کینیڈا کے صوبے اور ریاستیں

قیصرانی

لائبریرین
اونٹاریو
کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو اس کے مرکز میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا ہے اور رقبے کے لحاظ سے کیوبیک کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے (نُنا وُت اور شمال مغربی ریاست سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جو کہ ریاستیں ہیں، صوبہ جات نہیں)۔ اونٹاریو کی سرحدیں مغرب میں مینی ٹوبہ، مشرق میں کیوبیک کے صوبہ جات سے اور امریکی ریاستوں مشی گن، نیو یارک اور منی سوٹا سے ملتی ہیں۔ امریکہ سے ملنے والی اونٹاریو کی زیادہ تر سرحد قدرتی ہے اور یہ لیک آف وڈز سے شروع ہوتی ہے اور چار عظیم جھیلوں: سپیریئر لیک، ہُرون، ایری اور اونٹاریو (جس کے نام پر اس صوبے کا نام رکھا گیا ہے) سے ہوتی ہوئی گذرتی ہے اور پھر سینٹ لارنس کے دریا کے ساتھ چلتی ہے۔ اونٹاریو کینیڈا کا وہ واحد صوبہ ہے جو ان چاروں عظیم جھیلوں سے ملا ہوا ہے۔

اونٹاریو کا دارلخلافہ ٹورنٹو ہے۔ ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کینیڈا کا دارلحکومت اوٹاوا بھی اونٹاریو میں ہی واقع ہے۔ 2006 کی مردم شماری سے ظاہر ہوا ہے کہ 12160282 یعنی ایک کروڑ اکیس لاکھ ساٹھ ہزار دو سو بیاسی افراد اس صوبے میں رہتے ہیں۔ یہ تعداد کل ملکی آبادی کا ساڑھے اڑتیس فیصد ہے۔

اس صوبے کا نام جھیل اونٹاریو سے نکلا ہے جو ایک مقامی زبان (ہُرون) کا لفظ سمجھا جاتا ہے اور جس کا مطلب عظیم جھیل ہے۔ ایک اور ممکنہ ماخذ سکاناڈاریو لفظ (ایروکویان زبان) کا بھی ہو سکتا ہے جس کا مطلب خوبصورت پانی ہے۔ نیو برنزوک، نووا سکوشیا اور کیوبیک کے ساتھ، اونٹاریو کینیڈا کے ان ابتدائی چار صوبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے یکم جولائی 1867 کو برطانوی شمالی امریکہ کے ماہدے کے تحت ایک قوم کی شکل اختیار کی تھی۔

اونٹاریو کینیڈا کا سب سے اہم اور بڑا مینوفیکچرنگ والا صوبہ ہے اور کل قومی مصنوعات کا پچاس فیصد سے زائد حصہ یہاں تیار ہوتا ہے۔

جغرافیہ

یہ صوبہ چار بڑے جغرافیائی علاقوں پر مشتمل ہے:

• شمال مغربی اور درمیانی حصہ جو کم آباد ہے اور کینیڈین شیلڈ پر مشتمل ہے، اس کی زیادہ تر زمین بنجر ہے، اس میں نمکیات کی کثرت ہے اور جگہ جگہ جھیلیں اور دریا موجود ہیں، اس کے دو مزید حصے ہیں، شمال مغربی اونٹاریو اور شمال مشرقی اونٹاریو
• خلیج ہڈسن کا نچلا علاقہ جو تقریباً غیر آباد ہے، جو انتہائی شمال اور شمال مشرق میں ہے، دلدلی اور چند جنگلات پر مشتمل ہے
• معتدل اور سب سے زیادہ آباد علاقہ جو عظیم جھیلوں کے ساتھ واقع ہے اور انتہائی زرخیز ہے اور جنوب میں ہے جہاں کاشتکاری اور صنعتیں جوبن پر ہیں۔ جنوبی اونٹاریو کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جنوب مغربی اونٹاریو (جس کے کچھ حصوں کو پہلے مغربی اونٹاریو کہا جاتا تھا)، گولڈن ہارس شو، مرکزی اونٹاریو (جو حقیقتاً اونٹاریو کا جغرافیائی مرکز تو نہیں) اور مشرقی اونٹاریو

صوبے میں کسی بھی قسم کے پہاڑوں کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں بہت سے علاقے سطح مرتفع پر مشتمل ہیں، خصوصاً وہ علاقے جو کینیڈین پلیٹ پر واقع ہیں اور صوبے کے شمال مغرب سے جنوب مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں اور نیاگرا کے اوپر کی طرف موجود ہیں۔ اس علاقے کا سب سے اونچا علاقہ اشپاٹینا کی چٹان ہے جو سطح سمندر سے 693 میٹر بلند ہے۔ یہ ٹیماگامی کے مقام پر اونٹاریو کے شمال مشرق میں ہے۔

کیرولائنین کے جنگلات کا علاقہ صوبے کے زیادہ تر جنوب مغربی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا شمالی حصہ گریٹر ٹورنٹو کے علاقے کا حصہ ہے جو اونٹاریو کی جھیل کا مغربی سرا ہے۔اس علاقے کا سب سے مشہور جغرافیائی مقام نیاگرا کی آبشار ہے۔ سینٹ لارنس کا سمندری راستہ بحر اوقیانوس سے آمد و رفت کا راستہ مہیا کرتا ہے۔ یہ کینیڈا کے اتنا اندر تک راستہ مہیا کرتا ہے جتنا کہ تھنڈر کی خلیج شمال مغربی اونٹاریو میں مہیا کرتی ہے۔ شمالی اونٹاریو کا پچاسی فیصد حصہ زمینی ہے اور جنوبی اونٹاریو میں صوبے کی چورانوے فیصد آبادی رہتی ہے۔

پوانٹ پیلی نیشنل پارک ایک جزیرہ نما ہے جو جنوب مغربی اونٹاریو میں ہے اور ایری جھیل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ کینیڈا کا انتہائی جنوبی حصہ بھی ہے۔ پیلی کا جزیرہ اور مڈل جزیرہ جو کہ ایری جھیل میں ہیں، اس سے ذرا زیادہ نیچے ہیں۔ یہ سب حصے کیلیفورنیا کی سرحد سے ذرا سا نیچے ہیں۔

آبادی

1851 سے اب تک اونٹاریو کی آبادی

سال آبادی پانچ سال کا فیصد اضافہ دس سال کا فیصد اضافہ دیگر صوبوں میں درجہ بندی
1851 952,004 n/a 208.8 1
1861 1,396,091 n/a 46.6 1
1871 1,620,851 n/a 16.1 1
1881 1,926,922 n/a 18.9 1
1891 2,114,321 n/a 9.7 1
1901 2,182,947 n/a 3.2 1
1911 2,527,292 n/a 15.8 1
1921 2,933,662 n/a 16.1 1
1931 3,431,683 n/a 17.0 1
1941 3,787,655 n/a 10.3 1
1951 4,597,542 n/a 21.4 1
1956 5,404,933 17.6 n/a 1
1961 6,236,092 15.4 35.6 1
1966 6,960,870 11.6 28.8 1
1971 7,703,105 10.7 23.5 1
1976 8,264,465 7.3 18.7 1
1981 8,625,107 4.4 12.0 1
1986 9,101,695 5.5 10.1 1
1991 10,084,885 10.8 16.9 1
1996 10,753,573 6.6 18.1 1
2001 11,410,046 6.1 13.1 1
2006* 12,160,282 6.6 13.1 1'

لسانی گروہ

اونٹاریو کی 2001 میں اہم اقلیتیں
گروہ حصہ %
کل آبادی 11,285,545 100
کینیڈین
3,350,275 29.7
انگریز
2,711,485 24
سکاٹش
1,843,110 16.3
آئرش
1,761,280 15.6
فرانسیسی
1,235,765 10.9
جرمن
965,510 8.6
اطالوی
781,345 6.9
چینی
518,550 4.6
ڈچ (نیدر لینڈ)
436,035 3.9
ایسٹ انڈین
413,415 3.7
پولش
386,050 3.4
یوکرائینی
290,925 2.6
شمال امریکی انڈین
248,940 2.2
پرتگالی
248,265 2.2
یہودی
196,260 1.7
جمیکائی
180,810 1.6
فلپائنی
165,025 1.5
ویلش

ہنگری نژاد
128,575 1.1
یونانی
120,635 1.0
روسی
106,710 0.9
ہسپانوی (جنوبی امیرکی)
103,110 0.9
امریکی
86,855 0.8
وہ برطانوی جو اوپر نہیں شامل 76,415 0.7
ویت نامی
67,450 0.6
فننش
64,105 0.6
کروشین
62,325 0.6
میٹس
60,535 0.5
سربین
40,580 0.39
یوگو سلاوین
37,650 0.36
بوسنیائی
8,600 0.08

اوپر جدول میں دی گئی معلومات میں فیصدوں کو اگر جمع کیا جائے تو وہ سو فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ دہری گنتی ہے جیسا کہ فرانسیسی نژاد کینیڈین کو کینیڈین اور فرانسیسی دونوں جگہ شمار کیا گیا ہے۔ اس میں دو لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والے گروہ شامل کئے گئے ہیں۔ یہ سروے 2001 میں کیا گیا تھا۔ اونٹاریو کی اکثریت
برطانوی (انگریز، سکاٹش اور ویلش) اور آئرش نژاد ہے۔

مذہبی بنیاد پر گروہوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے

اونٹاریو میں 2001 میں اہم مذہبی گروہ
مذہب افراد %
کل 11,285,535 100
پروٹسٹنٹ 3,935,745 34.9
کیتھولک 3,911,760 34.7
لادین 1,841,290 16.3
مسلم 352,530 3.1
دیگر عیسائی 301,935 2.7
عیسائی آرتھوڈکس 264,055 2.3
ہندو 217,555 1.9
یہودی 190,795 1.7
بدھ مت 128,320 1.1
سکھ 104,785 0.9
مشرقی مذاہب 17,780 0.2
دیگر مذاہب 18,985 0.2

اونٹاریو کے باشندوں کی اکثریت برطانوی یا دیگر یورپی آباؤ اجداد سے ہے۔ اونٹاریو کی پانچ فیصد سے ذرا کم آبادی فرانسیسی نژاد ہے، یعنی جن کی اصل زبان فرانسیسی ہے۔ ویسے فرانسیسی پس منظر رکھنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا 11 فیصد ہے۔

قدری شرح پیدائش اور دوسرے صوبوں سے لوگوں کی منتقلی کے علاوہ اونٹاریو کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ مہاجرین کی آمد سے ہے جو گذشتہ دو صدیوں سے جاری ہے۔ اونٹاریو میں آج کل زیادہ منتقل ہونے والے گروہوں میں کیریبین (جمیکا، ٹرینیڈاڈ اور گیانی)، جنوبی ایشیائی (پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور سری لنکن)، مشرقی ایشیائی (زیادہ تر چینی اور فلپائنی)، وسطی اور جنوبی امریکی (کولمبیا، میکسیکو، ارجنٹائن اور ایکواڈور)، مشرقی یورپی جیسا کہ روسی اور بوسنیائی، ایران، صومالیہ اور مغربی افریقہ سے آنے والے گروہ بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد ٹورنٹور اور اس کے گرد و نواح میں منتقل ہوتے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ دیگر شہروں جیسا کہ لندن، کچنر، ہیملٹن، ونڈسر اور اوٹاوہ بھی جا بستا ہے۔

آبادی کے تناسب سے دس بڑے شہری علاقے یعنی میٹروپولیٹن علاقے

میونسپلٹی
2006
2001
1996

ٹورنٹو (صوبائی دارلخلافہ)
2,503,281
2,481,494
2,385,421

اوٹاوہ (ملکی دارلحکومت)
812,129
774,072
721,136

مسی ساگا
668,549
612,925
544,382

ہیملٹن
504,559
490,268
467,799

برامپٹن
433,806
325,428
268,251

لندن
352,395
336,539
325,669

مرخم
261,573
208,615
173,383

واغان
238,866
182,022
132,549

ونڈسر
216,473
209,218
197,694

کچنر
204,668
190,399
178,420

موسم

اونٹاریو میں تین بڑے موسمی خطے ہیں۔ اونٹاریو کا زیادہ تر جنوب مغربی حصہ اور گولڈن ہارس شو کے نچلے علاقے معتدل اور مرطوب موسم والے ہیں۔ اس علاقے میں گرم اور مرطوب گرمیاں اور سرد سردیاں ہوتی ہیں۔ کینیڈا کے دیگر حصوں کے موسم کا اگر اس سے مقابلہ کیا جائے تو یہ بہت معتدل ہے۔ گرمیوں میں جنوبی امریکہ سے اٹھے والی ہوائیں شمالی امریکہ کے براعظم میں داخل ہو کر اسے مزید گرم اور مزید مرطوب بنا دیتی ہیں۔ سارا سال خصوصاً خزاں اور سردیوں میں درجہ حرارت چار عظیم جھیلوں کی وجہ سے صوبے کے دیگر حصوں کی نسبت بہت مناسب رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں فصلیں اُگانے کے لئے زیادہ وقت ہوتا ہے۔ خزاں اور بہار دونوں ہی معتدل ہوتی ہیں اور رات کو خنکی بڑھ جاتی ہے۔ اس علاقے میں سالانہ بارش کی اوسط 750 ملی میٹر سے 1000 ملی میٹر تک دیکھی جاتی ہے۔ بارشیں سارا سال ہی ہوتی ہیں اور گرمیوں میں ان کی تعداد خصوصاً بڑھ جاتی ہے۔اس علاقے کا زیادہ تر حصہ اونٹاریو کے دیگر حصوں کی نسبت بہت کم برف باری دیکھتا ہے۔

مزید شمالی اور جنوب کا وہ حصہ جو ہواؤں کی زد میں آتا ہے اور وسطی اور مشرقی اونٹاریو اور شمالی اونٹاریو کے جنوبی حصے میں موسم شدید مرطوب قسم کا رہتا ہے۔ ان علاقوں میں گرمیوں کا موسم گرم سے گرم تر رہتا ہے اور سردیوں میں نسبتاً سرد اور لمبا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں کاشتکاری کے لئے مناسب دورانیہ کم ہوتا ہے۔ اس علاقے کے جنوبی حصے عظیم جھیلوں سے آنے والی ہواؤں کی زد میں ہوتے ہیں۔ ان عظیم جھیلوں کے باعث موسم نسبتاً معتدل رہتا ہے۔ تاہم جھیلوں کی وجہ سے لیک ایفیکٹ سنو یعنی جھیل سے اٹھنے والے بخارات جب قطب شمالی سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں سے ملتے ہیں تو اس کے نتیجے میں برفباری ہوتی ہے۔ اس کا اثر ساحل سے سو کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ دور تک ہوتا ہے۔ اس حد میں بعض علاقوں میں سالانہ برفباری 300 سم یعنی 120 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔

اونٹاریو کے انتہائی شمالی علاقے جو کہ زیادہ تر 50 ڈگری شمال میں ہیں، کا موسم سب آرکٹک ہے۔ یہاں بہت لمبی سردیاں ہوتی ہیں اور مختصر اور نیم گرم گرمیاں ہوتی ہیں۔ یہاں درجہ حرارت اچانک تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ گرمیوں میں کبھی کبھار ہی گرم موسم اونٹاریو کے ان انتہائی شمالی علاقوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں نمی جنوب کی نسبت کم ہی ہوتی ہے۔ چونکہ آرکٹک سے آنے والی ہواؤں کو روکنے کے لئے یہاں کوئی اونچے پہاڑ نہیں موجود، یہاں سردیاں عموماً بہت سرد ہوتی ہیں۔ خصوصاً انتہائی شمال اور شمال مغرب میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ ان علاقوں میں برف زیادہ دیر سے پگھلتی ہے۔ یہاں اکتوبر سے مئی تک برف دکھائی دینا عام سی بات ہے۔

جون اور جولائی میں صوبے کے زیادہ تر حصوں میں سخت آندھی اور طوفان آتے ہیں۔ جنوبی علاقوں میں یہ مارچ سے نومبر تک قطب شمالی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا جب خلیج کی گرم ہواؤں کے ٹکراؤ سے یہ طوفان آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ اوپر اٹھنے والی گرم ہواؤں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ طوفان عموماً الگ تھلگ ہوتے ہیں۔ ایک اور طرح کے طوفان عموماً رات کو پیدا ہوتے ہیں اور ہوا کی گذرگاہوں کی جگہوں پر شدید تیز ہوا پیدا کرتے ہیں۔ صرف ہڈسن اور جیمز بے کا نچلا علاقہ ان طوفانوں سے عموماً پاک رہتا ہے۔ شدید موسمی تبدیلیوں کا شکار ہونے والا علاقہ عموماً جنوب مغربی اور وسطی اونٹاریو ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ جھیل سے آنے والی ہوائیں ہوتی ہیں۔ کینیڈا میں لندن کا شہر سب سے زیادہ آسمانی بجلی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طوفانوں کے حوالے سے یہ ملک کا ایسا حصہ جہاں زیادہ طوفان آنے کا امکان ہوتا ہے۔ ٹارنیڈو یعنی گردباد بھی یہاں عام ہیں۔ اکثر گردباد خطرناک نہیں ہوتے۔ شمالی اونٹاریو میں کم آبادی کی وجہ سے اکثر ٹارنیڈو بغیر معلوم ہوئے پیدا اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ہوائی جہازوں کے پائلٹ ان کی گذرگاہ کے راستے میں آنے والے جنگلات کی تباہی سے ان کا اندازہ لگاتے ہیں۔

معیشت

اونٹاریو کے دریا بشمول نیاگرا کا دریا، اس صوبے میں پن بجلی پیدا کرنے کے لئے اہم ہیں۔ 1999 میں اونٹاریو ہائیڈرو کی نجکاری کے بعد اونٹاریو پاور جنریشن صوبے کی کل بجلی کا 85 فیصد حصہ پیدا کرتی ہے۔ اس میں 41 فیصد ایٹمی، 30 فیصد پن بجلی اور 29 فیصد قدرتی ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتا ہے۔ اونٹاریو پاور جنریشن اس بجلی کی ترسیل کی ذمہ دار نہیں، اس کا نظام ہائیڈور ون کے پاس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پرانے ہوتے ایٹمی بجلی گھروں، بجلی کی بڑھتی ضروریات وغیرہ کے باعث اونٹاریو اپنے ہمسائیوں کیوبیک اور مشی گن سے زیادہ ضروری اوقات میں بجلی حاصل کرتا ہے۔

قدرتی ذرائع سے مالا مال، امریکہ کے اندر تک رسائی کے حامل مواصلات کے نظام اور خشکی میں دور تک موجود عظیم جھیلوں کے باعث سمندری رسائی قابل عمل ہے جو مال بردار بحری جہازوں سے ہوتی ہے۔ اس کے باعث مینوفیکچرنگ کو بنیادی صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زیادہ تر گولڈن ہارس شو کے علاقے میں قائم ہیں۔ یہ علاقہ کینیڈا کا سب سے زیادہ صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں کی اہم پیداوار میں موٹر کاریں، لوہا، سٹیل، خوراک، بجلی کے آلات، مشینیں، کیمکل اور کاغذ ہیں۔ اونٹاریو مشی گن سے زیادہ کاریں بناتا ہے جو کہ چھبیس لاکھ چھیانوے ہزار کاریں سالانہ ہے۔

تاہم تیزی سے گرتی ہوئی فروخت کی وجہ سے جنرل موٹرز نے 21 نومبر 2005 کو اعلان کیا کہ وہ شمالی امریکہ میں واقع اپنے کارخانوں میں بھاری مقدار میں کانٹ چھانٹ کر رہا ہے۔ ان میں اوشاوا اور کیتھارین کے کارخانے بھی شامل ہیں۔ 2008 تک اونٹاریو ہی میں 8000 نوکریاں ختم کر دی جائیں گی۔ اسی طرح 23 جنوری 2006 میں فورڈ موٹرز کارپوریشن نے بھی اعلان کیا کہ وہ 2012 تک پچیس سے تیس ہزار تک نوکریاں ختم کرے گا۔ تاہم ان نقصانات میں کمی کی وجہ فورڈ کی طرف سے مخلوط ایندھن والی گاڑی کی تیاری ہے۔ ٹویوٹا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ وڈز سٹاک میں 2008 میں اپنا نیا کارخانہ لگائے گی۔ اسی طرح ہونڈا نے بھی الیسٹون میں ایک نیا انجن پلانٹ بڑھائے گا۔

اونٹاریو کا دارلخلافہ ٹورنٹو کینیڈا کی معاشی سرگرمیوں اور بینکاری کا مرکز ہے۔ ٹورنٹو سے ملحقہ علاقے جیسا کہ برامپٹن، مسی ساگا اور واغان وغیرہ تقسیم کے لئے اہم ہیں۔ ان علاقوں میں اپنی صنعتیں بھی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص مارخم، واٹر لو اور اوٹاوا میں اہم شعبہ ہے۔ ہیملٹن کینیڈا کا سٹیل بنانے کے لئے سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے۔ سارنیا میں پیٹروکیمیکل صنعت کا مرکز ہے۔ تعمیراتی کارکن کل ورک فورس کا سات فیصد حصہ ہیں۔ تاہم غیر رجسٹر شدہ کارکنوں کے باعث یہ تعداد دس فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ گذشتہ دس سال سے یہ شعبہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے کیونکہ نئے گھر اور عمارات کی تعمیر میں اضافہ ہو رہا ہے اور کم قیمت رہن اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ایسا ہو رہا ہے۔ کان کنی اور جنگل سے متعلق پیداوار جن میں گودا اور کاغذ شامل ہیں، شمالی اونٹاریو کی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ دوسرے علاقوں سے زیادہ یہاں سیاحت یہاں کی معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیاحت کا زور زیادہ تر گرمیوں میں رہتا ہے۔ گرمیوں میں تازہ پانی میں کھیل کود آسان ہوتی ہے اور لوگ قدرت سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں جو کہ ان شہروں کے بالکل نزدیک ہوتی ہے۔ سال کے دیگر اوقات میں شکار، سکیینگ اور سنو باؤلنگ کھیلی جاتی ہے۔ اس علاقے میں خزاں کے رنگ پورے براعظم میں سب سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے بے شمار غیر ملکی سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ سیاحت کی وجہ سے سرحدی شہروں میں جوا خانے وغیرہ بہت کامیاب رہتے ہیں۔ ان شہروں میں ونڈسر، راما اور نیاگرافال شامل ہیں جہاں امریکی سیاحوں کا زور رہتا ہے۔

زراعت

زراعت جو کبھی معیشت کا اہم ستون تھی، آبادی کا بہت کم حصہ اب اس سے وابستہ ہے۔ 1991 میں فارموں کی تعداد 68633 تھی جو 2001 میں کم ہو کر 59728 رہ گئی ہے۔ تعداد کی کمی کے باوجود یہ فارم رقبے کے لحاظ سے بڑھے ہیں اور اکثریت اب مشینوں سے آبادی کی جاتی ہے۔ مویشی، غلہ اور ڈیری کی مصنوعات سے یہ فارم زیادہ تر وابستہ ہوتے ہیں۔ پھل، انگور اور سبزیاں زیادہ تر نیاگرا کے جزیرہ نما تک محدود ہیں۔ کچھ حصہ ایری جھیل کے ساتھ بھی ہے جہاں تمباکو کی کاشت کے لئے زمین اور موسم بہت مناسب ہوتا ہے۔ تمباکو کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے جس کی بڑی وجہ ہیزل نٹ اور جن سنگ کو زیادہ اگایا جانا ہے۔ اونٹاریو میسی فرگوسن لمیٹڈ کا مرکز ہے جو کبھی دنیا کے سب سے بڑے زرعی مصنوعات بنانے والے اداروں میں سے ایک تھا۔ اس سے کینیڈا کی معیشت میں زراعت کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اونٹاریو کے جنوبی حصہ میں محدود کاشتکاری ہوتی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ اب بیکار ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں کی توسیع اور فارموں کے بننے کی وجہ سے اونٹاریو کی ہزاروں ایکڑ قابل کاشت زمین ہر سال بیکار ہو جاتی ہے۔ 2000 فارم اور 150000 ایکڑ اراضی 1976 سے 1996 کے درمیان بیکار ہوئی۔ یہ محض بیس سال کا عرصہ تھا۔ یعنی اونٹاریو کی اول درجے کی قابل کاشت زمین کا اٹھارہ فیصد حصہ شہروں کا حصہ بن گیا۔ اس کے علاوہ دیہاتی تقسیموں سے بھی زرعی پیداوار روز بروز گھٹ رہی ہے۔

نقل و حمل

تاریخی اعتبار سے صوبے میں دو شرقاً غرباً راستے استعمال ہوتے تھے۔ دونوں پڑوسی کیوبیک صوبے کے شہر مونٹریال سے شروع ہوتے تھے۔ شمالی راستہ جو کہ فرانسیسی بولنے والے کھالوں کے تاجر نے بنایا تھا، شمال مغرب کو اوٹاوہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور پھر مینی ٹوبہ کی طرف مغرب کی سمت چلتا رہتا ہے۔ اس راستے پر یا اس کے نزدیک موجود بڑے شہروں میں اوٹاوہ، نارتھ بے، سنڈبری، سالٹ سینٹ میری اور تھنڈر بے شامل ہیں۔ بہت زیادہ مستعمل جنوبی راستہ، جو انگریزی بولنے والے افراد کے استعمال میں تھا، مونٹریال سے سینٹ لارنس کے دریا، اونٹاریو جھیل اور ایری جھیل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس راستے پر بڑے شہروں میں کنگسٹن، اوشاوا، ٹورنٹو، مسی ساگا، کچنر یعنی واٹر لو، لندن، سارنیا اور ونڈسر شامل ہیں۔ اونٹاریو کی زیادہ تر سڑکیں اور ریلوے وغیرہ شمالاً جنوباً ہیں اور ان دونوں راستوں کو ہی استعمال کرتے ہیں۔

سڑک کا رابطہ

400 سیریز کی شاہراہیں صوبے کے جنوب میں اہم سڑکوں کا رابطہ ممکن بناتی ہیں۔ یہ امریکی سرحد کے ساتھ کئی رابطے مہیا کرتی ہیں۔ جنوبی سڑکوں میں شاہراہ نمبر 401 سب سے اہم ہے۔ یہ شمالی امریکہ کی سب سے مصروف شاہراہ ہے۔ اسے اونٹاریو کے سڑکوں، سیاحت اور معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت حاصل ہے۔ شمالی راستے پر سب سے بینادی شاہراہ شاہراہ نمبر 417 بٹا شاہراہ 17 ہے۔ یہ ٹرانس کینیڈا والی شاہراہ کا حصہ ہے۔ شاہ راہ نمبر 400 بٹا شاہراہ نمبر 69 ٹورنٹو کو شمالی اونٹاریو سے ملاتی ہے۔ دیگر صوبائی شاہراہیں اور علاقائی سڑکیں صوبے کے دیگر حصوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔

پانی کا رابطہ

سینٹ لارنس کا بحری راستہ جو کہ صوبے کے جنوبی حصے تک پھیلا ہوا ہے اور بحر اوقیانوس سے ملتا ہے، مال برداری کا سب سے اہم بحری راستہ ہے۔ یہ بالخصوص لوہے اور غلے کے لئے مشہور ہے۔ ماضی میں عظیم جھیلوں اور سینٹ لارنس کے دریا مسافروں کی اہم گذرگاہ تھے لیکن نصف صدی سے یہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔

ریل کا رابطہ
'
وی آہ ریل کیوبیک کے شہر سے ونڈسر تک مسافر ٹرینیں چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم ٹریک اونٹاریو کو نیویارک کے اہم شہروں جیسا کہ بفیلو، البانی اور نیویارک سے ملاتی ہے۔ اونٹاریو نارتھ لینڈ ریل کی سہولیات کو خلیج جیمس کے نزدیک مُوسونی تک پہنچاتی ہے اور انہیں جنوب سے ملاتی ہے۔

فضائی رابطہ

لیسٹر بی پیئرسن کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ملک کا مصروف ترین اور دنیا کا 29واں مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ یہ سالانہ تین کروڑ مسافروں کو سنبھالتا ہے۔ دوسرے اہم ہوائی اڈوں میں اوٹاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور ہیملٹن کا جان سی منرو کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ شامل ہے جو کہ سامان کی فضائی ترسیل کا مرکز ہے۔ ٹورنٹو/ پیئرسن اور اوٹاوہ/ میکڈونلنڈ کارٹئیر کے ہوائی اڈے مصروف ترین تکون کے دو سرے ہیں۔ تیسرا سرا مانٹریال کا پیری ایلیٹ ٹروڈیاؤ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ ویسٹ جیٹ بھی اس تکون میں کام کرتی ہے۔ یہ تکون ائیر کینیڈا کا مصروف ترین ہوائی راستہ ہے۔ تیسری ائیر لائن پورٹر ائیرلائنز بھی اس علاقے میں کام شروع کر چکی ہے۔

اونٹاریو کے اکثر شہروں کے اپنے ہوائی اڈے ہیں جہاں سے چھوٹی ائیرلائنوں کی مدد سے مسافر بڑے ہوائی اڈوں تک لے جائے جاتے ہیں۔ بڑے شہر جیسا کہ تھنڈر بے، سالٹ سینٹ میری، سڈبری، نارتھ بے، ٹیمینز، ونڈسر، لندن اور کنگسٹن براہ راست ٹورنٹو پیئرسن سے جا ملتے ہیں۔ بیئرسکن ایئر لائن شمالی شرقاً غرباً فضائی راستے پر چلتی ہے اور ان تمام شہروں کو اوٹاوہ سے براہ راست ملاتی ہے اور مسافروں کو ٹورنٹو پیئرسن ائیرپورٹ نہیں جانا پڑتا۔

انتہائی شمالی علاقوں میں موجود الگ تھلگ شہروں کا جزوی یا کلی دارومدار فضائی سروس پر ہوتا ہے جو سفر، اشیا کی منتقلی حتٰی کہ ایمبولینس کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دور دراز کا شمالی علاقہ سڑک یا ٹرین کی رسائی سے باہر ہے۔

تاریخ
1867 سے قبل


یورپیوں کی آمد سے قبل اس علاقے میں الگونکویان (اویبوا، کری اور الگونکوین) اور ایروکویان (ایروکویس اور ہُرون) قبائل آباد تھے۔ فرانسیسی مہم جو ایٹینے برولے نے اس علاقے کا کچھ حصہ 1610 سے 1612 میں دریافت کیا۔ انگریز مہم جو ہنری ہڈسن خلیج ہڈسن سے ہوتا ہوا 1611 میں آیا اور اس نے اس علاقے پر برطانوی قبضے کا دعویٰ کیا۔ سیموئل ڈی چیمپلین 1615 میں جھیل ہُرون تک پہنچا اور فرانسیسی مشنریوں نے ان عظیم جھیلوں کے کنارے اپنی چوکیاں بنانا شروع کر دیں۔ فرانسیسی آبادکاروں نے مقامی لوگوں پر مظالم ڈھائے جن کی وجہ سے یہ لوگ انگریزوں سے جا ملے۔

برطانویوں نے اپنی چوکیاں خلیج ہڈسن کے ساتھ سترہویں صدی میں قائم کیں اور اونٹاریو پر قبضہ جمانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ 1763 کے پیرس معاہدے کے تحت سات سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا اور تمام شمالی امریکہ کے فرانسیسی مقبوضات کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ علاقہ 1774 تک کیوبیک تک پھیلا ہوا تھا۔ 1783 سے 1796 تک برطانیہ نے اپنے ان تمام وفاداروں کو 200ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا جو امریکہ کے انقلاب کے بعد ادھر سے نکل آئے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں۔ اس اقدام سے کینیڈا کی آبادی میں کافی اضاف ہوا اور یہ اضافہ دریائے سینٹ لارنس اور دریائے اونٹاریو سے مغرب کی طرف ہوا

1812 کی جنگ میں امریکی فوجیوں نے بالائی کینیڈا میں دریائے نیاگرا اور دریائے ڈیٹرائٹ تک پیش قدمی کی لیکن برطانویوں فوجیوں، کینیڈا کے فوجیوں اور مقامی آبائی قبائل نے کامیابی سے انہیں واپس پیچھے دھکیل دیا۔ تاہم امریکیوں نے جھیل ایری اور جھیل اونٹاریو پر قبضہ کر لیا اور جنگ یارک کے دران یارک کے شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ 1813 میں ہوا۔ اس یار ک کے شہر کا موجودہ نام ٹورنٹو ہے۔ امریکیوں نے شہر میں لوٹ مار کی اور پارلیمان کی عمارتوں کو جلا دیا۔ تاہم انہیں جلد ہی واپس جانا پڑا۔

1812 کی جنگ کے بعد نسبتاً امن کے دور میں برطانیہ اور آئرلینڈ سے آنے والے مہاجرین نے امریکہ کی بجائے کینیڈا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ جیسا کہ پچھلی دہائیوں میں ہوتا رہا، ہجرت کا رخ ان کے لیڈروں کے قبضے میں ہوتا تھا۔ وہ جہاں چاہتے موڑ دیتے۔ سستی زمینوں بلکہ اکثر اوقات مفت زمینوں کے باوجود لوگوں کو سخت موسم وغیرہ کے باعث یہاں رہنے میں کافی مشکلات دکھائی دیں۔ بہت سارے لوگ واپس بھی لوٹ گئے۔ تاہم آنے والی دہائیوں میں ہجرت کی وجہ سے آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا رہا۔ ابھی تک یہ معاشرہ زراعت سے منسلک تھا اور نہروں اور سڑکوں کے ذریعے دیگر علاقوں اور امریکہ سے جڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے چلے گئے۔

اسی دوران اونٹاریو کے ان گنت آبی راستوں نے اندرونی تجارت اور نقل و حمل کو آسان بنایا اور پانی سے ترقی حاصل کی۔ آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ صنعتیں، نقل و حمل کے ذرائع بھی بڑھے اور انہوں نے ترقی کی رفتار بڑھائی۔ صدی کے اختتام تک اونٹاریو کا درجہ آبادی میں اضافے کی شرح، صنعتوں، فنون لطیفہ اور مواصلات کی حد تک ملک کے اندر کیوبیک سے بڑھ گیا۔

تاہم لوگوں میں امراء کے طبقے کے خلاف جذبات بیدار ہونے لگے جو کہ علاقے میں پائے جانے والے قدرتی ذرائع کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے اور لوگوں کو منتخب تنظیمیں بنانے کا اختیار نہ دینا چاہتے تھے۔ اس سے قومیت کا ابتدائی جذبہ بیدار ہوا۔ نچلے اور بالائی کینیڈا میں ذمہ دار حکومت کے حق میں بغاوت ہوئی۔

تاہم دونوں بغاوتوں کو جلد ہی فرو کر دیا گیا اور برطانوی حکومت نے لارڈ ڈرہم کو بھیجا تاکہ وہ بے چینی کی وجہ جان سکیں۔ لارڈ ڈرہم نے تجویز پیش کی کہ انہیں اپنی حکومت بنانے کا اختیار دیا جائے اور بالائی اور نچلے کینیڈا کو ملا دیا جائے تاکہ فرانسیسی نژاد کینیڈین اکٹھے ہو سکیں۔ اس لئے 1840 کے یونین ایکٹ کے تحت دونوں کالونیوں کو ملا کر کینیڈا کا صوبہ بنا دیا گیا۔ اس کا دارلخلافہ کنگسٹن کو بنایا گیا اور بالائی کینیڈا کو مغربی کینیڈا کہا گیا۔ پارلیمانی طرز کی خود حکومت بنانے کا اختیار 1848 میں دیا گیا۔ 1840 کی دہائی میں مہاجرین کی بھاری تعداد نے مغربی کینیڈا کی آبادی کو دس سال میں دُگنا کر دیا۔ اس طرح پہلی بار انگریزی بولنے والوں کی تعداد فرانسیسی بولنے والوں سے بڑھ گئی۔ اس طرح حکومت میں ان کی نمائندگی اور اسی طرح طاقت کا توازن بگڑ گیا۔

1850 کے معاشی بڑھوتری کے بعد صوبے میں ٹرین کی توسیعی پٹڑی بچھانے کا کام شروع ہوا تاکہ مرکزی کینیڈا کی معاشی طاقت کو بڑھایا جا سکے۔

امریکی خانہ جنگی کے باعث مداخلت کے خدشے کے پیش نظر انگریزی اور فرانسیسی بولنے والے قانون سازوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ 1860 کی دہائی میں کانفرنسیں بلائی جائیں تاکہ تمام برطانوی کالونیوں کو ملانے کا ایک بہتر نظام تیار ہو سکے۔ یکم جولائی 1867 میں برطانوی شمالی امریکہ کا ایکٹ وجود میں آیا جس نے کینیڈا کی ڈومینن بنائی۔ ابتداً اس میں چار صوبے تھےَ نووا سکوشیا، نیو برنزوک، کیوبیک اور اونٹاریو۔ کینیڈا کے صوبے کو کیوبیک اور اونٹاریو میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ ہر زبان کے بولنے والوں کی اکثریت کو ان کا اپنا صوبہ مل جائے۔ کیوبیک اور اونٹاریو کو پابند کیا گیا کہ وہ معاہدے کے تحت اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ اس طرح اونٹاریو میں کیتھولک سکول کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم آئینی طور پر دونوں صوبے اپنے اندر موجود انگریز یا فرانسیسی اقلیت کے تحفظ کے ذمہ دار نہ تھے۔ اس وقت ٹورنٹو کو عارضی صوبائی دارلخلافہ بنا دیا گیا۔

1867 سے 1896 تک

صوبے کا درجہ ملنے کے بعد اونٹاریو نے اپنی معیشت اور مقننہ طاقت کو بڑھانے کے لئے تگ و دو جاری رکھی۔ 1872 میں وکیل اولیور موات وزیر اعظم بنا اور 1896 تک اس عہدے پر رہا۔ اس نے صوبائی حقوق اور صوبائی امور پر مرکز کے کنٹرول کو کم کرنے کے لئے بہت جدوجہد کی۔ اس نے زیادہ تر یہ کام عدلیہ کی کمیٹی جو کہ پریوی کونسل کا حصہ تھی، کو اپیلیں کر کر کے منوایا۔ اس کی ان کاوشوں نے کینیڈا کی مرکزیت کو بہت کمزور کیا اور جان اے میکڈونلڈ کی خواہشات سے زیادہ صوبوں کو خودمختاری دلوائی۔ اس نے اونٹاریو کے تعلیمی اور صوبائی اداروں کو مضبوط بنایا اور ان کی تعداد بڑھائی۔ شمالی اونٹاریو میں نئے اضلاع بنائے اور کسی قدر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ اونٹاریو کے شمال مغربی حصے جو کہ بالائی کینیڈا کا حصہ نہیں تھے، اونٹاریو کا حصہ بنیں۔ یہ حصے سپیرئیر جھیل، خلیج ہڈسن کے شمال اور مغرب میں تھے۔ انہیں کیواٹین کا ضلع کہا جاتا تھا۔ اس کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوئی اور 1889 کے کینیڈا کے ایکٹ کے تحت یہ تمام حصے اونٹاریو کو مل گئے۔ اس نے صوبے کو کینیڈا کا معاشی پاور ہاؤس بھی بنایا۔ موات اونٹاریو کی سلطنت (جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے) کا بانی تھا۔

سر جان اے میکڈونلڈ کی قومی پالیسی سے شروع ہو کر اور کینیڈین پیسیفک ریلوے (1885-1875) جو کہ اونٹاریو کے شمال سے ہوتی ہوئی پریریز اور پھر برٹش کولمبا تک جاتی ہے، نے اونٹاریو کی صنعت اور مینوفیکچرنگ کو نئی جلاء بخشی۔ تاہم صوبے کی آبادی میں اضافہ چند سال کے لئے متائثر ہوا جب یہاں عظیم مندی پہنچی۔ نئے مہاجرین اور دیگر لوگوں نے ریل کی پٹڑی کی تعمیر کے ساتھ ہی مغرب کی طرف منتقلی جاری رکھی۔

1896 تا حال

19ویں صدی کے اختتام تک کان کنی اور معدنیات کا اخراج اپنے عروج پر تھا جس کی وجہ سے شمال مشرقی علاقوں جیسا کہ سنڈبری، کوبالٹ اور ٹیمنز میں کان کنی کے مراکز قائم ہوئے۔ صوبے نے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ تمام پن بجلی ہائیڈور الیکٹرک پاور کمیشن آف اونٹاریو کے تحت تھا۔ بعد ازاں اسے اونٹاریو ہائیڈور کو دے دیا گیا۔ سستی بجلی سے صنتعی ترقی میں اضاف ہوا۔ فورڈ موٹر کمپنی نے 1904 میں کینیڈا میں اپنا کارخانہ کھولا۔ جنرل موٹرز نے 1918 میں کینیڈا میں کام شروع کیا۔ آنے والے وقتوں میں موٹروں کی صنعت اونٹاریو کی آمدنی کا اہم ذریعہ بنی۔

جولائی 1912 میں سر جیمز پی وائٹنی کی قدامت پرست حکومت نے ریگولیشن نمبر 17 جاری کیا جس کے تحت صوبے کی فرانسیسی بولنے والی اقلیت کے لئے سکولوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی۔ فرانسیسی نژاد باشندوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی۔ 1927 میں یہ پابندی ختم کر دی گئی۔

امریکی واقعات سے متائثر ہو کر سر ولیم ہیرسٹ کی حکومت نے اونٹاریو امتناہی ایکٹ منظور کرتے ہوئے شراب پر پابندی عائد کر دی۔ تاہم شہریوں کو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے شراب کشید کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ اسی طرح تاجروں کو اجازت تھی کہ وہ شراب کو برآمد کر سکتے تھے۔ اس طرح اونٹاریو امریکہ جہاں شراب ممنوع ہو چکی تھی، کو شراب کی سمگلنگ کا اہم گڑھ بن گیا۔ 1927 میں اس پابندی کا خاتمہ ہوا جب جارج ہوورڈ فرگوسن نے اونٹاریو کے شراب کے کنٹرول کا بورڈ بنایا۔ تاہم شراب کی فروخت اور کھپت پر اب بھی سخت کنٹرول تھا تاکہ اس سے پوری رقم وصول کی جا سکے۔ اپریل 2007 میں اونٹاریو کی صوبائی پارلیمان کے ایک رکن کم کریٹر نے تجویز دی کہ مقامی شراب کشید کرنے والوں کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنی شراب اپنے مقامی سٹوروں میں سکیں، تاہم اس کو وزیر اعظم ڈالٹن میگوئیٹی نے سختی سے رد کر دیا۔

