مصیبتوں کی بارش

پاکستان میں ایک کے بعد ایک مصبتیں نازل ہورہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ مصیبتوں نے پاکستان کا گھر یہ دیکھ لیا ہے۔ شاید یہ صورت حال لال مسجد کے بعد شروع ہوئی
پاکستان میں زلزلہ
پاکستان میں سیلاب
پاکستان میں بڑے شہروں میں قتل و غارت
پاکستان کے بڑے لیڈروں کا قتل
پاکستان میں نااہل کرپٹ قیادت کی حکومت
کبھی سلالہ کبھی گیاری میں سپاہیوں کی ہلاکت
سال دو سال بعد طیاروں کا گرنا
مہنگائی در مہنگائی
یہ کیا ہورہا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام کو اپنے اعمال پر نظرثانی اور توبہ کی ضرورت نہیں
کیا یہ صورت حال اسلام سے دوری کا نتیجہ نہیں؟
 

عسکری

معطل
ہر قوم پر اچھا برا وقت آتا ہے اور جو لوگ متحد رہتے ہین اور مردوں کی طرح مقابلہ کرتے ہین وہی کامیابی سے ان مشکلوں سے نکلتے ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
پاکستان میں ایک کے بعد ایک مصبتیں نازل ہورہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ مصیبتوں نے پاکستان کا گھر یہ دیکھ لیا ہے۔ شاید یہ صورت حال لال مسجد کے بعد شروع ہوئی
پاکستان میں زلزلہ
پاکستان میں سیلاب
پاکستان میں بڑے شہروں میں قتل و غارت
پاکستان کے بڑے لیڈروں کا قتل
پاکستان میں نااہل کرپٹ قیادت کی حکومت
کبھی سلالہ کبھی گیاری میں سپاہیوں کی ہلاکت
سال دو سال بعد طیاروں کا گرنا
مہنگائی در مہنگائی
یہ کیا ہورہا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام کو اپنے اعمال پر نظرثانی اور توبہ کی ضرورت نہیں
کیا یہ صورت حال اسلام سے دوری کا نتیجہ نہیں؟

پاکستان میں زلزلہ
یہ قدرتی آفات میں سے ہے ۔
پاکستان میں سیلاب
پاکستان میں ڈیمز کی ناقص پالیسی اور غلط حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے ۔
پاکستان میں بڑے شہروں میں قتل و غارت
سیاسی اور مذہبی چپلقش اور اختلاف کا نتیجہ ہے ۔
پاکستان کے بڑے لیڈروں کا قتل
سیاسی طاقتوں کا اقتدار کے لیئے رسی کشی کا نتیجہ ہے ۔
پاکستان میں نااہل کرپٹ قیادت کی حکومت
پاکستانی عوام کی اکثریت کے فیصلے کی مرہونِ منت ہے ۔
کبھی سلالہ کبھی گیاری میں سپاہیوں کی ہلاکت
فوجی اور خارجی پالیسوں کی کمزوری کا شاخسانہ ہے ۔
سال دو سال بعد طیاروں کا گرنا
کرپشن اور غیر ذمہ داری کا نمونہ ہے ۔
مہنگائی در مہنگائی
عوام کے منتخب کردہ لیڈروں کے تحائف میں سے قوم کے لیئے ایک خوبصورت تحفہ ہے ۔
یہ کیا ہورہا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام کو اپنے اعمال پر نظرثانی اور توبہ کی ضرورت نہیں
پاکستانی عوام کو اپنے اعمال پر نظرِثانی سے زیادہ اس شعور کی ضروررت ہے جو ان کو یہ احساس دلاسکے کہ انہیں کن قسم کی رہنما چننے ہیں ۔
کیا یہ صورت حال اسلام سے دوری کا نتیجہ نہیں؟
مسجدیں جتنی آج نمازیوں سے بھری نظر آتی ہیں ۔ اس سے پہلے کبھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ لوگ مذہب کی طرف آج جتنے مائل ہیں ۔ گذشتہ کئی عشروں سے ایسا منظر پہلے نظر سے نہیں گذرا ۔ تبلیغی جماعتوں کے اجتماع ، لوگوں کے جوق در جوق غول ، مدرسوں میں طالبعلوں کی ناقابلِ یقین تعداد ، رمضانوں میں عام مسلمانوں ، خصوصا ً نوجوانوں کا مسجدوں کی طرف رخ اور پھر اعتکاف کے لیئے مسجدوں میں جگہ کا کم پڑ جانا ۔ ٹی وی ہر چار مباحثہ میں دو مباحثہ صرف مذہب پر ہونا ۔ دینی عالموں کی ناقابلِ گنتی میں تعداد وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا اسلام سے دوری کو ظاہر کرتی ہے ۔
جناب ! یہ اسلام سے دوری نہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ کچھ اور ہے ۔۔۔ ذرا یہ فرسودہ بہانوں سے باہر آئیں تو آپ کو ان سب باتوں کا سبب کچھ اور نظر آئے گا ۔ اگر یہ سب مذہب سے دوری ہوتی تو جن جن عذابوں کو آپ نے انگلیوں پر گنوایا ہے ۔ ( سوائے ایک کے ) تو اس کے سب سے زیادہ نمایاں مناظر آپ کو مغرب میں نظر آتے کہ وہ مذہب سے دور ہے ۔ اگر یہ سب مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے تو پھر وہاں آپ کے گنوائے ہوئے عذاب کیوں نہیں آتے ۔ بات ہے سوچنے کی مگر سوچے گا کون ۔۔۔ ؟
 
