عشق کا عین از علیم الحق حقی سےکچھ یاد گار باتیں

عائشہ عزیز

لائبریرین
محبت بھی بےسبب کبھی نہیں ہوتی۔۔۔کبھی یہ ہمدردی کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔کبھی اس کا سبب کوئی خواہش ہوتی ہے، کبھی آدمی محبت کی طلب میں محنت کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ اسے جواب میں محبت ملے گی اور کبھی آدمی کسی کے احسانات کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔تیرے پاس محبت کا سبب تو موجود ہے۔۔۔۔۔۔محبت کا سامان تو کر۔۔۔۔۔۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ہروقت خدا کے احسانات یاد کر۔۔۔غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی ۔۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے ۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی ۔ تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا، تجھ سے محبت کی ۔۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے۔۔ کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا ۔۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے۔ لیکن تیرا ربّ کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے ، تیری ضروریات پوری کرتا ہے ، تیری بہتری سوچتا ہے تجھے اہمیت دیتا ہے ۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محّبت پیدا ہوگی ۔ اس محّبت کے ساتھ بھی یہ سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی ۔اور پھر تجھے خداسے عشق ہو جائے گا ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
"لیکن ابا اللہ سے محبت کا طریقہ کیا ہے۔"الہٰی بخش نے پوچھا۔"کیا اس سے یہ کہتا رہوں کہ مجھے تجھ سے محبت ہے۔"
"یہ تو انسانوں سے کہنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ کچھ نہیں جانتے لیکن وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔۔۔۔۔اس سے دل کا حال چھپا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف محبت کرتے رہو، وہ جان لے گا۔۔۔ جہاں تک طریقے کا تعلق ہے تو ہم جیسے حقیر بندوں کےلئے اس نے فرمایا ہے کہ مجھ سے محبت کرنی ہے تو میرے بندوں سے محبت کرو۔ یعنی بغیر کسی غرض کے ہر انسان سے صرف اس لئے محبت کرو کہ وہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
"کہتےہیں تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے اسی لیے تو اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو تحفوں سے نوازتا رہتا ہے لیکن بندوں کی محبت نہیں بڑھتی پھر بھی ۔ کم از کم میرے جیسے بندو ں کی۔۔"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھاتھا ۔
میں وہ صبرِِصمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا ۔
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جِن ملک نے سجدہ کیا تھا۔
تو نے کیوں میرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا۔
پہلی بارش بھیجنے والے
میں تیرے درشن کا پیاسا تھا۔
(ناصر کاظمی کی کتاب "پہلی بارش" سے ۔۔)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اللہ جی نے پکارا۔۔۔۔ ہے کوئی جو میری ایک امانت کا بوجھ اُٹھائے ۔یہ سن کو سمندر کی سانسیں ٹوٹنے لگیں ۔ پہاڑ ہیبت سے لرزنے لگے ،پوری کائنات پر لرزا طاری ہوگیا کسی کو طاقت ، مجال نہیں تھی کہ وہ یہ بوجھ اُٹھاتا ۔ پھر اللہ جی نے وہ امانت انسان کو سونپ دی اور انسان اسے اُٹھائے مضطرب اورسرگرداں ہے ۔ یہ کائنات کا سب سے بڑا صبر ہے ۔
میں وہ صبرِِ صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اور وہ امانت اللہ کی تمام صفات کا پرتُو تھا ۔۔۔ہلکا سا عکس ۔ اللہ نے اپنی تمام صفات انسان کو سونپ دیں رحم ، کرم ،جبر پوری ننانوے صفات اور اپنا اسمِ ذات نور سے لکھ کر پہلے ہی اس کی پیشانی میں رکھ دیا ۔ اللہ نے جب جِن و ملائک کو حکم دیا کہ انسان کو سجدہ کرو۔۔تو وہ شرک کا حکم تو (نعوذ باللہ ) نہیں دیا تھا ۔ وہ سجدہ آدم ؑ کے لیے نہیں تھا وہ تو پیشانی میں موجود اسمِ ذات کے لیے تھا ۔ اللہ کے لیے تھا۔ پھر اپنی ننانوے صفات کا عکس انسان پر ڈالا تو اس نے یہ بتادیا کہ انسا ن اس کا خلیفہ اور اس کا نائب ہے ۔ اس میں اتنا صبر ہے کہ وہ یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے ۔ تو انسا ن میں رحیمی بھی ہے ، غفّاری بھی ، قہاری بھی ۔۔
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جِن ملک نے سجدہ کیا تھا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب!

آپ نے جو اقتباسات نقل کئے ہیں وہ مجھے بھی بہت پسند رہے ہیں۔ اور یہ ناول میں نے ایک سے زائد بار پڑھی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
مجھ سے نااااااول نہیں کہا جاتا۔۔۔سو میں نوول ہی کہتا اور لکھتا ہوں۔۔۔اسی طرح آف بھی نہیں اوف لکھتا ہوں۔۔۔:cool:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
تو انسان کو سب سے بڑا مسئلہ ان صفا ت کے درمیان توازن قائم کرنا ہے ۔ رحمتوں کا ،صفات کا یہ توازن صرف انسان کے قائم کرکے دکھایا۔ میرے حضور ﷺ نے ۔ یوں امانت کا حق ادا ہوا اور انسانیت سرخرو ہوئی ۔
ورنہ انسا ن تو اعتدال سے گزرجانے والا ہے وہ رحم کرنے میں حد سے بڑھا تو ظالم ہوگیا۔
"وہ کیسے؟" ۔شاہ فرید نے پوچھا۔
آدمی جب حد سے گزر کر رحم کرتا ہے تو جس پر رحم کیا جارہا ہو اس پر وہ ظلم ہوجاتا ہے ۔ یہی نہیں ظلم، رحم کرنے والا خود بھی اپنے اوپر کرتا ہے ۔ اور انسان قہر کے معاملے میں ہاتھ چھوڑ دے تو وہ چنگیزخان ،ہلاکو خان اور ہٹلر بن جاتا ہے ۔ ہر صفت رحمت والی ہے لیکن انسان نے اسے انسانوں کے لیے ایذا بنا دیا ہے ۔یہ امانت میں خیانت ہوئی۔
 
Top