جنگ عظیم دوم کے بعد کے عرصے میں بے انتہا خوشحالی اور ترقی آئی۔ اونٹاریو اور اس کے آس پاس کا علاقہ بالخصوص اب نئے آنے والے مہاجرین کا گڑھ بن گیا۔ ان کی اکثریت جنگ سے متائثرین یورپیوں کی تھی جو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں آئے۔ 1970 کے وفاقی امیگریشن کے قانون کے بعد مہاجرین کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ اونٹاریو جو کہ پہلے برطانوی اکثریت کا صوبہ تھا، اب کثیر القوامی بنتا جا رہا ہے۔

کیوبیک کی قوم پرست تحریک کی وجہ سے انگریزی بولنے والے تاجروں اور لوگوں کو کیوبیک سے باہر اونٹاریو میں دھکیل دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ٹورنٹو کی آبادی اور معاشی سرگرمیاں مونٹریال سے بڑھ گئیں۔ اب ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز بن گیا۔ شمالی ساحلی صوبوں میں معاشی بحران سے بھی لوگ کثرت سے اونٹاریو منتقل ہوئے۔

اونٹاریو کی سرکاری زبان کوئی نہیں ہے لیکن انگریزی کو سرکاری زبان سمجھا جاتا ہے۔ 1990 کے فرانسیسی زبان کے سروسز ایکٹ کے تحت جہاں مناسب مقدار میں فرانسیسی بولنے والے رہتے ہوں، سرکاری خدمات فرانسیسی میں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔

حکومت

برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ 1867 کے سیکشن 69 میں واضح کیا گیا کہ "اونٹاریو کی مقننہ لیفٹینٹ گورنر اور ایک ایوان پر مشتمل ہوگی"۔ اس اسمبلی میں کل 107 نشستیں تھیں اور وہ صوبے میں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ یعنی جو انتخاب جیتے گا، اسے تمام ووٹ دے دیئے جائیں گے۔ ٹورنٹو کے کوئینز پارک کی قانون سازی کی عمارت میں یہ ایوان واقع ہے۔ ویسٹ منسٹر نظام پر عمل کرتے ہوئے ایوان میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت کا سربراہ وزیر اعظم اور کونسل کا صدر کہلاتا ہے۔ وزیر اعظم کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ کابینہ کے اراکین کو تاج کے وزراء کا نام دیا جاتا ہے۔ اونٹاریو کے وزیر اعظم کو وزیر اعظم کی بجائے پریمئر کہا جاتا ہے تاکہ کینیڈا کے وزیر اعظم اور اونٹاریو کے وزیر اعظم کے درمیان کوئی الجھن نہ پیدا ہو۔

سیاست

روایتی طور پر اونٹاریو میں تین جماعتوں کا نظام ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں میں اونٹاریو لبرل پارٹی، اونٹاریو پروگریسیو کنزرویٹو پارٹی اور اونٹاریو نیو ڈیموکریٹک پارٹی ایسی جماعتیں ہیں جو مختلف اوقات میں صوبے کی حکمرانی کر چکی ہیں۔

اس وقت اونٹاریو پر لبرل کی حکومت ہے اور پریمئر ڈالٹن میک گوئینٹی ہیں۔ موجودہ حکومت 2003 میں پہلی بار اور دوسری بار 10 اکتوبر 2007 کو منتخب ہوئی۔

وفاقی سطح پر اونٹاریو کو ایسے صوبے کے طور پر جانا جاتا ہے جو کینیڈا کی لبرل پارٹی کے سخت حمایتی ہیں۔ کینیڈا کے ہاؤس آف کامن میں اونٹاریو کی 106 نشستیں ہیں۔ جو پارٹی اونٹاریو میں جیتے، وہ ہاؤس آف کامن میں 106 نشستیں پاتی ہے۔ اونٹاریو کی نشستیں کینیڈا میں دیگر صوبوں سے زیادہ ہیں۔ اونٹاریو سے جیتنے کا مطلب عموماً کینیڈا کے وفاقی انتخابات کی جیت ہوتا ہے۔

1788 تا 1899 تک ہونے والا ریاستوں کا ارتقاء

مقامی لوگوں سے معاہدے سے قبل زمین کو قانونی طور پر مختلف صوبوں کے مابین تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ 1788 میں جب اونٹاریو کیوبیک کا حصہ تھا، جنوبی اونٹاریو کو چار ضلعوں یعنی ہییسے، لونن برگ، میکلین برگ اور ناساؤ میں تقسیم کیا گیا تھا۔

1792 میں ان چار ضلعوں کا نام بدل دیا گیا۔ ہیسے کو ایسٹرن، لونن برگ کو ناردرن، میکلین برگ کو مڈلینڈ اور ناساؤ کو ہوم ضلع بنایا گیا۔ ان اضلاع کے درمیان کاؤنٹیوں کو بنایا گیا۔

1798 میں اضلاع کی تعداد بڑھ کر آٹھ ہو گئی، یعنی ایسٹرن، ہوم، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا اور ویسٹرن۔

1826 میں اضلاع بڑھ کر گیار ہو گئے، یعنی باتھرسٹ، ایسٹرن، گور، ہوم، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا، اوٹاوا اور ویسٹرن۔

1838 میں اضلاع کی تعداد بیس کر دی گئی، یعنی باتھرسٹ، بروک، کولبورن، ڈلہوزی، ایسٹرن، گور، ہوم، ہرون، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا، اوٹاوا، پرنس ایڈورڈ، سمکوئی، ٹالبوٹ، وکٹوریا، ولنگٹن اور ویسٹرن۔

1849 میں جنوبی اونٹاریو کے اضلاع کو پراونس آف کینیڈا کی طرف سے ختم کر کے اکثر جگہوں پر کاؤنٹی حکومتیں بنا دی گئیں۔ پراونس آف کینیڈا نے شمالی اونٹاریو میں دور دراز اور الگ تھلگ کم آباد علاقوں میں اضلاع بنانے شروع کر دیئے۔

اونٹاریو کی شمالی اور مغربی سرحدوں کا تنازعہ الحاق کے بعد کھڑا ہو گیا۔ اونٹاریو کے شمال مشرقی حصے کی حدود جانچنے کے لئے 1884 میں پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی بنائی گئی۔ اس کی توثیق کینیڈا ایکٹ 1889 میں برطانوی پارلیمنٹ میں کی گئی۔ 1899 تک سات شمالی اضلاع الگوما، مینی ٹولن، مسکوکا، نپیسینگ، پاری ساؤنڈ، رینی ریور اور تھنڈر بے بن گئے۔ 1907 سے 1912 کے درمیان چار اور شمالی ضلعے بنے جو کہ کوچرانے، کینورا، سڈبری اور ٹیمیس کیمنگ تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ مضمون میں نے انگریزی وکی پیڈیا سے اردو وکی پیڈیا کے لئے ترجمہ کیا ہے۔ اس لئے یہ ادھر بھی پوسٹ ہونا تھا۔ البتہ جدولوں میں ڈیٹا کو فارمیٹ کرنا فی الوقت مستقبل قریب میں بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اگر کوئی اور دوست اسے درست کرنا چاہیں تو بسم اللہ
 

قیصرانی

لائبریرین
نُنا وُت

نُنا وُت کینیڈا کی سب سے نئی اور سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کو شمال مغربی ریاست سے یکم اپریل 1999 کو بذریعہ نُنا وُت ایکٹ اور نُنا وُت لینڈ کلیمز ایگریمنٹ الگ کیا گیا تھا۔ اس کی سرحدوں کا تعین 1993 میں کیا جا چکا تھا۔ نُنا وُت کا قیام عمل میں آنے سے کینیڈا کے نقشے پر 1949 میں نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے قیام کے بعد ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔

اس کا دارلخلافہ ایکالوئٹ ہے جو مشرق میں بافن کے جزیرے پر واقع ہے۔ دوسرے اہم علاقوں میں رینکن ان لٹ اورخلیج کیمبرج ہیں۔ نُناوُت میں ایلیسمیری کا جزیرہ بھی شامل ہے جو شمال میں واقع ہے۔ وکٹوریہ جزیرے کے جنوبی اور مشرقی حصے بھی اس میں شامل ہیں۔ نُنا وُت رقبے کے لحاظ سے کینیڈا کی سب سے بڑی اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹی ریاست ہے۔ اس کی کل آبادی 29474 افراد ہے جو تقریباً مشرقی یورپ کے برابر علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگر نُنا وُت ایک آزاد ملک ہوتا تو یہ دنیا کا سب سے کم گنجان آباد ملک ہوتا۔ مثلاً گرین لینڈ کا رقبہ نُنا وُت کے تقریباً برابر لیکن آبادی نُنا وُت سے دو گنی زیادہ ہے۔

نُنا وُت کا مطلب ہے "ہماری زمین"۔ یہ انوکتی تُت زبان کا لفظ ہے۔ اس کے باشندے نُنا وُمیوت کہلاتے ہیں۔ ایک باشندہ نُنا وُمیوک کہلائے گا۔

تاریخ

نُنا وُت میں تقریباً چار ہزار سال سے مسلسل انسان آباد رہے ہیں۔

نُنا وُت کی تحریری تاریخ کی ابتداء 1576 سے ہوئی۔ مارٹن فروبشر ایک مہم کی رہنمائی کے دوران جب یہاں پہنچا تو اس نے سوچا کہ اس نے فروبشر کی خلیج کے پانیوں میں سونے کی کان تلاش کر لی ہے۔ اگرچہ یہ کان بیکار نکلی تاہم فروبشر نے انوئت لوگوں سے یورپیوں کی طرف سے پہلا رابطہ قائم کیا۔ یہ رابطہ اگرچہ بہت بھیانک تھا کیونکہ فروبشر نے چار انوئت لوگوں کو اغوا کیا اور انہیں انگلستان لے آیا جہاں وہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکے۔

شمالی راستے کی تلاش میں 17ویں صدی میں بہت سارے مہم جو جن میں ہنری ہڈسن، ولیم بیفن اور رابرٹ بیلوٹ شامل ہیں، ادھر سے گذرے۔

1976 میں انوئت لوگوں اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکرات میں شمال مغربی ریاستوں پر بحث کی گئی۔ 14 اپریل 1982 کو ہونے والے ریفرنڈم میں مقامی لوگوں نے اپنی ریاست کے حق میں ووٹ دیا۔ سات ماہ بعد حکومت نے مشروط معاہدہ کیا۔ زمین کے دعوے کا معاہدہ تیار کیا گیا جو ستمبر 1992 میں 85 فیصد باشندوں کے ووٹ سے منظور ہوا۔ 9 جولائی 1993 کو نُنا وُت لینڈز کلیم ایکٹ اور نُنا وُت ایکٹ کو کینیڈا کی پارلیمان سے منظور کیا گیا اور اس طرح یکم اپریل 1999 کو یہ مکمل ہوا۔

جغرافیہ

اس ریاست کا کل رقبہ 19 لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس میں زمین اور پانی دونوں شامل ہیں۔ اس میں شمالی کینیڈا کا حصہ جس میں زمین، آرکٹک کا حصہ، خلیج ہڈسن، خلیج جیمز اور خلیج انگاوا کے تمام جزائر شامل ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کا پانچویں بڑی ریاست ہے۔ اگر نُنا وُت آزاد ملک ہوتا تو یہ دنیا کا تیرہواں بڑا ملک ہوتا۔ نُنا وُت کی سرحدیں شمال مغربی ریاست، اونٹاریو کے ساتھ اور نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی آبی سرحدیں کیوبیک اور اونٹاریو کے علاوہ مینی ٹوبہ اور گرین لینڈ سے بھی ملتی ہیں۔

نُنا وُت کے بننے سے کینیڈا میں واحد جگہ ایسی بنی جہاں چار مختلف ریاستیں یا صوبے ملتے ہیں۔ یہ جگہ نُنا وُت، شمال مغربی ریسست، مینی ٹوبہ اور ساسکچیوان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ یہ جگہ کافی شمال میں ہے اس لئے یہاں عموماً سیاح نہیں آتے۔ نُنا وُت کا سب سے بلند مقام باربیاؤ کی چوٹی ہے۔

نُنا وُت کی انتہائی کم آبادی کی وجہ سے اسے صوبے کا درجہ شاید کبھی نہ مل پائے۔ تاہم اگر یوکون کو جو کہ آبادی میں نُنا وُت سے ذرا سی زیادہ ہے، کو صوبے کا درجہ مل جائے تو نُنا وُت کو بھی صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔

عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ نُنا وُت کو شمال مغربی ریاست سے الگ کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔

حکومت

نُنا وُت کا سربراہ کمشنر ہوتا ہے جسے وفاقی وزیر برائے انڈین معاملات اور شمالی ترقی مقرر کتا ہے۔ دوسری ریاستوں کی مانند، کمشنر کا کردار نمائشی ہوتا ہے جیسا کہ صوبوں میں لیفٹیننٹ گورنر کا ہوتا ہے۔ تاہم کمشنر ملکہ کی نمائندگی نہیں کرتا۔

یک ایوانی اسمبلی برائے نُنا وُت کے ممبران کا انتخاب الگ الگ ہوتا ہے کیونکہ یہاں کوئی پارٹی نہیں ہوتی۔ مقننہ عموماً اکثریت رائے سے کام کرتی ہے۔ حکومت کا سربراہ نُنا وُت کا پریمئر ہوتا ہے۔ اس کا انتخاب قانون ساز اسمبلی کرتی ہے۔

ریاست کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو 16 جنوری 2004 میں تحلیل کیا گیا جس کے فوراً بعد انتخابات ہوئے۔ 2007 تک نُنا وُت اپنی دوسری حکومت کے دور سے گذر رہی ہے۔
اپنی پالیسیوں پر تنقید کے بعد پریمئر پال اوکلیک نے ایک مشاورتی کونسل بنائی ہے جس کا کام یہ طے کرنا ہے کہ کیسے مقامی افراد کو قانون سازی اور ریاست کے روز مرہ کاموں میں نمائندگی دی جائے۔

ریاست کا سالانہ بجٹ 70 کروڑ کینیڈین ڈالر ہے جو تقریباً سارا کا سارا وفاقی حکومت دیتی ہے۔ 2004 میں سابقہ وزیر اعظم پال مارٹن نے شمالی علاقوں کی ترقی کو اپنی ترجیح قرار دیا تھا اور اضافی 50 کروڑ کینیڈین ڈالر ان تین ریاستوں میں تقسیم کئے تھے۔

2005 میں مقامی حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر ایک فرم کھولی ہے جس کا کام مصنوعی سیاروں کی مدد سے نُنا وُت کے لوگوں کو تیز رفتار انٹرنیٹ مہیا کرنا ہے۔ اس کے باعث ریاست کو دنیا کی اکیس سمارٹ کمیونیٹیز میں شامل کیا گیا ہے۔

آبادی

2006 کی مردم شماری کے مطابق نُنا وُت کی کل آباد 29474 نفوس ہے جن میں 24640افراد خود کو انوئت کہتے ہیں، 100 افراد خود کو قدیم یورپ سے آنے والے افراد کی نسل سے، 130خود کو میٹس اور 4410 افراد خود کو غیر مقامی کہتے ہیں۔

زبان

انوکٹیٹوٹ کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی بھی سرکاری زبانیں ہیں۔

اہم کانیں

• 1882 تا 2005 سونا
• 1982 تا 2002 زنک اور سیسہ
• 1976 تا 2002 زنک اور سیسہ
• 1957 تا 1962 نکل اور تانبہ
• 2006 تا حال ہیرے

اس کے علاوہ بہت سارے دیگر کان کنی کے منصوبے جاری ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار

نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جس نے دسویں نمبر پر یعنی سب سے آخر میں الحاق کیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرہ اور لیبرے ڈار جو کہ بقیہ ملک سے جڑا ہوا ہے۔ 1949 میں کینیڈا میں شمولیت کے وقت پورا صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ کہلاتا تھا لیکن تب سے یہاں کی حکومت خود کو نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کی حکومت کہتی ہے۔ 6 دسمبر 2001 کو کینیڈا کے آئین میں ترمیم کر کے صوبے کا نام سرکاری طور پر بدل کر نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار رکھ دیا گیا۔ روز مرہ زندگی میں تاہم کینیڈا کے باشندے ابھی تک اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کے صوبے کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ لیبرے ڈار کے حصے کو لیبرے ڈار کہتے ہیں۔

نیو فاؤنڈ لینڈ دراصل انگریزی کا لفظ ہے جس کا مطلب نئی دریافت شدہ زمین ہے۔ لیبرے ڈار پرتگالی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب زمین کا مالک ہے۔ اسے پرتگالی مہم جوآؤ فریننڈس لیوروڈور نے دریافت کیا۔

اکتوبر 2007 کے مطابق صوبے کی آبادی 507475 نفوس ہے۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کے لوگ نیو فاؤنڈ لینڈر کہلاتے ہیں اور لیبرے ڈار کے لوگ لیبرے ڈارین کہلاتے ہیں۔ نئو فاؤنڈ لینڈ کا انگریزی، فرانسیسی اور آئرش زبانوں کے لئے اپنے لہجے ہیں۔ لیبرے ڈار میں بولی جانے والی انگریزی کا لہجہ نیو فاؤنڈ لینڈ سے بہت ملتا جلتا ہے۔

تاریخ

نیو فاؤنڈ لینڈ کی کالونی


نیو فاؤنڈ لینڈ تاریخی اعتبار سے کئی چیزوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ مثلاً براعظم امریکہ میں یورپیوں کی طرف سے بسائی جانے والی پہلی کالونی یہاں ہے۔ یہ جگہ تقریباً 1000 عیسوی میں دریافت کی گئی تھی۔ اس دور کے کھنڈرات اور نمونے ابھی تک اس جگہ موجود ہیں اور اسے اب عالمی وراثتی جگہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جزیرہ پہلے بیوتھک اور پھر میکماک سے آباد رہا۔

جان کبوٹ وائی کنگ کے بعد یہاں آنے والا پہلا یورپی تھا جو 24 جون 1497 میں ادھر پہنچا۔ 5 اگست 1583 کو سر ہمفرے گلبرٹ نے نیو فاؤنڈ لینڈ کو باقاعدہ طور پر انگلستان کی بیرون ملک پہلی نو آبادی کا بنانے کا اعلان کیا۔

1610 سے 1728 تک مالکانہ حقوق کے ساتھ گورنر متعین کئے جاتے رہے تاکہ جزیرے پر نئی آبادیاں بنتی رہیں۔ جان گائے کوپر کوؤ میں بننے والی پہلی نو آبادی کا گورنر تھا۔ دوسری نو آبادیوں میں برسٹلز ہوپ، ری نیوز، ساؤتھ فاک لینڈ اور آوالون شامل ہیں۔ آوالون بعد ازاں 1623 میں صوبہ بنی۔ وہ پہلا گورنر جسے نیو فاؤنڈ لینڈ پر مکمل قبضہ دیا گیا سر ڈیوڈ کرکے تھے۔ انہیں یہ اختیار 1638 میں ملا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کا جزیرہ 1690 میں فرانسیسیوں نے تقریباً فتح کر لیا تھا۔

نیو فاؤنڈ لینڈ کو نو آبادیاتی اسمبلی1832 میں دی گئی جسے ابھی تک ہاؤس آف اسمبلی کہتے ہیں۔ یہ ولیم کارسن، ایڈورڈ موریس اور جان کینٹ جیسے انقلاب پسندوں کی کاوش تھی جنہوں نے جنگ لڑ کر اسے پایا۔ نئی حکومت غیر مستحکم تھی اور اس کے اراکین مذہبی اور سیاسی طور پر منقسم ہو گئے۔ صورتحال اتنی بری ہو گئی کہ 11 جنوری 1841 کو دی ٹائمز، لندن نے اسے اتنی بری مثال کے طور پر پیش کیا کہ مستقبل میں آئر لینڈ ایسا ہو سکتا ہے۔ 1842 میں منتخب شدہ ہاؤس آف اسمبلی کو متعین کردہ قانون ساز کونسل سے ملا دیا گیا۔ 1848 میں یہ صورتحال پھر تبدیل ہوئی۔ اس کے بعد ذمہ دار حکومت کی تشکیل کے لئے تحریک شروع ہوئی جس میں بشپ ملوک نے کافی اہم کردار ادا کیا۔

نیو فاؤنڈ لینڈ کی ڈومینن

1854 میں نیو فاؤنڈ لینڈ کو برطانوی حکومت کی طرف سے ذمہ دار حکومت سونپ دی گئی۔ 1855کے انتخابات میں فلپ فرانسز لٹل جو کہ پرنس ایڈورڈ کے جزیرے کا باشندہ تھا، نے ہف ہوئلز اور کنزریویٹو پر برتری حاصل کر لی۔ لٹل نے اپنی پہلی حکومت 1855 سے 1858 تک بنائی۔ 1861 میں تاہم گورنر بینرمین نے لبرلز کو ہٹا دیا اور کانٹے دار انتخابات کے بعد، جس میں بہت بدمزگی اور ہنگامے ہوئے، ہف ہوئلز نے حکومت بنا لی جس میں اس نے مذہبی لوگوں کو ساتھ ملایا اور نوکریوں وغیرہ کو اپنی مرضی سے دینا شروع کیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ نے کینیڈا سے الحاق کی تجویز کو 1869 کے عام انتخابات میں مسترد کر دیا۔ اس کے بعد وہ ترقی ہوئی کہ بلیک وڈز کے میگزین نے آئرلینڈ میں نیو فاؤنڈ لینڈ کی مثالیں دینی شروع کر دیں۔

لیبرے ڈار کی ملکیت کا تنازعہ کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے بیچ چلتا رہا حتیٰ کہ برطانوی پریوی کونسل نے مغربی سرحد کو الگ کر کے لیبرے ڈار کا رقبہ بڑھا دیا اور اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کو دے دیا۔

26 ستمبر 1907 تک نیو فاؤنڈ لینڈ ڈومینن بننے سے قبل تک نیوزی لینڈ کی طرح نو آبادی رہا۔ اس نے کامیابی سے امریکہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا لیکن بعد ازاں برطانوی حکومت نے کینیڈا کے اعتراض کے بعد اسے منسوخ کر دیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ وزیر اعظم سر رابرٹ بانڈ کے زیر انتظام اپنے عروج کو پہنچا۔ یہ لبرل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔

1934 میں معاشی مسائل کے باعث ڈومینن کو اپنی خود مختار حکومت کو ترک کرنا پڑا اور حکومتی کمیشن قائم ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیشن نے ایک انتخابات منعقد کرائے جس میں 1946 تا 1947 ڈومینن کے مستقبل پر بحث کی گئی۔ دو ریفرنڈموں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیو فاؤنڈ لینڈرز نے کمیشن کو ختم کر کے 1949 میں کینیڈا کی کنفیڈریشن سے الحاق کو چنا۔

نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کا صوبہ

1946 کے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے کمیشن کے لئے ہونے والے انتخابات میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے اس میں تجاویز پیش کی گئیں جن کے تحت یہاں کے باشندوں کو مختلف صورتیں دی گئیں۔ بہت سارے ممبران نے صرف گورنمنٹ کمیشن کو جاری رکھنے یا ذمہ دار حکومت کی بحالی کی حد تک اس ریفرنڈم کو مخصوص کرنے کی حمایت کی۔ جوزف آر سمال وڈ جو کہ کنفیڈریٹ کے لیڈر تھے، نے کینیڈا سے الحاق کی تیسری ممکنہ صورت کو بھی اس ریفرنڈم میں شامل کرانے کی کوشش کی۔ اس تجویز کو ناکامی ہوئی۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دو ہفتوں میں ہی پچاس ہزار سے زیادہ عرضداشتوں کو اکٹھا کر کے لندن گورنر کے ذریعے بھجوا دیا۔

انگلستان جو کہ پہلے ہی زور دے رہا تھا کہ نیو فاؤنڈ لینڈ یا تو کنفیڈریشن کو چنے یا پھر اپنی سابقہ ذمہ دار حکومت کو بحال کرے، اب تیسری صورت یعنی کینیڈا سے الحاق کو بھی شامل کرنے پر رضا مند ہو گیا۔ بہت بحث مباحثے کے بعد پہلا ریفرنڈم 3 جون 1948 میں ہوا۔ اس میں حکومتی کمیشن کو جاری رکھنے، ذمہ دار حکومت کی بحالی اور کینیڈا سے الحاق شامل تھے۔ نتائج غیر واضح تھے۔ چوالیس اعشاریہ چھ فیصد نے ذمہ دار حکومت کی بحالی، اکتالیس اعشاریہ ایک نے کینیڈا سے الحاق اور چودہ اعشاریہ تین فیصد نے کمیشن آف گورنمنٹ کو چنا۔ چونکہ کسی بھی صورت کو اکثریتی ووٹ نہ مل سکا، ریفرنڈم کے اصول کے تحت سب سے کم حمایت والی صورت کو ختم کر کے باقیوں کے بیچ دوبارہ ریفرنڈم ہوا۔ دونوں ریفرنڈموں کے درمیان یہ افواہ اڑی کہ رومن کیتھولک چرچ کے بشپوں نے ذمہ دار حکومت کے حق میں ووٹ دینے کے لئے اپنے معتقدین سے کہا ہوا ہے۔ یہ بات درست نہیں تھی۔ اورنج آرڈر نے اس لئے اپنے اراکین کو الحاق کے لئے ووٹ دینے کو کہا۔ پروٹسٹنٹوں کی تعداد کیتھولک سے دوگنی تھی۔ اس سے دوسرے ریفرنڈم پر بہت اثر پڑا۔ دوسرے ریفرنڈم میں جو کہ 22 جولائی 1948 میں ہوا، نیو فاؤنڈ لینڈروں سے پوچھا گیا کہ وہ الحاق یا ڈومینن میں سے ایک کو چنیں۔ الحاق کے حق میں اکاون فیصد اور ڈومینن کے حق میں انچاس فیصد ووٹ آئے۔ 31 مارچ 1949 کو نیو فاؤنڈ لینڈ نے کینیڈا سے الحاق کر لیا۔

تاہم ان نتائج سے تمام افراد مطمئن نہیں تھے۔ پیٹر کیشن جو کہ کافی منہ پھٹ اور الحاق کے مخالف تھا، نے ووٹوں پر اعتراض کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ "لندن اور اوٹاوا کے بیچ گندا اتحاد ہے" جس نے الحاق کی راہ ہموار کی۔

1959 میں مقامی سطح پر اختلاف پیدا ہو گیا جب صوبائی حکومت نے موراویان چرچ کو اس کے ہیبرون سٹیشن، لیبرے ڈار کو بند کرنے اور اسے جنوب میں انوئت آبادی کے علاقے میں منتقل کرنے کو کہا۔

1960 میں نیو فاؤنڈ لینڈ نے چرچل آبشار پر پن بجلی کا منصوبہ بنایا تاکہ امریکہ کو بجلی بیچی جا سکے۔ اس سلسلے میں کیوبیک سے معاہدہ کرنا تھا تاکہ کیوبیک کی سرزمین سے بجلی بحفاظت گذاری جا سکے۔ کیوبیک نے سخت شرائط عائد کیں اور اسے 75 سالہ معاہدہ بنایا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ نے اسے سخت نا انصافی سمجھا کیونکہ اتنے لمبے عرصے کے لئے انہیں بجلی کے معمولی اور یکساں معاوضے پر گذارا کرنا تھا۔

الحاق سے 1972 تک صوبے کی سیاسی سرگرمیوں پر لبرل پارٹی کا قبضہ تھا جس کی قیادت جوزف آر سمال وڈ کر رہے تھے۔ 1972 میں سمال وڈ کی حکومت کی بجائے پروگریسیو کنزرویٹیو برسر اقتدار آئے جن کی قیادت فرینک مورز کر رہے تھے۔ 1979 میں برائن پیک فورڈ، جو کہ ایک اور پروگریسیو کنزرویٹیو تھے، پریمئر بنے۔ اس دوران نیو فاؤنڈ لینڈ کے گہرے سمندر میں تیل کے ذخائرکے حوالے سے مسائل کھڑے ہوئے۔ آخر میں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر صلح ہوئی۔ 1989 میں کلائڈ ویلز اور لبرل پارٹی سترہ سال بعد واپس حکومت میں آئی۔

1992 میں وفاقی حکومت نے اٹلانٹک کوڈ مچھلی کے شکار پر پابندی لگائی کیونکہ 1980 کی دہائی میں اس مچھلی کی تعداد بہت گھٹ گئی تھی۔ 1990 کی دہائی کے دوران اس فیصلے سے نیو فاؤنڈ لینڈ کی معیشت بہت متائثر ہوئی بالخصوص ایک مقامی آبادی کو ہجرت کر کے اپنا علاقہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس کی مثال کچھ یوں لی جا سکتی ہے کہ کوڈ مچھلی کے شکار پر پابندی سے وہ اثر ہوا جو اونٹاریو کی معیشت پر اونٹاریو کے تمام کارخانے بند کر دینے سے ہوتا۔ کوڈ مچھلی کے شکار کے نیو فاؤنڈ لینڈ کے 200 سال ختم ہو گئے۔ حکومت نے مچھیروں اور مچھلی کے کارخانوں کی مدد کے لئے کئی ارب ڈالر سے ایک پروگرام بھی شروع کیا۔

1980 کی دہائی کے اواخر میں وفاقی حکومت اور کراؤن کارپوریشن پیٹرو کینیڈا اور دیگر نجی تیل کی تلاش کی کمپنیوں نے ہیبیرنیا کے تیل اور گیس کے کنوؤں کی ترقی و ترویج کے لئے کام کرنے کا معاہدہ کیا۔ 1990 کی دہائی کے درمیان ہزاروں نیو فاؤنڈ لینڈروں کو گہرے سمندر میں تیل کے پلیٹ فارموں پر ملازمت دی گئی اور ہیبیرنیا کے گریویٹی بیس سٹرکچر اور ہیبیرنیا ٹاپ سائڈز کی تعمیر کے لئے بھی ملازمتیں دی گئیں۔

1996 میں سابقہ وفاقی وزیر برائے ماہی گیری، برائن ٹوبن نے کلائڈ ویلز کے بعد لبرل پارٹی کی صوبائی قیادت سنبھالی۔ ٹوبن نے موقع کی مناسبت سے صوبے کی معیشت کا انحصار ماہی گیری سے ہٹا کر تیل و گیس کی طرف متعارف کرایا۔

ٹوبن کی خوش قسمتی کہ اس کے فوراً بعد دنیا کے بہترین نکل کے ذخائر بھی لیبرے ڈار میں دریافت ہوئے۔ ٹوبن نے سابقہ حکومتوں کے برعکس نجی شعبے سے بات چیت کر کے بہتر معاضے کو یقینی بنایا۔ 2000 میں ٹوبن کے واپس وفاقی سیاست میں چلے جانے کے بعد راجر گریمز نسبتاً کمزور پریمئر بنے۔

تیل و گیس کی صنعت کی طرف سے گہرے سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لئے جاری دباؤ کی وجہ سے نووا سکوشیا اور نیو فاؤنڈ لینڈ کو وفاقی حکومت سے بات کرنی پڑی تاکہ دونوں کے درمیان متنازعہ سرحدوں کو حل کیا جا سکے۔ 2003 میں فیصلہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے حق میں ہوا۔

2003 میں وفاقی حکومت نے آخری ماہی گیری کے علاقے کو بھی بند کرا دیا جو سیٹ لارنس کی خلیج میں واقع تھا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ براہ راست متائثر ہونے والا فریق تھا، تاہم کیوبیک کی کچھ آبادیاں بھی متائثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔

پریمئر گریمز جو اس خزاں میں انتخابات کو ملتوی دیکھ رہے تھے، نے خلیج میں ماہی گیری کی روک کے فیصلے کو وفاق کے خلاف اپنی سیاست کا حصہ بنایا۔ انہوں نے کینیڈا سے الحاق کے معاہدے پر نظر ثانی بھی کرنے کا مطالبہ کیا۔ 2 جولائی 2003 میں اس عوامی بے چینی کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیشن بنایا گیا، اس نے یہ نکات پیش کئے:

• کوڈ کی ماہی گیری کے ذرائع کی تباہی کے بے پناہ اثرات
• لیبرے ڈار کے آبی ذرائع کو کیوبیک کی طرف اپنے فائدے کے لئے استعمال
• تشویش ناک حد تک بلند شرح بے روزگاری
• کینیڈا میں سب سے کم فی کس آمدنی
• سب سے بلند شرح ٹیکس
• آبادی کا سب سے زیادہ انخلاء

رپورٹ نے مطالبہ کیا کہ:

• زیادہ بامعنی وفاقیت
• ماہی گیری سے نمٹنے کے لئے ایکشن ٹیم
• کینیڈا، کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے مابین باہمی شراکت تاکہ گل کے جزیرے پر پن بجلی کا منصوبہ بنے
• اٹلانٹک ایوارڈ پر نظر ثانی تاکہ گہرے سمندر میں موجود تیل و گیس کے ذخائر پر صوبے کا حق ہو
• ماہی گیری کے لئے فوری اور بامعنی مذاکرات

اکتوبر 2003 میں لبرل کو صوبائی انتخابات میں پروگریسیو کنزرویٹیو کے مقابلے ناکامی ہوئی۔

اکتوبر 2004 کے اواخر سے جنوری 2006 کے شروع تک پریمئر ولیمز نے سابقہ پریمئر پال مارٹن پر الزام لگایا کہ انہوں نے اٹلانٹک ایوارڈ کے سلسلے میں اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ اب تیل سے حاصل ہونے والی رائلٹی کا مسئلہ تھا جس کا ستر فیصد حصہ وفاقی حکومت کو مختلف مدوں میں واپس کر دیا جاتا ہے۔ صوبہ سو فیصد رائلٹی اپنے لئے چاہتا ہے تاکہ وہ غربت کو دور کر سکے۔

2004 کے اختتام پر ولیمز نے حکم دیا کہ کینیڈا کا جھنڈا تمام صوبائی عمارتوں سے وفاقی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ہٹا دیا جائے اور میونسپل کونسلوں سے بھی ایسا ہی کرنے کی درخواست کی جائے۔ اس فیصلے کو "فلیگ فلیپ" کا نام دیا گیا اور صوبے اور کینیڈا بھر میں اس پر چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ جنوری 2005 میں جھنڈے دوبارہ اپنی جگہ پر آ گئے جب پال مارٹن نے اعلان کیا کہ جھنڈے دوبارہ اپنی جگہ واپس نہ آنے تک وہ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے۔ جنوری کے اختتام پر وفاقی حکومت نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت تیل کے تمام معاوضہ جات صوبے کو ملیں گے۔ اس کا مطلب تھا کہ آٹھ سال میں صوبے کو اضافی دو ارب ڈالر ملیں گے۔ تاہم اس معاہدے سے اونٹاریو اور کیوبیک کو بھی شہہ ملی اور انہوں نے بھی اپنی مرضی کے مطالبے شروع کر دیئے کہ وفاق ان کے ذرائع سے ناجائز معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پریمئر ولیمز اور موجودہ وزیر اعظم سٹیفن ہارپر کے درمیان "برابری کا پروگرام" آج بھی ایک تنازعے کا درجہ رکھتا ہے۔

2005 تک کینیڈا کے آئین میں ہونے والی دس میں سے چار ترامیم کینیڈا کے دسویں صوبے یعنی نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار سے تعلق رکھتی ہیں۔

آبادی

2001 کے کینیڈا کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی سب سے بڑی لسانی جماعت انگریزی ہے جو کہ انتالیس اعشاریہ چار فیصد ہے۔ اس کے بعد انیس اعشاریہ سات فیصد آئرش ہیں۔ سکاٹش چھ فیصد، فرانسیسی ساڑھے پانچ فیصد اور دیگر یورپی اقوام کے باشندے تین اعشاریہ دو فیصد۔ آدھے شرکاء نے اپنی شناخت بطور کینیڈین بھی کرائی۔ اڑتیس فیصد نے اپنی قومیت نیو فاؤنڈ لینڈر بتائی۔

2006 کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ کل آبادی 505469 افراد ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مینی ٹوبا

مینی ٹوبا

مینی ٹوبا کینیڈا کے دس صوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی کل آبادی 1190400 ہے۔ اس کو وفاقی حکومت نے 1870 میں شمال مغربی ریاست سے الگ حصہ تسلیم کیا اور یہ ریاستوں سے الگ ہونے والا پہلا صوبہ بنا۔ تین زرعی صوبوں میں سے یہ مشرقی صوبہ ہے۔ مینی ٹوبا کا لفظ مقامی لفظ مینی ٹو سے بنا ہے جس کا مطلب روح ہے۔ مینی ٹوبا میں سرخ دریا کے علاقے میں کینیڈا کی پہلی مغربی نو آبادی قائم ہوئی تھی۔ مینی ٹوبا کینیڈا کا واحد صوبہ ہے جس کے پاس آرکٹک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو چرچل کے مقام پر خلیج ہڈسن کے ساتھ موجود ہے۔ مینی ٹوبا کی شمالی بندرگاہ کینیڈا سے ایشیاء تک مختصر ترین بحری راستہ ہے۔

اس کا دارلخلافہ اور سب سے بڑا شہر (جس میں صوبے کی آدھی آبادی رہتی ہے) ونی پگ ہے۔ اس کی کل آبادی 710000 شہر کے اندر ہے جبکہ 10000 افراد برانڈن، تھامپسن، پورٹیج لا پریری اور سٹین بچ میں بھی رہتے ہیں۔

مینی ٹوبا کے باسی کو مینی ٹوبن کہتے ہیں۔

جغرافیہ

مینی ٹوبا طول بلد کے لحاظ سے کینیڈا کے وسط میں واقع ہے۔ تاہم اسے مغربی کینیڈا کا حصہ بھی مانا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں ساسکچیوان، مشرق میں اونٹاریو، شمال میں نناوت اور خلیج ہڈسن اور جنوب میں امریکی ریاستوں شمالی ڈکوٹا اور منی سوٹا سے ملتی ہیں۔

صوبے کی طویل ساحلی سرحد خلیج ہڈسن سے ملی ہوئی ہے اور اس میں دنیا کی دسیوں بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ اس کا نام جھیل ونی پگ ہے۔ یہاں دو اور بڑی جھیلیں بھی ہیں جن کے نام جھیل مینی ٹوبا اور جھیل ونی پیگوسس ہیں۔ مینی ٹوبا کی جھیلوں نے صوبے کا تقریباً ساڑھے چودہ فیصد حصہ گھیرا ہوا ہے۔ جھیل ونی پگ کینیڈا کی جنوبی سرحدوں میں موجود سب سے بڑی جھیل ہے۔ اس کی مشرقی طرف دنیا کے چند دور افتادہ اور ان چھوئے پانی کے ذخیرے موجود ہیں۔ زیادہ تر جنوبی علاقوں کے جنگلاتی کیری بو کے جھنڈ جھیل ونی پگ کی مشرقی طرف ملتے ہیں۔ اس جھیل کے مشرقی ساحل پر بے شمار غیر آباد جزائر بھی موجود ہیں۔ صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں جھیلیں موجود ہیں۔ زیادہ اہم دریاؤں میں ریڈ، اسینی بوئن، نیلسن، ونی پگ، ہائز، وائٹ شیل اور چرچل دریا ہیں۔

صوبے کا زیادہ تر آباد جنوبی حصہ قبل از تاریخ کی گلیشئر کی آگاسز کی تہہ میں ہے۔ صوبے کا جنوب وسطی حصہ مسطح ہے اور یہاں چند ایک پہاڑیاں موجود ہیں۔ تاہم صوبے میں بہت سارے پہاڑی اور پتھریلے علاقے بھی موجود ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ یہاں گلیشئر کے پگھلنے سے بننے والے ریت کے میدان بھی۔ کوہ بالڈی صوبے کا سب سے اونچا مقام ہے جو کل 832 میٹر سطح سمندر سے بلند ہے۔ خلیج ہڈسن کا کنارہ سب سے نشیبی علاقہ ہے جو سطح سمندر پر واقع ہے۔ دوسرے بلند علاقوں میں رائڈنگ پہاڑ، پم بینا پہاڑیاں، سینڈی لینڈ صوبائی جنگلات اور کینیڈین شیلڈ ہیں۔ صوبے کا شمال اور مشرق انتہائی کم آباد ہے اور زیادہ تر گریفائٹ کی بے ترتیب چٹانوں کے درمیان آباد ہے۔ ان میں وائٹ شیل صوبائی پارک، آٹکاکی صوبائی پارک اور نوپیمنگ صوبائی پارک ہیں۔ پرندوں کا پہاڑی صوبائی پارک دراصل قبل از تاریخ کی آگاسز جھیل میں موجود ایک جزیرے پر بنایا گیا ہے جو اس وقت کے گلیشئرز کے پگھلنے سے بنی تھی۔

صوبے کا جنوبی حصہ زراعت کے لئے انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں موجود دیہاتی فارموں میں ایک تہائی سے زیادہ فارم مویشیوں کے ہیں۔ تقریباً بیس فیصد حصہ غلہ جات اور خوراک سے متعلقہ چیزیں پیدا کرتے ہیں۔ تقریباً آٹھ فیصد روغنی بیج پیدا کرتے ہیں۔ کینیڈا کی کل فارم کی زمین کا بارہ فیصد حصہ مینی ٹوبا میں موجود ہے۔ مشرقی، جنوب مشرقی اور شمالی علاقوں میں کونی فیرس جنگلات، مسکگ، کینیڈین شیلڈ اور ٹنڈرا انتہائی شمال میں ہیں۔ جنگلات صوبے کی ساڑھے پانچ کروڑ ہیکٹر زمین کا اڑتالیس فیصد یعنی دو کروڑ تریسٹھ لاکھ ہیکٹر ہیں۔ جنگلات میں بالخصوص پائن، سپروس، لارچ، پاپلس اور برچ کے درخت ہیں۔ کچھ جگہوں پر مشرقی سفید سیڈار بھی پایا جاتا ہے۔ دنیا کے معدودے چند بوریل جنگلات کا ایک حصہ جھیل ونی پگ کی مشرقی طرف پایا جاتا ہے۔ یہاں بہت سارے صاف اور تازہ دریا بہتے ہیں۔ یہ سارا علاقہ ہزاروں سالوں سے محض مچھلی کے شکار، عام شکار وغیرہ کے لئے ہی استمعال ہوتا آ رہا ہے۔