ًًمیں اپ کے سب سوالات کا جواب بھی دوں گا انشاللہ ۔ مگر امید ہے کہ اپ نہ ذاتیات پر اتریں گے نہ موکری (انگلش)کریں گے۔
مگر پہلے میں نوح علیہ سلام کا واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں ۔ جو کہ توراہ، بابئل اور قران میں مذکور ہے۔

نوح علیہ سلام کا سلسلہ نسب دس پیڑھی سے ہوتا ہوا حضرت آدم علیہ سلام سے ملتا ہے۔ وہ حضرت ادریس علیہ سلام کی اولاد تھے۔ نوح(ع) توحید کی تبلیغ کرتے تھے اپنی قوم کو جو زنا اور دوسری معاشرتی برائیوںمیں مبتلا تھی۔ مگر قوم نوح اپنے رسول کی اور ان کی ھدایات کا مذاق اڑایا کرتی تھی بلکہ وہ نوح اور اسکے خاندان کو ایذا بھی پہنچایا کرتے تھے۔ مگر نوح سنت انبیا کی بنا پر صبر کرتے تھے۔ جب قوم کی ہٹ دھرمی اپنے عروج پر پہنچ گئی تو نوح نے اللہ سے قوم کی ہٹ دھرمی کا شکوہ کیا۔ اللہ نے جواب دیا کہ قوم سرکشی کی تمام حدود پھلانگ چکی ہے اور اب اس کو سزا ملے گی جو کہ انے والی نسلوں کے لیے عبرت کا سامان ہوگی۔ اللہ نو نوح کو خبر دی کہ ایک عظیم سیلاب انے والا ہے جو کہ اس سرکش قوم کو تباہ کردے گا اور ان تمام جھوٹے خداوں کو بھی جن کی یہ پوجا کرتے ہیں-

