک نفس پاک نظر کیا کہنا
بعد مکہ کے مدینے کا سفر کیا کہنا
جیسےجنت کے دریچوں سے جھلکتی ہو بہار
پہلی منزل ہی کے انوار سحر کیا کہنا
تپش شوق بھی ہے گرمی موسم بھی ہے
اور پھر اس پہ مرا سوز جگر کیا کہنا...
وہ محو ناز ہے قدر نیاز کون کرے
ادھر یہ شرم کہ دامن دراز کون کرے
ہمیں بھی راز بہار چمن کا معلوم ہے
سوال یہ ہے کہ افشائے راز کون کرے
اسی لیے خلش زخم دل گوارہ ہے
کہ منت کرم چارہ ساز کون کرے
رہے نہ جب ہوش و عشق کا کوئی معیار
تو جرأت گنہ امتیاز کون کرے
ہر اک...
ہم بیٹھے ہیں اب درد کی روداد سنانے
محفل سے ہٹاؤ گل و بلبل کے فسانے
سمٹی ہوئی رگ رگ سے چلی دھار لہو کی
جب اشک سے خالی ہوئے آنکھوں کے خزانے
کیا جانے دعاؤں میں اثر ہے کہ نہیں
کچھ ہم نے بھی تیروں کے لگائے ہیں نشانے
اظہار تمنا پہ وہ کچھ بولے تھے لیکن
سننے نہ دیا دل کے دھڑکنے کی صدا نے
افسردہ...