موسم

براعظم شمالی امریکہ میں اپنی وسطی موجودگی کی وجہ سے مینی ٹوبا موسم کافی سخت ہوتا ہے۔ عموماً درجہ حرارت اور ہوا میں نمی جنوب سے شمال کی طرف کم ہوتے جاتے ہیں اور ہوا میں نمی مشرق سے مغرب کی طرف بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ مینی ٹوبا پہاڑی سلسلوں اور عظیم جھیلوں سے دور ہے، اس لئے یہاں موسم اتنا معتدل نہیں ہو پاتا (مینی ٹوبا کی تمام بڑی جھیلیں سردیوں کے مہینوں میں جم جاتی ہیں)۔ اپنی زیادہ تر ہموار سطح کے باعث مینی ٹوبا میں سال بھر کئی طرح کے موسم پائے جاتے ہیں جن میں آرکٹک سے آنے کر یہاں رک جانے والے ہوا کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے لمبی سردیاں شامل ہیں۔ جنوبی مینی ٹوبا میں گرمیوں میں زیادہ نمی ہوتی ہے اور درجہ حرارت 50٫3 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ کینیڈا کا انتہائی درجہ حرارت ہے۔ یہاں کل تین موسمی خطے ہیں۔

انتہائی جنوب مغربی کونے میں نیم بنجر موسم ہے۔ یہ علاقہ جنوبی مینی ٹوبا کی نسبت زیادہ خشک ہے اور یہاں اکثر بارشیں نہیں ہوتیں۔ سردیوں میں یہ انتہائی سرد ہو جاتا ہے اور تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ سردیوں میں برفانی طوفان بھی بکثرت آتے ہیں کیونکہ یہ سارا علاقہ کھلا ہے۔ گرمیاں عموماً گرم سے گرم تر ہوتی ہیں اور ہوا میں نمی کا تناسب کم رہتا ہے۔

بقیہ جنوبی مینی ٹوبا پر جس میں ونی پگ بھی شامل ہے، نمدار براعظمی موسم رہا ہے۔ یہاں کے درجہ حرارت اوپر بیان کردہ علاقے سے بہت ملتے جلتے رہتے ہیں تاہم اس جگہ زیادہ نمی ہوتی ہے اور یہاں مناسب مقدار میں بارش بھی ہوتی ہے۔ یہاں کی سخت سردیوں کی وجہ سے ونی پگ کو عرف عام میں ونٹر پگ کہا جاتا ہے۔

صوبے کے وسطی اور شمالی حصے، مینی ٹوبا کا زیادہ تر زمینی حصہ، سب آرکٹک زون میں آتا ہے۔ اس علاقے میں لمبی اور شدید سردیاں عام ہیں جبکہ مختصر گرمیاں اور نسبتاً کم بارش ہوتی ہے۔ یہاں ہر سال کئی کئی دن تک رات کا درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری تک گر سکتا ہے اور چند ہفتے منفی اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی رہ سکتا ہے۔

گرمیوں کے مہینوں میں موسم پر ہوا کے کم دباؤ کا اثر رہتا ہے جو خلیج میکسیکو سے اٹھتی ہیں۔ ان کا اکثر ٹکراؤ شمال اور مغرب میں نسبتاً خشک ہواؤں سے ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ گرم اور نم موسم میں نکلتا ہے اور اکثر گرج چمک ہوتی ہے۔ صوبے کے جنوبی حصوں میں ہر سال چند ایک گردباد آتے ہیں۔ 2006 میں پندرہ گردباد آئے تھے۔ 2007 میں 22 اور 23 جولائی میں بہت سے گردباد آئے جن میں سے ایک ف 5 درجہ کا تھا جو کینیڈا میں سب سے سخت گردباد تھا۔ اس کے علاوہ ایک ف 3 درجے کا گردباد بھی عکس بند ہوا ہے۔ ہر سال گرمیوں میں درجہ حرارت کئی بار 35 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے اور گرمی اور نمی کی وجہ سے یہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔

تاریخ

جغرافیائی اعتبار سے آج مینی ٹوبا کہلانے والا علاقہ پچھلے برفانی دور کے بعد اس وقت آباد ہوا جب گلیشئر جنوب مغرب کی طرف ہٹے۔ سب سے پہلی زمین جو برف سے آزاد ہوئی ہو ٹرٹل کا پہاڑی علاقہ تھا۔ یہاں پتھروں سے بنی حدیں اور مذہبی دائرے وغیرہ عام دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پہلے انسانی باقیات میں برتن، نیزے اور تیروں کے سرے، تانبے، پتھروں سے بنی لکیریں، حروف، مچھلیوں اور جانوروں کی ہڈیاں اور دریائے ریڈ کے کنارے لاک پورٹ کے نزدیک کھیتی باڑی کے آثار شامل ہیں۔ آخر کار یہاں قدیم مقامی لوگ آ کر آباد ہوئے جو اوجیبوا، کری، ڈینی، سیوکس، مانڈان اور اسینی بوئن تھے۔ اس کے علاوہ دیگر قبائل بھی جو اس علاقے میں تجارت کی نیت سے آئے۔ یہاں ہمیں زمین پر بہت سے نشانات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے یہاں پانی اور خشکی، دونوں جگہ ان کا تجارتی جال پھیلا ہوا تھا۔ وائٹ شیل صوبائی پارک کا علاقہ ونی پگ دریا سے تعلق رکھتا ہے اور یہاں کئی پرانے مذہبی آثار ہیں جو شاید تجارتی مراکز میں واقع ہوں یا پھر 2000 سال پرانے تعلیمی ادارے۔ گھونگھے کے خول اور تانبا کی اس علاقے میں موجودگی سے ثابت ہوت اہے کہ ان تجارتی مراکز سے کیا چیزیں سمندر اور پھر دوسری جنوبی تہذیبوں کو منتقل کی جاتی ہوں گی۔ شمالی مینی ٹوبا میں کے کچھ علاقوں میں کوارٹز کے لئے کان کنی کی جاتی تھی جس سے یہ لوگ تیروں کے سرے بناتے تھے۔ مینی ٹوبا میں پہلی کھیتی باڑی کے آثار ریڈ دریا کے کنارے لاک پورٹ کے پاس ملتے ہیں جہاں مکئی اور دوسری غلہ دار اجناس کو یورپیوں کی آمد سے قبل اگایا جاتا تھا۔ ہزاروں سال تک اس جگہ انسان آباد رہے ہیں اور آثار قدیمہ سے ان کی زندگی اور رہن سہن کا ثبوت ملتا ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں اور پتھروں پر کندہ تصاویر کے بارے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مینی ٹوبا کی قدیم ثقافتوں کے بارے تفصیل معلوم ہو سکے۔

1611 میں ہنری ہڈسن ان پہلے یورپیوں میں سے ایک تھا جو خلیج ہڈسن تک پہنچے۔ 1668 اور 1669 میں جو جہاز یہاں پہنچا، وہ اس علاقے میں پہلا تجارتی بحری سفر تھا۔ اس کے نتیجے میں ہڈسن بے کمپنی قائم ہوئی۔ اس کمپنی کو پوری خلیج ہڈسن، موجودہ البرٹا، ساسکچیوان، مینی ٹوبا، اونٹاریو، منی سوٹا، شمالی ڈکوٹا وغیرہ میں کھالوں کی تجارت کے تمام تر حقوق دے دیئے گئے۔ خلیج ہڈسن کے پانیوں کو شہزادہ رپرٹ کے نام پر کہ جس نے ہڈسن بے کمپنی کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، رپرٹس لینڈ کا نام دیا گیا۔ یارک فیکٹری دراصل ہڈسن بے کمپنی کا مضبوط ترین گڑھ تھی۔ دوسرے انگریز تاجر اور مہم جو خلیج ہڈسن کے ساحلوں پر اترتے اور پھر شمالی مینی ٹوبا کے دریاؤں کے ساتھ ساتھ جنوب کو روانہ ہو جاتے۔ سر تھامس بٹن وہ پہلے یورپی تھے جو آج کے وسطی اور جنوبی مینی ٹوبا پہنچے۔ انہوں نے نیلسن دریا کے ساتھ اوپر کی طرف سفر کیا اور جھیل ونی پگ 1612 میں پہنچے۔ شاید وہ یہاں گھاس کے میدانوں تک بھی پہنچے ہوں اور انہوں نے جنگلی بھینسے کو دیکھنے کی اطلاع بھی دی۔ پیئر گوالٹر ڈی وارینیس، سیور ڈی لا ویرینڈری نے سرخ دریا کی وادی کو 1730 کی دہائی میں عبور کیا جس سے اس علاقے میں فرانسیسی مہموں اور کھالوں کی تجارت کا راستہ کھلا۔ کئی دوسرے فرانسیسی مہم جو بھی مشرق اور جنوب سے آئے اور ونی پگ دریا کے ساتھ ساتھ نیچے اترے۔ مینی ٹوبا میں فرانسیسی۔کینیڈین آبادی کا ایک حصہ جنوبی ونی پگ کے ضلع میں آباد ہے۔ نارتھ ویسٹ کمپنی اور ہڈسن بے کمپنی کی طرف سے ان علاقوں میں کھالوں کی تجارت کے لئے قلعے بنائے گئے اور وقتاً فوقتاً یہاں خونریز تصادم بھی ہوتے رہے۔ آخر کار 1763 میں انڈین اور فرانسیسیوں سے جنگ کے بعد برطانیہ نے اس سارے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

مینی ٹوبا کے لفظ کی توجیح کئی طرح سے کی جا سکتی ہے۔ عمومی خیال ہے کہ یہ کری یا اجیبوی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی آبنائے مینی ٹو (روح) ہے۔ شاید یہ ایسینی بوئنے زبان کا لفظ ہو جس کا مطلب گھاس کے میدانوں کی جھیل ہو۔

مینی ٹوبا کے زیادہ تر دریا اور پانی عموماً جنوب یا مشرق کی طرف نہیں بلکہ شمال کی طرف بہتے ہیں اور خلیج ہڈسن جا گرتے ہیں۔ ہڈسن بے کے آرکائیو ونی پگ، مینی ٹوبا میں محفوظ ہیں جو رپرٹ لینڈ کے علاقے میں ہونے والی کھالوں کی تجارت کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔

1812 میں لارڈ سیلکرک کی طرف سے یہاں کی پہلی زرعی کمیونٹی اور نو آبادیوں کےقیام کے بعد وہ علاقہ جو اب ونی پگ شہر کا حصہ ہے، یہاں رہنے والے اور کھال کی تجارت کرنے والے مقامیوں اور برطانویوں کے درمیان تنازعے کا باعث بن گیا۔ بیس برطانویوں کو جن میں گورنر بھی شامل تھا، مقامیوں نے جنگ سیون اوکس میں 1816 میں ہلاک کر دیا۔ اس جنگ میں ثالثوں نے پہلی گولی چلائی۔ ایک مقامی بھی ہلاک ہوا۔ اس عرصے میں کئی کھالوں کی تجارت کے قلعوں پر بھی حملے ہوئے۔

جب رپرٹس لینڈ کو کینیڈا نے 1869 میں شمال مغربی ریاست کے لئے حاصل کر لیا تو مقامیوں کی طرف ہونے والی زیادتیوں کے لئے انہوں نے لوئیس ریل کو اپنا بڑا چن لیا تاکہ بغاوت کے دوران صوبائی حکومت قائم کی جا سکے۔ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکرات کا نتیجہ مینی ٹوبا کا بطور صوبہ اور پھر وفاق میں 1876 شمولیت عمل میں آئی۔تاہم لوئیس ریل کے خلاف بغاوت کی وجہ سے مقدمہ چلا اور وہ بیرون ملک فرار ہو گیا۔ مقامی لوگوں کو اس زمین سے روک دیا گیا جو کینیڈا میں شمولیت کی بنیاد پر انہیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ متواتر آنے والے سفید فام نسل پرستوں سے تنگ آ کر مقامی لوگ ساسکچیوان اور البرٹا کی طرف منتقل ہو گئے۔

شروع میں مینی ٹوبا موجودہ رقبے کا محض اٹھارہواں حصہ اور مربع شکل کا تھا۔ اسے عموماً ڈاک کے ٹکٹ والے صوبے کا نام بھی دیا جاتا تھا۔ اس میں تیزی سے ترقی ہوتی رہی اور شمال مغربی ریاست سے زمین اس میں شامل ہوتی رہی حتٰی کہ یہ اپنے موجودہ حجم تک 1912 میں آن پہنچا۔

1800 کے اختتام پر آج کے مینی ٹوبا کی مقامی آبادیوں سے بے شمار معاہدے کئے گئے۔ان معاہدوں کا مقصد یہ تھا کہ ہر خاندان کے لئے زمین کی مناسب مقدار، دوائیں اور سالانہ معاوضے وغیرہ شامل تھے۔ اس سے وفاقی حکومت کے تحت ریزرو سسٹم کی بنیاد پڑی۔ ابھی تک بہت سارے زمینوں کے دعوے باقی ہیں کیونکہ جتنی زمینوں کے وعدے کئے گئے تھے، اتنی دی نہیں گئی تھیں۔

مینی ٹوبا میں سکول میں کئے جانے والے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کی ثقافتی اقدار کتنی گہری ہیں۔ فرانسیسیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں ریاست میں ان کی زبان کے سکول مہیا کئے جائیں گے لیکن 1888 تا 1890 تک جاری رہنے والی تحاریک نے مطالبہ کیا کہ فرانسیسی سکولوں کو ختم کر دیا جائے۔ 1890 میں مینی ٹوبا کی مقننہ نے فیصلہ کیا کہ فرانسیسی کو صوبے کی سرکاری زبان کا درجہ سے ختم کر دیا جائے اور کیتھولک سکولوں کی امداد بند کر دی گئی۔ فرانسیسی کیتھولک عوام نے وفاقی حکومت سے امداد مانگی لیکن اورنج آرڈر اور دیگر کیتھولک مخالف تحاریک نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔ کنزرویٹو نے ایسے قانون کی منظوری کا مطالبہ کیا جو مینی ٹوبا کے قانون کو بیکار بنا دے لیکن اس تجویز کو لبرل نے ولفریڈ لائریر کی سربراہی میں روک دیا۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ اس سے صوبائی حقوق متائثر ہوں گے۔ 1896 میں جب لائریر وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ایک نیا فیصلہ متعارف کرایا۔ اگر سکولوں میں اختتام پر طلباء کی معقول تعداد موجود ہو تو تیس منٹ کی کیتھولک تعلیمات دی جائیں گی۔ آنے والی کئی دہائیوں تک صوبے اور ملک بھر میں زبان کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنگینیاں منڈلاتی رہیں۔

1900 کے اوائل میں ونی پگ کینیڈا کا چوتھا بڑا شہر بن چکا تھا۔ بوم ٹاؤن کے طور پر یہ شہر 1800 سے 1900 تک بہت تیزی سے بڑھا۔ یہاں بے شمار بیرونی سرمایہ کار، تارکین وطن اور ریلوے موجود تھیں۔ کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ حتٰی کہ آج بھی آپ ونی پگ کی اس دور کی شاندار عمارات کو دیکھ سکتے ہیں۔ جب مقننہ بنائی گئی تو اندازہ تھا کہ جلد ہی مینی ٹوبا کی آبادی تیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں شہر میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں کیونکہ اب پہلے جیسا سرمایہ نہیں لگ رہا تھا۔ ونی پگ دیگر شہروں بالخصوص کیلگری سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔

1917 کے انتخابات معاشی اور فوجی بحران کے دوران منعقد ہوئے۔ لبرل دو حصوں میں منقسم ہو چکے تھے اور ایک نشست کے سوا باقی تمام کی تمام نشستیں نئی یونین پارٹی نے حاصل کر لیں۔ جنگ کے اختتام پر کسانوں اور یونین کے اراکین کو دیے جانے والے اضافی معاوضوں نے ریڈیکلوں کو بہت اوپر کر دیا۔ روس میں بالشویکوں کے برسر اقتدار آنے کی وجہ سے کنزریوٹو متفکر اور ریڈیکل بہت متحرک ہو گئے۔ اس ساری صورتحال کی سب سے گھمبیر شکل 1919 میں ہونے والی چھ ہفتے لمبی ہڑتال تھی جس سے زیادہ تر کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں۔ 15 مئی میں یہ ہڑتال شروع ہوئی اور 25 جون 1919 تک جاری رہی۔ جب ورکر آہستہ آہستہ کاموں کو لوٹنے لگے تو سینٹرل سٹرائیک کمیٹی نے ہڑتال کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

حال ہی میں بہت سارے مؤرخین نے اس ہڑتال سے متعلق مورٹن کے نظریئے کو رد کیا ہے اور اس سے بہت مختلف تاریخیں بیان کی ہیں۔

اس ہڑتال کے نتیجے میں 8 ہڑتالی رہنماؤں پر مقدمہ چلا اور زیادہ تر پر غیر قانونی سازش، غیر قانونی اجتعماعات، غیر قانونی افواہوں کے جرم عائد کئے گئے۔ ان میں سے چار کینیڈا کے باشندے نہیں تھے جنہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ اس سے مزدور کمزور ہوئے اور منقسم ہو گئے۔ کسان جو اس دوران صبر سے خود کو یونائٹڈ فارمرز آف مینی ٹوبا کے تحت منظم کرتے رہے تھے، 1920 کے صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ کسان جو کہ حسب معمول سیاست کے خلاف لڑ رہے تھے، 1922 میں 30 نشستیں جیت گئے۔ ان کے خلاف 7 لبرل کو، 6 کنزرویٹو کو، 6 ہی لیبر کو اور 8 آزاد امیدواروں نے اپنی اپن نشستیں جیتیں۔

حکومت

مینی ٹوبا کی حکومت کا ڈھانچہ


مینی ٹوبا پر یک ایوانی مقننہ کی حکمرانی ہے۔ اسے مینی ٹوبا کی قانون ساز اسمبلی کہتے ہیں۔ یہ ویسٹ منسٹر کے نظام کے تحت کام کرتی ہے۔ اس میں ایگزیکٹو بازو حکمران یا اکثریتی پارٹی کا ہوتا ہے اور پارٹی لیڈر مینی ٹوبا کے پریمئر کا کام سر انجام دیتا ہے۔ پریمئر حکومت کے سربراہ کو کہتے ہیں۔ ریاست کا سربراہ لیفٹننٹ گورنر آف مینی ٹوبا ہوتا ہے جو کہ کینیڈا کے وزیر اعظم کی مشاورت سے کینیڈا کا گورنر جنرل متعین کرتا ہے۔ حکومت کے سربراہ کا یہ عہدہ محض نمائشی ہوتا ہے۔

مینی ٹوبا کی حکومتی شاخ کے کل 57 اراکین ہوتے ہیں جنہیں مینی ٹوبا کے باشندے منتخب کرتے ہیں۔ یہ ممبر چیمبر کے اندر نصف دائرے کی شکل میں بیٹھتے ہیں جو کینیڈا بھر میں منفرد ہے۔

مینی ٹوبا کی اہم سیاسی جماعتیں نیو ڈیمو کریٹک پارٹی آف مینی ٹوبا، دی پروگریسو کنزرویٹو پارٹی آف مینی ٹوبا اور لبرل پارٹی آف مینی ٹوبا ہیں۔

قانون ساز اسمبلی کا قیام

مینی ٹوبا کی قانون ساز اسمبلی 14 جولائی 1870 میں قائم ہوئی۔ شروع میں اسے پارلیمنٹ کہا گیا اور پھر بعد میں اسے مقننہ کا نام دیا گیا۔ شمال مغربی ریاست سے نکلنے والے صوبے کے طور پر مینی ٹوبا کو آزاد خود مختار حکومت کے اختیارات اور ذمہ داریاں مل گئیں۔ یہ کنٹرول برطانوی حکومت کی طرف سے کینیڈا کو 1869 میں تفویض کیا گیا۔ اس کی وجہ رپرٹس لینڈ کی ہڈسن بے کمپنی کی طرف سے فروخت تھی۔ پہلی چند دہائیوں میں مینی ٹوبا کو ڈاک کے ٹکٹ والے صوبے کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ شروع میں یہ بالکل مربع شکل کا تھا۔ اس وقت اس میں صوبے کے موجودہ جنوبی حصے کا محض چالیس فیصد حصہ تھا۔

شمال مغربی ریاست سے مینی ٹوبا کی علیحدگی کا عمل بہت تیز تھا کیونکہ سرخ دریا کے علاقے میں مقامیوں اور لارڈ سیلکرک کے باشندے آباد ہو رہے تھے۔ دریائے سرخ کی کالونی اور فورٹ گیری کا علاقہ مغرب میں واحد کالونی تھے اور یہاں مقامیوں نے الحاق سے قبل کچھ عرصہ تک اپنی صوبائی حکومت بنائے رکھی۔ ساکسچیوان اور البرٹا میں شمال مغربی ریاست سے علیحدگی کا عمل بہت سست رہا۔ یہ 1905 میں الگ ہوئیں۔

1870 میں مینی ٹوبا کو خود مختار صوبہ بنانے کی تجویز کے پیچھے یہ تین عوامل کار فرما تھے:
• کینیڈا کے حکام کی غلط فہمیاں
• مقامی باشندوں اور لوئیس ریل کی طرف سے قائم کی جانے والی صوبائی حکومت
• امریکہ میں موجود وہ تحریک جس کے تحت امریکی لوگ اپنی سرحدیں بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل تک پھیلانا اپنا حق سمجھتے تھے، اگرچہ امریکیوں نے اس کی تردید کی

صوبائی درجہ والی بات کینیڈا، برطانیہ اور ہڈسن بے کمپنی سے ہونے والی گفت و شنید میں ابتداء میں سامنے نہیں آیا۔ اس وقت یہ سننے میں آیا تھا کہ 1869 میں رپرٹس لینڈ کی عارضی حکومت میں اسے ریاستی درجہ دے دیا جائے گا۔

لوئیس ریل نے پہلے پہل صوبائی درجے کی بات دریائے سرخ کے رہائشی کمیٹی آف فارٹی کے سامنے 1870 میں پیش کی۔ ریل کی تجویز ڈونلڈ سمتھ تک پہنچائی گئی جو کینیڈا کی حکومت کی طرف سے مقرر تھے۔ اسے جان اے میکڈونلڈ کی حکومت نے مسترد کر دیا۔

ریل کے مطالبات نے کینیڈا کی حکومت کے لئے تازیانے کا کام کیا جس پر انہوں نے دریائے سرخ کے لئے اپنی ایک تجویز پر عمل کیا۔ جان اے میکڈونلڈ نے کینیڈین ہاؤس آف کامنز میں مینی ٹوبا ایکٹ متعارف کرایا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ صوبے یا ریاست کا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس بل کو منظور کر دیا گیا اور اس طرح مینی ٹوبا کینیڈا میں بطور ایک صوبے کے شامل ہو گیا۔

1870 میں مینی ٹوبا میں اپنی مرضی کی حکومت ٹھونس دینا عقلمندی نہ ہوتا۔ تاہم پارلیمانی حکومت اور صوبے نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا۔
ونی پگ دارلخلافہ بنا اور کینیڈا کا ایک بڑا شہر بن گیا۔ مینی ٹوبا کی موجودہ مقننہ کی عمارت نئے انداز سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا مقصد ونی پگ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو جگہ دینا تھا۔ اس کی تعمیر کا مقصد تیس لاکھ شہریوں کو نمائندگی دینا تھا۔

مینی ٹوبا کے موجودہ پریمئر گرے ڈوئر ہیں۔ ان کا تعلق نیو ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے۔ یہ اپنی تیسری مدت پوری کر رہے ہیں اور ان کی حکومت کے پاس 36 نشستیں ہیں۔ پروگریسو کنزرویٹو کے پاس 19، لبرل (جسے سرکاری طور پر سیاسی جماعت کا رتبہ حاصل نہیں) کے پاس 2 نشستیں ہیں۔ آخری بار انتخابات 22 مئی 2007 میں منعقد ہوئے تھے۔

سرکاری زبانیں

انگریزی اور فرانسیسی کو صوبے میں مقننہ اور عدلیہ کے لئے سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔

تاہم 1890 سے اب تک صرف انگریزی کی بڑھتی ہوئی تحاریک کے نتیجے میں عملی طور پر دو زبانیں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اپریل 1890 میں ہونے والے فیصلے کے تحت فرانسیسی کو ترک کر دیا گیا تھا۔ دیگر امور کے علاوہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ قوانین کو فرانسیسی چھوڑ کر صرف انگریزی میں چھاپا جاتا تھا۔ تاہم 1985 میں کینیڈا کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ انگریزی زبان میں چھپا ہوا قانون غیر آئینی ہے (تاہم مینی ٹوبا کی حکومت کو وقت دیا گیا تاکہ وہ قوانین کا ترجمہ مہیا کر سکے۔ اس دوران اس قانون کو عارضی طور پر چلنے کی اجازت دی گئی تاکہ صوبے میں غیر قانونیت نہ پیدا ہو جائے)۔

اگرچہ فرانسیسی مقننہ، قانون سازی اور عدالتوں میں ایک سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے، مینی ٹوبا ایکٹ کے تحت حکومت کی ایگزیکٹو برانچ کے مقاصد کے لئے یہ لازم نہیں۔ اس طرح مینی ٹوبا کی حکومت پوری طرح دو لسانی نہیں۔ مکمل طور پر دو لسانی واحد صوبہ نیو برنزوک ہے۔

مینی ٹوبا کی 1999 کی فرانسیسی زبان کی سروس پالیسی کے تحت صوبے کی سرکاری خدمات کو دو لسانی بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان میں عوامی سہولیات اور صحت کی خدمات، سرکاری کاغذات جیسا کہ پارکنگ کی ٹکٹ اور عدالتی سمن، عدالت اور کمیشن کی سماعت اور حکومتی ویب سائٹس کو دونوں زبانوں میں مہیا کرنا ہے۔

آبادی

2001 میں ہونے والی کینیڈا کی مردم شماری کے مطابق مینی ٹوبا میں سب سے بڑا لسانی گروہ انگریز ہیں جو کہ 22٫1 فیصد ہیں۔ ان کے بعد جرمنوں کی تعداد 18٫2 فیصد ہے۔ سکاٹش 17٫7 فیصد ہیں۔ یوکرائنی 14٫3 فیصد، آئرش 13 فیصد، فرانسیسی 12٫6 فیصد، یورپی 9٫9 فیصد، پولش 6٫7 فیصد، مقامی 5٫2 فیصد، ڈچ 4٫7 فیصد اور آئس لینڈک 2 فیصد ہیں۔ تقریباً ایک چوتھائی نے خود کو کینیڈین بھی کہا ہے۔

معیشت

الحاق سے قبل


مینی ٹوبا کی ابتدائی معیشت حرکت اور زمین سے دور رہنے پر منحصر تھی۔ کئی قدیم نسلوں نے جنگلی بھینسوں کا پیچھا جاری رکھا اور تجارت کی نیت سے اکٹھے ہوئے۔
ابتدائی کھال کے تاجر سترہویں صدی میں صوبے میں داخل ہوئے اور انہوں نے مینی ٹوبا کی معیشت کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔ پہلی بار یہاں مستقل بنیادوں پر قلعے تمعیر ہوئے اور مختلف آبادیاں وقت کے ساتھ ساتھ جنم لیتی گئیں۔ زیادہ تر معاشی مراکز بی ور اور دیگر جانوروں کی کھالوں سے متعلق تھے۔ مقامی لوگوں کو بطور رہنما اور ان کے نقشوں کو استعمال کر کے تاجروں نے اس علاقے میں اپنا راستہ بنایا۔ اس دور کے بہترین نقشے مقامی لوگوں کی مدد سے تیار کئے گئے جو دریا کے پیچ و خم کو اپنی سرحدوں کے درمیان خوب پہچانتے تھے۔ قدرتی دریا، کھائیاں اور جھیلیں سفر اور تجارت کے اہم راستے تھے۔

معیشت میں پہلی اہم تبدیلی تب آئی جب لارڈ سیلکرک نے کھیتی باڑی کرنے والے افراد کو یہاں ونی پگ کے کے ساتھ شمال کی طرف 1811 میں لا بسایا۔ قابل اعتبار مواصلات اور مقامیوں اور فرانسیسیوں سے ہونے والے جھگڑوں کے باعث اس کی توسیع رکتی رہی۔

آخر کار فتح ہڈسن بے کمپنی کی ہوئی اور اس نے اس سارے علاقے پر اپنا کاروبار پھیلا دیا۔ اس کمپنی کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں کسی بھی قسم کی تجارت کا وجود ناممکن تھا۔

ہڈسن بے کمپنی کے ماتحت دریائے سرخ کی کالونی کو ترقی پانے میں کئی سال لگے۔ کمپنی نے اس علاقے میں بنیادی ڈھانچے پر کم ہی رقم خرچ کی۔ یہ مدد بھی تب مہیا کی گئی جب کمپنی کا مقابلہ کرنے کے لئے جیمز سنکلئر اور اینڈریو میکڈرمٹ نے اپنی ذاتی تجارت شروع کر دی۔

1849 میں کمپنی کو اس کی کاروباری اجارہ داری کے لئے سخت خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپنی کو کھالیں مہیا کرنے والے ایک مقامی تاجر بنام گویلاوم سئیر پر الزام لگایا گیا کہ وہ کمپنی کی طرف سے دوسروں کو غیر قانونی طور پر کھالیں مہیا کرتا ہے۔ اس کی تجارت کمپنی کی حدود سے ذرا باہر نارمن کٹسن کے ساتھ تھی۔ اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے قصور وار قرار دیا گیا لیکن اسے جرمانہ یا قید نہیں سنائی گئی۔

1853 میں پورٹیج لا پریری نام سے دوسری زرعی کمیونٹی بنائی گئی۔

اب عدالتوں کو کمپنی کی اجارہ داری کے لئے استعمال کرنا ممکن نہ رہا۔ اس کے نتیجے میں کمپنی کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی اور اس سے مینی ٹوبا کے صوبے داغ بیل پڑی۔

مواصلات

مواصلات اور گودام مینی ٹوبا کی معیشت میں 2٫2 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس صنعت میں کل ملازمین کی تعداد 34٫500 ہے۔

مینی ٹوبا میں ٹرین، فضاء، زمینی اور بحری راستے مواصلات کا حصہ ہیں۔

ٹرانس کینیڈا ہائی وے 1950 تا 1971 تک تعمیر ہوئی۔ یہ صوبے کو شرقاً غرباً عبور کرتی ہے۔ مینی ٹوبا کی کل زمینی بار برداری کا 95 فیصد حصہ ٹرکوں سے ہوتا ہے اور کینیڈا سے امریکہ سامان کی منتقلی میں ٹرکوں کا حصہ 80 فیصد ہے۔ کینیڈا کی 25 بڑی ٹرکوں کو کرائے پر لینے والی کمپینیوں میں سے 5 مینی ٹوبا میں صدر دفتر رکھتی ہیں اور کینیڈا کی دس بڑی ٹرکوں کی مالک کمپنیوں میں سے تین کے صدر دفاتر ونی پگ میں موجود ہیں۔ مینی ٹوبا کی کل آمدنی میں سے 1٫18 ارب ڈالر کا حصہ ٹرکوں سے آتا ہے۔ کل ملازمین کا 5 فیصد حصہ یعنی 33000 افراد ٹرکوں کی صنعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

مینی ٹوبا میں دو اول درجے کی ریلوے ہیں۔ ان کے نام Cn یعنی سی این اور کینیڈین پیسیفک ریلوے ہیں۔ ونی پگ دونوں ریلوے کے نیٹ ورک کے مرکز میں واقع ہے اور دونوں کمپنیوں نے یہاں بڑے ٹرمینل کھولے ہوئے ہیں۔ سی این اور سی پی کے ٹریک کا 2439 کلومیٹر کا حصہ مینی ٹوبا میں سے ہو کر گذرتا ہے۔ مینی ٹوبا سے گذرنے والی پہلی ریلوے سی پی تھی اور پٹری کو موڑ کر ونی پگ تک لایا گیا تاکہ اسے صدر مقام بنایا جا سکے۔

صوبے میں بہت ساری مختصر فاصلے کی پٹڑیاں بھی موجود ہیں۔ ان میں ہڈسن بے ریلوے، دی ساودرن مینی ٹوبا ریلوے، برلنگٹن ناردرن سانٹا فی مینی ٹوبا، گریٹر ونی پگ واٹر ڈسٹرکٹ ریلوے اور سینٹرل مینی ٹوبا ریلوے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ صوبے میں 1775 کلومیٹر کا راستہ بناتے ہیں۔

ونی پگ جیمز آرمسٹرانگ رچرڈسن انٹرنیشنل ائیر پورٹ کینیڈا کے معدودے چند ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے جو چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ نیشنل ائیرپورٹ سسٹم سے منسلک ہے۔ یہاں مسافروں اور سامان کے حوالے سے بہت ساری سہولیات موجود ہیں۔ 2007 میں یہاں کل 35 لاکھ مسافر گذرے جبکہ ہوائی اڈے کی اپنی قوت برداشت صرف 6 لاکھ مسافروں کی تھی۔ اس کے علاوہ یہاں کل 140000 ٹن سامان بھی ہینڈل کیا گیا۔ ایک نیا ٹرمینل یہاں ابھی بن رہا ہے اور 2009 تک مکمل ہو جائے گا۔

گیارہ علاقائی مسافر بردار اور نو چھوٹی/ چارٹرڈ مسافر بردار کمپنیاں یہاں کام کرتی ہیں اور گیارہ کارگو اور سات سامان کو آگے بھیجنے والی کمپنیاں بھی یہاں کام کرتی ہیں۔ ونی پگ فیڈ ایکس اور پرولیٹر کا اہم مرکز ہے جہاں ڈاک کو چھانٹا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ روزانہ یو پی ایس کی طرف سے بھی ڈاک وصول کرتا ہے۔ ائیر کینیڈا کارگو اور کارگو جیٹ ائیروئیز اس ہوائی اڈے کو ملکی ٹریفک کے لئے اپنے مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

چرچل کی بندرگاہ، جس کی ملکیت اومنی ٹریکس کے پاس ہے، کینیڈا کی آرکٹک سمندر ، روس اور چین کی طرف جانے والی اہم ترین گذرگاہ ہے۔ چرچل کی بندرگاہ بحری طور پر شمالی یورپ اور روس سے کینیڈا کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ قریب ہے۔ یہ بندرگاہ واحد آرکٹک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے اور شمالی امریکہ اور ایشیاء کے درمیان مختصر ترین بحری راستہ بھی۔ یہاں چار گہرے سمندر کی برتھیں ہیں جہاں غلہ، عام سامان اور ٹینکر کو لادا اور خالی کیا جا سکتا ہے۔ اس بندرگاہ کو ہڈسن بے ریلوے سے ملایا ہوا ہے (یہ بھی اومنی ٹریکس کی ملکیت ہےّ)۔ 2004 میں غلہ اس بندرگاہ کی کل ٹریفک کا 90 فیصد تھا۔اس سال 600000 ٹن زرعی اجناس کوبندرگاہ کی مدد سے بھیجا یا وصول کیا گیا۔ بندرگاہ اور ریلوے کو جلد ہی ترقی دی جا رہی ہے کیونکہ اس مد میں انہیں وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں سے کروڑوں ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔

فوج

کینیڈین فورسز بیس ونی پگ کینیڈا کی افواج کا اڈہ ہے جو ونی پگ، مینی ٹوبا میں واقع ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری

نارتھ ویسٹ ریاست


نارتھ ویسٹ ریاست کینیڈا کی ایک ریاست ہے۔

یہ ریاست شمالی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں کینیڈا کی دیگر دو ریاستوں یوکون سے مغرب، نُنا وت سے مشرق میں، جبکہ تین دیگر صوبوں برٹش کولمبیا سے جنوب مغرب میں، البرٹا اور ساسکچیوان سے جنوب میں ملتی ہیں۔ اس کا کل رقبہ 1,140,835 مربع کلومیٹر ہے. اس کی کل آبادی اکتالیس ہزار چار سو چونسٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا دارلخلافہ ییلو نائف ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے یہاں گریٹ بئیر اور گریٹ سلیو جھیلیں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ میکنزی دریا اور ناہانی نیشنل پارک کی کھائیاں بھی اہم ہیں۔ کینیڈین آرکٹک سمندر کے اندر موجود جزائر اور وکٹوریا جزیرہ کے حصے بشمول بینک آئی لینڈ، بورڈن آئی لینڈ، پرنس پیٹرک آئی لینڈ اور وکٹوریا آئی لینڈ کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ ملولی آئی لینڈ بھی یہاں ہیں۔ نارتھ ویسٹ ریاست کا سب سے بلند مقام ماؤنٹ نروانا ہے جو یوکون کی سرحد کے ساتھ موجود ہے۔ اس کی بلندی 2773 میٹر یعنی 9098 فٹ ہے۔

تاریخ

موجودہ دور کی یہ ریاست جون 1870 میں اس وقت قائم ہوئی جب ہڈسن بے کمپنی نے رپرٹ لینڈ اور نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کو حکومت کینیڈا کے حوالے کیا۔ یہ بے حد وسیع علاقہ برٹش کولمبیا، عظیم جھیلوں کے ساحلوں، سینٹ لارنس دریا کی وادی اور کیوبیک کے جنوبی تہائی، میری ٹائم، نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے ساحل کے سوا سارا کا سارا غیر الحاق شدہ تھا۔ اس میں آرکٹک آئی لینڈکا شمالی نصف حصہ شامل نہیں تھا۔ تاہم بینف آئی لینڈ کا جنوبی نصف حصہ اس میں شامل تھا۔یہ علاقے 1880 تک براہ راست برطانیہ کے ماتحت تھے۔

تاہم اس منتقلی کے بعد ریاستیں اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے لگیں۔ مینی ٹوبہ کا صوبہ 15 جولائی 1870 میں بنا اور ونی پگ کے ارد گرد ایک چھوٹا سا مربع شکل کا صوبہ تھا۔ 1881 میں اسے مستطیل شکل میں بڑھایا گیاجو صوبے کے موجودہ دور کے جنوب پر مشتمل ہے۔ جب برٹش کولمبیا نے 20 جولائی 1871 کو الحاق میں شمولیت کی تو اسے 1866 میں ہی شمال مغربی ریاست کا کچھ حصہ دے دیا گیا تھا۔ یہ عالقہ زیادہ تر سٹیکنے ریاست پر محیط تھا۔ 1882 میں ریگینا اس ریاست کا صدر مقام بنا، اس کے بعد البرٹا اور ساسکچیوان 1905 میں صوبے بنے اور ریگینا ساسکچیوان کا صدر مقام بن گیا۔

1876 میں کیواتن کا ضلع جو ریاست کے وسط میں تھا، اس سے الگ ہو گیا۔ 1882 میں اور پھر 1896 میں ریاست کے دیگر حصے بھی مختلف ضلعوں میں بانٹ دیئے گئے جو کہ درج ذیل ہیں:

البرٹا (جنوبی البرٹا)
اسی نی بویا (جنوبی ساسکچیوان)
اتھابسکا (شمالی البرٹا اور ساسکیچوان)
فرینکلن (آرکٹک آئی لینڈ اور بوتھیا اور میل ولے جزیرہ نما)
میکنزی (نارتھ ویسٹ ریاست کا اصل رقبہ اور مغربی ننا وت)
ساسکچیوان (وسطی ساسکچیوان)
یوکون (آج کے دور کی یوکون ریاست)

کیواتین کو 1905 میں شمال مغربی ریاست کو واپس کر دیا گیا۔

اس دوران 1882 میں اونٹاریو کو شمال مغرب کی جانب بڑھایا گیا۔ کیوبیک کو بھی 1898 میں بڑھایا گیا اور یوکون کو الگ سے ریاست کا درجہ دیا گیا تاکہ کلونڈیک میں ہونے والی سونے کی تلاش کو کنٹرول کیا جا سکے تاکہ نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کی مقامی حکومت اچانک تیزی سے بڑھنے والی آبادی، معاشی سرگرمیوں اور غیر کینیڈائی باشندوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری سے بری ہو جائے۔

البرٹا اور ساسکچیوان کے صوبے 1905 میں قائم ہوئے اور مینی ٹوبہ، اونٹاریو اور کیوبیک کو 1912 میں نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری سے اپنے موجودہ رقبے مل گئے۔ اب یہاں میکنزی، فرینکلن اور کیواتین کے ضلعے باقی بچ گئے۔ 1925 میں نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کی حدوں کو قطب شمالی تک بڑھا دیا گیا جس کی وجہ سے اس کا رقبہ شمالی برفانی علاقے تک پھیل گیا۔ اس تقطیع شدہ نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے لئے کینیڈیائی پارلیمان میں کوئی 1907 سے لے کر 1947 تک کوئی جگہ نہیں تھی۔ 1947 میں یوکون-میکنزی دریا کا ضلع بنایا گیا۔ اس میں صرف میکنزی کا ضلع موجود تھا۔ 1962 تک بقیہ ریاست کی پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہ تھی۔ تاہم 1962 میں نارتھ ویسٹ ٹیریٹوریز کا انتخابی ضلع بنایا گیا کیونکہ 1953 میں انوئت لوگوں کو حق رائے دہی مل چکا تھا۔

1912 میں کینیڈا کی حکومت نے ریاست کے نام میں معمولی سے تبدیلی کی اور اس میں سے نارتھ اور ویسٹ کے درمیان موجود لکیر ہٹا دی۔ 1925 سے 1999 تک ریاست کا رقبہ 3439296 مربع کلومیٹر رہا جو انڈیا سے زیادہ ہے۔