سیلاب
اللہ نے نوح کو حکم دیا کہ ایک جہاز تیار کرو اور تمام مومنین کو اور جانوروں کے ایک جوڑے اسپر رکھ لو۔ نوح نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ اور ایک بہت بڑا جہاز بنانا شروع کیا۔ چونکہ وہاں کوئی سمندر یا ابی ذخیرہ نہیں تھا صرف ایک چھوٹا سا دریا تھا لہذا قوم نے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ جب جہاز بن چکا تو نوح نے لوگوں کو بلانا شروع کردیا مگر لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا صرف گنتی کے چند لوگوں نے نوح کی پکار پر لبیک کہا۔
نوح کے کشتی میں بیٹھنے کے کچھ عرصہ بعد ہی بارش شروع ہوگئی ہر سمت سے زمین نے پانی اگلنا شروع کردیا۔ جب پانی چڑھنا شروع ہوگیا تولوگ اونچے درختوں اور اونچی جگہوں پر جابیٹھے۔ مگر پانی چڑھتا ہی رہا۔ کشتی نوح پانی پر تیر رہی تھی اور طوفانی اثرات سے محفوظ رہی مگر سیلابی پانی نے ہر چیز کو پاٹ دیا۔ ہر شے تباہ ہوگئی مگر صرف نوٰح کی کشتی سلامت رہی۔

کہا



جاری
 

شمشاد

لائبریرین
زمین نے ہر طرف سے پانی اگلنا شروع نہیں کیا تھا، بلکہ ایک تنور سے پانی نکلنا شروع ہوا تھا۔
 

سید ذیشان

محفلین
ایک سیدھا سا سوال ہے میرا۔ بقول آپکے اگر زلزلے انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں تو چاند پر کیوں زلزلے آتے ہیں؟ وہاں پر تو انسان نہیں رہتے۔
 
ایک سیدھا سا سوال ہے میرا۔ بقول آپکے اگر زلزلے انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں تو چاند پر کیوں زلزلے آتے ہیں؟ وہاں پر تو انسان نہیں رہتے۔
اپ کے اس سوال کا جواب بھی دوں گا۔ مگر ذرا میرا مراسلہ مکمل ہونے دیں
 

وجی

لائبریرین
پاکستان میں ایک کے بعد ایک مصبتیں نازل ہورہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ مصیبتوں نے پاکستان کا گھر یہ دیکھ لیا ہے۔ شاید یہ صورت حال لال مسجد کے بعد شروع ہوئی
پاکستان میں زلزلہ
پاکستان میں سیلاب
پاکستان میں بڑے شہروں میں قتل و غارت
پاکستان کے بڑے لیڈروں کا قتل
پاکستان میں نااہل کرپٹ قیادت کی حکومت
کبھی سلالہ کبھی گیاری میں سپاہیوں کی ہلاکت
سال دو سال بعد طیاروں کا گرنا
مہنگائی در مہنگائی
یہ کیا ہورہا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام کو اپنے اعمال پر نظرثانی اور توبہ کی ضرورت نہیں
کیا یہ صورت حال اسلام سے دوری کا نتیجہ نہیں؟

زلزلہ 2005 میں آیا تھا اور لال مسجد کا واقعہ 2007(صحیح سے تاریخ یاد نہیں ) میں ہوا تھا۔2005 کے بعد مجھے نہیں یاد کوئی بڑا زلزلہ آیا ہو ۔
سپاہیوں کی ہلاکت :- بھائی کیا سپاہیوں نے چوڑیاں پہن رکھیں تھیں سلالہ واقعہ میں ؟؟ ۔۔
بڑے شہروں میں قتل و غارت : - یہ تو کافی عرصے سے ہورہا ہے جناب ۔(آنکھیں کھیلیں رکھیں تو نظر آئے گا )
 

ساجد

محفلین
عمر بن عبدالعزیز کے حوالے سے ایک واقعہ اکثر بیان کیا جا تا ہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرے گا تو عمر پر اس کی ذمہ داری ہو گی'۔ اور سچ ہے کہ اسلام کا حکمرانوں سے عوامی خدمت کے حوالے سے یہی تقاضا ہے۔ جب پاکستانی حکمران ان تقاضوں کے تحت اپنے کردار کو ڈھال لیں گے تب یہ ،قدرتی آفات اور اللہ کی ناراضی یا پھر آپ اسے منصوبہ بندی کا فقدان کہہ لیں ، سب ختم ہو جائے گا ۔یوں دین اور دنیا دونوں میں ہمارے لئے بہتری آ جائے گی اور ہم اپنی ناکامیوں کو دین اور دنیا کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنا ختم کر دیں گے۔
 
