محبت کے سفر میں ناروا ایسے بھی پل ٹھہرے
کہ جس ماتھے کا جھومر، اسی ماتھے کا بل ٹھہرے
تمہاری شاعری کا ناز اس پر کیا اثر ہوگا
وہ خود جانِ غزل ہے پھر کہاں تیری غزل ٹھہرے
ناز مظفرآبادی
کسی کے واسطے جو لڑ رہے ہیں آپس میں
ہے کون حق پہ، کسے عقل سے بعید کہیں
مقامِ فکر ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
کسے ہلاک لکھیں اور کسے شہید کہیں
ناز مظفرآبادی
عشق،چاہت،دوستی سے، اختلاف اُس نے کیا
دل کے ہر اِک فیصلے سے، انحراف اُس نے کیا
تب کہیں جا کر کھلے، اُس پر رموزِ بندگی
اپنے اندر بیٹھ کر جب اعتکاف اُس نے کیا
غیر ممکن ہے وہ اب بھرنا، کسی تدبیر سے
دل کی دیواروں کے اندر، جو شگاف اُس نے کیا
مل گیا تھا، منصفوں کو، بے گناہی کا ثبوت
دار تک پہنچا کے...
غزل
بھوک، بیماری، ہلاکت، نفرتوں کی زد میں ہے
آدمی کی ذات، کتنے زلزلوں کی زد میں ہے
گو سفر انسان کا جاری ہے تا روزِ ازل
منزلِ مقصود لیکن، فاصلوں کی زد میں ہے
پیش بندی ہے یقیناً یہ نئی اُفتاد کی
پھر ہماری ذات اُن کے تبصروں کی زد میں ہے
وہ سزائے موت سے پہلے ہی کل شب چل بسا
رحم کی عرضی ابھی تک...