آخرکار یکم اپریل 1999 کو نارتھ ویسٹ ریاست کی مشرقی تین بٹا پانچ حصے کو ایک الگ ریاست یعنی نُناوت کا نام دے دیا گیا۔ کیواتین کا پورا ضلع اور میکنزی اور فرینکلن کے بڑے حصے بھی اس میں شامل تھے۔

نُناوت کی علیحدگی کے بعد نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کا نام بدلنے کے بارے کافی مباحثہ رہا۔ امکانات تھے کہ کسی مقامی زبان کے لفظ کو ریاست کے نام کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ تاہم رائے دہی کے بعد نام کو ویسے ہی رہنے دیا۔

انکتی تُت زبان میں ریاست کے نام کا مطلب خوبصورت زمین ہے۔

آبادی

کینیڈا کی 2001 کی مردم شماری کے تحت یہاں کے دس بڑے لسانی گروہ یہ ہیں:

قدیم قبائل – چھتیس فیصد
کینیڈین – انیس اعشاریہ چھ فیصد
انگریز – سولہ اعشاریہ چھ فیصد
سکاٹش – چودہ فیصد
آئرش – بارہ فیصد
انوئت – گیارہ اعشاریہ دو فیصد
فرانسیسی – دس اعشاریہ چار فیصد
جرمن – آٹھ اعشاریہ ایک فیصد
میٹس – آٹھ فیصد
یوکرائینی – تین اعشاریہ چار فیصد

مذاہب

2001 کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ رومن کیتھولک چرچ کے پیروکاروں کی تعداد 16940 تھی جو کل آبادی کا 46 فیصد ہے۔ انگلیکن چرچ آف کینیڈا کے پیروکار 5510 یعنی کل آبادی کا پندرہ فیصد تھے۔ یونائیٹڈ چرچ آف کینیڈا سے وابستہ افراد کی تعداد 2230 یعنی کل آبادی کا چھ فیصد تھی۔

زبان

لیفٹینٹ گورنر جوزف رائل نے تاج کی طرف سے دیئے جانے والے بیان کے بعد لمبی اور تلخ بحث کے بعد فرانسیسی زبان کو 1877 میں اس وقت کی منتخب حکومت نے سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ اس دوران اراکین نے ایک سے زیادہ مواقع پر ووٹ ڈالے تاکہ انگریزی کو ہی واحد سرکاری زبان رہنے دیا جائے۔ اوٹاوا سے ہونے والے مسائل کے بعد 19 جنوری 1892 کو اسمبلی کے اراکین نے ریاست میں صرف انگریزی زبان کو سرکاری درجہ دے دیا۔

1980 کے اوائل میں وفاقی حکومت نے نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کی حکومت پر زور دیاکہ فرانسیسی کو دوبارہ سے سرکاری درجہ دیا جائے۔ چند مقامی اراکین اسمبلی سے احتجاجاً اٹھ کر باہر چلے گئے کہ انہیں ان کی اپنی زبان بولنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ایگزیکٹو کونسل نے اس معاملے پر ایک خصوصی کمیٹی بنائی تاکہ معاملے کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگر فرانسیسی کو سرکاری زبان کا درجہ ملتا ہے تو دیگر مقامی زبانوں کو بھی لازمی اجازت ملنی چاہیئے۔

نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کی سرکاری زبانوں کے ایکٹ کے مطابق کل گیارہ سرکاری زبانیں ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی ایک امریکی ریاست یا انتظامی حصے سے کہیں زیادہ ہے۔

• Chipewyan
• Cree
• English
• French
• Gwich’in
• Inuinnaqtun
• Inuktitut
• Inuvialuktun
• North Slavey
• South Slavey
• Tłįchǫ

نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے باشندوں کو درج بالا زبانوں میں سے کسی بھی زبان کو مقامی عدالتوں اور مقننہ میں ہونے والے مباحثوں میں استعمال کرنے کا حق ہے۔ تاہم قوانین اور سرکاری دستاویزات کو انگریزی اور فرانسیسی ہی میں تیار کیا جاتا ہے۔ ان کی مقامی زبانوں میں نقول صرف اس وقت تیار کی جاتی ہے جب مقننہ کی طرف سے انہیں کہا جائے۔ اس کے علاوہ مقامی زبان میں خدمات کا حصول صرف اداروں اور حالات کے ماتحت ہے۔ یعنی جہاں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد معقول ہو یا جہاں یہ اندازہ لگایا جائے کہ یہاں مقامی زبان کو مہیا کرنا سود مند ہوگا، وہیں اس زبان کو مہیا کیا جاتا ہے۔ عملی طور پر انگریزی زبان میں خدمات ہر جگہ موجود ہیں اور کسی بھی دوسری زبان بشمول فرانسیسی، کو کسی بھی سرکاری خدمات ماسوائے عدالتوں کے، استعمال کی گارنٹی نہیں۔

مادری زبان

2006 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کل آبادی 41464 افراد تھی۔

اس کے علاوہ 320 افراد نے انگریزی اور ایک غیر سرکاری زبان کو مادری قرار دیا۔ 15 نے فرانسیسی اور غیر سرکاری زبان کو جبکہ 45 نے انگریزی اور فرانسیسی کو چنا۔ تقریباً 400 افراد نے اس سوال کا جواب دینا پسند نہیں کیا یا انہوں نے ایک سے زیادہ غیر سرکاری زبانوں کو چنا یا متعلقہ زبانوں کی فہرست سے ہٹ کر کسی زبان کو چنا۔

معیشت

ریاست میں معدنی ذرائع جیسا کہ ہیرے، سونا اور قدرتی گیس کی بے انتہا دولت موجود ہے۔ نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے ہیروں کو خونی ہیروں یعنی ایسے ہیرے جو کسی ایسے ملک سے نکالے جائیں جو جنگ کا شکار ہو، پر ترجیح دی جاتی ہے۔

بے انتہا معدنی وسائل اور بے حد مختصر آبادی کی وجہ سے نارتھ ویسٹ ٹیریٹؤری کی فی کس آمدنی تمام صوبوں اور ریاستوں سے زیادہ ہے۔ اس کی فی کس آمدنی 97923 ڈالر ہے۔ اگر یہ ریاست آزاد ملک ہوتا تو اس کی فی کس آمدنی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوتی۔

اہم علاقائی کانیں

ایلڈوراڈو سے معدنیات کے اخراج کے ادوار 1933 سے 1940، 1942 سے 1960 اور 1976 سے 1982 تک رہے اور اس دوران ریڈیم، یورینیم، چاندی اور تانبہ نکالا گیا
کون سے 1938 سے 2003 تک سونا نکالا گیا
نیگس سے 1939 سے 1952 تک سونا نکالا جاتا رہا
ٹارمیگن اینڈ ٹام سے 1941 سے 1942، 1986 سے 1997 تک سونا نکالا جاتا رہا
تھامپسن لنڈمارک سے 1941 سے 1943، 1947 سے 1949 تک سونا نکلتا رہا
جائنٹ سے 1948 سے 2004 تک سونا نکلتا رہا
ڈسکوری سے 1950 سے 1969 تک سونا نکلتا رہا
رےراک سے 1957 سے 1959 تک یورنیم نکلتی رہی
کیملارن سے 1962 سے 1963 اور 1980 سے 1981 تک سونا نکلتا رہا
کانٹنگ سے 1962 سے 1986، 2002 سے 2003 اور 2005 سے ان تک ٹنگسٹن نکل رہی ہے
ایکو بے مائنز لمیٹڈ سے 1946 سے 1975 تک چاندی اور تانبہ نکلتا رہا
پائن پوائنٹ سے 1964 سے 1968 تک سیسہ اور جست نکلتی رہی
ٹنڈرا سے 1983 سے 1987 تک سونا نکلتا رہا
ٹیرا سے 1969 سے 1985 تک چاندی اور تانبہ نکلتے رہے
سالمیٹا سے 1983 سے 1987 تک سونا نکلتا رہا
کولومیک سے 1990 سے 1992 اور پھر 1994 سے 1997 تک سونا نکلتا رہا
اکاٹی کی ہیرے کے کان سے 1998 سے اب تک ہیرے نکل رہے ہیں
ڈیاوک کی ہیرے کی کان سے 2003 سے اب تک ہیرے نکل رہے ہیں
ڈی بئیرز سنیپ لیک کی ہیرےکی کان سے 2007 سے اب تک ہیرے نکل رہے ہیں

حکومت

بطور ریاست نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے پاس صوبوں کی نسبت کم حقوق حاصل ہیں۔ پریمئر ککفوئی نے اپنے دور اقتدار کے دوران وفاقی حکومت پر زور دیئے رکھا کہ ریاست کو زیادہ حقوق دیئے جائیں۔ ان میں یہ بھی شامل تھا کہ ریاست کے قدرتی وسائل میں سے ریاست کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ بیسویں عام انتخابات کا مرکزی نقطہ ہی اختیارات کا حصول تھا اور یہ 1881 سے ہی چلا آ رہا ہے۔

نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کا کمشنر اس کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور اس کو گورنر ان کونسل آف کینیڈا تعینات کرتا ہے۔ تاہم اس کے لئے انڈین افئیرز اور ناردرن ڈیولپمنٹ کے وزیر سے منظوری لینا ہوتی ہے۔کبھی یہ عہدہ بہت زیادہ انتظامی اور حکومتی اختیارات رکھتا تھا تاہم اختیارات کی منتقلی سے 1967 سے زیادہ تر اختیارات اسمبلی کو منتقل ہو گئے ہیں۔ اب یہ عہدہ محض نمائشی ہے۔ 1985 سے کمشنر کو ایگزیکٹو کونسل کی صدارت کرنے سے روک دیا گیا ہے اور وفاقی حکومت نے کمشنر کو صوبائی لیفٹینٹ گورنر کی طرح کام کرنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ دیگر لیفٹینٹ گورنروں کے برعکس نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کا کمشنر کینیڈا کی ملکہ کی رسمی نمائندگی نہیں کرتا۔

صوبائی اور یوکون کی حکومتوں کے برعکس نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری میں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ تاہم 1898 اور 1905 کے دوران یہاں سیاسی جماعتیں تھیں۔ مقننہ درحقیقت براہ راست رائے دہی سے بنتی ہے۔ اس میں انیس اراکین ہوتے ہیں جو انیس انتخابی حلقوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ ہر عام انتخابات کے بعد نئی پارلیمان ایک پریمئر کو چنتی ہے اور ایک سپیکر کو بھی۔ یہ انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہوتا ہے۔ سات مزید اراکین کو کابنیہ کا رکن بنایا جاتا ہے۔ بقیہ افراد حزب اختلاف بن جاتے ہیں۔ ریاست کے حالیہ انتخابات یکم اکتوبر 2007 کو ہوئے ہیں۔ ریاست کا سربراہ وفاقی حکومت کا متعین کردہ کمشنر ہوتا ہے۔ 1980 تک کمشنر کے پاس پورے انتظامی اختیارات ہوتے تھے تاہم اس کے بعد ریاست کو زیادہ اختیارات دے دیئے گئے۔ اس کے بعد مققنہ کابینہ اور حکومت کے سربراہ یعنی پریمئر کو چنتی ہے۔

نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے پریمئر فلوئڈ رولینڈ ہیں۔ ویسٹرن آرکٹک کی پارلیمان کے ممبر دینس بیونگٹن ہیں۔ ریاست کے کمشنر ٹونی وائٹ فورڈ ہیں۔

ثقافت

مقامی مسائل میں سے ڈینی کا مستقبل بھی شامل ہے۔ یہ لوگ 1940 کی دہائی میں کانوں سے تابکار مادہ گریٹ بئیر لیک تک لے جانے کے لئے بھرتی کئے گئے تھے۔ ان لوگوں میں کینسر کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے کیونکہ انہیں سفید فام افراد کے برعکس کوئی حفاظتی اشیاٗ نہیں دی گئی تھیں۔

ریاست میں تاریخی اعتبار سے ڈینی اور انوئت لوگوں میں خونی لڑائیاں ہوتی رہی ہیں تاہم اب یہ لوگ صلح صفائی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری میں لینڈ کلیمز کا اختتام تب ہو گیا تھا جب انہوں نے نُناوت لینڈ کلیمز ایگریمنٹ بنایا تھا۔ کینیڈا کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا لینڈ کلیم تھا۔

ڈوگرب قوم کے ساتھ ہونے والا ایک اور لینڈ کلیم معاہدہ تلی چو کہلاتا ہے جو گریٹ بئیر اور گریٹ سلیو جھیلوں کے درمیان علاقے سے متعلق تھا۔ اس سے ڈوگرب لوگوں کو اپنی مقننہ، ٹیکس، وسائل کا معاوضہ اور دیگر معاملات پر اختیار حاصل ہو جائے گا۔ تاہم نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری ابھی تک صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر قابو رکھے ہوئے ہے۔ اس علاقے میں کینیڈا کی تین میں سے دو ہیرے کی کانیں موجود ہیں۔ ان کے نام اکاٹی اور ڈیاوک ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نیو برنزوک

نیو برنزوک

نیو برنزوک کینیڈا کے تین میری ٹائم صوبوں میں سے ایک ہے اور آئینی اعتبار سے واحد صوبہ ہے جہاں سرکاری طور پر فرانسیسی اور انگریزی نافذ العمل زبانیں ہیں۔ صوبے کا دارلخلافہ فریڈیکٹن ہے۔ اعداد و شمار کے ادارے کے مطابق صوبے کی کل آبادی 751527 نفوس ہے۔ ان کی اکثریت انگریزی بولتی ہے اور یہاں فرانسیسی بولنے والے افراد بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔ فرانسیسی بولنے والے افراد کی بھاری اکثریت اکاڈیان قوم سے ہے۔

صوبے کا نام جنوبی جرمنی میں واقع شہر برانڈچوگ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ یہ شہر برطانیہ کے ہانو ویران بادشاہ جارج سوئم کے آباؤ اجداد کا شہر تھا۔

جغرافیہ

نیو برنزوک کے شمال مٰں کیوبیک کا گیپ جزیرہ نما اور چالیور کی خلیج ہے۔ مشرقی ساحل پر سینٹ لارنس کی خلیج اور نارتھمبر لینڈ کی سٹریٹ اس کی سرحد کا کام دیتی ہیں۔ جنوب مشرقی کونے پر تنگ سی پٹی کی مدد سے نیو برنزوک نووا سکوشیا کے جزیرہ نما سے جڑا ہوا ہےصوبے کے جنوب میں خلیج فنڈی موجود ہے جہاں دنیا کی سب سے اونچی موجیں ہوتی ہیں۔ ان کی اونچائی سولہ میٹر تک ہوتی ہے۔ مغرب میں امریکہ ریاست میئن موجود ہے۔

نیو برنزوک دیگر میری ٹائم یعنی سمندری صوبوں سے طبعی اور جغرافیائی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے مختلف ہے۔ نووا سکوشیا اور پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ مکمل طور پر یا تقریباً تمام اطراف سے سمندر سے گھرے ہیں۔ اس لئے سمندری اثرات ان کی آب و ہوا، معیشت اور ثقافت پر پوری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری طرف نیو برنزوک کے پاس اگرچہ لمبا ساحل موجود ہے تاہم یہ براہ راست بحر اوقیانوس کے اثرات سے بچا ہوا ہے اور اس کی گہرائی سمندری اثرات کو پوری طرح روک لیتی ہے۔نتیجتاً صوبے کا موسم معتدل ہونے کی بجائے نسبتاً سخت ہوتا ہے۔ انسانی آبادی اور نیو برنزوک کی معیشت بھی دیگر سمندری ہسمائیوں سے مختلف ہیں۔ اس کا زیادہ تر انحصار سمندر کی بجائے صوبے کے دریائی نظام پر ہے۔

صوبے کے دریائی نظام میں سینٹ کروئکس، سینٹ جان، کینی بیکاسس، پیٹیٹ کوڈیاک، میرامچی، نپیسی گوئٹ اور ریسٹیگوچی دریا شامل ہیں۔ شمالی برنزوک اونچے پہاڑی سلسلے کے درمیان موجود ہے اور نشیبی علاقے مشرق اور وسط میں موجود ہیں۔ کلیڈونیا کی سطح مرتفع اور سینٹ کروئکس کی سطح مرتفع خلیج فنڈی تک پھیلی ہوئی ہے یہاں تین سو میٹر بلند سطح ہے۔ صوبے کا شمال مغربی حصہ زیادہ کٹی پھٹی زمین سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ ماؤنٹ کارلیٹن کی بلندی 820 میٹر ہے۔ صوبے کا کل زمینی اور آبی رقبہ 72908 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا اسی فیصد سے زیادہ رقبہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ بالائی سینٹ جان کی دریائی وادی میں زرعی زمینیں بھی موجود ہیں۔ جنوب مشرق میں بھی کچھ فارم موجود ہیں۔ ان کی اکثریت کینیبی کاسس اور پیٹیٹ کوڈیاک دریا کی وادیوں میں ہے۔ صوبے کے تین اہم شہری علاقے صوبے کی جنوبی تہائی میں موجود ہیں۔


تاریخ

4000 قبل مسیح میں یہاں کے قدیم باشندے ادھر آ کر آباد ہوئے۔ ان میں سے ساک ویایک لوگ نیو برنزوک کے آس پاس آ کر آباد ہوئے۔ یہ لوگ خود کو میک ماک کہتے تھے جو اپنی روحانی اور اجتماعی یکجہتی پر یقین رکھتے تھے۔ آگسٹن ماؤنڈ 2500 ق م میں یہاں بنایا گیا۔


فرانسیسی نو آبادیاتی دور

نیو برنزوک میں پہلی مہم فرانسیسی مہم جو جیکوئس کارٹر نے 1534 میں سر کی۔ دوسری فرانسیسی مہم 1604 میں آئی جب پیئر ڈوگوا اور سیموئل ڈی چیمپلین نے سینٹ کروئکس آئی لینڈ پر اپنا سرمائی کیمپ لگایا۔ یہ کیمپ نیو برنزوک اور مین کے درمیان لگایا گیا تھا۔ اگلے سال یہ آبادی خلیج فنڈی کو عبور کر کے پورٹ رائل چلی گئی جو نووا سکوشیا کا حصہ ہے۔ اگلے ڈیڑھ سو سال تک فرانسیسی آبادیاں اور جزوی نواب یہاں آ کر بستے رہے۔ یہ سب سینٹ جان دریا کے کنارے خلیج فنڈی کے اوپری سرے پر آباد ہوئے پھر ٹنٹرامر کی دلدل اور پھر آخر کار سینٹ پیئر پر آ کر رک گئے۔ یہ پورا میری ٹائم اور مین کے کچھ حصے اس وقت فرانسیسی نو آبادی اکاڈیا کہلاتا تھا۔

1713 کے اٹرچٹ کے معاہدے کی ایک شق کے تحت نووا سکوشیا کا جزیرہ نما برطانیہ کو دے دیا گیا۔ اکاڈیان آبادی اب برطانوی عملداری میں چلی گئی۔ بقیہ حصہ زیادہ تر غیر آباد اور غیر محفوظ تھا۔ 1750 میں بچی کھچی سرزمین کا تحفظ کرنے کے لئے فرانس نے دو قلعے بنائے جو نووا سکوشیا میں تھے۔ ایک اور فرانسیسی چوکی الی روائل میں بنائی گئی تاہم اس قلعے یا چوکی کا بنیادی مقصد تحفظ کینیڈا کی نو آبادی تک محفوظ راستہ مہیا کرنا تھا نہ کہ اکاڈیا کا تحفظ۔

1756 سے 1763 تک جاری رہنے والی سات سالہ جنگ کے دوران برطانویوں نے تمام تر نیو برنزوک کا قبضہ سنبھال لیا۔ 1755 میں ایک قلعے پر لیفنٹنٹ کرنل رابرٹ مونکٹن کی سربراہی میں قبضہ ہو گیا۔ آس پاس کے علاقوں میں موجود اکاڈین لوگوں کا جبری انخلاٗ ہوا۔ کچھ اکاڈین بچ گئے اور جوزف بروسارڈ کی سربراہی میں انہوں نے برطانوی افواج کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی جو دو سال جاری رہی۔ آخرکار یہ سارا کا سارا نیو برنزوک برطانوی قبضہ میں چلا گیا۔


برطانوی نو آبادیاتی دور

سات سالہ جنگ کے بعد نیو برنزوک کا بڑا حصہ نووا سکوشیا کا حصہ بن گیا اور اسے سن بری کاؤنٹی کا نام دیا گیا۔ نیو برنزوک کا موجودہ مقام بحر اوقیانوس کے ساحل سے دور تھا جس کی وجہ سے جنگ کے بعد یہاں کم لوگوں نے ہی آنا پسند کیا۔

امریکی انقلابی جنگ کا نیو برنزوک پر کم ہی اثر ہوا۔ فورٹ کمبر لینڈ پر باغیوں کے حامیوں نے جوناتھن ایڈی کی زیر قیادت حملہ کیا۔ اس علاقے میں آبادی کم ہی رہی حتیٰ کہ برطانیہ نے امریکہ میں اپنے وفاداروں کو ادھر آ کر آباد ہونے پر قائل کیا۔ ان مہاجرین کی پار ٹاؤن آمد کے بعد ضرورت محسوس ہوئی کہ صوبے کو سیاسی طور پر منظم کیا جائے۔ برطانوی نو آبادی کے منتظمین ہیلی فیکس میں تھے اور انہوں نے محسوس کیا کہ کچھ علاقے بہت دور ہیں اور ان کو سنبھالنا آسان نہیں۔ اس لئے سر تھامس کارلٹن نے 16 اگست 1784 کو نیو برنزوک کی نو آبادی تشکیل دی۔

اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں نووا سکوشیا سے نکالے گئے کئی اکاڈین نے دوبارہ اکاڈی میں آباد ہونا شروع کر دیا۔ یہاں وہ لوگ زیادہ تر شمالی اور مشرقی ساحلوں پر نیو برنزوک کی نئی کالونی میں آباد ہوئے۔ یہاں وہ نسبتاً الگ تھلگ ہو کر رہے۔

نیو برنزوک میں دوسری ہجرت انیسویں صدی کے اوائل میں سکاٹ لینڈ، مغربی انگلینڈ اور واٹر فورڈ، آئرلینڈ سے ہوئی۔ اکثر یہ لوگ پہلے نیو فاؤنڈ لینڈ اور پھر ادھر آئے۔ 1845 کے بعد آئر لینڈ میں آلو کے قحط کے بعد سے اچانک یہاں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی۔ ان میں سے اکثرافراد چیتھم یا سینٹ جون میں بس گئے۔

مین اور نیو برنزوک کے درمیان شمال مغربی سرحد پیرس کے معاہدے کے تحت 1783 میں واضح نہیں کی گئی تھی۔ تاہم یہ معاہدہ انقلابی جنگ کے بعد ختم ہو گی اتھا۔ 1830 کی دہائی کے اواخر میں آبادی میں اضافہ بڑھا اور لکڑی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے مطالبوں کی وجہ سے اس علاقے میں باقاعدہ سرحد کی ضرورت محسوس کی گئی۔ مین اور نیو برنزوک کے درمیان ہیجان پیدا ہوا اور دونوں نے اپنی اپنی افواج کو بلوا لیا۔ اروسٹوک کی جنگ میں خون نہیں بہا اور ویبسٹر ایش برٹن کے معاہدے کے تحت 1842 میں سرحدوں کا تعین بخوبی سر انجام پا گیا۔

19ویں صدی کے دوران جہاز سازی کی صنعت نیو برنزوک میں میرامچی دریا اور خلیج فنڈی میں عروج پر رہی۔ مارکو پولو جو اپنے دور کا تیز ترین بحری جہاز تھا، بنایا گیا اور اسے سینٹ جان سے 1851 میں سمندر میں اتارا گیا۔ ایسی صنعتیں جن کے لئے خام مال موجود تھا، نیو برنزوک کی معیشت کا اہم حصہ بن گئیں۔ ان میں لکڑی اور فارمنگ کی صنعتیں شامل ہیں۔


بطور کینیڈین صوبہ

نیو برنزوک ان چار اولین صوبوں میں سے ایک ہے جس نے یکم جولائی 1867 کو کنفیڈریشن میں شمولیت اختیار کی۔ چارلوٹی ٹاؤن کانفرنس جو کہ 1864 میں منعقد ہوئی، کے نتیجے میں کنفیڈریشن کی راہ ہموار ہوئی۔ اگرچہ اس کانفرنس کا مقصد میری ٹائم یونین پر بحث کرنی تھی۔ تاہم امریکی خانہ جنگی اور سرحد کے آس پاس آئرلینڈ کے علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں کنفیڈریشن کی سوجھی۔ سب سے پہلے کینیڈا کے صوبے نے دلچسپی لی۔ اس وقت کینیڈا کا صوبہ بالائی اور زیریں کینیڈا پر مشتمل تھا۔ زیریں کینیڈا بعد میں اونٹاریو اور کیوبیک بنے۔ اس نے میری ٹائم صوبوں سے درخواست کی کہ میٹنگ کے ایجنڈے پر نظر ثانی کی جائے۔ میری ٹائم کے بہت سارے باشندوں کو کنفیڈریشن سے کوئی دلچسپی نہیں کہ انہیں ڈر تھا کہ بڑے قومی اتحاد میں انہیں اپنے مفادات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ بہت سارے سیاستدان جنہوں نے الحاق کی حمایت کی تھی، اگلے انتخابات میں اپنی نشستیں ہار گئے۔ تاہم آہستہ آہستہ کنفیڈریشن کی حمایت بڑھتی گئی۔

کنفیڈریشن کے بعد کنفیڈریشن کے مخالفین کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ نئی قومی پالیسیاں اور تجارتی رکاوٹیں اختیار کی گئیں۔ اس طرح میری ٹائم صوبوں اور نیو انگلینڈ کے درمیان تاریخی تجارتی تعلقات معطل ہو گئے۔ نیو برنزوک میں یہ صورتحال بدتر ہوگئی جب 1877 میں سینٹ جان میں عظیم آتشزدگی ہوئی اور پھر لکڑی والی جہاز رانی کی صنعت خسارے کا شکار ہونے لگی۔ ہنرمندوں کو کینیڈا کے دیگر علاقوں امریکہ میں روزگار کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ترقی ہوئی اور بہت سارے ٹیکسٹائل ملیں بنیں اور جنگلات سے متعلقہ آرے کی ملیں بند ہوگئیں اور ان کی جگہ درختوں کے گودے یعنی پلپ اور کاغذ کی فیکٹریوں نے لے لی۔ مونکٹن علاقے میں ریلوے کی وجہ سے معیشت میں بہتری آئی۔ تاہم صوبے بھر میں بے روزگاری اپنے عروج پر رہی۔ عظیم مندی سے ایک اور مصیبت کھڑی ہو گئی۔ دو اہم خاندان یعنی ارونگز اور مکینز اس صورتحال میں ابھرے اور انہوں نے ترقی پسندی اختیار کی۔ انہوں نے صوبے کی معیشت کو سنبھالا خصوصاً جنگلات، فوڈ پروسیسنگ اور توانائی کے شعبوں میں بہت کام کیا۔

اکاڈین لوگ نیو برنزوک کے شمال میں جغرافیائی اور لسانی اعتبار سے تنہا رہ گئے تھے۔ حکومتی خدمات زیادہ ر فرانسیسی کی بجائے انگریزی میں تھیں۔ بنیادی ڈھانچہ انگریزی بولنے والے علاقوں کی نسبت پسماندہ تھا۔ تاہم 1960 میں لوئس روبی چاڈ کے پریمئر بننے کے بعد کافی فرق پڑا جنہوں نے سب کے لئے یکساں مواقع فراہم کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس میں تعلیم، دور دراز سڑکوں کی مرمت اور دیکھ بھال اور صحت کے شعبوں کو صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنا دیا۔ انہوں نے یہ بھی یقینی بنایا کہ صوبے کے تمام حصے ان شعبوں سے یکساں طور پر مستفید ہوں۔ کاؤنٹی کونسلوں کو ختم کر دیا گیا اور دیہاتی علاقے براہ راست صوبائی انتظام میں آ گئے۔ 1969 کے سرکاری زبانوں کے ایکٹ کے تحت فرانسیسی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ آبادی


نسلیں

نیو برنزوک کی قدیم نسلوں میں میکماک اور وولاستوکیاک شامل ہیں۔ اولین یورپین آباد کار جو کہ اکاڈین تھے آج عظیم انخلا کی نشانی ہیں۔ اس عظیم انخلا کے دوران کئی ہزار فرانسیسی باشندوں کو شمالی امریکہ، برطانیہ اور فرانس دھکیل دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے فرانسیسی اور انڈین جنگ کے دوران کنگ جارج سوئم کی حمایت کا حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ امریکی اکاڈین جو لوئیزیانا بھیجے گئے تھے، کاجون کہلاتے ہیں۔

انگریز کینیڈین آبادی کی اکثریت جو نیو برنزوک میں آباد ہیں، امریکی انقلاب کے دوران ادھر منتقل ہونے والے وفاداروں کی اولاد ہیں۔ اس بات کو صوبے کے موٹو میں ایسے بتایا گیا ہے Spem reduxit یعنی امید بحال ہو گئی۔ یہاں آئرش نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد بھی موجود ہے جو سینٹ جان اور میرامچی وادی میں رہتے ہیں۔ سکاٹش النسل لوگ صوبے بھر میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد میرامچی اور کیمپ بلٹن میں رہتی ہے۔

2001 کی مردم شماری میں ظاہر ہونے والی اہم قومیں یہ ہیں: فرانسیسی 193470، انگریز 165235، آئرش 135835، سکاٹش 127635، جرمن 27490، اکاڈین 26220، نارتھ امریکن انڈین 23815، ولندیزی 13355 اور ویلش افراد 7620۔ تاہم 242220 افراد نے خود کو محض کینیڈین ظاہر کیا جبکہ 173585 افراد نے خود کو درجہ بالا کے علاوہ کسی اور قوم سے ظاہر کیا۔ کل 415810 افراد نے خود کو کینیڈین ظاہر کیا۔ یاد رہے کہ ہر فرد کو اجازت تھی کہ وہ خود ایک یا ایک سے زیادہ قومیت سے ظاہر کرے۔


زبانیں

2006 کی مردم شماری میں کل آبادی 729997 افراد تھی۔ ان میں سے 714490 نے خود کو یک لسانی ظاہر کیا۔ اس کے مطابق انگریزی بولنے والے افراد کی تعداد 463190، فرانسیسی 232975، میکماک 2515، چینی 2160، جرمن 1935، ولندیزی 1290، ہسپانوی 1040، عربی 970، کورین 630، اطالوی 590، مالیسٹی 490 اور فارسی بولنے والے 460 افراد تھے۔ اس کے علاوہ 560 افراد نے انگریزی اور ایک غیر سرکاری زبان کو مادری قرار دیا۔ 120 نے فرانسیسی اور ایک غیر سرکاری زبان کو چنا۔ 4450 نے انگریزی اور فرانسیسی کو چنا جبکہ 30 نے انگریزی، فرانسیسی اور ایک غیر سرکاری زبان چنی۔ 10300 افراد نے یا تو سوال کا جواب نہیں دیا یا پھر کسی دوسری زبان کو چنا جو سوالنامے میں شامل نہیں تھی۔


مذہب

2001 کے سروے کے مطابق رومن کیتھولک افراد کی تعداد 385985 تھی۔ بیپٹسٹ افراد کی تعداد 80490 تھی اور یونائیٹڈ چرچ آف کینیڈا کے پیروکار 69235 تھے۔


معیشت

نیو برنزوک کے شہری علاقے جدید طرز کے ہیں۔ اس کی معیشت میں خدمات کا شعبہ اہم ہے۔ یہاں صحت، تعلیم، کاروبار، سرمایہ کاری اور انشورنس کےشعبے اہم ہیں۔ یہ تمام شعبے تینوں حصوں میں یکساں طور پر منقسم ہیں۔ مزید براں بھاری صنعتیں اور بندرگاہ کی سہولیات سینٹ جان میں موجود ہیں۔ فریڈریکٹن پر حکومتی خدمات، یونیورسٹیوں اور فوجی خدمات کا غلبہ ہے۔ مونکٹن کو بطور تجارتی، کاروباری، ذرائع نقل و حمل اور تقسیم کاری کے مرکز کے طور پر ترقی دی گئی ہے۔ ریل اور ہوائی سفر کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ دیہاتی معشیت میں جنگلات، کان کنی اور فارمنگ اور ماہی گیری شامل ہیں۔

جنگلات کا شعبہ صوبے بھر میں عموماً اور گنجان جنگلات والے علاقوں میں بالخصوص سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ چھوٹے قصبوں میں آرے ملیں موجود ہیں اور بڑی پلپ اور کاغذ کی ملیں بھی موجود ہیں جو سینٹ جان، میرامچی، نکاویک اور ایڈمنڈسٹن میں ہیں۔

بھاری دھاتیں مثلاً سیسہ اور جست شمال میں باتھرسٹ سے نکلتی ہیں۔ دنیا بھر میں پوٹاش کی بڑی کانوں میں سے ایک سسکس میں ہے۔ پوٹاش کی دوسری کان جو ارب ڈالر سے زیادہ لاگت رکھتی ہے، سسکس کے علاقے میں تیار ہو رہی ہے۔ اسی علاقے میں قدرتی گیس بھی موجود ہے۔

سینٹ جان دریا کی بالائی وادی میں فارمنگ بکثرت ہوتی ہے جہاں آلو کی بیش قیمت فصل تیار ہوتی ہے۔ متفرق اور ڈیری فارم بھی ہر جگہ موجود ہیں لیکن جنوب مشرق میں کیبیکاسس اور پیٹیٹ کوڈیاک دریائی وادی میں ان کی کثرت ہے۔

بیش قیمت ماہی گیری میں لابسٹر، سیپ اور کنگ کیکڑا شامل ہیں۔ اٹلانٹک سالمن کو پاسامکوڈی کی خلیج کے علاقے میں پالا جاتا ہے جو اہم مقامی صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ صوبے میں روزگار فراہم کرنے والے بڑے اداروں میں ارونگ گروپ آف کمپنیز، کئی بین الاقوامی کمپنیاں، نیو برنزوک کی حکومت اور میکین گروپ آف کمپنیز شامل ہیں۔


سیاحت

صوبے میں سیاحوں کی دلچسپی کی حامل جگہوں میں نیو برنزوک کا عجائب گھر، کوچی بوگواک نیشنل پارک، ماکٹاک صوبائی پارک، بیور بروک آرٹ گیلری، کنگز لینڈنگ ہسٹاریکل سیٹلمنٹ، ولیج ہسٹاریق اکاڈین، لیس جارڈن ڈی لا رپبلک، پارلی بیچ، ہوپ ول راکس، لا ڈون ڈی بوکٹوچی، سینٹ جان ریورسنگ فالز، میگنیٹک ہل زو، کرسٹل پلیس، میجک ماؤنٹین واٹر پارک، کیپ جوریمائین نیشنل وائلڈ لائف پریزرو، شوگر لوف صوبائی پارک، سیکولی واٹر فاؤل پارک، فنڈی نیشنل پارک اور 41 کلومیٹر پر محیط فنڈی ہائیکنگ ٹریل اہم ہیں۔ سینٹ اینڈریوز میں وہیل کو دیکھنا، 40 کی دہائی کی بنی ہوئی کیبن کروزر سے بھی سیاح بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔


حکومت اور پالیسیاں

نیو برنزوک یک ایوانی مقننہ رکھتی ہے جس کے 55 اراکین ہوتے ہیں۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں تاہم لیفٹیننٹ گورنر کسی بھی وقت انتخابات کو منعقد کرا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لئے اسے پریمئر سے مشورہ کرنا ہوتا ہے۔ پریمئر ایوان میں اکثریتی پارٹی کا رہنما ہوتا ہے۔

نیو برنزوک میں دو اہم سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کے نام لبرل پارٹی اور پروگریسیو کنزرویٹیو پارٹی ہیں۔ 1980 کے اوائل سے 10 فیصد ووٹ لینے والی نیو ڈیمو کریٹک پارٹی کے اس وقت چند ممبران پارلیمان میں موجود ہیں۔ وقتاً فوقتاً کئی جماعتوں کے اراکین منتخب ہوتے ہیں تاہم ان کی موجودگی کی وجہ عوام کی دیگر پارٹیوں سے ناراضگی ہوتی ہے۔

دیگر صوبوں کے برعکس نیو برنزوک کی سیاست کا اپنا ہی مزاج ہے۔ بڑے شہری علاقوں کی غیر موجودگی سے مراد یہ ہے کہ حکومت کو پورے صوبے کے تمام مسائل پر یکساں توجہ دینی ہوتی ہے۔ مزید براں فرانسیسی بولنے والے افراد کی بڑی تعداد کی وجہ سے رائے شماری اہم درجہ رکھتی ہے چاہے حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت کیوں نہ ہو۔ اس لئے نیو برنزوک کی سیاست کے خد و خال وفاقی سطح سے ملتے جلتے ہیں۔

1960 سے لے کر اب تک صوبے میں کئی بار ایسے نوجوان لیڈر چنے گئے ہیں جو دو زبانیں بول سکتے تھے۔ اس وجہ سے صوبے کے پریمئر وفاقی سطح پر زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ سابقہ پریمئر برنارڈ لارڈ کو کنزرویٹو پارٹی آف کینیڈا کا ممکنہ رہنما مانا جا رہا ہے۔ فرینک میک کنا کو وزیر اعظم پال مارٹن کا جانشین سمجھا جا رہا ہے۔ رچرڈ ہاٹ فیلڈ نے کینیڈا کے آئین میں برطانیہ سے مکمل آزادی کی ترمیم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لوئیس روبی چاڈ وسیع پیمانے پر ہونے والی سماجی اصلاحات کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔

18 ستمبر 2006 کو لبرل پارٹی نے 55 میں سے 29 سیٹیں جیتیں اور 38 سالہ شان گراہم کو نیو برنزوک کا نیا پریمئر چن لیا۔


میونسپلٹیز

صوبے کا سب سے بڑا شہری مرکز میٹرو پولیٹن مونکٹن ہے جس کی کل آبادی 126424 افراد ہے۔ سینٹ جان سب سے بڑا شہر ہے اور اس کو میٹرو پولیٹن کا درجہ ملا ہوا ہے۔ اس کی آبادی 122389 ہے۔ عظیم تر فریڈریکٹن کی مخلوط آبادی کی تعداد 85000 ہے۔

مونکٹن صوبے کا سب سے زیادہ تیز رفتار ترقی کرنے والا میٹرو پولیٹن ہے اور کینیڈا کے دس تیز ترین ترقی کرنے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی معیشت کا بڑا حصہ ذرائع نقل و حمل، تقسیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تجارتی اور کاروباری شعبوں پر مشتمل ہے۔ مونکٹن میں فرانسیسی النسل اکاڈین لوگوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے جو کل آبادی کا 35 فیصد ہیں۔ اسے 2002 میں ملک کا پہلا بائی لنگوئل شہر قرار دیا گیا۔

سینٹ جان کینیڈا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ سینٹ جان شمالی ساحل پر توانائی کا بھی مرکز ہے۔ یہاں کینیڈا کی سب سے بڑی ریفائنری موجود ہے۔ ایک ایل پی جی ٹرمینل بھی شہر میں بنا رہے ہیں اور یہاں تیل اور ایٹمی توانائی کے بجلی گھر بھی شہر کے اندر یا آس پاس موجود ہیں۔ کاروباری، تجارتی اور رہائشی مراکز کی تعمیر نو ہو رہی ہے۔ فریڈریکٹن جو کہ صوبے کا دارلخلافہ ہے، بی ور بروک آرٹ گیلری، یونیورسٹی آف نیو برنزوک اور سینٹ تھامس یونیورسٹی رکھتا ہے۔ کینیڈا کا سب سے بڑا فوجی مرکز اورموکٹو میں ہے جو فریڈریکٹن کا حصہ ہے۔ فریڈریکٹن کی معیشت حکومتی، فوجی اور یونیورسٹیوں کے شعبوں سے وابستہ ہے۔


تعلیم

نیو برنزوک کا انگریزی اور فرانسیسی عوامی سکولوں کا مضبوط نظام ہے جو کنڈرگارٹن سے لے کر بارہویں جماعت تک تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے مذہبی اور غیر مذہبی سکول پرائیوٹ سکول بھی صوبے میں موجود ہیں۔

دی نیو برنزوک کمیونٹی کالج سسٹم پورے صوبے میں کیمپس کھولے ہوئے ہے۔ یہ سکول دونوں زبانوں میں الگ الگ کیمپس مہیا کرتا ہے۔ تاہم دونوں زبانوں میں الگ الگ تخصیص کے لئے مضامین مہیا ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں بے شمار پرائیوٹ کالج بھی موجود ہیں جو مخصوص مضامین میں تربیت مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً مونکٹن فلائٹ کالج جو کینیڈا کی بہترین پائلٹ ٹریننگ اکیڈمیوں میں سے ایک ہے۔

یہاں عوامی رقوم سے چلنے والی چار غیر مذہبی یونیورسٹیاں اور ڈگری دینے والے چار پرائیوٹ مذہبی ادارے بھی کام کرتے ہیں۔ صوبے کی دو جامع یونیورسٹیاں یونیورسٹی آف نیو برنزوک اور یونیورسٹی ڈی مونکٹن ہیں۔ ماؤنٹ الیسن یونیورسٹی کو کینیڈا کی بہترین لبرل آرٹ یورنیورسٹیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی سے اب تک 47 رہوڈ سکالر مکمل ہو چکے ہیں جو برطانوی دولت مشترکہ کا ایک ریکارڈ ہے۔

عوامی رقوم سے چلنے والی یونیورسٹیاں یونیورسٹی آف نیو برنزوک۔ انگریزی اور یونیورسٹی ڈی مونکٹن، فرانسیسی زبان میں تعلیم دیتی ہیں

عوامی رقوم سے چلنے والی عام یونیورسٹیاں سینٹ تھامس یونیورسٹی، انگریزی اور ماؤنٹ ایلیسن یونیورسٹی، فرانسیسی زبان میں تعلیم دیتی ہیں

پرائیوٹ ڈگری دینے والے مذہبی ادارے سینٹ سٹیفنز یونیورسٹی، انگریزی، بیتھنی بائبل کالج، انگریزی اور نیو برنزوک بائبل انسٹی ٹیوٹ، انگریزی میں تعلیم دیتا ہے۔