كم از كم كورال طيارہ حادثہ ہمارى ہی كرپشن كى سزا ہے ۔ ہميں بحيثيت قوم كرپشن سے توبہ كرنى چاہیے ورنہ ہمارى كسى چيز كا كوئى معيار باقى نہيں بچے گا ۔ بہت شرم كى بات ہے كہ ہمارى غذائيں ملاوٹی، ڈگرياں جعلى ، سودے غير شفاف، قول بے اعتبار، وعدے جھوٹے ہيں ۔ جھوٹ اور بے ايمانى نے ہميں اس مقام پر پہنچا ديا ہے کہ ہمارے خائن ٹھيكيداروں كى عمارتيں ہمارى اجتماعى قبريں اور طيارے ہمارے اجتماعى تابوت بن رہے ہيں۔ ايمان دار انسان كا اس معاشرے ميں جينا بہت مشكل ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین

عمر بن عبدالعزیز کے حوالے سے ایک واقعہ اکثر بیان کیا جا تا ہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرے گا تو عمر پر اس کی ذمہ داری ہو گی'۔ اور سچ ہے کہ اسلام کا حکمرانوں سے عوامی خدمت کے حوالے سے یہی تقاضا ہے۔ جب پاکستانی حکمران ان تقاضوں کے تحت اپنے کردار کو ڈھال لیں گے تب یہ ،قدرتی آفات اور اللہ کی ناراضی یا پھر آپ اسے منصوبہ بندی کا فقدان کہہ لیں ، سب ختم ہو جائے گا ۔یوں دین اور دنیا دونوں میں ہمارے لئے بہتری آ جائے گی اور ہم اپنی ناکامیوں کو دین اور دنیا کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنا ختم کر دیں گے۔


یہ عمر بن عبد العزیز کے حوالے سے ہے یا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اتنا کچھ ہو رہا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہیں کیا نہیں ۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم پر یہ حکمران بھی ہمارے اعمالوں کی وجہ سے ہی مسلط ہیں۔ بظاہر تو ہمارا گناہ یہی ہے کہ ہم اپنا ووٹ اپنی مرضی سے ڈالنے کی جسارت تک نہیں کرتے لیکن اگر ہم اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا ووٹ اپنی مرضی سے ڈالنے چلے بھی جائیں تو بھی یہاں ایسا کون ہے کہ جسے اس ڈولتی ناؤ کا "ناخدا" بنایا جائے۔
 
احمد بھائى ميرے خيال ميں تبديلى صرف ووٹ سے نہيں آتى ، انفرادى كردار اجتماعى كردار كى نہج متعين كرتا ہے۔
جناح رحمہ اللہ كا ايك قول مجھے اكثر ياد آتا ہے جس كا مفہوم كچھ اس قسم كا ہے كہ ہم ميں سے ہر شخص ديانت دارانہ اصول وضع كر كے سختى سے ان پر عمل كرے اور معاشرے كو بھی ان پر عمل كرنے پر مجبور كر دے ۔ يہ تبديلى بہت آسان ہے ۔ان كى زندگی كا آخرى پيام عيد پڑھتے ہوئے ميں اكثر سوچ كر رہ جاتى ہوں كہ ہم نے كيا كيا ؟ نہ كسى مذہبی راہ نما كى سنى نہ سياسى راہ نما كى سنى ؟ہر چيز موجود ہے صرف عمل كى كمى ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائى ميرے خيال ميں تبديلى صرف ووٹ سے نہيں آتى ، انفرادى كردار اجتماعى كردار كى نہج متعين كرتا ہے۔
جناح رحمہ اللہ كا ايك قول مجھے اكثر ياد آتا ہے جس كا مفہوم كچھ اس قسم كا ہے كہ ہم ميں سے ہر شخص ديانت دارانہ اصول وضع كر كے سختى سے ان پر عمل كرے اور معاشرے كو بھی ان پر عمل كرنے پر مجبور كر دے ۔ يہ تبديلى بہت آسان ہے ۔ان كى زندگی كا آخرى پيام عيد پڑھتے ہوئے ميں اكثر سوچ كر رہ جاتى ہوں كہ ہم نے كيا كيا ؟ نہ كسى مذہبی راہ نما كى سنى نہ سياسى راہ نما كى سنى ؟ہر چيز موجود ہے صرف عمل كى كمى ہے۔

