احمد بھائى ميرے خيال ميں تبديلى صرف ووٹ سے نہيں آتى ، انفرادى كردار اجتماعى كردار كى نہج متعين كرتا ہے۔
جناح رحمہ اللہ كا ايك قول مجھے اكثر ياد آتا ہے جس كا مفہوم كچھ اس قسم كا ہے كہ ہم ميں سے ہر شخص ديانت دارانہ اصول وضع كر كے سختى سے ان پر عمل كرے اور معاشرے كو بھی ان پر عمل كرنے پر مجبور كر دے ۔ يہ تبديلى بہت آسان ہے ۔ان كى زندگی كا آخرى پيام عيد پڑھتے ہوئے ميں اكثر سوچ كر رہ جاتى ہوں كہ ہم نے كيا كيا ؟ نہ كسى مذہبی راہ نما كى سنى نہ سياسى راہ نما كى سنى ؟ہر چيز موجود ہے صرف عمل كى كمى ہے۔
ووٹ کا ذکر میں نے اس لئے کیا کہ اس گفتگو میں تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر ہی ڈالی گئ ہے اور بات بھی ٹھیک ہے کہ ہماری زیادہ تر مشکلات کا سبب یہ کرپٹ لوگ ہی ہیں۔ بظاہر یہ سب لوگ ووٹ کے ذریعے ہی منتخب ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی تیسرا راستہ ہے نہیں کیونکہ آمر حکمرانوں سے ہم پہلے ہی عاجز ہیں لیکن افسوس کہ یہ منتخب لوگ ہمیشہ ہمارے حق میں آمروں سے بھی زیادہ بد تر ثابت ہوتے ہیں۔
رہی بات ہر شخص کا اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا تو ہمارے ہاں تربیت کا فقدان ہے، اسکولز میں صرف امتحان پاس کرنا سکھایا جاتا ہے، مساجد میں صرف امتیازی مسائل پر بات ہوتی ہے، ذرائع ابلاغ خود کو عمومی باتوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اگر الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اُن کی تمام تر محنت ہی لوگوں کو بگاڑنے کے لئے ہے۔
پھر ہمارے ہاں عام لوگوں میں بھی دو طبقات ہیں ایک وہ جو مذہبی خیالات رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو کچھ سیکولر نظریات کے حامی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ بین بین بھی ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی طبقات میں اعلیٰ اقدار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، مثلاً جھوٹ، فریب، مکاری، دھوکہ بازی، کسی کو تکلیف پہنچانا اور کسی کا حق مارنا دونوں ہی طبقات میں برا سمجھا جاتا ہے اور اچھی باتیں بھی تقریباً ایک جیسی ہی ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں طبقات عمل کے میدان میں یہ سب کرتے نظر نہیں آتے ۔ دونوں ہی قسم کے لوگوں کی نظر اپنے حقوق اور دوسروں کے فرائض پر رہتی ہے۔ پھر ایسے میں خود کو ٹھیک کرنے کا خیال کیوں کر آسکتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو اصلاحِ معاشرہ کا خیال بھی آتا ہے لیکن ہم ہمیشہ ہمیشہ دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم خود تو غلط ہو نہیں سکتے ۔
ہمارے معاشرے میں بگاڑ بہت زیادہ ہوگیا ہے اور صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے۔
آپ جناح کی بات کرتی ہیں آج ایک طبقہ ایسا ہے جو جناح کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تو دوسرا طبقہ اُنہیں حاجی ثنا اللہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یعنی بات اصولوں کی نہیں طبقات کی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر سیکولر لوگوں جناح کو خود سے منسلک کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان بھی سیکولر اور اگر مذہبی لوگ جناح کو خود سے جوڑنے میں کامیاب تو پاکستان بھی اسلامی مملکت ۔ جناح نے جو اصول وضع کیے، جناح نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اس سے کسی کو کوئی مطلب نہیں ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے علاوہ سب کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں خود کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتے ۔ جو اکا دکا لوگ اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور معاشرتی برائیوں سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے وقوف گردانے جاتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے بے وقوفوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