ثقافت

نیو برنزوک کی ابتدائی ثقافت پر مقامی رنگ غالب تھا جو کہ یہاں پہلے سے موجود اقوام نے اپنائی ہوئی تھی۔ یہ لوگ دریاؤں کے کناروں اور سمندر کے ساحل پر آباد تھے۔ 17ویں صدی میں فرانسیسی اور 18ویں صدی میں انگریز آئے۔

جیسا کہ آرتھر ڈائل نے 1976 میں اپنے پیپر میں لکھا، یورپ سے آنے والی دونوں اقوام کی ثقافت میں ایک باریک سا خط حد فاصل کا کام دیتا ہے جو مونکٹن کی مشرقی سرحد سے شروع ہو کر سیدھا صوبے کے شمال مغرب تک چلا جاتا ہے۔ فرانسیسی نیو برنزوک یعنی اکاڈیا شمال مغرب میں آباد ہے۔ انگریز نیو برنزوک جنوب مشرق میں موجود ہے۔ ڈائل نے یہ بیان جناب لوئیس جے روبی چاڈ کی اصلاحات کے فوراً بعد دیا تھا۔

انیسویں صدی میں نیو برنزوک پر فرانس، انگلستان، سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ سے رشتوں کی بناٗ پر اثر پڑا۔ اسی طرح نیو انگلینڈ سے قرب اور پھر بعد ازاں چالیس ہزار وفاداروں کی آمد سے بھی بہت فرق پڑا۔

مقامی طور پر جنگلات اور سمندر سے متعلقہ معاشرے جنم لینے لگے۔ لمبر کیمپ اور سمندر کے حوالے سے شاعری ہوئی۔ اکاڈین اور آئرش النسل لوگ ناچ کے مقابلے کرنے لگے۔ قدیم باشندوں کی کہانی سنانے کی روایت بھی ان میں جڑ پکڑ گئی۔ اسی طرح خوشی کا ہر موقع شاعری سے سجنے لگا چاہے شاعری کے ساتھ موسیقی ہو یا نہیں۔ اسی طرح موسیقی یا اچھے شاعر کا کلام زبانوں کے فرق سے بالاتر ہو کر صوبے میں اپنی جگہ بنا لیتا۔

دوسری ثقافتی اظہار میں خاندانی اجتماع اور چرچ کی ملاقاتیں شامل تھیں۔ فرانسیسی اور انگریز ثقافتوں نے بہت سارے اثرات قبول کئے جن میں یورپی اور امریکی اثرات غالب تھے۔ شاعروں نے صوبے کے فنون لطیفہ میں اپنا حصہ ڈالا۔ کزن بلس کارمین اور سر چارلس جی ڈی رابرٹس نے اور پھر بعد ازاں صوبے کے دیگر لکھاریوں نے بھی یہاں کی سرزمین کو سراہا۔


میڈیا

نیو برنزوک میں چار روزنامے ہیں جن میں سے تین انگریزی کے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی تعداد میں ٹائمز اینڈ ٹرانسکرپٹ 40000 روزانہ کی تعداد میں چھپتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ہفتہ وار اور ماہوار رسالے اور اخبارات چھپتے ہیں جو مقامی سطح پر مقبول ہوتے ہیں۔

تینوں انگریزی روزنامے اور ہفتہ واروں کی اکثریت برنزوک نیوز پر بھروسہ کرتی ہے جو ایک پرائیوٹ شخص جے کے ارونگ کی ملکیت ہے۔

کینیڈا کے نشریاتی ادارے کے یہاں کئی دفاتر ہیں جوتاہم اہم انگریزی ٹی وی اور ریڈیو کے سٹیشن فریڈریکٹن میں ہی ہیں۔ سی بی سی کی فرانسیسی سروس مونکٹن سے نشر ہوتی ہے۔

نیو برنزوک کے تینوں بڑے شہروں میں بہت سارے نجی ریڈیو سٹیشن کام کرتے ہیں۔ ہر شہر میں درجن بھر یا اس سے بھی زیادہ سٹیشن چلتے ہیں۔ اکثر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی ایک یا دو سٹیشن ہوتے ہیں۔

اصل مضمون انگریزی کے وکی پیڈیا سے لیا گیا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
برٹش کولمبیا

برٹش کولمبیا یا مختصراً بی سی، کینیڈا کا مغربی صوبہ ہے اور اس کی وجہ شہرت اس کی قدرتی خوبصورتی ہے۔

کینیڈا کی کنفیڈریشن سے الحاق کرنے والا یہ کینیڈا کا چھٹا صوبہ تھا۔

اس کے باشندے برٹش کولمبین کہلاتے ہیں۔

اس کا صدر مقام وکٹوریا ہے جو کینیڈا کا پندرہواں بڑا شہر ہے۔ وینکوور اس کا سب سے بڑا شہر ہے اور کینیڈا کا تیسرا بڑا شہر۔


جغرافیہ

برٹش کولمبیا مغربی طرف سے بحیرہ اوقیانوس اور امریکی ریاست الاسکا سے ملا ہوا ہے اور شمال میں یوکون اور شمال مغربی سرحدی علاقے موجود ہیں۔مشرق میں البرٹا کا صوبہ موجود ہے اور شمال میں امریکی ریاستیں واشنگٹن،ا یڈاہو اور مونٹانا واقع ہیں۔ اس کی جنوبی سرحد کا تعین 1846 میں اوریگان معاہدے کے تحت کیا گیا تھا۔ برٹش کولمبیا کا زمینی علاقہ نو لاکھ چوالیس ہزار سات سو پینتیس مربع کلومیٹر یا تین لاکھ چونسٹھ ہزار سات سو چونسٹھ مربع میل ہے۔ یہ رقبہ فرانس، جرمنی اور ہالینڈ کے مجموعی رقبے کے برابر ہے۔ یہ واشنگٹن، اوریگان اور کیلیفورنیا کے مجموعی رقبے سے زیادہ ہے۔ برٹش کولمبیا کا ساحل ستائیس ہزار مربع کلومیٹر یعنی سولہ ہزار سات سو اسی مربع میل کے برابر ہے۔ اس میں گہری پہاڑی فیورڈ موجود ہیں اور کوئی چھ ہزار جزائر بھی جن میں سے اکثر غیر آباد ہیں۔

برٹش کولمبیا کا دارلخلافہ وکٹوریا ہے جو وینکور جزیرے کے جنوب مشرقی سرے پر واقع ہے۔ برٹش کولمبیا کا سب سے بڑا شہر وینکوور ہے جو جنوب مغربی کنارے پر واقع ہے جسے لوئر مین لینڈ بھی کہتے ہیں۔ دوسرے بڑے شہروں میں سرے، برن بے، کوکیوٹلام، رچمونڈ، ڈیلٹا اور نیو ویسٹ منسٹر لوئر مین لینڈ میں ہیں۔ ایبٹس فورڈ اور لانگلے وادئ فریزر میں ہیں۔ نانیامو وینکوور جزیرے پر ہے۔ کالیوا اور کام لوپس اندر کی طرف ہیں۔ پرنس جارج نامی شہر صوبے کے شمالی حصے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس سے مزید شمال مغرب میں وانڈرہوف نامی شہر جغرافیائی اعتبار سے صوبے کے تقریباً وسط میں ہے۔

ساحلی پہاڑ، کینیڈا کی راکیز اور اندرونی گذرگاہیں برٹش کولمبیا کی مشہور زمانہ خوبصورت اور قدرتی مناظر سے مالامال ہیں۔ صوبے کا پچہتر فیصد حصہ پہاڑی ہے اور ایک ہزار میٹر یعنی تین ہزار دو سو اسی فٹ سطح سمندر سے بلند۔ ساٹھ فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے اور پانچ فیصد قابل کاشت۔ اوکاناگان کا علاقہ کینیڈا کے ان تین اہم علاقوں میں سے ہے جہاں انگوروں کی کاشت ہوتی ہے اور یہ بہترین قسم کی سائیڈر بھی پیدا کرتا ہے لیکن اس کی کم ہی مقدار برآمد ہوتی ہے۔

وینکوور جزیرے کا زیادہ تر مغربی حصہ اور بقیہ ساحل جو کہ الاسکا تک پھیلا ہوا ہے اور اولمپک جزیرہ نما کا حصہ، یہ سب کے سب علاقے معتدل برساتی جنگلوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ساحل سے دور علاقے زیادہ معتدل نہیں ہیں اور صحرا سے لے کر نیم بارانی سطح مرتفع پر مشتمل ہیں اور اندرونی حصے میں گہری کھائیاں بھی موجود ہیں۔ چند جنوبی اندورنی وادیاں برف، سخت سردیوں کا سامنا کرتی ہیں جبکہ کیریبو جو کہ شمالی حصہ ہے، کینیڈا کے سرد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ صوبے کا شمالی دو تہائی حصہ غیر آباد اور غیر ترقی یافتہ ہے۔ یہ سارا حصہ ماسوائے راکیز کے مشرق کے، پہاڑی ہے جہاں دریائے پیس کا ضلع برٹش کولمبیا کے گھاس کے میدان کا حصہ ہے۔

تاریخ


قبل از الحاق

سینٹ جون کے قلعے کے نزدیک بیٹن دریا سے ملنے والے پتھر کے اوزاروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس جگہ انسان کوئی ساڑھے گیارہ ہزار سال قبل سے موجود ہے۔ ابتدائی قوموں میں سے قدیم باشندے زیادہ تر ساحل پر رہتے تھے۔ یہاں ان کی بھاری اکثریت رہتی تھی۔ یورپیوں کی آمد کے وقت مقامی لوگوں کی تعداد کا نصف حصہ صرف برٹش کولمبیا میں رہتا تھا۔ مشہور جہاز راں جیمز کُک کی 1770 میں اور جارج وینکوور کی 1790 مہمات کے بعد اور پھر 1790 میں سپین کی طرف سے تسلیم کئے جانے کے بعد برطانوی قوانین کا انعقاد شمالی ساحلی علاقے پر اور دریائے کولمبیا کے مغرب پر ہوا۔ 1793 میں سر الیگزنڈر میکنزی پہلا یورپی تھا جو بحر اوقیانوس کے راستے شمالی امریکہ پہنچا۔ اس کی اس عظیم کاوش کو ایک پتھر پر کندہ کیا گیا ہے جو بیلا کوُلا کے پاس ساحل پر موجود ہے۔ اس کی مہم تصوراتی طور پر برطانوی راج کو یہاں اندر تک لے آئی اور پھر کھالوں کی کمپنیوں نے کامیابی کے ساتھ دریاؤں کے گنجلک جال کے اور گھاس کے میدانوں اور بحر اوقیانوس کے درمیان موجود پہاڑوں کے بھی نقشے وغیرہ بنائے۔ میکنزی اور دیگر مہم جوؤں نے جن میں جون فن لے، سیمون فریزر، سیموئل بلیک اور ڈیوڈ تھامپسن کے نام قابل ذکر ہیں، کا بنیادی کام کھالوں کی تجارت کا فروغ تھا نہ کہ سیاسی پیش قدمی۔

نارتھ ویسٹ اور ہڈسن بے کمپنی کی تجارتی تعمیرات نے کامیابی سے برطانوی موجودگی کو اس علاقے میں بنیاد فراہم کر دی۔

ان تجارتی تعمیرات میں سے کچھ تعمیرات بڑھ کر آبادیوں، اور شہروں میں تبدیل ہو گئیں۔ برٹش کولمبیا کی ان جگہوں جو کہ کھالوں کی تجارت سے متعلق تھیں، میں سے چند ایک فورٹ سینٹ جان (1794 میں قائم ہوئی)، ہڈسن ہوپ (1805)، فورٹ نیلسن (1805)، فورٹ سینٹ جیمز (1806)، پرنس جارج (1807)، کام لوپس (1812)، فورٹ لنگلے (1827)، وکٹوریا (1843)، یالے (1848) اور نانائمو (1853) میں تھیں۔ کھالوں کی تجارت کے سلسلے میں قائم ہونے والی وہ عمارات جو بعد ازاں شہر بنیں، ان میں وینکوور، واشنگٹن (فورٹ وینکوور)، جو ہڈسن بے کمپنی کا کولمبیا کے ضلع میں سابقہ صدر دفتر تھا، کول ویلی، واشنگٹن اور والا والا، واشنگٹن ہیں۔

1821 میں دو کھال کی تاجر کمپنیوں کے انضمام کے بعد یہ علاقہ جو برٹش کولمبیا کہلاتا ہے، میں کھالوں کے تین مختلف محکمے بنے۔

1849 تک یہ ضلع برطانوی شمالی امریکہ کا غیر منظم علاقہ تھا۔ یہ علاقہ تاہم کمپنی کے ساتھ معاہدے میں نہ تھا بلکہ اسے مقامی لوگوں سے تجارت کی کھلی اجارہ داری دے دی گئی تھی۔

فریزین کھائیوں میں سونے کی دوڑ 1858 میں شروع ہوئی اور امریکیوں کی بڑی تعداد نے نیو کالیڈونیا کا رخ کیا۔ دوسری دوڑ جو کیریبو کے نام سے مشہور ہے، 1862 میں شروع ہوئی جن سے نوآبادی انتظام کاروں کو بھاری قرضے لینے پڑے تاکہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کر سکیں۔ جزیرہ وینکوور کی نوآبادی پہلے سے ہی قرضے میں تھی اور ان دو دوڑوں نے اس کے نقصان کو بڑھایا تاہم یہ 1866 میں سنبھلنے میں کامیاب ہو گئی۔ ملکہ وکٹوریا نے اس کا نام بدل کر برٹش کولمبیا رکھ دیا۔


تیز رفتار اضافہ اور ترقی

کیفیڈریشن لیگ کی رہنمائی آمر ڈی کاسماس، جان روبسن اور رابرٹ بیون جیسی ہستیاں کر رہی تھیں۔ انہوں نے نو آبادیاتی کی بجائے کینیڈا سے الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ہوا تھا۔ ان دنوں کینیڈا برطانوی شمالی امریکہ کی تین نو آبادیوں سے مل کر بنا تھا۔ اس تحریک کی کئی وجوہات تھیں جن میں امریکہ کی طرف سے قبضہ، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ بڑھتے ہوئے قرضے، حکومت کے ذمے سہولیات کے لئے بڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت سے رقم کی ضرورت اور سونے کی دوڑ کے اختتام پر معاشی بحران شامل ہیں۔ کینیڈا کی حکومت سے کینیڈین پیسیفک ریلوے کو برٹش کولمبیا تک توسیع دینے اور کالونی کے قرضہ جات پر دھیان دینے کے وعدے کے بعد 20 جولائی 1871 میں برٹش کولمبیا نے کینیڈا کے وفاق میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1903 تک اس کی حدود کو مکمل طور پر طے نہ کیا جا سکا تاہم جب الاسکا کے سرحدی تنازعے کے بعد کالونی کا رقبہ کم ہوا تو یہ تنازعہ بھی حل ہو گیا۔

برٹش کولمبیا کی آبادی صوبے کی کان کنی، جنگلات، زراعت اور ماہی گیری میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ کان کنی زیادہ تر سرحدی علاقوں میں تھی۔ کاشتکاروں کو فریزر وادی کی زرخیز زمین نے اپنی طرف کھینچا اور مویشی پالنے والے افراد اور پھل اگانے والے تھامپسن دریا کے علاقے، کیریبو، چیلکوٹن اور اکاناگان کی طرف متوجہ ہوئے۔ جنگلاتی کارکنوں کو ساحل کے ساتھ موجود معتدل برساتی جنگلوں نے اپنی طرف بلایا۔ اس جگہ ماہی گیری بھی عام تھی۔

1885 میں ٹرین کی پٹڑی کے توسیعی منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی صوبے کی معیشت کو عروج حاصل ہوا۔ گرانولے کا شہر اس پٹڑی کا آخری سٹیشن قرار پایا۔ وینکوور کی بندرگاہ کی تکمیل کے بعد تیزی سے ترقی شروع ہوئی اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میں یہ شہر ونی پگ سے آگے نکل کر مغربی کینیڈا کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ شروع کی چند دہائیوں میں زمین کے استعمال سے متعلقہ مسائل جیسا کہ اس کا قبضہ اور اس کی ترقی اپنے عروج پر تھے۔ ان میں مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا، ان کے ذرائع پر قبضہ اور تجارتی ذرائع پر اپنی اجارہ داری بھی کرنا تھی۔ ایسی لیبر فورس بنانا جو صوبے کو ترقی دے سکے، ایک مسئلہ تھا کیونکہ صوبے میں نہ صرف یورپ سے بلکہ چین اور جاپان سے بھی ہجرت بڑے پیمانے پر جاری تھی۔ رنگدار آبادی کے آنے سے مقامی سفید فاموں میں بے چینی پھیل گئی جو اکثریتی گروہ تھے۔ انہوں نے فی بندہ ٹیکس عائد کر دیا جو ہر نئے آنے والے کو دینا پڑتا چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا۔ اس کے علاوہ چینی اور جاپانی تارکین وطن پر وینکوور میں 1887 تا 1907 عام حملے کئے جاتے تھے۔ 1923 تک تمام چینی تارکین وطن ماسوائے تاجر اور سرمایہ کار، روک دیے گئے۔

اس دوران صوبہ ترقی کرتا رہا۔ 1914 تک دوسری ٹرانس کانٹی نینٹل ریلوے لائن یعنی گرانڈ ٹرنک پیسیفک مکمل ہو گئی جو شمالی وسطی برٹش کولمبیا سے ییلو ہیڈ درے کے ذریعے اور پرنس جارج سے ہوتی ہوئی پرنس روپرٹ سے فورٹ فریزر تک جاتی تھی۔ اس سے شمالی ساحل اور اس کے ساتھ کی وادی معاشی سرگرمیوں کے لئے کھل گئی۔ یہ علاقہ جو پہلے محض کھالوں کی تجارت تک محدود تھا، اب جنگلات، فارمنگ اور کان کنی کا گہوارہ بن گیا۔ 1920 تا 1940 کی دہائیاں پہلی جنگ عظیم سے واپسی پر مردوں کو معلوم ہوا کہ صوبے کی خواتین نے معاشرتی مسائل کے خاتمے کے لئے شراب پر پابندی کا قانون منظور کرنے کے لئے ووٹ ڈالا ہے۔ ان دنوں وینکوور اور اس کے ارد گرد کے علاقے شراب نوشی اور دنگے فساد کے لئے مشہور تھے۔ تاہم سابقہ فوجیوں کے دباؤ پر اس پابندی کو فوراً ہی ہٹا دیا گیا تاکہ فوجی اور مزدور شراب پی سکیں۔ تاہم وسیع پیمانے پر پھیلی بے روزگاری کی وجہ سے زیادہ تر نوکریوں پر تارکین وطن قابض ہو چکے تھے۔ فوجیوں نے اپنے لئے الگ الگ تنظمیں بنائیں جن کے نام سولجر فارمر، سولجر لیبر اور فارمر لیبر پارٹیاں وغیرہ تھے۔

ریاست ہائے متحدہ میں پابندی کے بعد سے نئے مواقع پیدا ہوئے اور بہت سے لوگوں نے سرحد پار نوکری یا پھر شراب کی سمگلنگ سے ہی پیسے کمانا شروع کر دیئے۔ وینکوور کی 1920 کی دہائی میں خوشحالی اور دولت مندی کی وجہ غیر قانونی نقول سے بننے والی معیشت تھی اگرچہ جنگلات، ماہی گیری اور کان کنی بھی جاری رہیں۔ امریکہ کی طرف سے پابندی کے خاتمے اور عظیم بحران کے بعد صوبے پر کڑا وقت آیا۔ ملک کے سرد علاقوں سے بے شمار لوگ وینکوور اور اس کے گرد و نواح میں منتقل ہو گئے۔ بڑھتی ہوئی بے چینی سے سیاسی طور پر بہت مشکل دیکھنے میں آئی۔ بڑے ڈاکخانے پر قبضے کو چھڑانے کے لئے پولیس نے بہت تشدد کیا اور تقریباً تین سال تک مارشل لاء جاری رہا۔ وینکوور میں اوٹاوا جانے کے لئے مشتعل لوگوں کے ہجوم نے ایک ٹرین پر قبضہ کر لیا۔ تاہم ان کا سامنا کرنے کے لئے بندوقیں تیار تھیں اور انہیں جبری مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا جہاں وہ اس بحران کے خاتمے تک رہے۔

30 کی دہائی کے اختتام پر کچھ معاشی بہتری کے آثار نمودار ہوئے لیکن یہ جنگ عظیم دوم کی شروعات تھیں جنہوں نے ملکی معیشت کو بحران سے نکال دیا۔ جنگ کی وجہ سے خواتین کو پہلی بار کام کی اجازت دی گئی۔

برٹش کولمبیا اپنے محل وقوع کا فائدہ لیتے ہوئے مشرقی ایشیاء سے تعلقات پہلے ہی استوار کر چکا تھا۔ تاہم اس سے بین الثقافتی مسائل پیدا ہوئے اور ایشیاء سے آنے والے تارکین وطنوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ مشکلات اپنے عروج پر تھیں جب جاپانی نژاد باشندوں کو صوبے کے دور دراز حصوں میں بھیج دیا گیا۔ تاہم بین الثقافتی شادیوں کی شرح بہت بلند تھی اور تعاون اور میل جول کی مثالیں بھی بہت عام تھیں۔


اتحاد اور بعد از جنگ عروج

دوسری جنگ عظیم کے دوران اہم لبرل اور کنزرویٹیو پارٹیوں نے نئے لبرل لیڈر کے تحت مخلوط حکومت بنا لی۔ اس سلسلے میں سابقہ لیڈر ڈف پٹولو کو ہٹا کر جان ہارٹ کو لیڈر بنایا گیا کیونکہ 1941 کے انتخابات میں واضح اکثریت میں ناکامی کے بعد وہ اپنے مخالفین کنزرویٹو سے مل کر حکومت نہیں بنانا چاہ رہے تھے۔ ہارٹ نے 1945 میں دوبارہ ہونے والے انتخابات بھی جیتے اور انہوں نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے بہت سے منصوبے بالخصوص ہائی وے 97 کو مکمل کرایا۔یہ ہائی وے شمالاً جنوباً 2081 کلومیٹر طویل ہے اور اس کا 405 کلومیٹر طویل ایک سیکشن جان ہارٹ ہائی وے کہلاتا ہے۔

1947 میں مخلوط حکومت کی سربراہی بیرن انگیمر جانسن کے پاس آ گئی۔ انہوں نے 1949 کے انتخابات میں 61 فیصد ووٹ حاصل کر کے برٹش کولمبیا کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس جیت کی بڑی وجہ ان کی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے پروگرام تھے۔ ان کے خلاف رشوت ستانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بارے بھی الزامات لگے۔ ان کے دور اقتدار میں بنیادی ڈھانچہ نہ صرف پھیلا بلکہ اس کی ترقی بھی ہوئی۔انہوں نے الکان سے معاہدہ کیا تاکہ کیمانو-کیتیمت ہائیڈور منصوبے اور المونیم کمپلیکس بنائے جا سکیں۔ جانسن کو 1948 میں فریزر وادی میں آنے والے سیلاب کے دوران کئے جانے والے امدادی کاموں نے بھی بہت کامیابی دلوائی۔ یہ سیلاب نہ صرف اس علاقے بلکہ صوبے بھر کی معیشت کے لئے دھکا ثابت ہوئے تھے۔

بڑھتی ہوئی رشوت ستانی کی شکایات کے باعث کنزرویٹو لیڈر رائل میٹ لینڈ نے اپنی پارٹی کو مخلوط حکومت سے نکال لیا جس کی وجہ سے 1951 کے انتخابات ہوئے۔ نئی حکومت بالکل غیر متوقع تھی اور دو ہی سال بعد 1953 میں دوبارہ انتخابات ہوئے جس میں سوشل کریڈٹ پارٹی کو اکثریت ملی۔ معیشت میں حکومت کا بڑھتا ہوا کردار انتخابات میں سوشل کریڈٹ پارٹی کی جیت کے بعد برٹش کولمبیا میں تیزی سے معاشی ترقی ہوئی۔ بینٹ اور ان کی پارٹی نے اگلے بیس سال تک صوبے پر حکمرانی کی۔ اس دوران حکومت نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے پرامید پروگرام شروع کرائے جس کے ساتھ ساتھ جنگلات، کان کنی اور توانائی کے شعبوں میں متوازن معاشی ترقی جاری رہی۔

ان بیس سالوں میں حکومت نے صوبے برٹش کولمبیا الیکٹرک اور برٹش کولمبیا پاور کمپنی اور دیگر چھوٹی الیکٹرک کمپنیوں کو قومیایا اور اسے بی سی ہائیڈرو کا نام دیا۔ 1960 کے اختتام تک بہت سارے بڑے ڈیم یا تو مکمل ہو چکے تھے یا زیر تکمیل تھے۔ اس کے علاوہ بجلی کی منتقلی کے بڑے معاہدے جن میں امریکہ اور کینیڈا کے مابین بجلی کی منتقلی کے معاہدے بھی شامل ہیں، ہوئے۔ صوبے کی معیشت میں شمال مشرق کے جنگلات، تیل اور گیس کے شعبوں میں بے مثال ترقی ہوئی۔

1950 اور 1960 کی دہائیوں میں برٹش کولمبیا میں ذرائع نقل و حمل میں بھی بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ 1960 میں حکومت نے بی سی فیریز کو بطور کراؤن کارپوریشن کے قائم کیا تاکہ صوبائی سڑکوں کے نظام کو بڑھا کر سمندر میں بھی لایا جا سکے۔سڑکوں کے نظام کو نئی ہائی ویز اور پلوں سے اور موجودہ صوبائی سڑکوں اور ہائی ویز کو پختہ کرنا بھی اس عمل کا حصہ تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سالوں میں وینکوور اور وکٹوریہ شاعروں، مصنفین، آرٹسٹوں، موسیقاروں، ڈانسروں، ایکٹروں اور باورچیوں کی بڑے پیمانے پر یہاں منتقلی سے ثقافتی مراکز بن گئے۔ اسی طرح ان شہروں کے اپنے تعلیمی ادارے، تبصرہ نگار اور تخلیقی تھنکر بھی پیدا ہوئے۔ سیاحت بھی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے لگی۔ جاپان اور دیگر پیسیفک معیشتوں کی ترقی سے بھی برٹش کولمبیا کی معیشت کو مزید ترقی ملی۔

سیاسی اور سماجی طور پر 1960 کی دہائی میں قابل ذکر سماجی گڑبڑ شروع ہوئی۔ دائیں اور بائیں بازو کے درمیان حائل نظریاتی خلیج اور زیادہ گہری ہوئی۔ صوبے کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ مزدوروں میں بھی بے چینی بڑھی۔ہپیوں اور وینکوور شہر کے مئیر ٹام کیمپبل کے درمیان ہونے والا تنازعہ بہت بڑھا۔ دہائی کےا ختتام تک معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ سٹیٹس کو کی بے اطمینانی بڑھی۔ بینٹ کی حکومت کے تمام تر اچھے کام ان کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کو کم نہ کر سکے۔


برٹش کولمبیا 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں

27 اگست 1969 کو سوشل کریڈٹ پارٹی نے عام انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ لیکن یہ کامیابی بینٹ کے اقتدار کا آخری دور تھا۔ 1970 کے شروع میں کوئلے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور جنگلات کے شعبے کی وجہ سے معیشت بہت مضبوط تھی لیکن بی سی ہائیڈرو نے اپنا پہلا نقصان ظاہر کیا۔ یہ بینٹ اور سوشل کریڈٹ پارٹی کے زوال کا پہلا زینہ تھا۔

1972 کے انتخابات میں انہیں حکومت سے ہٹا دیا گیا اور ڈیو بیرٹ کے تحت این ڈی پی کی راہ ہموار ہوئی۔ بیرٹ کے تحت صوبائی اضافی رقوم جلد ہی خسارے میں بدل گئیں۔ تاہم اکاؤنٹنگ کے نظام نے یہ ظاہر کیا کہ یہ مسائل پچھلی حکومت کے پیدا کردہ تھے جو اب آ کر ظاہر ہوئے۔ تین مختصر سالوں میں (ہزار دنوں میں) این ڈی پی کی حکومت نے صوبے میں طویل المدتی تبدیلیاں لائیں جن میں ایگریکلچرل لینڈ ریزرو سب سے اہم ہے۔ اس کا مقصد فارم لینڈ کو تعمیر سے بچانا تھا اور انشورنس کارپوریشن آف برٹش کولمبیا ، جو کہ کراؤن کارپوریشن تھی پر ایک سالہ بنیادی آٹو موبائل انشورنس کے سلسلے میں اجارہ داری کا الزام عائد کر دیا گیا ۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ حکومت نے یا تو یہ سب تبدیلیاں بہت تیزی سے پیش کیں یا پھر یہ کہ ان کے اثرات بہت دور رس تھے، نے مزدوروں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کے ساتھ مل کر 1975 کے عام انتخابات میں این ڈی پی کو حکومت سے نکال باہر کیا۔ سوشل کریڈٹ پارٹی، جس کے لیڈر اب بینٹ کے بیٹے بل بینٹ تھے، دوبارہ حکومت میں آئی۔ بینٹ جونیئر کے دور میں بہت سارے منصوبے پورے ہوئے جن میں Coquihalla Highway اور وینکوور میں ایکسپو 86 اہم ہیں۔ Coquihalla Highway پراجیکٹ بعد ازاں ایک سکینڈل کا عنوان بنا کہ پریمئر کے بھائی نے اس منصوبے سے اعلان سے قبل اس سے کافی متعلقہ زمینیں خرید لی تھیں۔ تاہم ان سب باتوں کے باوجود سوشل کریڈٹ پارٹی کو 1979 کے انتخابات میں بینٹ جونیئر کے تحت دوبارہ کامیابی ہوئی۔ بینٹ جونیئر نے 1986 تک پارٹی کی قیادت کی۔

جونہی صوبے کی معیشت مندی کا شکار ہوئی، سوشل کریڈٹ والوں نے ایک نیا پروگرام متعارف کرایا جو معاشی سنبھالا دے سکے۔ نتیجتاً ایک 1983 کا وحدت کا بحران شروع ہوا جس کی وجہ حزب اختلاف کی طرف سے ہوئی اور اس میں مزدور اور کمیونٹی گروپ کے لوگ منظم طور پر شامل تھے۔

ہزاروں افراد نے احتجاجی جلسوں میں شرکت کی اور بہت سوں کو لگا کہ اگر حکومت نے اپنی پالیسیوں کو یکسر تبدیل نہ کیا تو عام ہڑتال اب زیادہ دور نہیں۔لیکن پریمئر بینٹ اور یونین لیڈر کے درمیان ایک مبینہ معاہدے کے بعد یہ تحریک اچانک ختم ہو گئی۔

بل وانڈر زلم 1986 میں سوشل کریڈٹ پارٹی کے نئے سربراہ اور پریمئر بنے اور انہوں نے اسی سال اپنی جماعت کو انتخابات میں کامیابی دلوائی۔ وانڈر زلم پر بعد ازاں کئی مالیاتی سکینڈل بنے اور انہیں پارٹی کی سربراہی چھوڑنی پڑی اور ریٹا جانسٹن صوبے کی نئی پریمئر بنیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
برٹش کولمبیا 1990 سے اب تک

جانسٹن کو 1991 کے عام انتخابات میں شکست ہوئی۔ این ڈی پی نے مائیک ہارکورٹ کی زیر صدارت انتخابات جیتے۔ مائیک وینکوور کے سابقہ مئیر تھے۔ اگرچہ پارک لینڈ اور محفوظ علاقوں کی تعمیر کو لوگوں نے پسند کیا اور اس سے صوبے کی سیاحت کو بہت فروغ ملا تاہم کم ذرائع والی معیشت کے باعث معاشی ترقی مسلسل جدوجہد کا شکار رہی۔ ہارکورٹ بینگو گیٹ کے بعد اگرچہ استعفٰی دے دیا جو برٹش کولمبیا کا ایک اور سیاسی سکینڈل تھا۔ ہارکورٹ کو اس میں براہ راست نامزد نہیں کیا گیا تاہم انہوں نے پھر بھی مستعفٰی ہونے کو ترجیح دی۔ گلین کلارک جو بی سی فیڈریشن آف لیبرکے سابقہ صدر تھے، کو پارٹی کا نیا رہنما چنا گیا۔ 1996 میں انہوں نے دوسری بار عہدہ جیتا تاہم انہیں دوسروں کی نسبت اس بار کم ووٹ ملے۔ کلارک کے عہد میں برٹش کولمبیا میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ بے روزگاری بڑھی اور اہم صنعتوں پر کڑا وقت رہا۔ اس وجہ سے معاشی ترقی سست رہی۔ پارٹی پر مزید سکینڈل آئے جن میں فاسٹ فیری سکینڈل سر فہرست ہے۔ اس میں صوبے کی جہاز سازی کی صنعت کو نئے خطوط پر استوار کرنا تھا۔ کلارک پر الزام عائد ہوا کہ انہوں نے شکار کے لائسنس دینے کے بدلے مفاد حاصل کئے ہیں۔ اس سے انہیں مستعفٰی ہونا پڑا۔

2001 کے عام انتخابات میں گورڈن کیمپبل کی بی سی لبرل پارٹی نے آرام سے این ڈی پی پارٹی کو ہرا دیا۔ انہوں نے کل 79 میں سے 77 نشستیں حاصل کیں۔ کیمپبل نے بے شمار نئی اصلاحات کیں جن میں فاسٹ فیری پراجیکٹ سے جان چھڑانا، انکم ٹیکس کی شرح میں کمی اور بی سی ریل کو سی این ریل کو بیچنا شامل تھے۔ کیمپبل کو بعد میں چھٹیوں کے دوران ہوائی میں نشے میں دھت حالت میں گاڑی چلاتے ہوئے گرفتار کیا گیا جس سے ایک نیا سکینڈل پیدا ہوا۔ تاہم 2005 کے انتخابات میں کیمپبل نے پھر بھی اپنی پارٹی کو جتوایا۔اس طرح وہ دس سال میں پہلے پریمئر بنے جس نے اپنے دور کو کامیابی سے مکمل کیا اور استعفٰی نہیں دیا۔ اس کے علاوہ بل بینیٹ کے بعد وہ پہلے پریمئر بنے جس نے مسلسل دو بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ کیمپبل کی حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 2010 کے سرمائی اولمپک کو وینکوور کے لئے حاصل کیا۔ کیمپبل کے دور میں برٹش کولمبیا کی معیشت جزوی طور پر بحال ہوئی۔

برٹش کولمبیا میں ملک بھر میں ہونے والی آبادی سے متعلقہ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ وینکوور ہانگ کانگ سے آنے والے بہت سارے افراد کی منزل ہوتا ہے جنہوں نے ہانگ کانگ کی چین کو منتقلی کے وقت ہجرت کی ہے۔ برٹش کولمبیا میں کینیڈا کے اندر سے آنے والے افراد کی بھی کثرت ہے۔ موجودہ دہائیوں میں یہ عام بات ہو گئی ہے کیونکہ یہاں کی فطری خوبصورتی، معتدل موسم اور آرام دہ زندگی کے علاوہ معاشی ترقی سے بہت سارے افراد متائثر ہو کر ادھر منتقل ہوتے ہیں۔ 1971 میں برٹش کولمبیا کینیڈا کی کل آبادی کا 10 فیصد تھا جو اب 2006 میں 13 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیہاتی علاقوں سے شہروں کو منتقلی کا رحجان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ بہتر سہولیات کی وجہ سے لوگوں کی کچھ تعداد واپس دیہاتوں کا رخ کر رہی ہے تاہم اس وقت بھی وینکوور کا شہری علاقہ صوبے کی 52 فیصد آبادی کا مسکن ہے۔


آبادی

برٹش کولمبیا کی آبادی بہت ساری اقوام پر مشتمل ہے۔ ان میں اکثریت ان باشندوں کی ہے جو گذشتہ تیس سال کے دوران صوبے میں منتقل ہوئے۔ اقلیتی گروہوں میں ایشیائی افراد قابل ذکر تعداد میں ہیں۔ ان میں چینی، جاپانی، فلپائنی اور کورین لوگوں کی معقول تعداد ہے۔ سرے اور جنوبی وینکوور میں سکھوں کی تعداد بھی کافی ہے۔


سیاست

برٹش کولمبیا کے لیفٹیننٹ گورنر سٹیون پوائنٹ کینیڈا کی ملکہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں وفاقی کابینہ کسی کو بھی عارضی طور پر ان کا متبادل بنا سکتی ہے۔ عام طور پر یہ عہدہ برٹش کولمبیا کے چیف جسٹس کو ملتا ہے۔

صوبے میں 79 اراکین پر مشتمل قانون ساز اسمبلی موجود ہے جو بذریعہ انتخابات چنی جاتی ہے۔ یہ انتخابات امریکی انتخابی نظام سے مماثل ہے۔ تاہم اس نظام کو اب بدلنے کے بارے سوچا جا رہا ہے۔ اس وقت صوبے میں برٹش کولمبیائی لبرل پارٹی کی حکومت ہے جس کے پریمئر گورڈن کیمپبل ہیں۔ 2001 میں ہونے والے انتخابات میں انہوں نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ ان کی جماعت کو کل 79 میں سے 77 نشستیں ملیں۔

برٹش کولمبیا کی لبرل پارٹی کا وفاقی لبرل پارٹی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے خیالات ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

برٹش کولمبیا میں کافی متحرک مزدور یونین موجود ہیں جو روایتی طور پر این ڈی پی کی حمایت کرتی ہیں۔


معیشت

برٹش کولمبیا کی معیشت کا دارومدار قدرتی ذرائع پر زیادہ ہے جن میں جنگلات کی صنعت کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ تاہم کان کنی بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت ترقی کر رہی ہے۔ قدرتی ذرائع میں روزگار کی شرح تیزی سے کم ہوئی ہے، تاہم ابھی گذشتہ تیس سالوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم یعنی ساڑھے چار فیصد ہے۔ روزگار کے نئے مواقع تعیمراتی اور سروس کے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ برٹش کولمبیا کی معیشت میں جنگلات اور کان کنی اہم درجہ رکھتے ہیں۔ تاہم ان شعبوں میں روزگار کے مواقع بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت یہاں بے روزگاری کی شرح ساڑھے چار فیصد ہے جو گذشتہ تیس سالوں میں کم ترین ہے۔ روزگار کے نئے مواقع زیادہ تر تعمیرات اور تجارت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اس وقت لاس اینجلس اور نیو یارک کے بعد وینکوور کا علاقہ شمالی امریکہ میں فلم سازی کا تیسرا بڑا مرکز ہے۔

برٹش کولمبیا کی تاریخ میں معیشت میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اور اس اتار چڑھاؤ کا سیاست، ثقافت اور کاروبار پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ معدنیات کی قیمتوں میں کمی بیشی کا براہ راست اثر کان کنی پر پڑتا ہے۔

ذرائع نقل و حمل


تاریخ

ذرائع نقل و حمل نے برٹش کولمبیا کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ راکی پہاڑوں اور اس کے مغرب میں موجود مزید پہاڑی سلسلوں نے زمینی راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔ یہ رکاوٹ 1885 میں ٹرانس کانٹی نینٹل ریلوے کی تعمیر سے دور ہوئی۔ دریائے پیس کی کھائیوں کے راستے راکیز پہاڑ میں اولین مہم جوؤں نے آنا جانا جاری رکھا تھا۔ کھالوں کی تجارت بھی اسی راستے ہوتی تھی۔ بہت کم تجارت پہاڑوں کے اوپر سے ہوتی۔ 1885 سے قبل کینیڈا کے دیگر حصوں سے برٹش کولمبیا جانے کے لئے امریکہ سے ہو کر، کیپ ہارن سے یا پھر ایشیا کو سمندر سے ہو کر جانا پڑتا۔ ساری درآمد و برآمد سمندری راستے سے ہوتی جن کی اہم بندرگاہیں وکٹوریا اور نیو ویسٹ منسٹر تھیں۔

1930 کی دہائی تک برٹش کولمبیا اور بقیہ کینیڈا کے درمیان واحد زمینی راستہ ریل کا تھا۔ گاڑیوں سے سفر کرنے والے امریکہ سے ہو کر جاتے۔ 1932 میں بین الصوبائی سڑک کی تعمیر سے صوبہ زمینی راستے سے پورے ملک سے مل گیا۔ اس سڑک کو بعد میں ٹرانس کینیڈا ہائی وے کہا گیا۔ سڑکیں اور ہائی وے رقبے، بنجر اور مختلف النوع زمین کے باعث برٹش کولمبیا میں ہزاروں کلومیٹر ہائی وے کی ضرورت تھی تاکہ مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے ملایا جا سکے۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں بننے والے نئے جامع منصوبے سے قبل صوبے میں سڑکوں کی حالت بہت بری تھی۔ اب یہاں فری ویز یعنی موٹر وے صوبے کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں موجود ہیں۔ صوبے کے دیگر حصوں تک پہنچنے کے لئے دو رویہ ہائی وے پھیلی ہوئی ہیں جو پہاڑی علاقوں میں مزید چوڑی ہو جاتی ہیں۔ صوبائی ہائی وے کی تعمیر اور دیکھ بھال کا کام صوبائی حکومت کے ذمے ہے۔

راکی پہاڑی سلسلے میں گذرنے کے لئے چار مختلف راستے ہیں۔ جنوب سے شمال کی طرف ان کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ کروز نیسٹ ہائی وے جو سپار وڈ سے گذرتی ہے، ٹرانس کینیڈا ہائی وے جو بینف نیشنل پارک سے گذرتی ہے، ییلو ہیڈ ہائی وے جیسپر نیشنل پارک سے ہو کر اور ہائی وے نمبر 2 ڈاسن کریک سے گذرتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے سے امریکہ کو کئی ہائی وے جاتی ہیں جو واشنگٹن، ایڈاہو اور مونٹانا کو صوبے سے ملاتی ہیں۔ سب سے لمبی ہائی وے 97 ہے جو 2081 کلومیٹر لمبی ہے جو برٹش کولمبیا واشنگٹن کی سرحد پر اوسویوس سے شروع ہو کر شمال کو یوکون میں واٹس لیک کو جاتی ہے۔