ووٹ کا ذکر میں نے اس لئے کیا کہ اس گفتگو میں تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر ہی ڈالی گئ ہے اور بات بھی ٹھیک ہے کہ ہماری زیادہ تر مشکلات کا سبب یہ کرپٹ لوگ ہی ہیں۔ بظاہر یہ سب لوگ ووٹ کے ذریعے ہی منتخب ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی تیسرا راستہ ہے نہیں کیونکہ آمر حکمرانوں سے ہم پہلے ہی عاجز ہیں لیکن افسوس کہ یہ منتخب لوگ ہمیشہ ہمارے حق میں آمروں سے بھی زیادہ بد تر ثابت ہوتے ہیں۔

رہی بات ہر شخص کا اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا تو ہمارے ہاں تربیت کا فقدان ہے، اسکولز میں صرف امتحان پاس کرنا سکھایا جاتا ہے، مساجد میں صرف امتیازی مسائل پر بات ہوتی ہے، ذرائع ابلاغ خود کو عمومی باتوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اگر الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اُن کی تمام تر محنت ہی لوگوں کو بگاڑنے کے لئے ہے۔

پھر ہمارے ہاں عام لوگوں میں بھی دو طبقات ہیں ایک وہ جو مذہبی خیالات رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو کچھ سیکولر نظریات کے حامی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ بین بین بھی ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی طبقات میں اعلیٰ اقدار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، مثلاً جھوٹ، فریب، مکاری، دھوکہ بازی، کسی کو تکلیف پہنچانا اور کسی کا حق مارنا دونوں ہی طبقات میں برا سمجھا جاتا ہے اور اچھی باتیں بھی تقریباً ایک جیسی ہی ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں طبقات عمل کے میدان میں یہ سب کرتے نظر نہیں آتے ۔ دونوں ہی قسم کے لوگوں کی نظر اپنے حقوق اور دوسروں کے فرائض پر رہتی ہے۔ پھر ایسے میں خود کو ٹھیک کرنے کا خیال کیوں کر آسکتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو اصلاحِ معاشرہ کا خیال بھی آتا ہے لیکن ہم ہمیشہ ہمیشہ دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم خود تو غلط ہو نہیں سکتے ۔

ہمارے معاشرے میں بگاڑ بہت زیادہ ہوگیا ہے اور صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے۔

آپ جناح کی بات کرتی ہیں آج ایک طبقہ ایسا ہے جو جناح کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تو دوسرا طبقہ اُنہیں حاجی ثنا اللہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یعنی بات اصولوں کی نہیں طبقات کی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر سیکولر لوگوں جناح کو خود سے منسلک کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان بھی سیکولر اور اگر مذہبی لوگ جناح کو خود سے جوڑنے میں کامیاب تو پاکستان بھی اسلامی مملکت ۔ جناح نے جو اصول وضع کیے، جناح نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اس سے کسی کو کوئی مطلب نہیں ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے علاوہ سب کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں خود کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتے ۔ جو اکا دکا لوگ اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور معاشرتی برائیوں سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے وقوف گردانے جاتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے بے وقوفوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
 
Top