سطحی عوامی گذرگاہیں یعنی سرفیس پبلک ٹرانزٹ

1978 سے قبل تک سطحی عوامی گذرگاہوں کی دیکھ بھال بی سی ہائیڈرو کے ذمے تھے۔ یہ صوبے کی ملکیت بجلی پیدا کرنے کا ادارہ تھا۔ بعد ازاں صوبے نے بی سی ٹرانزٹ بنایا تاکہ تمام میونسپل ذرائع نقل و حمل کو چلا سکے۔ 1998 میں ٹرانس لنک نامی ایک الگ اتھارٹی بنائی گئی جو گریٹر وینکوور ریجنل ڈسٹرکٹ کو سنبھالتی ہے۔

پبلک ٹرانزٹ میں زیادہ تر ڈیزل بسیں شامل ہیں اگرچہ وینکوور شہر میں بجلی سے چلنے والی بسیں بھی موجود ہیں جو اہم راستوں پر چلتی ہیں۔ ٹرانس لنک سکائی ٹرین چلاتی ہے جو ہلکی اور تیز رفتار ہوتی ہے۔ یہ وینکوور، برنابے، نیو ویسٹ منسٹر اور شمالی سرے کو ملاتی ہے۔ اس وقت اس کو جنوب میں رچمنڈ تک اور مشرق میں کوکلٹام اور پورٹ موڈی تک پھیلایا جا رہا ہے۔


ریل

کینیڈین پیسیفک ریلوے کی 1885 میں تکمیل ہوئی جو کہ برٹش کولمبیا کی کینیڈا میں شمولیت کی ایک شرط تھی۔ آئندہ دہائیوں میں بہت ریل کی ترویج ہوئی اور یہ لمبے فاصلے تک اشیاء کی نقل و حمل کا سب سے بڑا ذریعہ بنی رہی۔ صوبائی سڑکوں کی بہتری اور ہائی ویز کی تعمیر سے 1950 سے سڑکوں نے ریل سے نقل و حمل کی جگہ لے لی۔ کینیڈین پیسیفک ریلوے کے علاوہ بھی بہت سی لائنیں بنائی گئیں۔ ان میں سے دو مشہور راستوں میں سے ایک درہ ییلو ہیڈ سے گزرتا ہے اور کینیڈین پیسییفک ریلوے کا مقابلہ کرتا ہے۔ اسے گرانڈ ٹرنک پیسیفک کہتے ہیں اور یہ پرنس رپرٹ پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا کینیڈین نیشنل ریلوے ہے جو وینکوور پر ختم ہوتا ہے۔ پیسیفک گریٹ ایسٹرن لائن اس سروس کو شمالاً جنوباً بڑھاتی ہے۔ یہ سروس بعد ازاں برٹش کولمبیا ریلوے کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ سروس فورٹ سینٹ جیمز، فورٹ نیلسن اور ٹمبلر رج کو جنوبی وینکوور سے ملاتی ہے۔


ذریعہ آب

برٹش کولمبیا کی فیریز کو 1960میں بطور کراؤن کارپوریشن کے بنایا گیا تاکہ وینکوور کے جزیرے اور باقی حصوں سے کم خرچ سے مسافروں اور سامان کی متنقلی ممکن ہو سکے۔ اس کا مقصد کینیڈین پیسیفک ریلوے کا قابل اعتماد متبادل نظام بھی متعارف کرانا تھا۔ اب یہ برٹش کولمبیا کے کل 25 جزیروں پر کام کرتی ہے اور ان جزیروں کو بقیہ صوبے سے ملاتی ہے۔ جھیلوں اور دریاؤں میں فیری سروس صوبائی حکومت مہیا کرتی ہے۔

تجارتی پیمانے پر سمندری سفر بھی بہت اہم ہے۔ اکثر اہم بندرگاہیں وینکوور، رابرٹس بینک، پرنس رپرٹ اور وکٹوریا پر موجود ہیں۔ ان میں وینکوور کی بندرگاہ سب سے زیادہ اہم اور سب کینیڈا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ وینکوور، وکٹوریہ اور پرنس رپرٹ بھی کروز جہازوں کے لئے اہم بندرگاہیں ہیں۔ 2007 سے پرنس رپرٹ میں ایک بڑی بندرگاہ کھولی گئی ہے جہاں کنٹینر کی آمد و رفت ہوگی۔ اس بندرگاہ کو 2009 میں توسیع دی جائے گی۔


فضاء

برٹش کولمبیا میں 200 سے زیادہ ہوائی اڈے موجود ہیں۔ ان میں سے وینکوور انٹرنیشنل ائیرپورٹ، وکٹوریا انٹرنیشنل ائیر پورٹ، کیلوانا انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور پرنس جارج انٹرنیشنل ائیرپورٹ زیادہ اہم اور بڑے ہیں۔ 2005 میں وینکوور انٹرنیشنل ائیرپورٹ، وکٹوریا انٹرنیشنل ائیر پورٹ، کیلوانا انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے ہر ایک سے دس لاکھ سے زیادہ مسافر گذرے ہیں۔ وینکوور انٹرنیشنل ائیرپورٹ ملک کا دوسرا مصروف ترین ائیرپورٹ ہے جہاں سے 2005 میں اندازاً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مسافر گذرے تھے۔


پارک اور محفوظ شدہ جگہیں

یہاں پارک اور محفوظ شدہ جگہوں کی کل تعداد 14 ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی ریزرو کی کل 141 جگہیں ہیں، 35 صوبائی سمندری پارک ہیں، 7 صوبائی عالمی وراثتی جگہیں، 6 قومی پارک اور 3 قومی پارک ریزرو ہیں۔ برٹش کولمبیا کا 12٫5 فیصد رقبہ 14 مختلف قوانین کے تحت 800 مختلف علاقوں میں محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

برٹش کولمبیا میں کینیڈا کے قومی پارکوں میں سے سات واقع ہیں: • گلیشئر نیشنل پارک • گلف آئی لینڈ نیشنل پارک ریزرو • گوائی ہانز نیشنل پارک ریزرو اینڈ ہائیڈا ہریٹیج سائٹ • کُوٹینائی نیشنل پارک • ماؤنٹ ریویل سٹوک نیشنل پارک • پیسیفک رم نیشنل پارک ریزرو • یوہو نیشنل پارک

برٹش کولمبیا میں صوبائی پارکوں کا بہت بڑا جال پھیلا ہوا ہے جن کو برٹش کولمبیا کی ماحولیات کی وزارت چلاتی ہے۔ برٹش کولمبیا کا صوبائی پارکوں کا نظام کینیڈا کا اس طرح کا دوسرا بڑا نظام ہے۔

ان علاقوں کے علاوہ 47 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین بھی ایگریکلچر لینڈ ریزرو کے تحت محفوظ کر دی گئی ہے۔


تفریح

مختلف پہاڑی سلسلوں، ساحلوں، جھیلوں، دریاؤں اور جنگلات کے باعث برٹش کولمبیا کو ہائکنگ، کیمپنگ، چٹانوں پر چڑھنا اور کوہ پیمائی، شکار اور مچھلی پکڑنے کے لئے مشہور رہا ہے۔

پانی کے کھیل، جن میں مشینی اور غیر مشینی دونوں طرح کے کھیل شامل ہیں، بہت سے جگہوں پر کھیلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کایاکنگ، کھاڑیاں، وائٹ واٹر رافٹنگ وغیرہ یہاں کے دریاؤں میں بہت عام ہیں۔ سیلنگ اور سیل بورڈنگ بھی وسیع پیمانے پر کھیلی جاتی ہیں۔

سردیوں میں کراس کنٹری سکیئنگ اور ٹیلی مارک سکیئنگ کو بہت پسند کیا جاتا ہے اور حالیہ برسوں میں ڈاؤن ہل سکیئنگ کے لئے ساحلی پہاڑی علاقوں، راکیز، شوس واپ اور کولمبیا کے پہاڑوں میں جگہیں بنائی گئی ہیں۔ 1990 سے سنو بورڈنگ کھبمیوں کی طرح اگی ہے۔ 2010 کے سرمائی اولمپک کے ڈاؤن ہل کے کھیل وہسلر بلیک کامپ کے علاقوں میں ہوں گی جبکہ ان ڈور کھیل وینکوور میں۔

وینکوور اور وکٹوریہ کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لئے بھی سہولیات موجود ہیں۔ کراس کنٹری سائیکلنگ کے مقابلے بھی کئی سالوں سے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ جوں جوں پہاڑوں پر نت نئی سائیکلوں کے لئے ٹریک بنتے جا رہے ہیں، وہ لوگ اس طرف زیادہ متوجہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرین کے پرانے ٹریکوں کو ہائیکنگ، بائیکنگ اور کراس کنٹری سکیئنگ کے لئے تبدیل اور مختص کر دیا گیا ہے۔

بہت سارے باشندے گھڑ سواری کو بھی پسند کرتے ہیں۔ خوبصورت علاقوں میں گھوڑے پر بیٹھ کر سیر کرنا بہت مقبول ہو چکا ہے۔

برٹش کولمبیا دیگر کھیلوں میں بہت اہم حصہ بنتا ہے جن میں گالف، ٹینس، فٹ بال، ہاکی، کینیڈین فٹ بال، رگبی یونین، سافٹ بال، باسکٹ بال، کرلنگ اور فگر سکیٹنگ وغیرہ۔ برٹش کولمبیا کے بہت سے کھلاڑی بالخصوص آبی اور سرمائی کھیلوں کے کھلاڑی مشہور بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل ائیروبکس اور ہاتھا یوگا بھی بہت مشہور ہو رہے ہیں۔ چند ہزار سے زیادہ آبادی والے علاقوں کے پاس کھلیوں کے لئے اپنی سہولتیں ہیں۔

بڑھتی ہوئی سیاحت اور مختلف النوع کھیلوں میں مقامی لوگوں کی شمولیت کے باعث لاجوں، کیبنوں، بستر اور ناشتے، موٹیل، ہوٹل، فشنگ کیمپ اور پارک کیمپوں کی تعداد موجودہ دہائیوں میں بہت بڑھی ہے۔

مخصوص علاقوں میں کاروباری، غیر منافع بخش سوسائیٹیوں یا میونسبل گورنمنٹ ماحولیاتی سیاحت کو بڑھانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ برٹش کولمبیا کے بہت سارے کسان سیاحوں کو سیاحت کے ساتھ ساتھ فارم پر کام کرنے کا بھی موقع دیتے ہیں۔


تفریحی گانجا/میری جوانا

2004 میں یونیورسٹی آف وکٹوریہ سینٹر فار ایڈکشن ریسرچ آف برٹش کولمبیا اور سیمون فریزر یونیورسٹی اپلائیڈ ریسرچ آن مینٹل ہیلتھ اینڈ ایڈکشنز کی طرف سے کئے جانے والے ایک مطالعے نے ظاہر کیا ہے کہ برٹش کولمبیا والے گانجے کا استعمال کینیڈا کے دیگر باشندوں کی نسبت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ جو کہ جولائی 2007 میں شائع ہوئی، نے کیوبیک کو زیادہ گانجا استعمال کرنے والا صوبہ شمار کیا ہے۔ کیوبیک میں اوسطاً 15٫8 فیصد افراد گانجا استعمال کرتے ہیں جبکہ کینیڈا میں یہ شرح 14٫1 فیصد ہے۔ اس وجہ سے کینیڈا ترقی یافتہ ممالک میں گانجے کے استعمال میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ برٹش کولمبیا میں گانجا کاشت بھی ہوتا ہے اور کل کینیڈا کی گانجے کی کاشت کا 40 فیصد حصہ یہیں پیدا ہوتا ہے۔ نقشہ


علاقائی اضلاع

برٹش کولمبیا کی انتظامی بنیاد 28 علاقائی اضلاع پر مشتمل ہے۔


شہر

برٹش کولمبین کی نصف تعداد گریٹر وینکوور ریجنل ڈسٹرکٹ میں رہتی ہے جس میں وینکوور، سرے، نیو ویسٹ منسٹر، ویسٹ وینکوور، نارتھ وینکوور (شہر)، نارتھ وینکوور (ڈسٹرکٹ میونسپلٹی)، برنابے، کوکتلم، پورٹ کوکتلم، میپل رج، لانگلے (شہر)، لانگلے (ڈسٹرکٹ میونسپلٹی)، ڈیلٹا، پٹ میڈوز، وائٹ راک، رچمنڈ، پورٹ موڈی، انمور، بیلکارا، لائنز بے اور بوئن آئی لینڈ شامل ہیں۔ سترہ مزید قدیم ریزرو اور غیر استعمال شدہ ریجنل ڈسٹرکٹ الیکٹورل ایریا جسے گریٹر وینکوور الیکٹورل ایریا اے کا نام دیا جاتا ہے، بھی شامل ہیں۔

برٹش کولمبیا کی دوسری بڑی آبادی ویکنوور جزیرے کے جنوبی سرے پر واقع ہے جو کہ تیرہ میونسپلٹیوں سے مل کر بنی ہے۔ وینکوور آئی لینڈ کی نصف آبادی وینکوور شہر میں رہتی ہے۔


جنگلی حیات

صوبہ بہت حد تک جنگلی یا نیم جنگلی ہے۔ یہاں موجود بے شمار دودھ پلانے والے جانور ایسے ہیں جو امریکہ میں تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ مختلف انواع کے جانوروں بالخصوص پرندوں کا مشاہدہ کرنا کافی عرصے سے مقبول مشغلہ بنا ہوا ہے۔ ریچھ (گرزلی، کالے اور کرموڈ ریچھ جو کہ صرف برٹش کولمبیا میں پائے جاتے ہیں) یہاں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ہرن، ایلک، موز، کیری بو، بڑے سینگوں والی بھیڑ، پہاڑی بکریاں، مارموٹ، بی ور، مسکرات، کائیوٹی، بھیڑیئے، مسٹیلائڈ (جیسا کہ ولورین، بجو اور فشر)، پہاڑی شیر یعنی پوما، عقاب، سفید کونج، کینیڈا کی بطخیں، سوان، لون، شکرے، الو، کوے اور بہت سی اقسام کی مرغابیاں بھی یہاں رہتی ہیں۔ چھوٹے پرندے (مثلاً روبن، جیز، گروس بیک، چکاڈیس وغیرہ) بکثرت ہیں۔

یہاں پانیوں میں بہت سی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں (جن میں سامن، ٹراؤٹ، چار وغیرہ شامل ہیں)۔ سامن اور ٹراؤٹ کے علاوہ شکاریوں نے ہالی بٹ، سٹیل ہیڈ، باس اور سٹرجین بھی پکڑی ہیں۔ ساحل پر بندرگاہوں کی سیلیں اور دریائی اود بلاؤ بھی عام ہیں۔ وہیلوں میں سے اورکا، گرے وغیرہ اور مختلف اقسام کی ڈولفنیں بھی شامل ہیں۔


معدومیت کے خطرے کا شکار انواع

برٹش کولمبیا میں معدومیت کے خطرے کی شکار انواع میں وینکوور آئی لینڈ مارموٹ، دھبے دار الو، سفید پیلی کن اور بجو شامل ہیں۔


متعارف کدرہ انواع

برٹش کولمبیا میں متعارف کرائی گئی انواع: کامن ڈینڈیلیون، رنگ نیکڈ فیزنٹ، پیسیفک اوئسٹر، بھوری ٹراؤٹ، کالا گھونگھا، یورپی سٹارلنگ، کئو برڈ، نیپ ویڈ، بل فراگ، جامنی لوز سٹریف، سکاچ بروم، یورپی ائیر وگ، ٹینٹ کیٹر پلر، سنو بگ، سرمئی گلہری، ایشیائی لمبے سینگ والا بیٹل، انگریزی آئیوی، فالو ہرن، تھسل، گورز، ناروے چوہا، کرسٹڈ مینا اور یورپی یا ایشیائی جسپی پتنگا شامل ہیں۔ پہاڑی ماونٹین بیٹل نے حال ہی میں صوبے کے شمالی علاقوں کے جنگلات میں تباہی مچا دی ہے۔ سپروس بگ بھی انہی علاقوں میں ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
برٹش کولمبیا 1990 سے اب تک

جانسٹن کو 1991 کے عام انتخابات میں شکست ہوئی۔ این ڈی پی نے مائیک ہارکورٹ کی زیر صدارت انتخابات جیتے۔ مائیک وینکوور کے سابقہ مئیر تھے۔ اگرچہ پارک لینڈ اور محفوظ علاقوں کی تعمیر کو لوگوں نے پسند کیا اور اس سے صوبے کی سیاحت کو بہت فروغ ملا تاہم کم ذرائع والی معیشت کے باعث معاشی ترقی مسلسل جدوجہد کا شکار رہی۔ ہارکورٹ بینگو گیٹ کے بعد اگرچہ استعفٰی دے دیا جو برٹش کولمبیا کا ایک اور سیاسی سکینڈل تھا۔ ہارکورٹ کو اس میں براہ راست نامزد نہیں کیا گیا تاہم انہوں نے پھر بھی مستعفٰی ہونے کو ترجیح دی۔ گلین کلارک جو بی سی فیڈریشن آف لیبرکے سابقہ صدر تھے، کو پارٹی کا نیا رہنما چنا گیا۔ 1996 میں انہوں نے دوسری بار عہدہ جیتا تاہم انہیں دوسروں کی نسبت اس بار کم ووٹ ملے۔ کلارک کے عہد میں برٹش کولمبیا میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ بے روزگاری بڑھی اور اہم صنعتوں پر کڑا وقت رہا۔ اس وجہ سے معاشی ترقی سست رہی۔ پارٹی پر مزید سکینڈل آئے جن میں فاسٹ فیری سکینڈل سر فہرست ہے۔ اس میں صوبے کی جہاز سازی کی صنعت کو نئے خطوط پر استوار کرنا تھا۔ کلارک پر الزام عائد ہوا کہ انہوں نے شکار کے لائسنس دینے کے بدلے مفاد حاصل کئے ہیں۔ اس سے انہیں مستعفٰی ہونا پڑا۔

2001 کے عام انتخابات میں گورڈن کیمپبل کی بی سی لبرل پارٹی نے آرام سے این ڈی پی پارٹی کو ہرا دیا۔ انہوں نے کل 79 میں سے 77 نشستیں حاصل کیں۔ کیمپبل نے بے شمار نئی اصلاحات کیں جن میں فاسٹ فیری پراجیکٹ سے جان چھڑانا، انکم ٹیکس کی شرح میں کمی اور بی سی ریل کو سی این ریل کو بیچنا شامل تھے۔ کیمپبل کو بعد میں چھٹیوں کے دوران ہوائی میں نشے میں دھت حالت میں گاڑی چلاتے ہوئے گرفتار کیا گیا جس سے ایک نیا سکینڈل پیدا ہوا۔ تاہم 2005 کے انتخابات میں کیمپبل نے پھر بھی اپنی پارٹی کو جتوایا۔اس طرح وہ دس سال میں پہلے پریمئر بنے جس نے اپنے دور کو کامیابی سے مکمل کیا اور استعفٰی نہیں دیا۔ اس کے علاوہ بل بینیٹ کے بعد وہ پہلے پریمئر بنے جس نے مسلسل دو بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ کیمپبل کی حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 2010 کے سرمائی اولمپک کو وینکوور کے لئے حاصل کیا۔ کیمپبل کے دور میں برٹش کولمبیا کی معیشت جزوی طور پر بحال ہوئی۔

برٹش کولمبیا میں ملک بھر میں ہونے والی آبادی سے متعلقہ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ وینکوور ہانگ کانگ سے آنے والے بہت سارے افراد کی منزل ہوتا ہے جنہوں نے ہانگ کانگ کی چین کو منتقلی کے وقت ہجرت کی ہے۔ برٹش کولمبیا میں کینیڈا کے اندر سے آنے والے افراد کی بھی کثرت ہے۔ موجودہ دہائیوں میں یہ عام بات ہو گئی ہے کیونکہ یہاں کی فطری خوبصورتی، معتدل موسم اور آرام دہ زندگی کے علاوہ معاشی ترقی سے بہت سارے افراد متائثر ہو کر ادھر منتقل ہوتے ہیں۔ 1971 میں برٹش کولمبیا کینیڈا کی کل آبادی کا 10 فیصد تھا جو اب 2006 میں 13 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیہاتی علاقوں سے شہروں کو منتقلی کا رحجان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ بہتر سہولیات کی وجہ سے لوگوں کی کچھ تعداد واپس دیہاتوں کا رخ کر رہی ہے تاہم اس وقت بھی وینکوور کا شہری علاقہ صوبے کی 52 فیصد آبادی کا مسکن ہے۔


آبادی

برٹش کولمبیا کی آبادی بہت ساری اقوام پر مشتمل ہے۔ ان میں اکثریت ان باشندوں کی ہے جو گذشتہ تیس سال کے دوران صوبے میں منتقل ہوئے۔ اقلیتی گروہوں میں ایشیائی افراد قابل ذکر تعداد میں ہیں۔ ان میں چینی، جاپانی، فلپائنی اور کورین لوگوں کی معقول تعداد ہے۔ سرے اور جنوبی وینکوور میں سکھوں کی تعداد بھی کافی ہے۔


سیاست

برٹش کولمبیا کے لیفٹیننٹ گورنر سٹیون پوائنٹ کینیڈا کی ملکہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں وفاقی کابینہ کسی کو بھی عارضی طور پر ان کا متبادل بنا سکتی ہے۔ عام طور پر یہ عہدہ برٹش کولمبیا کے چیف جسٹس کو ملتا ہے۔

صوبے میں 79 اراکین پر مشتمل قانون ساز اسمبلی موجود ہے جو بذریعہ انتخابات چنی جاتی ہے۔ یہ انتخابات امریکی انتخابی نظام سے مماثل ہے۔ تاہم اس نظام کو اب بدلنے کے بارے سوچا جا رہا ہے۔ اس وقت صوبے میں برٹش کولمبیائی لبرل پارٹی کی حکومت ہے جس کے پریمئر گورڈن کیمپبل ہیں۔ 2001 میں ہونے والے انتخابات میں انہوں نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ ان کی جماعت کو کل 79 میں سے 77 نشستیں ملیں۔

برٹش کولمبیا کی لبرل پارٹی کا وفاقی لبرل پارٹی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے خیالات ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

برٹش کولمبیا میں کافی متحرک مزدور یونین موجود ہیں جو روایتی طور پر این ڈی پی کی حمایت کرتی ہیں۔


معیشت

برٹش کولمبیا کی معیشت کا دارومدار قدرتی ذرائع پر زیادہ ہے جن میں جنگلات کی صنعت کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ تاہم کان کنی بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت ترقی کر رہی ہے۔ قدرتی ذرائع میں روزگار کی شرح تیزی سے کم ہوئی ہے، تاہم ابھی گذشتہ تیس سالوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم یعنی ساڑھے چار فیصد ہے۔ روزگار کے نئے مواقع تعیمراتی اور سروس کے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ برٹش کولمبیا کی معیشت میں جنگلات اور کان کنی اہم درجہ رکھتے ہیں۔ تاہم ان شعبوں میں روزگار کے مواقع بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت یہاں بے روزگاری کی شرح ساڑھے چار فیصد ہے جو گذشتہ تیس سالوں میں کم ترین ہے۔ روزگار کے نئے مواقع زیادہ تر تعمیرات اور تجارت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اس وقت لاس اینجلس اور نیو یارک کے بعد وینکوور کا علاقہ شمالی امریکہ میں فلم سازی کا تیسرا بڑا مرکز ہے۔

برٹش کولمبیا کی تاریخ میں معیشت میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اور اس اتار چڑھاؤ کا سیاست، ثقافت اور کاروبار پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ معدنیات کی قیمتوں میں کمی بیشی کا براہ راست اثر کان کنی پر پڑتا ہے۔

ذرائع نقل و حمل


تاریخ

ذرائع نقل و حمل نے برٹش کولمبیا کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ راکی پہاڑوں اور اس کے مغرب میں موجود مزید پہاڑی سلسلوں نے زمینی راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔ یہ رکاوٹ 1885 میں ٹرانس کانٹی نینٹل ریلوے کی تعمیر سے دور ہوئی۔ دریائے پیس کی کھائیوں کے راستے راکیز پہاڑ میں اولین مہم جوؤں نے آنا جانا جاری رکھا تھا۔ کھالوں کی تجارت بھی اسی راستے ہوتی تھی۔ بہت کم تجارت پہاڑوں کے اوپر سے ہوتی۔ 1885 سے قبل کینیڈا کے دیگر حصوں سے برٹش کولمبیا جانے کے لئے امریکہ سے ہو کر، کیپ ہارن سے یا پھر ایشیا کو سمندر سے ہو کر جانا پڑتا۔ ساری درآمد و برآمد سمندری راستے سے ہوتی جن کی اہم بندرگاہیں وکٹوریا اور نیو ویسٹ منسٹر تھیں۔

1930 کی دہائی تک برٹش کولمبیا اور بقیہ کینیڈا کے درمیان واحد زمینی راستہ ریل کا تھا۔ گاڑیوں سے سفر کرنے والے امریکہ سے ہو کر جاتے۔ 1932 میں بین الصوبائی سڑک کی تعمیر سے صوبہ زمینی راستے سے پورے ملک سے مل گیا۔ اس سڑک کو بعد میں ٹرانس کینیڈا ہائی وے کہا گیا۔ سڑکیں اور ہائی وے رقبے، بنجر اور مختلف النوع زمین کے باعث برٹش کولمبیا میں ہزاروں کلومیٹر ہائی وے کی ضرورت تھی تاکہ مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے ملایا جا سکے۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں بننے والے نئے جامع منصوبے سے قبل صوبے میں سڑکوں کی حالت بہت بری تھی۔ اب یہاں فری ویز یعنی موٹر وے صوبے کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں موجود ہیں۔ صوبے کے دیگر حصوں تک پہنچنے کے لئے دو رویہ ہائی وے پھیلی ہوئی ہیں جو پہاڑی علاقوں میں مزید چوڑی ہو جاتی ہیں۔ صوبائی ہائی وے کی تعمیر اور دیکھ بھال کا کام صوبائی حکومت کے ذمے ہے۔

راکی پہاڑی سلسلے میں گذرنے کے لئے چار مختلف راستے ہیں۔ جنوب سے شمال کی طرف ان کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ کروز نیسٹ ہائی وے جو سپار وڈ سے گذرتی ہے، ٹرانس کینیڈا ہائی وے جو بینف نیشنل پارک سے گذرتی ہے، ییلو ہیڈ ہائی وے جیسپر نیشنل پارک سے ہو کر اور ہائی وے نمبر 2 ڈاسن کریک سے گذرتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے سے امریکہ کو کئی ہائی وے جاتی ہیں جو واشنگٹن، ایڈاہو اور مونٹانا کو صوبے سے ملاتی ہیں۔ سب سے لمبی ہائی وے 97 ہے جو 2081 کلومیٹر لمبی ہے جو برٹش کولمبیا واشنگٹن کی سرحد پر اوسویوس سے شروع ہو کر شمال کو یوکون میں واٹس لیک کو جاتی ہے۔


سطحی عوامی گذرگاہیں یعنی سرفیس پبلک ٹرانزٹ

1978 سے قبل تک سطحی عوامی گذرگاہوں کی دیکھ بھال بی سی ہائیڈرو کے ذمے تھے۔ یہ صوبے کی ملکیت بجلی پیدا کرنے کا ادارہ تھا۔ بعد ازاں صوبے نے بی سی ٹرانزٹ بنایا تاکہ تمام میونسپل ذرائع نقل و حمل کو چلا سکے۔ 1998 میں ٹرانس لنک نامی ایک الگ اتھارٹی بنائی گئی جو گریٹر وینکوور ریجنل ڈسٹرکٹ کو سنبھالتی ہے۔

پبلک ٹرانزٹ میں زیادہ تر ڈیزل بسیں شامل ہیں اگرچہ وینکوور شہر میں بجلی سے چلنے والی بسیں بھی موجود ہیں جو اہم راستوں پر چلتی ہیں۔ ٹرانس لنک سکائی ٹرین چلاتی ہے جو ہلکی اور تیز رفتار ہوتی ہے۔ یہ وینکوور، برنابے، نیو ویسٹ منسٹر اور شمالی سرے کو ملاتی ہے۔ اس وقت اس کو جنوب میں رچمنڈ تک اور مشرق میں کوکلٹام اور پورٹ موڈی تک پھیلایا جا رہا ہے۔


ریل

کینیڈین پیسیفک ریلوے کی 1885 میں تکمیل ہوئی جو کہ برٹش کولمبیا کی کینیڈا میں شمولیت کی ایک شرط تھی۔ آئندہ دہائیوں میں بہت ریل کی ترویج ہوئی اور یہ لمبے فاصلے تک اشیاء کی نقل و حمل کا سب سے بڑا ذریعہ بنی رہی۔ صوبائی سڑکوں کی بہتری اور ہائی ویز کی تعمیر سے 1950 سے سڑکوں نے ریل سے نقل و حمل کی جگہ لے لی۔ کینیڈین پیسیفک ریلوے کے علاوہ بھی بہت سی لائنیں بنائی گئیں۔ ان میں سے دو مشہور راستوں میں سے ایک درہ ییلو ہیڈ سے گزرتا ہے اور کینیڈین پیسییفک ریلوے کا مقابلہ کرتا ہے۔ اسے گرانڈ ٹرنک پیسیفک کہتے ہیں اور یہ پرنس رپرٹ پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا کینیڈین نیشنل ریلوے ہے جو وینکوور پر ختم ہوتا ہے۔ پیسیفک گریٹ ایسٹرن لائن اس سروس کو شمالاً جنوباً بڑھاتی ہے۔ یہ سروس بعد ازاں برٹش کولمبیا ریلوے کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ سروس فورٹ سینٹ جیمز، فورٹ نیلسن اور ٹمبلر رج کو جنوبی وینکوور سے ملاتی ہے۔


ذریعہ آب

برٹش کولمبیا کی فیریز کو 1960میں بطور کراؤن کارپوریشن کے بنایا گیا تاکہ وینکوور کے جزیرے اور باقی حصوں سے کم خرچ سے مسافروں اور سامان کی متنقلی ممکن ہو سکے۔ اس کا مقصد کینیڈین پیسیفک ریلوے کا قابل اعتماد متبادل نظام بھی متعارف کرانا تھا۔ اب یہ برٹش کولمبیا کے کل 25 جزیروں پر کام کرتی ہے اور ان جزیروں کو بقیہ صوبے سے ملاتی ہے۔ جھیلوں اور دریاؤں میں فیری سروس صوبائی حکومت مہیا کرتی ہے۔

تجارتی پیمانے پر سمندری سفر بھی بہت اہم ہے۔ اکثر اہم بندرگاہیں وینکوور، رابرٹس بینک، پرنس رپرٹ اور وکٹوریا پر موجود ہیں۔ ان میں وینکوور کی بندرگاہ سب سے زیادہ اہم اور سب کینیڈا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ وینکوور، وکٹوریہ اور پرنس رپرٹ بھی کروز جہازوں کے لئے اہم بندرگاہیں ہیں۔ 2007 سے پرنس رپرٹ میں ایک بڑی بندرگاہ کھولی گئی ہے جہاں کنٹینر کی آمد و رفت ہوگی۔ اس بندرگاہ کو 2009 میں توسیع دی جائے گی۔


فضاء

برٹش کولمبیا میں 200 سے زیادہ ہوائی اڈے موجود ہیں۔ ان میں سے وینکوور انٹرنیشنل ائیرپورٹ، وکٹوریا انٹرنیشنل ائیر پورٹ، کیلوانا انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور پرنس جارج انٹرنیشنل ائیرپورٹ زیادہ اہم اور بڑے ہیں۔ 2005 میں وینکوور انٹرنیشنل ائیرپورٹ، وکٹوریا انٹرنیشنل ائیر پورٹ، کیلوانا انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے ہر ایک سے دس لاکھ سے زیادہ مسافر گذرے ہیں۔ وینکوور انٹرنیشنل ائیرپورٹ ملک کا دوسرا مصروف ترین ائیرپورٹ ہے جہاں سے 2005 میں اندازاً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مسافر گذرے تھے۔


پارک اور محفوظ شدہ جگہیں

یہاں پارک اور محفوظ شدہ جگہوں کی کل تعداد 14 ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی ریزرو کی کل 141 جگہیں ہیں، 35 صوبائی سمندری پارک ہیں، 7 صوبائی عالمی وراثتی جگہیں، 6 قومی پارک اور 3 قومی پارک ریزرو ہیں۔ برٹش کولمبیا کا 12٫5 فیصد رقبہ 14 مختلف قوانین کے تحت 800 مختلف علاقوں میں محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

برٹش کولمبیا میں کینیڈا کے قومی پارکوں میں سے سات واقع ہیں: • گلیشئر نیشنل پارک • گلف آئی لینڈ نیشنل پارک ریزرو • گوائی ہانز نیشنل پارک ریزرو اینڈ ہائیڈا ہریٹیج سائٹ • کُوٹینائی نیشنل پارک • ماؤنٹ ریویل سٹوک نیشنل پارک • پیسیفک رم نیشنل پارک ریزرو • یوہو نیشنل پارک

برٹش کولمبیا میں صوبائی پارکوں کا بہت بڑا جال پھیلا ہوا ہے جن کو برٹش کولمبیا کی ماحولیات کی وزارت چلاتی ہے۔ برٹش کولمبیا کا صوبائی پارکوں کا نظام کینیڈا کا اس طرح کا دوسرا بڑا نظام ہے۔

ان علاقوں کے علاوہ 47 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین بھی ایگریکلچر لینڈ ریزرو کے تحت محفوظ کر دی گئی ہے۔


تفریح

مختلف پہاڑی سلسلوں، ساحلوں، جھیلوں، دریاؤں اور جنگلات کے باعث برٹش کولمبیا کو ہائکنگ، کیمپنگ، چٹانوں پر چڑھنا اور کوہ پیمائی، شکار اور مچھلی پکڑنے کے لئے مشہور رہا ہے۔

پانی کے کھیل، جن میں مشینی اور غیر مشینی دونوں طرح کے کھیل شامل ہیں، بہت سے جگہوں پر کھیلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کایاکنگ، کھاڑیاں، وائٹ واٹر رافٹنگ وغیرہ یہاں کے دریاؤں میں بہت عام ہیں۔ سیلنگ اور سیل بورڈنگ بھی وسیع پیمانے پر کھیلی جاتی ہیں۔

سردیوں میں کراس کنٹری سکیئنگ اور ٹیلی مارک سکیئنگ کو بہت پسند کیا جاتا ہے اور حالیہ برسوں میں ڈاؤن ہل سکیئنگ کے لئے ساحلی پہاڑی علاقوں، راکیز، شوس واپ اور کولمبیا کے پہاڑوں میں جگہیں بنائی گئی ہیں۔ 1990 سے سنو بورڈنگ کھبمیوں کی طرح اگی ہے۔ 2010 کے سرمائی اولمپک کے ڈاؤن ہل کے کھیل وہسلر بلیک کامپ کے علاقوں میں ہوں گی جبکہ ان ڈور کھیل وینکوور میں۔

وینکوور اور وکٹوریہ کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لئے بھی سہولیات موجود ہیں۔ کراس کنٹری سائیکلنگ کے مقابلے بھی کئی سالوں سے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ جوں جوں پہاڑوں پر نت نئی سائیکلوں کے لئے ٹریک بنتے جا رہے ہیں، وہ لوگ اس طرف زیادہ متوجہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرین کے پرانے ٹریکوں کو ہائیکنگ، بائیکنگ اور کراس کنٹری سکیئنگ کے لئے تبدیل اور مختص کر دیا گیا ہے۔

بہت سارے باشندے گھڑ سواری کو بھی پسند کرتے ہیں۔ خوبصورت علاقوں میں گھوڑے پر بیٹھ کر سیر کرنا بہت مقبول ہو چکا ہے۔

برٹش کولمبیا دیگر کھیلوں میں بہت اہم حصہ بنتا ہے جن میں گالف، ٹینس، فٹ بال، ہاکی، کینیڈین فٹ بال، رگبی یونین، سافٹ بال، باسکٹ بال، کرلنگ اور فگر سکیٹنگ وغیرہ۔ برٹش کولمبیا کے بہت سے کھلاڑی بالخصوص آبی اور سرمائی کھیلوں کے کھلاڑی مشہور بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل ائیروبکس اور ہاتھا یوگا بھی بہت مشہور ہو رہے ہیں۔ چند ہزار سے زیادہ آبادی والے علاقوں کے پاس کھلیوں کے لئے اپنی سہولتیں ہیں۔

بڑھتی ہوئی سیاحت اور مختلف النوع کھیلوں میں مقامی لوگوں کی شمولیت کے باعث لاجوں، کیبنوں، بستر اور ناشتے، موٹیل، ہوٹل، فشنگ کیمپ اور پارک کیمپوں کی تعداد موجودہ دہائیوں میں بہت بڑھی ہے۔

مخصوص علاقوں میں کاروباری، غیر منافع بخش سوسائیٹیوں یا میونسبل گورنمنٹ ماحولیاتی سیاحت کو بڑھانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ برٹش کولمبیا کے بہت سارے کسان سیاحوں کو سیاحت کے ساتھ ساتھ فارم پر کام کرنے کا بھی موقع دیتے ہیں۔


تفریحی گانجا/میری جوانا

2004 میں یونیورسٹی آف وکٹوریہ سینٹر فار ایڈکشن ریسرچ آف برٹش کولمبیا اور سیمون فریزر یونیورسٹی اپلائیڈ ریسرچ آن مینٹل ہیلتھ اینڈ ایڈکشنز کی طرف سے کئے جانے والے ایک مطالعے نے ظاہر کیا ہے کہ برٹش کولمبیا والے گانجے کا استعمال کینیڈا کے دیگر باشندوں کی نسبت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ جو کہ جولائی 2007 میں شائع ہوئی، نے کیوبیک کو زیادہ گانجا استعمال کرنے والا صوبہ شمار کیا ہے۔ کیوبیک میں اوسطاً 15٫8 فیصد افراد گانجا استعمال کرتے ہیں جبکہ کینیڈا میں یہ شرح 14٫1 فیصد ہے۔ اس وجہ سے کینیڈا ترقی یافتہ ممالک میں گانجے کے استعمال میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ برٹش کولمبیا میں گانجا کاشت بھی ہوتا ہے اور کل کینیڈا کی گانجے کی کاشت کا 40 فیصد حصہ یہیں پیدا ہوتا ہے۔ نقشہ


علاقائی اضلاع

برٹش کولمبیا کی انتظامی بنیاد 28 علاقائی اضلاع پر مشتمل ہے۔


شہر

برٹش کولمبین کی نصف تعداد گریٹر وینکوور ریجنل ڈسٹرکٹ میں رہتی ہے جس میں وینکوور، سرے، نیو ویسٹ منسٹر، ویسٹ وینکوور، نارتھ وینکوور (شہر)، نارتھ وینکوور (ڈسٹرکٹ میونسپلٹی)، برنابے، کوکتلم، پورٹ کوکتلم، میپل رج، لانگلے (شہر)، لانگلے (ڈسٹرکٹ میونسپلٹی)، ڈیلٹا، پٹ میڈوز، وائٹ راک، رچمنڈ، پورٹ موڈی، انمور، بیلکارا، لائنز بے اور بوئن آئی لینڈ شامل ہیں۔ سترہ مزید قدیم ریزرو اور غیر استعمال شدہ ریجنل ڈسٹرکٹ الیکٹورل ایریا جسے گریٹر وینکوور الیکٹورل ایریا اے کا نام دیا جاتا ہے، بھی شامل ہیں۔

برٹش کولمبیا کی دوسری بڑی آبادی ویکنوور جزیرے کے جنوبی سرے پر واقع ہے جو کہ تیرہ میونسپلٹیوں سے مل کر بنی ہے۔ وینکوور آئی لینڈ کی نصف آبادی وینکوور شہر میں رہتی ہے۔


جنگلی حیات

صوبہ بہت حد تک جنگلی یا نیم جنگلی ہے۔ یہاں موجود بے شمار دودھ پلانے والے جانور ایسے ہیں جو امریکہ میں تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ مختلف انواع کے جانوروں بالخصوص پرندوں کا مشاہدہ کرنا کافی عرصے سے مقبول مشغلہ بنا ہوا ہے۔ ریچھ (گرزلی، کالے اور کرموڈ ریچھ جو کہ صرف برٹش کولمبیا میں پائے جاتے ہیں) یہاں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ہرن، ایلک، موز، کیری بو، بڑے سینگوں والی بھیڑ، پہاڑی بکریاں، مارموٹ، بی ور، مسکرات، کائیوٹی، بھیڑیئے، مسٹیلائڈ (جیسا کہ ولورین، بجو اور فشر)، پہاڑی شیر یعنی پوما، عقاب، سفید کونج، کینیڈا کی بطخیں، سوان، لون، شکرے، الو، کوے اور بہت سی اقسام کی مرغابیاں بھی یہاں رہتی ہیں۔ چھوٹے پرندے (مثلاً روبن، جیز، گروس بیک، چکاڈیس وغیرہ) بکثرت ہیں۔

یہاں پانیوں میں بہت سی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں (جن میں سامن، ٹراؤٹ، چار وغیرہ شامل ہیں)۔ سامن اور ٹراؤٹ کے علاوہ شکاریوں نے ہالی بٹ، سٹیل ہیڈ، باس اور سٹرجین بھی پکڑی ہیں۔ ساحل پر بندرگاہوں کی سیلیں اور دریائی اود بلاؤ بھی عام ہیں۔ وہیلوں میں سے اورکا، گرے وغیرہ اور مختلف اقسام کی ڈولفنیں بھی شامل ہیں۔


معدومیت کے خطرے کا شکار انواع

برٹش کولمبیا میں معدومیت کے خطرے کی شکار انواع میں وینکوور آئی لینڈ مارموٹ، دھبے دار الو، سفید پیلی کن اور بجو شامل ہیں۔


متعارف کردہ انواع

برٹش کولمبیا میں متعارف کرائی گئی انواع: کامن ڈینڈیلیون، رنگ نیکڈ فیزنٹ، پیسیفک اوئسٹر، بھوری ٹراؤٹ، کالا گھونگھا، یورپی سٹارلنگ، کئو برڈ، نیپ ویڈ، بل فراگ، جامنی لوز سٹریف، سکاچ بروم، یورپی ائیر وگ، ٹینٹ کیٹر پلر، سنو بگ، سرمئی گلہری، ایشیائی لمبے سینگ والا بیٹل، انگریزی آئیوی، فالو ہرن، تھسل، گورز، ناروے چوہا، کرسٹڈ مینا اور یورپی یا ایشیائی جسپی پتنگا شامل ہیں۔ پہاڑی ماونٹین بیٹل نے حال ہی میں صوبے کے شمالی علاقوں کے جنگلات میں تباہی مچا دی ہے۔ سپروس بگ بھی انہی علاقوں میں ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
 

ابوشامل

محفلین
قیصرانی بھائی! آپ کے کینیڈا کے بارے میں مضامین بہت معلومات کا خزانہ ہیں اور بلاشبہ اردو میں کینیڈا کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات کے حامل ہیں۔
لیکن ان میں ایک کمی ہے حضور! :) لنکس اور تصاویر کی۔ مجھے اگر موقع ملا تو کسی دن ان مضامین میں شامل کردوں گا، آپ کو زحمت دینا اچھا نہیں لگتا۔
بہت شکریہ وکیپیڈیا کے لیے ان خدمات کا۔ جزاک اللہ
 

قیصرانی

لائبریرین
میں ابھی اردو وکی پیڈیا کے کوڈز سے اتنا واقف نہیں‌ہوا۔ اس وجہ سے کچھ کام ناظمین کو متحرک رکھنے کے لئے چھوڑ‌دیتا ہوں‌:(
 

قیصرانی

لائبریرین
نووا سکوشیا

نووا سکوشیا

نووا سکوشیا کینیڈ اکا ایک صوبہ ہے جو کینیڈا کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اٹلانٹک کینیڈا کا یہ سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا صوبہ ہے۔ اس کا دارلخلافہ ہیلی فیکس ہے جو علاقے کا اہم معاشی مرکز ہے۔ نووا سکوشیا کینیڈا کا دوسرے نمبر پر سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ اس کا کل رقبہ 55287 مربع کلومیٹر ہے۔اس کی کل آبادی 935962 افراد ہے۔ یہ کینیڈا کا چوتھا کم آبادی والااور دوسرا گنجان ترین آباد صوبہ بھی ہے۔

نووا سکوشیا کی معیشت کا انحصار قدرتی ذرائع پر ہے تاہم بیسویں صدی کے دوران اس میں تبدیلی بھی آئی ہے۔ ماہی گیری، کان کنی، جنگلات اور زراعت آج بھی اہم ہیں تاہم سیاحت، ٹیکنالوجی، فلم، موسیقی اور فنانس جیسے شعبے بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

صوبے میں میکماق قوم کے کئی علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ قوم سارے میری ٹائم صوبوں ، مین، نیو فاؤنڈ لینڈ اور گاسپی جزیرہ نما پر قابض تھی۔ نووا سکوشیا پر اس وقت بھی میکماق لوگ موجو د تھے جب یورپی لوگ یہاں آباد ہونے آئے۔ 1604 میں یہاں پورٹ رائل پر فلوریڈا کے شمال میں فرانسیسی کالونی قائم ہوئی جسے اب اکاڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1713 سے 1760 کے درمیان برطانیہ نے اس علاقے پر قبضہ کر لیااور ہیلی فیکس کو 1749 میں صدر مقام بنایا۔ 1867 میں نووا سکوشیا کینیڈا کے الحاق کے بانی ممبران میں سے ایک بنا۔ دیگر اراکین میں نیو برنزوک اور کینیڈا کا صوبہ شامل ہیں۔ کینیڈا کا صوبہ درحقیقت موجودہ دور کے کوبیک اور اونٹاریو پر مشتمل تھا۔

جغرافیہ

صوبے کی مین لینڈ نووا سکوشیا کے جزیرہ نما پر مشتمل ہے جس کے اطراف میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ یہاں بے شمار خلیجیں بھی موجود ہیں۔ نووا سکوشیا میں کسی بھی جگہ سمندر 67 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں۔ کیپ بریٹن آئی لینڈ جو نوواسکوشیا کی مین لینڈ سے شمال مشرق میں ہے، بھی صوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح سیبل آئی لینڈ جو جہاز توڑنے کی صنعت کا مرکز ہے، صوبے کے جنوبی ساحل سے 175 کلومیٹر دور ہے۔ نووا سکوشیا رقبے کے اعتبار سے کینیڈا کا دوسرا چھوٹا صوبہ ہے۔ نووا سکوشیا کو کینیڈا کا انتہائی جنوبی صوبہ بھی کہتے ہیں۔

موسم
نووا سکوشیا معتدل آب و ہوا والی جگہ پر موجود ہے۔ چونکہ صوبہ تقریباً ہر طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے،اس کا موسم میری ٹائم بجائے کانٹی نینٹل ہے۔ کانٹی نینٹل آب و ہوا میں درجہ حرارت کی شدت کو سمندر معتدل بناتا رہتا ہے۔

نووا سکوشیا کے موسم پر سمندر کا گہرا اثر ہے اور صوبے میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر بھی سمندر کی شکل بنی ہوئی ہے۔ یہاں موسم سرما نسبتاً سرد اور گرمیاں گرم تر ہوتی ہیں۔ صوبے کے اطراف یعنی شمال میں سینٹ لارنس کی خلیج، مغرب میں خلیج فنڈی اور جنوب اور مشرق میں بحر اوقیانوس ہیں۔

جنوب میں 140 سینٹی میٹر اور دیگر حصوں میں سالانہ بارش 100 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ نووا سکوشیا میں دھند بھی کثرت سے پڑتی ہے اور دارلخلافہ ہیلی فیکس میں سالانہ 196 دن اور یار ماؤتھ میں سالانہ 191 دن دھند کی نظر ہوتے ہیں۔

سالانہ اوسط درجہ حرارت کچھ ایسے ہوتے ہیں
بہار، 1 سے 17 ڈگری سینٹی گریڈ
گرما، 14 سے 39 ڈگری سینٹی گریڈ
خزاں، 5 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ
سرما، منفی 21 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ

نووا سکوشیا پر سمندر کے اثر کی وجہ سے یہ صوبہ کینیڈا کا گرم ترین صوبہ ہے۔ نووا سکوشیا میں زیادہ شدید درجہ حرارت نہ ہونے، تاخیر سے اور لمبی گرمیاں، اکثر ابر آلود موسم، سمندری دھند اور روز بروز بدلتا موسم کا موسم بہت بدلتا رہتا ہے۔ نووا سکوشیا کے موسم کی درج ذیل چار وجوہات ہو سکتی ہیں
مغربی ہواؤں کا اثر
تین مختلف ہوائی نظاموں کا ملاپ جو مشرقی ساحل پر ہوتا ہے
نووا سکوشیا کا محل وقوع جو مشرق کی طرف چلنے والی ہواؤں کے راستے میں ہے

سمندر کا اثر

چونکہ نووا سکوشیا بحر اوقیانوس کے بالکل ساتھ ہی ہے اس لئے یہاں استوائی طوفان اور ہری کین گرمیوں اور خزاں میں آتے رہتے ہیں۔ 1871 سے اب تک یہاں تقریباً ہر چار سال میں ایک طوفان ضرور آیا ہے۔آخری بار یہاں درجہ دو کا طوفان ہری کین جوان ستمبر 2003 میں آیا تھا۔ آخری استوائی طوفان نوئل 2007 میں آیا تھا۔

تاریخ

تقریباً 11 ہزار سال قبل پیلو انڈین لوگوں نے موجودہ دور کی نووا سکوشیا کے علاقے میں سکونت اختیار کی۔ آرچیاک انڈین لوگ یہاں ایک ہزار سے 5 ہزار سال قبل تک آبا درہے۔ میکماق جو یہاں اس صوبے اور پورے ملک کے آبائی قبائل ہیں، ان لوگوں کے براہ راست وارث ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وائی کنگ بحری قزاق یہاں کچھ عرصہ آباد رہے تاہم اس بارے کم ہی ثبوت ملتے ہیں۔ اس بارے تاریخ دان بھی متفق نہیں۔ شمالی امریکہ میں وائی کنگ لوگوں کی مصدقہ آبادی صرف لانس آوکس کے سبزہ زاروں میں تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وائی کنگ لوگ اس جگہ کو کرسٹوفر کولمبس سے بھی 500 سال قبل دریافت کر چکے تھے۔

1497 میں اطالوی مہم جو جان کابوٹ یہاں موجودہ دور کے کیپ بریٹن کا چکر لگا چکا تھا تاہم اس کے لنگر انداز ہونے کی جگہ کے بارے کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ نووا سکوشیا میں پہلی یورپی آبادی 1604 میں قائم ہوئی۔ اسی سال فرانسیسیوں نے پیرے ڈگوا سیور ڈی مونٹس کی قیادت میں اکاڈیا کا پہلا دارلخلافہ پورٹ رائل پر بنایا۔ یہ جگہ اناپولس بیسن کے منبع پر ہے۔ فرانسیسی مچھیروں نے کانسو میں اسی سال اپنی آبادی قائم کی۔

1620 میں پلائی ماؤتھ کونسل فار نیو انگلینڈ نے کنگ جیمز اول برائے انگلینڈ اور ششم آف سکاٹس نے یہ اعلا ن کیا کہ اکاڈیا کا سارا ساحل اور بحر اوقیانوس کی کالونیاں جو چیساپیک بے کے جنوب میں تھیں، سب کی سب نیو انگلینڈ ہیں۔ سکاٹش لوگوں کی پہلی آبادی کا تحریری ثبوت یہ بتاتا ہے کہ یہ لوگ یہاں 1621 میں براعظم شمالی امریکہ میں آباد ہوئے۔ 29 ستمبر 1621 کو کالونی کا چارٹر آف فاؤنڈیشن جیمز چہارم نے ویلم الیگزینڈر جو کہ پہلے ارل آف سٹرلنگ تھے، کو پیش کیا۔ 1622 میں اولین آبادکار سکاٹ لینڈ سے روانہ ہوئے۔ ہنر مند افراد کی کمی کے باعث یہ آبادکاری ناکام ہو گئی اور 1624 میں جیمز چہارم نے ایک اور نیا اعلان جاری کیا۔ اس اعلان کی منظوری کے لئے ولیم الیگزیندر کی خدمت میں یا تو چھ پوری طرح سے مسلح اور تندرست و توانا مزدور پیش کئے جاتے یا پھر تین سو مرک کی ادائیگی کافی رہتی۔ چھ ماہ تک کسی نے بھی جیمز کی پیش کش کو قبول نہیں کیا حتٰی کہ جیمز کو خود سے لوگوں کو جانے پر مجبور کرنا پڑا۔

1627 میں لوگوں کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور زیادہ لوگ نووا سکوشیا جانے کے لئے تیار ہونے لگے۔ تاہم 1627 میں فرانس اور انگلینڈ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ فرانسیسیوں نے دوبارہ سے پورٹ رائل پر اپنی آبادی دوبارہ قائم کی۔ بعد ازاں اسی سال سکاٹش اور انگریز فوج نے اکٹھا ہو کر فرانسیسی آبادی کو تہس نہس کر دیا اور انہیں نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ 1629 میں پورٹ رائل پر پہلی سکاٹش آبادی قائم ہوئی۔ کالونی کے چارٹر نے قانونی طور پر نووا سکوشیا کو سکاٹ لینڈ کے مین لینڈ کا حصہ قرار دیا۔ تاہم 1631 میں کنگ چارلس اول کے ماتحت سوزا کی ٹریٹی ہوئی جس نے نووا سکوشیا کو واپس فرانس کے حوالے کر دیا۔ سکاٹش لوگوں کو چارلس نے کالونی مستحکم ہونے سے قبل ہی اسے خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ فرانسیسیوں نے میکماق اور دیگر قبائل کے علاقوں کا قبضہ سنبھال لیا۔

1654 میں کنگ لوئز چودہ آف فرانس نے نواب کولس ڈینی کو اکاڈیا کا گورنر مقرر کر کے اسے تمام ضبط شدہ زمینیں اور وہاں موجود معدنیات کے حقوق بھی دے دیئے۔ کنگ ولیم کی جنگ کے دوران برطانویوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا لیکن برطانیہ نے جنگ کے اختتام پر ریسوک کی ٹریٹی کے تحت یہ علاقہ دوبارہ فرانس کے حوالے کر دیا۔ ملکہ این کی جنگ کے دوران یہ علاقہ برطانیہ کی وفادار فوج کے قبضے میں لے لیا اور اس پر اٹرچٹ کی 1713 کی ٹریٹی کے تحت قبضہ برقرار رکھا۔ فرانس نے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ اور کیپ برٹن آئی لینڈ کا قبضہ سنبھالے رکھا اور لوئیز برگ پر قلعہ بھی بنایا تاکہ سمندر سے آنے والے کیوبک کے راستے کا نظم و نسق سنبھالا جا سکے۔ امریکی کالونی کے دستوں نے اس پر قبضہ کیا تاہم برطانیہ نے اسے پھر فرانس کے حوالے کر دیا۔ مگر 1755 کی فرنچ اینڈ انڈین جنگ کے دوران یہ علاقہ پھر اپنے قبضے میں لے لیا۔

1713 میں نووا سکوشیا کی مین لینڈ برطانوی کالونی بنی۔ اگرچہ سیموئل وچ کے اکتوبر 1710 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط نہ کر سکا۔ برطانوی افسروں کو اکاڈیا کی آبادی کی اکثریت پر اعتراض تھا جو فرانسیسی نژاد اور رومن کیتھولک تھی۔ یہ لوگ کنگ جارج کو یا برطانوی بادشاہت کو سچے دل سے نہیں مانتے تھے۔ ہیلی فیکس کو دارلخلافہ بنائے جانے کے باوجود بھی یہاں اکاڈین کی اکثریت باقی رہی۔ تاہم یہاں بیرونی پروٹسٹنٹ بھی لونن برگ سے 1753 میں ادھر منتقل ہوئے۔ ان نئے لوگوں کی تعداد میں کچھ فرانسیسی اور سوئس تھے تاہم جرمنوں کی اکثریت تھی۔ 1755 میں برطانیہ نے بارہ ہزار اکاڈین کو زبردستی بے دخل کر دیا۔ اس واقعے کو عظیم انخلا کہا جاتا ہے۔

اسی وقت ہی تاج برطانیہ نے اس طرح زمین تقیسم کرنا شروع کی جس سے یہاں کی تجارت کی اکثریت برطانیہ کے ساتھ ہی ہو۔ مثلاً جون 1764 میں بورڈ آف ٹریڈ نے شاہی وفاداروں کو بڑی مقدار میں زمینیں عطا کیں۔ ان میں تھامس پاونل، رچرڈ اوسوالڈ، ہمفرے براڈ سٹریٹ، جان وینٹ ورتھ، تھامس تھوروٹن اور لندن کے بیرسٹر لیوٹ بلیک بورن شامل ہیں۔ دو سال بعد 1766 میں لیوٹ بلیک بورن کے گھر ایک ملاقات میں ڈیوک آف رٹلینڈ کے مشیر، اوسوالڈ اور اس کے دوست جیمز گرانٹ جو ان کی نووا سکوشیا میں ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا تاکہ وہ برطانوی مشرقی فلوریڈا پر اپنی توجہ مرکوز کر سکیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ کالونی کی حدود بدلتی رہیں۔ نووا سکوشیا کو 1754 میں سپریم کورٹ ملی جس کے لئے جوناتھن بیلچر کو تعنیات کیا گیا۔ 1758 میں اپنی قانون ساز اسمبلی بھی دی گئی۔ 1763 میں کیپ بریٹن آئی لینڈ نووا سکوشیا کا حصہ بن گیا۔ 1769 میں سینٹ جانز آئی لینڈ جو موجودہ دور کا پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ ہے، الگ کالونی بن گیا۔ سن بری کی کاؤنٹی کو 1765 میں بنایا گیا اور اس میں موجودہ دور کی تمام نیو برنزوک اور مشرقی مین پینوبسکاٹ دریا تک بھی اس کا حصہ بنائی گئیں۔ 1784 میں کالونی کا مغربی بڑا حصہ الگ کر کے اسے نیو برنزوک کا صوبہ بنا دیا گیا۔ مین والا حصہ نئی امریکی ریاست میسا چوسٹس کو ملا۔ کیپ بریٹین کو 1784 میں الگ کالونی بنایا گیا تاکہ اسے نووا سکوشیا کو 1820 میں واپس کیا جا سکے۔

نصف سے زیادہ نوواکوشین لوگوں کے آباؤ اجداد یہاں اکاڈین لوگوں کے انخلاٗ کے دوران آئے۔ 1759 سے 1768 تک 8000 کاشتکاروں نے گورنر چارلس لارنس کی یہاں آباد ہونے کی درخواست کو قبول کیا۔ کئی سال بعد امریکہ کے ہاتھوں برطانیہ کی شکست کے بعد تیس ہزار ٹوری یعنی برطانوی وفادار امریکہ سے ہجرت کر کے ادھر آباد ہوئے۔ ان دنوں نووا سکوشیا کینیڈا کے میری ٹائم علاقوں پر مشتمل تھا۔ ان میں سے چودہ ہزار نیو برنزوک گئے اور سولہ ہزار موجودہ دور کی نووا سکوشیا کو اپنا نیا گھر بنانے میں لگ گئے۔ ان میں سے تین ہزار افراد سیاہ فام بھی تھے جن میں سے ایک تہائی جلد ہی 1792 میں سیرالیون چلے گئے۔ یہ لوگ فری ٹاؤن کے اصل آباد کار بن گئے۔ ان لوگوں کی روانگی کمیٹی فار ریلیف آف دی بلیک پوور کے تحت ہوئی۔ ہائی لینڈ سکاٹس جو گیلک بولتے تھے، کیپ بریٹن اور دیگر مغربی حصوں میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران ہجرت کر کے آئے ۔ ان میں سے ایک ہزار افراد السٹر سکاٹ تھے جو وسطی نووا سکوشیا میں آباد ہوئے اور ہزار سے زیادہ کسان مہاجرین جو کہ یارکشائر اور نارتھمبر لینڈ سے 1772 اور 1775 کے دوران یہاں آئے۔

نووا سکوشیا برطانوی شمالی امریکہ اور برطانوی سلطنت کی پہلی نو آبادی تھی جسے خود مختار حکومت جنوری فروری 1848 میں دی گئی۔ اسے یہ درجہ جوزف ہوئے کی کوششوں سے ملا۔ 1867 میں الحاق کے حامی پریمئر چارلس ٹپر نے نووا سکوشیا اور نیو برنزوک کو کینیڈا کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

1868 کے انتخابات میں الحاق کی مخالف جماعت نے وفاقی سطح پر 19 میں سے 18 اور صوبائی سطح پر 38 میں سے 36 نشستیں جیتیں۔ سات سال تک ولیم آنند اور جوزف ہوئے نے برطانوی شاہی خاندان سے نووا سکوشیا کی کینیڈا سے علیحدگی کی لاحاصل کوششیں جاری رکھیں۔ حکومت الحاق کی سختی سے مخالفت کرتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ الحاق کا مقصد محض کینیڈا کے صوبے پر اپنا تسلط جمائے رکھنے کی برطانوی کوشش ہے:

"۔۔۔ (الحاق کی) سکیم کا مقصد بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ (نووا سکوشیا کے) لوگوں کو خود مختار حکومت سے، ان کے حقوق سے، آزادی، خودمختاری، ان کی آمدنیوں سے،تجارت اور ٹیکسوں کے حقوق لوٹ کر انہیں ایسی وفاقی مقننہ کے حوالے کرنا ہے جس پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہوگا اور جہاں ان کی نمائندی کرنے والا کوئی نہیں، انہیں ان کی بے انتہا ماہی گیری، ریلوں اور دیگر اثاثوں سے محروم کیا جائے گا اور وہ ایک خوش، آزاد اور خودمختار صوبے کی بجائے کینیڈا کا محض ایک صوبہ بن کر رہ جائیں گے۔"

-یہ تقریر حکومت نے تاج برطانیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔

1868 میں نووا سکوشیا کے ہاؤس آف اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی جس میں انہوں نے الحاق کی مخالفت کی۔ 1880 کی دہائی کی یہ مخالفت اب کھلم کھلا شروع ہو چکی تھی اور 1920 کی دہائی میں میری ٹائم کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی۔ کچھ علاقوں میں نووا سکوشیا کے جھنڈے ڈومینن ڈے پر سرنگوں رہے۔

آبادی

2001 کے کینیڈا کی مردم شماری کے تحت یہاں سب سے زیادہ تعداد سکاٹش لوگوں کی ہے جو انتیس اعشاریہ تین فیصد تھے۔ انگریز لوگ اٹھائیس اعشاریہ ایک فیصد، آئرش انیس اعشاریہ نو، فرانسیسی سولہ اعشاریہ سات، جرمن دس فیصد، ولندیزی یعنی ڈچ تین اعشاریہ نو فیصد، قدیم اقوام تین اعشاریہ دو فیصد، ویلش ایک اعشاریہ چار فیصد، اطالوی ایک اعشاریہ تین فیصد، اکاڈین ایک اعشاریہ دو فیصد تھے۔ سینتالیس اعشاریہ چار فیصد لوگوں نے خود کو کینیڈین ظاہر کیا۔

زبانیں

2006 کی کینیڈا کی مردم شماری کے تحت یہاں کی کل آبادی 913462 افراد تھی۔ ان میں سے 899270 افراد نے ایک زبان کو مادری کہا۔ نتائج کے مطابق انگریزی والے افراد کل تعداد کا بانوے اعشاریہ تریپن فیصد تھے۔ فرانسیسی زبان کو تین اعشاریہ باسٹھ فیصد افراد نے چنا۔ عربی، میکماق، جرمن، چینی، ڈچ، پولش، ہسپانوی، یونانی، اطالوی ، کورین اور گیلک زبانوں میں سے ہر ایک کو بولنے والے افراد کی تعداد ایک ایک فیصد سے کم تھی۔

مذہب

2001 کی مردم شماری کے تحت یہاں رومن کیتھولک افراد کی تعداد کل آبادی کا 37 فیصد ہے۔ یونائٹڈ چرچ آف کینیڈا کےمانے والے سولہ فیصد جبکہ اینگلیکن چرف آف کینیڈا کو تیرہ فیصد افراد مانتے ہیں۔

معیشت

نووا سکوشیا کی معیشت میں روایتی طور پر زیادہ تر حصہ قدرتی ذرائع کا ہے تاہم اب اس میں تبدیلی آ رہی ہے۔

نووا سکوشیا میں قدرتی ذرائع بکثرت موجود ہیں۔ سکوشین شیلف میں مچھلیوں کی بے انتہا تعداد ہے۔17ویں صدی میں فرانسیسیوں کی طرف سے ترویج دیئے جانے کے بعد سے ماہی گیری یہاں صوبے کی معیشت کا اہم ستون تھی۔ 20ویں صدی کے اختتام پر حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑے جانے کی بنا پر اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1992 میں کاڈ مچھلی کی تعداد میں انتہائی کمی اور شکار پر پابندی کی وجہ سے یہاں 20000 ملازمتیں ختم ہوئی ہیں۔

2005 میں فی کس آمدنی 31344 ڈالر سالانہ تھی جو کینیڈا کی اوسط فی کس آمدنی سے تقریباً تین ہزار ڈالر کم اور کینیڈا کے امیر ترین صوبے یعنی البرٹا سے نصف تھی۔
کان کنی یہاں کی اہم صنعت ہے اور یہاں جپسم، نمک اور بیریٹ نکلتا ہے۔ 1991 سے اب تک گہرے سمندر میں تیل اور گیس بھی معیشت کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ زراعت ابھی بھی صوبے کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ نووا سکوشیا کے وسط میں لمبر اور کاغذ کی صنعتیں بھی ملازمتوں کے لئے اہم ہیں۔

نووا سکوشیا کی سیاحت کی صنعت میں 6500 براہ راست اور 40000 بالواسطہ ملازمتیں ہیں۔

حکومت اور سیاست

نووا سکوشیا کی حکومت پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ اس کی یک ایوانی مقننہ باون اراکین پر مشتمل ہے۔ اسے نووا سکوشیا ہاؤس آف اسمبلی کہا جاتا ہے۔ کینیڈا کی سربراہ ملکہ الزبتھ دوم نووا سکوشیا کی ایگزیکٹو کونسل کی بھی سربراہ ہیں۔ یہ کونسل صوبائی حکومت کی کابینہ کا کام کرتی ہے۔ ملکہ کی ذمہ داریاں ان کی جگہ لیفٹینٹ گورنر سرانجام دیتا ہے۔ حکومت کا سربارہ پریمئر روڈنی میک ڈونلڈ ہیں جنہوں نے 22 فروری 2006 کو عہدہ سنبھالا۔ ہیلی فیکس میں مقننہ اور لیفٹینٹ گورنر کے دفاتر ہیں۔

صوبائی آمدنی کا بڑا حصہ افرادی اور تجارتی سطح پر لگائے گئے ٹیکس ہیں۔تمباکو اور شراب پر بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ اٹلانٹک لاٹری کارپوریشن میں بھی صوبے کے حصص ہیں اور تیل اور گیس کی رائلٹی سے بھی معقول آمدنی ہوتی ہے۔ 2006 اور 2007 کے مالی سال کے لئے صوبے کا بجٹ چھ اعشاریہ نو ارب ڈالر تھا جس میں اندازاً سات کروڑ بیس لاکھ کی رقم اخراجات سے زیادہ تھی۔ وفاق سے ملنے والی آمدنی ایک ارب اڑتیس کروڑ پچاسی لاکھ ڈالر ہے جو صوبائی آمدنی کا بیس فیصد ہے۔ اگرچہ کئی سالوں سے نووا سکوشیا کا بجٹ مناسب ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ سے کل بجٹ کا خسارہ یا قرضہ جات اب بارہ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ نتیجتاً کل آمدنی کا بارہ فیصد حصہ ان قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ صوبے کو وفاقی جی ایس ٹی میں سے ایچ ایس ٹی کا حصہ ملتا ہے۔

نووا سکوشیا میں تین بار ایسی حکومتیں بنی ہیں جو دیگر پارٹیوں کی حمایت سے اکثریت حاصل کرسکی تھیں۔ اس کی وجہ نووا سکوشیا میں انتخابی حلقوں کی کچھ اس طرح سے تقسیم ہے کہ کسی ایک جماعت کے لئے اکثریت حاصل کرنا کافی مشکل ہے۔نووا سکوشیا مین لینڈ کے دیہات پروگریسو کنزرویٹو جبکہ ہیلی فیکس کی میونسپلٹی کی تمام تر حمایت نیو ڈیمو کریٹس کے پاس ہے۔ کیپ بریٹن زیادہ تر لبرل کو ووٹ دیتاہے تاہم چند یاک پروگریسو کنزرویٹو اور نیو ڈیمو کریٹ بھی چنے جا سکتے ہیں۔اس طرح تین مختلف جماعتوں کو تقریباً یکساں ووٹ ملتے ہیں۔

پچھلے انتخابات 13 جون 2006 کو ہوئے تھے جن میں پروگریسو کنزرویٹو کو 23، نیو ڈیمو کریٹ کو 20 اور لبرل کو 9 نشستیں ملیں۔

نووا سکوشیا میں اب کوئی بھی ان کارپوریٹڈ شہر نہیں، انہیں 1996 میں ریجنل میونسپلٹی بنا دیا گیا ہے۔ ہیلی فیکس جو کہ صوبائی دارلخلافہ ہے، اب ہیلی فیکس ریجنل میونسپلٹی بن گیا ہے اسی طرح صوبے کا دوسرا بڑا شہر ڈار ماؤتھ ہے۔ سڈنی کا پرانا شہر اب کیپ بریٹن ریجنل میونسپلٹی کا حصہ ہے۔

2004 میں ہاؤس آف اسمبلی نے ایک قرار داد کی منظوری دی تاکہ ٹرکس اینڈ کایکوس کے کیریبئن جزائر اگر کینیڈا سے الحاق کرنے کے خواہش مند ہوں تو انہیں قبول کیا جا سکے۔

تعلیم

وزیر تعلیم صوبے میں تعلیم کی فراہمی کا ذمہ دار ہوتا ہے جیسا کہ تعلیمی ایکٹ اور سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور پرائیوٹ سکولوں سے متعلق ایکٹوں میں بیان کیا گیا ہے۔ وزیر اور محکمہ تعلیم کے اختیارات کو گورنر ان کونسل ریگولیشن کے تحت کنٹرول کئے جاتے ہیں۔

نووا سکوشیا میں بچوں کے لئے 450 سے زائد سکول ہیں۔ پبلک سکول بارہویں جماعت تک تعلیم دیتے ہیں۔ صوبے میں کچھ پرائیوٹ سکول بھی ہیں۔تعلیم عامہ سات علاقائی ریجنل سکول مہیا کرتے ہیں جو انگریزی اور فرانسیسی میں تعلیم کے ذمہ دار ہیں۔ نووا سکوشیا کمیونٹی کالج کے صوبے میں تیرہ کیمپس ہیں۔ کمیونٹی کالج تربیت اور تعلیم پر زور دیتا ہے اور اسے 1988 میں صوبے کے دیگر ووکیشنل سکولوں کو اس میں ضم کر کے بنایا گیا۔

صوبے میں بارہ یونیورسٹیاں اور کالج ہیں جنمیں ڈلہوزی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کنگز کالج، سینٹ میری یونیورسٹی ہیلی فیکس، ماؤنٹ سینٹ ونسنٹ یونیورسٹی، نووا سکوشیا کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن، اکاڈیا یونیورسٹی، یونیورسٹی سینٹ اینے، سینٹ فرانکس زایور یونیورسٹی، نووا سکوشیا زرعی کالج، کیپ بریٹن یونیورسٹی اور اٹلانٹک سکول آف تھیولوجی شامل ہیں۔

انگریزی وکی پیڈیا سے اردو وکی پیڈیا کے لئے ترجمہ و تلخیص شدہ
 

قیصرانی

لائبریرین
البرٹا

البرٹا کینیڈا کا ایک زرعی صوبہ ہے۔ اسے صوبے کا درجہ یکم ستمبر 1905 میں ملا۔

البرٹا مغربی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کے آس پاس مغرب کی طرف برٹش کولمبیا، مشرق میں ساسکچیوان، شمال میں نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری اور جنوب میں امریکی ریاست مونٹانا موجود ہیں۔ البرٹا ان تین کینیڈین صوبوں میں سے ایک ہے جن کی سرحدیں صرف ایک امریکی ریاست سے ملتی ہیں۔ دوسرے دو صوبے یوکون اور نیو برنزوک ہیں۔ ساسکچیوان اور البرٹا دونوں ہی کی سرحدیں سمندر سے نہیں ملتیں۔
البرٹا کا صدر مقام ایڈمنٹن ہے جو صوبے کی جغرافیائی مرکز سے تھوڑا سا جنوب میں ہے۔ اس سے تین سو کلومیٹر جنوب میں کیلگری کا مشہور شہر آباد ہے۔ کیلگری البرٹا کا سب سے بڑا شہر اور کینیڈا کے اہم تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔ ایڈمنٹن کینیڈا کے تیل کی صفائی اور دوسری شمالی صنعتوں کا مرکز ہے۔ موجودہ اندازوں کے مطابق ان دونوں شہروں کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں ریڈ ڈئیر، لتھ برج، میڈیسن ہٹ، فورٹ مکمری، گرانڈ پریری، کیمروز، لائڈز منسٹر، بروکس، وٹاسکیون، بینف، کولڈ لیک اور جیسپر ہیں۔

14 دسمبر 2006 سے اب تک صوبے کے پریمئر آنر ایبل ایڈ سٹیلمیچ ہیں جن کا تعلق پروگریسو کنزرویٹوز سے ہے۔

البرٹا کا نام پرنسس لوئز کیرولن البرٹا کے نام پر رکھا گیا ہے جو 1848 سے 1939 تک بقید حیات رہیں۔ یہ ملکہ وکٹوریا اور پرنس البرٹ کی بیٹی تھیں۔ پرنسس لوئز مارکوس آف لورن کی بیوی تھیں جو 1878 تا 1883 تک کینیڈا کے گورنر جنرل تھے۔ کیرولن کی بستی اور ماؤنٹ البرٹا کو انہی شہزادی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

جغرافیہ

البرٹا


البرٹا مغربی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کا کل رقبہ 661848 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ علاقہ ٹیکساس سے پانچ فیصد کم اور فرانس کے کل رقبے سے بیس فیصد زیادہ ہے۔ اس لئے کیوبیک، اونٹاریو اور برٹش کولمبیا کے بعد یہ کینیڈا کا چوتھا بڑا صوبہ کہلاتا ہے۔ جنوب میں صوبے کی سرحدیں امریکی ریاست مونٹانا سے، شمال میں نارتھ ویسٹ ریاست سے، مشرق میں ساسکچیوان سے اور مغرب میں برٹش کولمبیا سے ملتی ہیں۔

جنوب مشرقی علاقے کے سوا صوبے میں پانی کی کثرت ہے۔ البرٹا اپنے بے شمار دریاؤں اور جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تیراکی، واٹر سکی اینگ اور مچھلی کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر آبی کھیل بھی کھیلے جا سکتے ہیں۔ یہاں تین بڑی جھیلیں ہیں اور 260 مربع کلومیٹر سے چھوٹی بے شمار جھیلیں ہیں۔ جھیل اتھابسکا کا 7898 مربع کلومیٹر جتنا حصہ ساسکچیوان میں موجود ہے۔ جھیل کلائیر کا رقبہ 1436 مربع کلومیٹر ہے اور یہ جھیل اتھابسکا کے مغرب میں موجود ہے۔ یہ جھیل وڈ بفیلو نیشنل پارک میں واقع ہے۔ لیسر سلیو جھیل 1168 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور ایڈمنٹ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ البرٹا کا سب سے لمبا دریا دریائے اتھابسکا ہے جو 1538 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ دریا برٹش کولمبیا کے منجمد علاقے سے نکل کر راکی پہاڑوں سے ہوتا ہوا جھیل اتھابسکا میں جا گرتا ہے۔

البرٹا کا صدر مقام ایڈمنٹن ہے اور صوبے کے وسط سے تھوڑا سا جنوب میں ہے۔ یہاں کینیڈا کی زیادہ تر تیل کی صفائی کی ریفائنریاں موجود ہیں۔ کینیڈا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر بھی یہاں نزدیک ہی موجود ہیں۔ ایڈمنٹن کینیڈا کا سب سے بڑا شمالی شہر ہے۔ اس کے علاوہ یہ شمالی کینیڈا میں تعمیر و ترقی کے لئے راستے کا کام دیتا ہے۔ البرٹا کا ایک اور بڑا شہر کیلگری ایڈمنٹن سے 240 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اس کے چاروں طرف رینچوں کی کثرت ہے۔ صوبے کی 75 فیصد آبادی کیلگری ایڈمنٹن کی راہداری میں ان دونوں شہروں کے درمیان آباد ہے۔

صوبے کی شمالی نصف کا زیادہ تر حصہ بوریل جنگلات سے بھرا ہوا ہے جبکہ راکی پہاڑی سلسلے کی جنوب مغربی حدوں پر زیادہ تر جنگلات موجود ہیں۔ جنوبی کونا زرعی حوالے سے اہم ہے۔

البرٹا کی بنجر زمینیں جنوب مشرق میں ہیں جہاں ریڈ ڈئیر دریا پریری اور فارم لینڈ کے درمیان سے گذرتا ہے۔ دریا کے بہاؤ کی وجہ سے یہاں بے شمار کھائیاں اور عجیب و غریب کٹاؤ پیدا ہو گئے ہیں۔
کینیڈا میں البرٹا اور ساسکچیوان ہی وہ دو صوبے ہیں جن کی سرحدیں کسی سمندر سے نہیں ملتیں۔

موسم

البرٹا کا موسم کچھ اس طرح کا ہے کہ یہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے۔ شمال میں قطب شمالی تک یہ صوبہ کھلا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی سردیاں بہت سرد ہو جاتی ہیں۔ ہواؤں کے رخ میں تبدیلی کی وجہ سے یہاں کا درجہ حرارت اچانک بدل جاتا ہے۔ سردیوں میں کم از کم درجہ حرارت منفی 54 ڈگری سینٹی گریڈ شمال میں اور منفی 46 ڈگری سینٹی گریڈ جنوب میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گرمیوں میں پہاڑوں پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 32 ڈگری اور میدانوں میں 40 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔

چونکہ البرٹا شمال سے جنوب میں 1200 کلومیٹر طویل ہے، اس لئے اس کا موسم اسی حساب سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جنوری کے مہینے میں جنوب میں اوسط درجہ حرارت منفی 8 ڈگری اور شمال میں منفی 24 ڈگری رہتا ہے جبکہ جولائی میں جنوب کا درجہ حرارت 20 ڈگری اور شمال کا 16 ڈگری رہتا ہے۔ جنوب مغرب میں موسم راکی پہاڑوں کی وجہ سے بہت فرق ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں کی وجہ سے زیادہ تر مغربی ہوائیں یہاں پہنچنے سے قبل ہی بارشیں پیدا کر دیتی ہیں۔ صوبے کے شمالی محل وقوع اور سمندر سے دوری کی وجہ سے یہاں کا موسم معتدل نہیں ہوتا۔ یہاں جنوب میں سالانہ بارش کی مقدار 12 انچ اور شمال میں 18 انچ ہے۔ پہاڑی سلسلے کے دامن میں بارش 24 انچ سالانہ تک ہوتی ہے۔ گرمیوں میں راکی پہاڑی سلسلے کی وادیوں میں دن کا اوسط درجہ حرارت 21 ڈگری کے قریب اور جنوب مشرقی خشک حصے میں 30 ڈگری تک رہتا ہے۔ جنوب اور وسط مشرقی حصوں میں بارانی موسم رہتا ہے جو کئی کئی سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ تاہم یہاں کثرت سے بارشیں بھی ہو سکتی ہیں۔ البرٹا میں سورج زیادہ چمکتا ہے۔ یہاں سالانہ 1900 تا 2500 گھنٹے سورج کی روشنی رہتی ہے۔ شمالی البرٹا میں گرمیوں میں سورج اٹھارہ گھنٹے روزانہ چمکتا ہے۔

جنوب مغربی البرٹا میں سردیوں کے دوران اچانک موسم تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب گرم اور خشک چنیوک ہوائیں پہاڑوں سے چلتی ہیں جن کی وجہ سے کئی کئی دن تک درجہ حرارت سردیوں میں نقطہ انجماد سے اوپر رہ سکتا ہے۔ ایک بار پنچر کی کھائی میں انہی ہواؤں کی وجہ سے ایک گھنٹے میں درجہ حرارت منفی اٹھارہ اعشاریہ نو سے بدل کر تین اعشاریہ تین ڈگری ہو گیا۔ لتھ برج کے آس پاس کا علاقہ ان چینیوک ہواؤں سے زیادہ متائثر ہوتا ہے۔ یہاں سالانہ تیس سے پینتیس دن تک یہ ہوائیں رہتی ہیں۔ کیلگری میں کرسمس کے وقت برف کی موجودگی کا امکان 59 فیصد ہوتا ہے۔

شمالی البرٹا زیادہ تر بوریل جنگلات سے گھرا ہوا ہے اور یہاں سب آرکٹک موسم کی وجہ سے جنوب کی نسبت کم دن ایسے ہوتے ہیں جن میں یہاں کا درجہ حرارت صفر سے زیادہ ہو۔ جنوبی البرٹا کا موسم نیم بارانی ہوتا ہے کیونکہ یہاں پانی کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہی رہتی ہے۔ جنوب مشرقی کونے کو جسے پالسیر کی تکون کہا جاتا ہے، زیادہ سخت گرمیاں اور کم بارش ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہاں فصلوں کے پکنے میں اکثر مسئلہ رہتا ہے اور یہ علاقہ وقتاً فوقتاً شدید قحط سالی کا شکار بھی ہوتا رہتا ہے۔ مغربی البرٹا پہاڑوں کے سائے میں ہے اور وہاں درجہ حرارت نسبتاً معتدل رہتے ہیں۔ وسطی اور شمال مغربی حصوں دریائے پیس بہتا ہے جس کے ساتھ ساتھ اسپن پارک لینڈ موجود ہے۔ جنوبی اونٹاریو کے بعد وسطی البرٹا ہی کینیڈا کا وہ حصہ ہے جہاں ٹارنیڈو آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں طوفان بھی آتے ہیں جن میں سے کچھ کی نوعیت شدید ہوتی ہے۔ کیلگری اور ایڈمنٹن کی راہدری میں یہ طوفان زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں کینیڈا میں سب سے زیادہ ژالہ باری ہوتی ہے۔

تاریخ

البرٹا کا صوبہ 53 ڈگری شمال تک ہڈسن بے کمپنی کے وقت سے رپرٹس لینڈ کا حصہ تھا۔ شمال مغرب میں فرانسیسی کی 1731 میں آمد اور زرعی صوبوں میں آباد کاری کے بعد مختلف کمیونیٹیز پیدا ہوئیں۔ ان میں سے فورٹ لا جونکوئیر آج کے کیلگری کی جگہ 1752 میں بنایا گیا۔ نارتھ ویسٹ کمپنی آف مانٹریال نے ہڈسن بے کمپنی کی آمد سے قبل ہی البرٹا کی سرزمین کا شمالی حصہ اپنے قبضے میں لے لیا۔اتھابسکا علاقے کا پہلا مہم جو پیٹر پانڈ تھا جس نے نارتھ ویسٹ کمپنی آف مانٹریال کی طرف سے اتھابسکا کا قلعہ تعمیر کیا۔ روڈرک میکنزی نے چپی وائن کا قلعہ 1788 میں تعمیر کیا ۔ ان کے کزن سر الیگزنڈر میکنزی نے شمالی ساسکچیوان دریا کے ساتھ ساتھ چل کر ایڈمنٹن کے شمال تک اس کو دیکھا۔ پھر یہاں سے اتھابسکا دریا کے ساتھ ساتھ چل کر اس کے اتھابسکا جھیل میں گرنے کے مقام کا مشاہدہ کیا۔ پھر انہوں نے اس عظیم دریا کا دہانہ دریافت کیا جوان کے نام پر دریائے میکنزی کہلاتا ہے۔ یہ دریا آگے چل کر آرکٹک سمندر میں گرتا ہے۔ جھیل اتھابسکا واپس آتے ہوئے انہو ںنے دریائے پیس کا پیچھا کیا اور پیسیفک سمندر تک جا پہنچے۔ اس طرح وہ میکسیکو کے شمال میں امریکی براعظم کو عبور کرنے والے پہلے سفید فام بنے۔

البرٹا کا ضلع 1882 میں نارتھ ویسٹ ریاست کے حصے کے طور پربنایا گیا۔ جوں جوں آبادی بڑھتی گئی، مقامی نمائندوں کی تعداد نارتھ ویسٹ ریاست کی مقننہ میں بڑھتی گئی۔ خود مختاری کی ایک لمبی مہم کے بعد 1905 میں البرٹا کے ضلع کے رقبے کو بڑھا کر صوبہ بنا دیا گیا۔ الیگزنڈر کیمرون ردرفورڈ پہلے پریمئر بنے۔

آبادی

البرٹا میں حالیہ سالوں میں آبادی کافی بڑھی ہے۔ 2003 اور 2004 کے دوران صوبے میں شرح پیدائش زیادہ رہی اور یہاں ہجرت کی شرح بھی زیادہ تھی۔ 81 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے اور 19 فیصد دیہات میں رہتے ہیں۔ کیلگری ایڈمنٹن راہداری میں سب سے زیادہ شہر آباد ہیں۔ یہ کینیڈا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ موجودہ تاریخ میں البرٹا کے اکثر شہروں میں تیزی سے آبادی بڑھی ہے۔ پچھلی صدی میں البرٹا کی آبادی 1901 میں 73022 تھی جو 2001 میں بڑھ کر 2974807 اور پھر 2006 میں 3290350 ہو گئی۔

زبانیں

2006 کی مردم شماری سے پتہ چلا کہ انگریزی زبان تقریباً 80 فیصد البرٹن لوگوں کی مادری زبان ہے۔ دوسری بڑی زبانوں میں چینی کل آبادی کا تین فیصد ہیں۔ جرمن افراد اڑھائی فیصد سے زیادہ، فرانسیسی تقریباً دو فیصدہیں۔ پنجابی بولنے والے ایک اعشاریہ تیرہ فیصد، تگالگ زبان بولے والے تقریباً ایک فیصد ہیں۔ دیگر زبانوں میں یوکرائینی، ہسپانوی، پولش، عربی، ولندیزی اور ویتنامی ہیں تاہم ہر زبان کے بولنے والے ایک فیصد سے بھی کم باشندے ہیں۔مقامی زبانوں میں سب سے زیادہ بڑی زبان کری ہے۔ دیگر زبانوں میں اطالوی، اردو، کورین، ہندی، فارسی، پرتگالی اور ہنگری ہیں۔

قومیتیں

اگرچہ البرٹا میں انگریز النسل افراد کی اکثریت ہے پھر بھی یہاں دیگر قوموں کی بھی کمی نہیں۔کینیڈا کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی زیادہ تر مہاجرین سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ اور ویلز سے آئے تھے۔ اسی طرح یورپ کے دیگر حصوں سے بھی مثلاً جرمن، فرانسیسی، یوکرائنی اور سکینیڈے نیوین بھی آئے۔ کینیڈا کے اعداد و شمار کے محکمے کے مطابق البرٹا مغربی کینیڈا میں مینی ٹوبہ کے بعد فرانسیسیوں کا دوسرا بڑا مرکز ہے جو دو فیصد ہیں۔ فرانسیسی افراد صوبے کے شمال مغرب اور وسط میں رہتے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق صوبے میں چار فیصد چینی بھی آباد ہیں۔ ایڈمنٹن اور کیلگری میں شروع سے چائنا ٹاؤن آباد ہیں۔ کیلگری میں کینیڈا کی تیسری بڑی چینی آبادی رہتی ہے۔ چینیوں کی یہاں آمد 1880 کی دہائی میں ریل کے راستے کی تعمیر کے دوران شروع ہوئی تھی۔ مقامی النسل افراد کل آبادی کا محض تین فیصد ہیں۔

انگریز النسل افراد میں سکاٹ لینڈ کے باشندوں کا جگہوں کے نام رکھنے پر گہرا اثر ہے۔ مثلاً ان میں کیلگری، ائیر ڈرائی، کین مور اور بینف اہم ہیں۔

مذہب

2001 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کا سب سے بڑا مذہبی گروہ رومن کیتھولک افراد کا ہے۔ یہ کل آبادی کا چوتھائی ہیں۔ البرٹا میں لادین افراد کی تعداد برٹش کولمبیا کے بعد سب سے زیادہ ہے جو کل آبادی کا تئیس فیصد ہیں۔ بقیہ میں ساڑھے تیرہ فیصد خود کو یونائٹڈ چرچ آف کینیڈا کے پیروکار بتاتے ہیں۔ تقریباً چھ فیصد افراد اینجلیکن ہیں۔ لوتھیرین فرقے کے افراد پانچ فیصد سے کچھ کم ہیں۔ بیپٹسٹ افراد کی تعداد اڑھائی فیصد ہے۔ دیگر مذاہب میں سے کوئی بھی مذہب دو فیصد یا اس سے زیادہ نہیں۔

البرٹا میں مورمن فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد صوبے کے انتہائی جنوب میں آباد ہیں اور کل آبادی کا تقریباً پونے دو فیصد حصہ بنتے ہیں۔

مسلمان، سکھ اور ہندو بھی البرٹا میں آباد ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تقریباً پونے دو فیصد ہے سکھ کل آبادی کا اعشاریہ آٹھ فیصد جبکہ ہندو نصف فیصد ہیں۔ ان میں زیادہ تر افراد حال ہی میں کینیڈا میں ہجرت کر کے آئے ہیں۔ شمالی امریکہ کی سب سے پرانی مسجد البرٹا ہی میں ہے۔

البرٹا کی کل آبادی کا اعشاریہ چار فیصد حصہ یہودیوں پر مشتمل ہے۔ البرٹا کے تیرہ ہزار یہودیوں میں سے ساڑھے سات ہزار کیلگری اور پانچ ہزار ایڈمنٹن میں رہتے ہیں۔

معیشت

البرٹا کی معیشت کینیڈا کی مضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا زیادہ تر انحصار خام تیل اور کسی حد تک زراعت اور ٹیکنالوجی پر ہے۔ 2007 میں فی کس آمدنی کینیڈا کے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ تھی یعنی 74825 کینیڈین ڈالر تھی۔ قومی اوسط سے یہ اکسٹھ فیصد زیادہ اور اٹلانٹک صوبوں میں سے اکثر کی آمدنی سے دوگنی زیادہ تھی۔ 2006 کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ البرٹا میں ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد ہونے والی خاندان کی کل آمدنی 70986 کینیڈین ڈالر سالانہ تھی۔

کیلگری ایڈمنٹن راہداری البرٹا کا سب سے زیادہ آباد علاقہ ہے اور یہ کینیڈا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ تقریباً چار سو کلومیٹر شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے۔ 2001 میں اس راہداری کی کل ابادی اکیس لاکھ پچاس ہزار تھی جو صوبے کی کل آبادی کا بہتر فیصد ہے۔ یہ علاقہ ملک کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جو انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں۔

فریزر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق البرٹا میں معاشی آزادی بہتر لیول پر ہے۔ یہ کینیڈا کے آزاد ترین معاشی علاقوں میں سے ایک ہے اور اسے امریکہ اور کینیڈا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ فری اکانومی کا درجہ دیا گیا ہے۔

صنعت

البرٹا خام تیل، مصنوعی خام تیل اور قدرتی گیس کا ملک کا سب سے بڑا پیدا کنندہ ہے۔ البرٹا دنیا کا دوسرا بڑا قدرتی گیس کا برآمد کنندہ ہے اور چوتھا بڑا پیدا کنندہ ہے۔ شمالی امریکہ کے دو بڑے تیل کی پیداوار کے مراکز وسطی اور شمال وسطی البرٹا میں ہی ہیں۔ البرٹا کی تیل صاف کرنے والی ریفائنریاں پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں کے لئے خام مال مہیا کرتی ہیں۔

اتھا بسکا کی تیل والی زمینوں میں موجود مصنوعی تیل کی مقدار باقی دنیا میں موجود تیل کی مقدار کے تقریباً برابر ہے۔ اس کا تخمینہ ایک اعشاریہ چھ ٹریلین یرل یعنی 254 مربع کلو میٹر لگایا گیا ہے۔ تیل نکالنے کے نئے طریقوں جیسا کہ سٹیم اسسٹڈ گریویٹی ڈرینج جو کہ البرٹا ہی میں بنایا گیا، کی مدد سے بیٹومین اور مصنوعی خام تیل کو عام تیل کی قیمت پر نکالا جاتا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں روایتی سٹرپ مائننگ اور غیر روایتی جیسا کہ درج بالا طریقہ استعمال کرتے ہئوے بیٹومین نکالتی ہیں۔ موجودہ ٹیکنالوجی اور موجودہ قیمتوں کے مطابق 315 ارب بیرل یعنی 50 مکعب کلومیٹر جتنی بیٹومین نکالی جا سکتی ہے۔ فورٹ میکمری جو کینیڈا کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے، حالیہ برسوں میں بہت پھیل گی اہے کیونکہ یہاں بہت ساری بڑی بڑی کارپوریشینیں موجود ہیں جو تیل کی پیداوار سے متعلق ہیں۔ 2006 کے اواخر تک البرٹا میں تیل کی صنعت میں سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ یہ سرمایہ کاری ان منصوبوں پر ہوئی ہے جن کی تعمیر پر یا تو کام جاری ہے یا پھر وہ ابھی منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں۔

تیل کی قیمت بھی یہاں سے تیل کی پیداوار کی اہم وجہ ہے۔ 2003 سے اب تک تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہاں سےت یل نکالنا اب فائدہ مند بن چکا ہے۔ ماضی میں کم قیمتوں کی وجہ سے یہ کم منافع دیتا تھا یا بعض اوقات نقصان بھی اٹھانا پڑ جاتا تھا۔

صوبائی حکومت کی طرف سے خصوصی توجہ اور امداد کے باعث البرٹا میں کئی ہائی ٹیک صنعتیں قائم ہو چکی ہیں جن میں ایل سی ڈی سسٹم شامل ہیں۔ بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ ساتھ البرٹا میں بہت سارے معاشی ادارے بھی ہیں جو شہری اور ذاتی فنڈوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

زراعت اور جنگلات

صوبے کی معیشت میں زراعت کی بہت اہمیت ہے۔ صوبے میں تیس لاکھ سے زیادہ مویشی ہیں اور البرٹا کا بڑا گوشت دنیا بھر کی منڈیوں میں مشہور ہے۔ کینیڈا کے بڑے گوشت کی پیداوار میں تقریباً نصف البرٹا ہی میں تیار ہوتا ہے۔ البرٹا جنگلی بھینسوں کی پیداوار کا بھی سب سے بڑا مرکز ہے۔ اون کے لئے بھیڑوں اور چھوٹے گوشت کی ترقی کے لئے بھی کام جاری ہے۔

گندم اور کینولہ کی فصلیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ البرٹا موسم بہار میں گندم کی پیداوار کے لئے مشہور ہے۔ یہاں دوسرے اقسام کے غلے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر فارمنگ ڈرائی لینڈ فارمنگ ہوتی ہے۔ یہاں اکثر فصلیں وقفہ دے کر پیدا کی جاتی ہیں۔ مسلسل پیداور کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ منافع اور زمین کا کم کٹاؤ ہوتا ہے۔ صوبے بھر میں غلے کے ایلی ویٹرگم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ریل کا ٹریک ختم ہو رہا ہے۔ کسان زیادہ تر فصلیں ٹرکوں پر لاد کر مرکزی مقام تک لے جاتے ہیں۔

البرٹا میں شہد کی مکھیوں کی پیدوار بھی سب سے زیادہ ہے۔ جنوبی علاقوں میں سردیوں میں مکھی پال مکھیوں کو خصوصی کمروں میں رکھتے ہیں اور گرمیوں میں انہیں شمال کی طرف دریائے پیس کی وادی میں لے جاتے ہیں۔ یہاں موسم گرما مختصر ہوتا ہے لیکن دن لمبے ہونے کی وجہ سے شہد زیادہ جمع ہوتی ہے۔ یہاں کلوور اور فائر ویڈ کے پھولوں سے شہد پیدا کرتے ہیں۔ مخلوط کینولے کو شہد کی مکھیوں سے پولی نیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

شمال میں نرم لکڑی کے بے شمار جنگلات کی وجہ سے البرٹا میں لمبر، او ایس بی اور پلائی وڈ کی پیدوار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

سیاحت

بیسویں صدی کے آغاز سے ہی البرٹا سیاحت کے لئے مشہور ہے۔ یہاں سکی ائینگ، ہائیکنگ اور کیمپنگ، شاپنگ جیسا کہ ویسٹ ایڈمنٹن مال، کیلگری سٹیمپیڈ، آؤٹ ڈور میلے جیسا کہ دولت مشترکہ کے کھیل اور اولمپک کھیلیں اور دیگر برقی کھیل تماشے بھی لوگوں کو لبھاتے ہیں۔ یہاں کئی قدرتی جگہیں جیسا کہ ایلک آئی لینڈ نیشنل پارک، ووڈ بفیلو نینشل پارک اور کولمبیا آئس فیلڈ موجود ہیں۔

البرٹا کی معاشی ترقی کے محکمے کے مطابق ایڈمنٹن اور کیلگری میں ہر سال چالیس لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ بینف، جیسپر اور راکی پہاڑوں پر تیس لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔

البرٹا کے راکی پہاڑوں میں دو مشہور سیاحتی مقامات موجود ہیں جن کے نام بینف نیشنل پارک اور جیسپر نیشنل پارک ہیں۔ ان دونوں پارکوں کو آئس فیلڈ پارک وے ملاتی ہے۔ بینف کیلگری سے 128 کلومیٹر دو مغرب میں ہائی وے 1 پر واقع ہے اور جیسپر ایڈمنٹ سے 366 کلومیٹر دور مغرب میں ییلو ہیڈ ہائی وے پر ہے۔ کینیڈا کی کل چودہ عالمی ثقافتی ورثے کی جگہوں میں سے پانچ البرٹا میں ہیں جن کے نام یہ ہیں: کینیڈین راکی پہاڑ، واٹرٹن گلیشئر انٹرنینشل پیس پارک، ووڈ بفیلو نیشنل پارک، ڈائنوسار پراونشنل پارک اور ہیڈ سمیشڈ ان بفیلو جمپ۔

ہر سال بارہ لاکھ سے زیادہ سیاح کیلگری کی دنیا بھر میں مشہور سٹیمپیڈ میں آتے ہیں۔ ایڈمنٹن یوکون کی سونے کی کانوں کی طرف جانے کا واحد راستہ ہے اور اس راستے سے گذرنے والے افراد کو کسی قسم کے خطرے یا تھکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ڈرم ہیلر نامی ایک جگہ تقریباً ساڑھے چھ لاکھ سیاحوں کو ہر سال اپنی طرف کھینچیتی ہے۔ ڈرم ہیلر جسے ڈائینو سارل کیپیٹل آف دی ورلڈ بھی کہا جاتا ہے، میں آثار قدیمہ کا عجائب گھر موجو دہے۔ جنگ کے سالوں میں یہاں اس علاقے سے کوئلہ بھی نکالا جاتا رہا ہے۔

شمال وسطی البرٹا میں واقع البرٹا پریری ریلوے ایگزرشنز سیاحوں میں مقبول جگہ ہے۔ اس میں دنیا کے گنے چنے چند سٹیم انجن کی مدد سے ٹرینیں چلائی جاتی ہیں جو خوبصورت پریری جگہوں سے گذرتی ہے۔ اس نظام میں ہر سال بیسیوں ہزار سیاح آتے ہیں۔

البرٹا سکی اور ہائیک کرنے والے سیاحوں کا خاص مرکز ہے۔ البرٹا میں کئی بین الاقوامی معیار کی سکی کی جگہیں ہیں جن میں سن شائن ولیج، لیک لوئز، مارمٹ بیسن، نارکوئے اور ناکیسکا اہم ہیں۔دنیا بھر سے شکاری اور مچھلی کے شکاری یہاں البرٹا میں شکار اور مچھلی کے لئے آتے ہیں۔

جاری ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ٹیکس
صوبے کی سرکاری آمدنی کا زیادہ تر حصہ تیل، قدرتی گیس، بڑے گوشت، نرم لکڑی کے لمبر اور گندم پر ٹیکسوں سے وصول ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی اور ذاتی آمدنی پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ جوئے نما کھیلوں کی آمدنی اور وفاقی حکومت کی طرف سے انفراسٹرکچر کے لئے دی جانے رقوم پر ٹیکس بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ البرٹا کے لوگوں کو کینیڈا بھر میں سب سے کم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ البرٹا میں میونسپلٹی اور سکولوں کے اندر مقامی حکومتیں صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

ذرائع نقل و حمل

البرٹا میں 180000 کلومیٹر سے زیادہ لمبی شاہراہیں اور سڑکیں موجود ہیں جن میں سے 50000 کے قریب سڑکیں پختہ ہیں۔ شمالاًجنوباً اہم شاہراہ ہائی وے 2 ہے جو کارڈسٹن سے شروع ہو تی ہے۔ ہائی وے 4 جو بین الریاستی 15 کو آگے بڑھاتی ہے اور یہ امریکہ تک رسائی کا اہم ترین اور مصروف ترین راستہ ہے۔ یہ کاؤٹس کی سرحد سے شرو ع ہو کر لیتھ برج پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ ہائی وے 3 لیتھ برج کو فورٹ میک لیوڈ سے اور ہائی وے 4 کو ہائی و ے 2 سے ملاتی ہے۔ ہائی وے 2 شمال کو فورٹ میک لیوڈ، کیلگری، ریڈ ڈئیر اور ایڈمنٹن کو جاتی ہے پھر یہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ کیلگری اور ایڈمنٹن کے درمیان ہائی وے 2 کا حصہ ملکہ الزبتھ دوئم ہائی وے کہلاتا ہے۔ یہ نام ملکہ کی 2005 میں آمد کی یاد میں ہے۔ ایڈمنٹن کے بعد ایک شاخ شمال مغرب کو جاتی ہے جو ہائی وے 43 کہلاتی ہے اور دوسری ہائی وے 63 کہلاتی ہے جو شمال مشرق کو فورٹ میکمری کو جاتی ہے۔ یہ سڑک اتھابسکا کی آئل سینیڈز کو جاتی ہے۔ ائی وے 2 کے ساتھ دو اور بڑی سڑکیں بھی موجود ہیں جو ہائی وے 22 اور ہائی وے 21 ہیں۔ ہائی وے 22 ہائی وے 2 کے مغرب میں ہے جسے کاؤ بوائے ٹریل کہا جاتا ہے۔ ہائی وے 21 ہائی سے 2 کے مشرق میں ہے۔

البرٹا میں شرقاً غرباً دو اہم راستے ہیں۔ جنوبی راستہ جو ٹرانس کینیڈا ہائی وے سسٹم کا حصہ ہے، میڈیسن ہٹ کے نزدیک صوبے میں داخل ہوتا ہے اور مغرب کو چلتا ہوا کیلگری سےہوتا ہوا بینف نیشنل پارک کے راستے صوبے سے آگے نکل جات اہے۔ دوسرا راستہ شمالی ہے جو ٹرانس کینیڈا نیٹ ورک کا حصہ ہے تاہم اسے ییلو ہیڈ ہائی وے یعنی ہائی وے 16 بھی کہا جاتا ہے۔ یہ راستہ لائڈز منسٹر، مشرقی البرٹا سے شروع ہو کر ایڈمنٹن سے ہوتا ہوا جیسپر نیشنل پارک کے راستے برٹش کولمبیا کو جاتا ہے۔ سب سے زیادہ خوبصورت مناظر آئس فیلڈز پارک وے میں ہیں جہاں یہ راستہ 228 کلومیٹر تک جیسپر اور جھیل لوئز کے درمیان چلتا ہے۔ سارا راستہ اس کے دائیں بائیں پہاڑی سلسلے اور گلیشئر موجود ہیں۔

وسطی البرٹا سے گذرنے والا ایک اور اہم راستہ ہائی وے 11 ہے جسے ڈیوڈ تھامپسن ہائی وے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ساسکچیوان دریا سے مغرب کی طرف گذرتا ہے اور بینف نیشنل پارک کے راستے راکی ماؤنٹین ہاؤس اور ریڈ ڈئیر سے گذرتے ہوئے ہائی وے 12 کو سٹیٹلر سے 20 کلومیٹر مغرب میں جا ملتا ہے۔ یہ ہائی وے کیلگری اور ایڈمنٹن کے درمیان کئی چھوٹے شہروں کو ملاتا ہے۔

البرٹا کی شاہراہیں جب کسی بڑے شہر سے گذرتی ہیں تو ان کے نام عارضی طور پربدل جاتے ہیں۔ مثلاً ہائی وے 2جب کیلگری سے گذرتی ہے تو اس کا نام ڈئیر فٹ ٹریل بن جاتا ہے اور جب یہ ایڈمنٹن میں پہنچتی ہے تو اسے کیلگری ٹریل کہتے ہیں۔ ایڈمنٹن سے نکلتے ہی اسے سینٹ البرٹ ٹریل کہتے ہیں جو سینٹ البرٹ کو جاتی ہے۔ کیلگری میں خصوصاً سڑکوں کےنام یہاں کے قدیم باشندوں اور ان کے قبائل کے نام پر رکھے جاتے ہیں مثلاً کرو چائلڈ ٹریل، ڈئیر فٹ ٹریل اور سٹونی ٹریل۔

ایڈمنٹن، کیلگری، ریڈ ڈئیر، میڈیسن ہٹ اور لیتھ برج کے اپنے اپنے عوامی ذرائع نقل و حمل ہیں جو بسوں پر مشتمل ہیں۔ کیلگری اور ایڈمنٹن میں بسوں کے علاوہ ہلکی ریل گاڑیاں یا ٹرام بھی چلتی ہیں۔ ایڈمنٹن کی ٹرام کا مرکز زیر زمین ہے اور باقی حصے زمین کے اوپر۔ یہ شمالی امریکہ میں بننے والی جدید نسل کی ہلکے وزن والی پہلی ٹرین تھی۔ کیلگری کی سی ٹرین زیادہ تر سطح زمین پر چلتی ہے، ایڈمنٹن کی نسبت ساڑھے تین گنا زیادہ پھیلی ہوئی ہےاور اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد شمالی امریکہ میں سب سے زیادہ ہے۔

البرٹا ہوائی راستوں سے بھی اچھی طرح جڑا ہوا ہے۔ یہاں ایڈمنٹن اور کیلگری میں انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہیں۔ کیلگری انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور ایڈمنٹن انٹرنیشنل ائیر پورٹ کینیڈا کے چوتھے اور پانچویں نمبر پر مصروف ترین ائیر پورٹ ہیں۔ کیلگری کا ائیر پورٹ ویسٹ جیٹ ائیرلائنز کا مرکزی اور ائیر کینیڈا کا علاقائی مرکز ہے۔ کیلگری ائیر پورٹ کا بنیادی مقصد پریری صوبوں کو فائدہ دینا تھا جن میں البرٹا، ساسکچیوان اور مینی ٹوبہ شامل ہیں۔ یہاں کنکٹنگ فلائٹس برٹش کولمبیا، مشرقی کینیڈا، امریکہ کے پندرہ اہم شہروں، نو یورپی ائیر پورٹوں اور میکسیکو میں چار اور کیربین کے لئے بھی چلتی ہیں۔ ایڈمنٹن ائیر پورٹ کینیڈا کی شمال کے لئے مرکز کا کام کرتا ہے اور کینیڈا کے تمام بڑے ائیر پورٹوں سے ملا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دس بڑے امریکی ائیرپورٹوں، تین یورپی اور چھ میکسیکن اور کیریبین ائیر پورٹوں کو بھی ملاتا ہے۔

البرٹا میں کل 9 ہزار کلومیٹر طویل ریلوے موجود ہے اور بہت سارے سیاح البرٹا کی سیر ویا ریل سے یا راکی ماؤنٹینئر سے کرنا پسند کرتے ہیں۔ کینیڈین پیسیفک ریلوے اورکینیڈین نیشنل ریلوے کمپنیاں صوبے بھر میں سامان کی ترسیل کرتی ہیں۔

حکومت
البرٹا کی حکومت پارلیمانی جمہوریہ کی طرز پر یک ایوانی ہے۔ اس کی واحد قانون ساز اسمبلی کل 83 اراکین پر مشتمل ہے۔

تمام شہری حکومتیں اور سکول کے بورڈ الگ الگ منتخب ہوتے ہیں اور الگ الگ کام کرتے ہیں۔ ان کی عملداریاں عموماً الگ رہتی ہیں۔ البرٹا میں ایسی جگہیں جہاں سکول بورڈ اور مقامی حکومتیں ایک ہو کر کام کریں، کاؤنٹی کہلاتی ہیں۔

کینیڈا کی سربراہ مملکت ملکہ الزبتھ دوئم البرٹا کی بھی حکمران ہیں۔ البرٹا میں ان کی ذمہ داریاں لیفٹیننٹ گورنر نورمن کونگ کے ذمے ہیں۔اگرچہ تکنیکی طور پر لیفٹیننٹ گورنر البرٹا کا سب طاقتور فرد ہوتا ہے تاہم اس وقت وہ محض نمائشی عہدے کا مالک ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات کو آئین کے تحت کم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا اصل سربراہ پریمئر ہوتا ہے۔ اس وقت البرٹا کے پریمئر کا عہد ہ اکثریتی پارٹی پروگریسیو کنزرویٹیوز کے لیڈر ایڈ سٹیلمچ کے پاس ہے جوالبرٹا کے 13ویں پریمئر کے طور پر 15 دسمبر 2006 کو منتخب ہوئے۔

پریمئر قانون ساز اسمبلی کا رکن ہوتا ہے اور وہ اپنی کابینہ کے تمام اراکین کا انتخاب قانون ساز اسمبلی کے اراکین میں سے کرتا ہے۔

ایڈمنٹن کے شہر کے پاس صوبائی حکومت کی ایک نشست ہوتی ہے۔ یہ شہر البرٹا کا دارلخلافہ بھی ہے۔

البرٹا کے انتخابات کے نتائج کینیڈا کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ قدامت پسند ہوتے ہیں۔ البرٹا میں روایتی طور پر تین پارٹیاں ہیں جو پروگریسیو کنزرویٹو، لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک نیو ڈیمو کریٹس ہیں۔ چوتھی پارٹی جو کنزرویٹو سوشل کریڈٹ پارٹی ہے البرٹا میں کئی دہائیوں کے بعد اقتدار میں آئی تاہم 1971 میں پروگریسیو کنزرویٹو کی اقتدار میں آمد کے بعد نقشے سے غائب ہو گئی۔ اس وقت سے لے کر اب تک کسی اور پارٹی کو البرٹا پر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ درحقیقت آج تک صرف چار پارٹیوں نے ہی البرٹا پر حکومت کی ہے۔ لبرل 1905 سے 1921 تک، یونائٹڈ فارمرز آف البرٹا 1921 سے 1935 تک، سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی 1935 سے 1971 تک اور 1971 سے اب تک پروگریسیو کنزرویٹو پارٹی کے پاس حکومت ہے۔

البرٹا میں علیحدگی کی تحاریک وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔ حتٰی کہ 1980 کی دہائی میں یہ تحاریک اپنے عروج پر تھیں تاہم یہ کبھی اتنا زور نہیں پکڑ سکیں کہ ریفرنڈم کی نوبت آتی۔ تاہم علیحدگی پسند کسی نہ کسی طرح متحرک رہتے ہیں۔

2008 کے صوبائی انتخابات جو 3 مارچ 2008 کو ہوئے، پروگریسیو کنزرویٹو پارٹی کو دوبارہ اکثریت ملی۔ انہوں نے 83 میں سے 72 نشستیں حاصل کیں۔ البرٹا لبرل پارٹی کے نو اراکین نے باقاعدہ حزب اختلاف کا عہدہ سنبھالا اور البرٹا نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے دو اراکین ہیں۔

میونسپلیٹیز

ائیرڈرائی، بروکس، کیلگری، کیمروز، کولڈ لیک، ایڈمنٹن، فورٹ ساسکچیوان، گرانڈ پریری، لیڈوس، لیتھ برج، لائڈز منسٹر، میڈیسن ہٹ، ریڈ ڈئیر، سپروس گروو، سینٹ البرٹ اور ویٹاسکیون البرٹا کی میونسپلیٹیاں ہیں۔

صحت

کینیڈا کے دیگر صوبوں کی مانند البرٹا بھی تمام شہریوں اور باشندو ں کو عوامی رقوم سے چلنے والے صحت کے نظام سے فائدہ ملتا ہے۔ ساسکچیوان کے بعد البرٹا کینیڈا کا دوسرا صوبہ ہے جس نے 1950 میں ٹومی ڈوگلس انداز کے پروگرام کو اپنایا۔ یہ پروگرام موجودہ میڈی کئیر سسٹم کا پیش رو تھا۔

البرٹا کے ہیلتھ کئیر سسٹم کا 2008-2009 کا سالانہ بجٹ تیرہ اعشاریہ دو ارب ڈالر ہے جو حکومت کے کل اخراجات کا چھتیس فیصد ہے۔ فی کس یہ کینیڈا کا بہترین ہیلتھ کئیر کا نظام ہے۔ صوبے میں ہر گھنٹے کے دوران پندرہ لاکھ ڈالر ہیلتھ کئیر پر خرچ کئے جاتے ہیں۔

اس وقت صوبے کے ہیلتھ کئیر کا چھ فیصد حصہ ماہانہ انشورنس سے ادا کیا جاتا ہے جو فی کس 44 ڈالر یا فی خاندان 88 ڈالر ہے۔ تاہم اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں، بوڑھے افراد، طلباٗ اور کم آمدنی والے افراد اس فیس سے مستثنٰی ہیں۔ یہ ساری فیسیں بھی یکم جنوری 2009 کو ختم کی جا رہی ہیں۔

اعلٰی تعلیم یافتہ آبادی اور پھیلتی ہوئی معیشت کے باعث البرٹا ملک بھر میں ہیلتھ کئیر، تحقیق اور ذرائع میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ اہم سہولیات میں یونیورسٹی آف البرٹا ہاسپٹل کمپلیکس، رائل الیگزنڈریا ہسپتال، مزانکواسی البرٹا ہارٹ انسٹی ٹیوٹ، لوئس ہول زنانہ ہسپتال، سٹولری چلڈرن ہسپتال، البرٹا کا انسٹیٹیوٹ برائے ذیابیطس، کراس کینسر انسٹی ٹیوٹ اور ریکسل سینٹر فار فارمیسی اینڈ ہیلتھ ریسرچ ایڈمنٹن شامل ہیں۔کیلگری میں فٹ ہلز میڈیکل سینٹر، دی پیٹر لاگ ہیڈ سینٹر اور البرٹا چلڈرن ہسپتال واقع ہیں۔

ایڈمنٹن میں اس وقت نوے کروڑ نوے لاکھ ڈالر کے اخراجات سے بننے والا ایڈمنٹن کلینک زیر تعمیر ہے جو امریکی ادارے مائیو کلینک کی طرح تحقیق، تعلیم اور دیکھ بھال کی سہولیات مہیا کرے گا۔
البرٹا میں اس وقت ہیلتھ کئیر کے لئے ایک البرٹا ہیلتھ سروسز بورڈ موجود ہے۔ یکم جولائی 2008 سے قبل یہاں نو مختلف علاقوں کے نظام موجود تھے۔

تعلیم

دیگر کینیڈیں صوبوں کی طرح البرٹا کی قانون ساز اسمبلی کو تعلیم سے متعلقہ قوانین بنانے کا مکمل اختیار ہے۔ 1905 سے لے کر اب تک قانون ساز اسمبلی نے مقامی سطح پر عوامی اور علیحدہ سکول بورڈ بنائے ہیں جن میں سے کئی 1905 سے بھی پہلے کے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے کالجوں، یونیورسٹیوں، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور دیگر تعلیمی اداروں کو بنانے اور ان کو چلانے کی ذمہ داری بھی اسی اسمبلی پر ہے۔

ایلمنٹری سکول

البرٹا میں بیالیس پبلک سکول موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سترہ علیحدہ سکول بھی یہاں کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے سولہ سکولوں میں رومن کیتھولک کا ایک، ایک سینٹر البرٹ یعنی پروٹسٹنٹوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ مزید براں ایک پروٹسٹنٹ سکول بھی موجود ہے جسے گلن اوان کہتے ہیں جو سینٹ پال ایجوکیشن ریجن کا حصہ ہے۔لائڈز منسٹر کا شہر البرٹا اور ساسکچیوان کے درمیان آباد ہے اور یہاں کے دونوں سکول ساسکچیوان کے قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔ تاہم یہ دونوں سکول اوپر کی گنتی میں شامل ہیں۔

بہت سال تک صوبائی حکومت نے کے 12 کے تعلیمی نظام کے اخراجات کا بڑا حصہ ادا کیا ہے۔ 1994 سے قبل دونوں طرح کےسکولوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ مقامی پراپرٹی پر ٹیکس لگا سکیں جو تعلیم پر خرچ کیا جاتا تھا۔ 1994 میں حکومت نے پبلک سکولوں سے یہ اختیار واپس لے لیا تاہم علیحدہ سکولوں کے پاس یہ اختیار اب بھی موجود ہے۔ تاہم اس کی شرح صوبائی حکومت طے کرتی ہے اور یہ رقم جمع ہو کر صوبائی حکومت کو جاتی ہے جو اسے خرچ کرنے کی مجاز ہے۔ آئینی طور پر یہ ساری رقم تعلیم پر سکولوں کے بورڈ کی مدد سے ہی خرچ کی جا سکتی ہے۔ صوبائی حکومت صوبے بھر سے پراپرٹی ٹیکس وصول کرتی ہے اور ایک باقاعدہ فارمولے کے تحت سے دونوں نظام سکول اور فرانسیسی اتھارٹیوں کے مابین تقسیم کیا جاتا ہے۔

تمام سکولوں کے نصاب کا تعین صوبائی محکمہ برائے تعلیم کرتا ہے۔ فاصلاتی یا گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے ان کی ترجیحات کے مطابق نصاب کا تعین کیا جاتا ہے۔ تمام سکولوں کو صرف وہی اساتذہ بھرتی کرنے کا اختیار ہے جو صوبائی حکومت سے باقاعدہ سند یافتہ ہوں۔

یونیورسٹیاں

البرٹا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی یونیورسٹی یونیورسٹی آف البرٹا ہے جو 1908 میں قائم ہوئی۔ یونیورسٹی آف کیلگری جو پہلے یونیورسٹی آف البرٹا سے الحاق رکھتی تھی، 1966 میں خودمختار یونیورسٹی بنی۔ اب یہ البرٹا کی دوسری بڑی یونیورسٹی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اتھابسکا یونیورسٹی بھی ہے جو فاصلاتی تعلیم پر انحصار کرتی ہے اور یونیورسٹی آف لیتھ برج بھی ہے۔ یہاں کل پندرہ کالج اور دو ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بھی ہیں۔ یہاں ثانوی اور اعلٰی تعلیم کے بھی بے شمار ادارے موجود ہیں جن میں ڈیوری یونیورسٹی شامل ہے۔ طلباٗ یا تو حکومت سے قرض لے کر یا پھر وظائف کی مدد سے ان پرائیوٹ اداروں میں تعلیم پاتے ہیں۔ حال ہی میں ان اداروں میں تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر لوگوں کو تشویش ہونے لگی ہے۔ 2005 میں پریمئر رالف کلین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ٹیوشن فیس کو منجمد کر دیں گے اور دیگر اخراجات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ تاہم ابھی تک کوئی قابل عمل منصوبہ سامنے نہیں آیا۔

ثقافت

گرمیاں شروع ہوتے ہی البرٹا میں بے شمار میلے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایڈمنٹن فرنج فیسٹیول کو ایڈن برگ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا میلہ مانا جاتا ہے۔ کیلگری اور ایڈمنٹن میں ہونے والے لوک موسیقی کے میلے کینیڈا کے دو بڑے میلے ہیں اور دونوں شہروں میں سالانہ کئی دیگر میلے بھی لگتے ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں میں بھی یہاں سالانہ بین الثقافتی ایونٹ ہوتے ہیں۔ ایڈمنٹن میں سالانہ اتنے زیادہ میلے تماشے ہوتے ہیں کہ اسے فیسٹیول سٹی کا لقب ملا ہوا ہے۔

کیلگری اور ایڈمنٹن کینیڈین فٹ بال لیگ اور نیشنل ہاکی لیگ کے گھر ہیں۔ سوکر، رگبی یونین اور لیکراس بھی یہاں پروفیشنل پیمانے پر کھیلے جاتے ہیں۔

ماحولیات

نباتات


وسطی اور شمالی البرٹا میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی پریری کروکس اینی مون، تھری فلاورڈ ایونس، گولڈن بین، وائلڈ روز یعنی جنگلی گلاب اور دیگر پھول کھل جاتے ہیں۔ گرمیوں کے ساتھ ساتھ یہاں سورج مکھی کی نسل کے بہت سارے پھول کھلتے ہیں۔ اگست میں یہ سارے میدان پیلے اور گلابی رنگ سے ڈھک جاتے ہیں۔ جنوبی اور مشرقی حصوں میں چھوٹی جسامت کی غذائت سے بھرپور گھاس اگتی ہے جو گرمیوں کے دوران خشک ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد یہاں پریری کون فلاور، فلی بین اور سیج وغیرہ کی طرح کے پھول کھلتے ہیں۔ پیلے اور سفید رنگ کے سوئٹ کلوور ہر طرف چھا جاتے ہیں اور ان کی خوشبوؤں ہر طرف چھا جاتی ہیں۔ پارک لینڈ کے علاقے میں درخت ہر طرف جھنڈوں میں اگتے ہیں۔ یہ زیادہ تر ایسپن، پاپلر اور ولو یعنی بید مجنوں کے ہوتے ہیں۔ ولو اور کئی دوسرے انواع کی جڑی بوٹیاں وغیرہ بھی یہاں بکثرت ہر جگہ اگتی ہیں۔ شمالی ساسکچیوان دریا کے شمالی جانب سدا بہار جنگلات میں لاکھوں مربع کلومیٹر پر یہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسپن، پاپلر، بالسم پاپلر اور پیپر برچ کے درخت یہاں اکثریت میں ہیں۔ کونی فرز جنگلات میں جیک پائن، راکی ماؤنٹین پائن، لاج پول پائن، سفید اور کالے سپروس اور تمارک کے درخت اہم ہیں۔

حیوانات

البرٹا کے تین مختلف موسمی خطے یعنی الپائن، جنگلات اور پریری میں بے شمار انواع کے جانور وں کا مرکز ہیں۔ جنوب اور وسط میں جنگلی بھینسے لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ یہاں آبادکاری کے ابتدائی دنوں میں جنگلی بھینسوں کی تعداد کچھ کم ہوئی تھی لیکن اب پھر سے یہ تعداد بڑھ گئی ہے۔ اب یہ جنگلات اور پارکوں میں بکثرت موجود ہیں۔

البرٹا میں درندے بھی موجود ہیں۔ ان میں گرزلی اور کالےریچھ پہاڑی اور جنگلی علاقوں میں ہیں۔ چھوٹے درندوں میں بھیڑیئے، کائی اوٹی، لومڑی، لنکس، باب کیٹ اور پہاڑی شیر یعنی کوگر بھی ملتے ہیں۔
چرندے یہاں صوبے بھر میں عام ہیں۔ موز، میول ڈئیر اور وائٹ ٹیل ہرن یہاں جنگلات میں ملتے ہیں۔ جنوبی البرٹا کے پریری علاقوں میں چو سنگھے ملتے ہیں۔ بگ ہارن شیپ اور پہاڑی بکریاں راکی پہاڑوں میں رہتے ہیں۔ خرگوش، سیہی، سکنک، گلہری اور چوہوں کی بے شمار اقسام یہاں صوبے بھر میں ہر جگہ بکثرت ہیں۔ البرٹا میں صرف ایک زہریلا سانپ ملتا ہے جسے پریری ریٹل سنیک کہتے ہیں۔
وسطی اور شمالی البرٹا اور انتہائی شمال کے علاقے کئی مہاجر پرندوں کی افزائش نسل کے لئے اہم ہیں۔ بطخوں، مرغابیوں، سوان اور پیلی کن یہاں ہر موسم بہار میں آتے ہیں اور یہاں کی سینکڑوں چھوٹی بڑی جھیلوں یا ان کے کنارے اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔ عقاب، باز، الو اور کوے بھی یہاں بکثرت ہیں۔ غلہ اور حشرات کھانے والے پرندے بھی یہاں بکثرت ملتے ہیں۔ دوسرے معتدل علاقوں کی مانند یہاں مچھر، مکھیاں، بھنبھیریاں اور شہد کی مکھیاں عام پائی جاتی ہیں۔ دریا وں اور جھیلوں میں پائک،وائٹ فش، رین بو، سپیکلڈ اور بھوری ٹراؤٹ عام ملتی ہیں۔ سٹرجن بھی عام پائی جاتی ہے۔ کچھوے بھی جنوب کے چند علاقوں میں پانیوں میں ملتے ہیں۔ البرٹا میں موجود چند جل تھلیوں میں مینڈک اور سیلے منڈر اہم ہیں۔

البرٹا کا صوبہ کینیڈا کا واحد صوبہ اور دنیا کے ان چندخطوں میں سے ایک ہے جہاں نارویجئن چوہے نہیں پائے جاتے۔ 1950 کے اوائل میں البرٹا کی حکومت نے چوہے مار پروگرام اپنایا تھا جو اتنا کامیاب رہا کہ اب یہاں چوہوں کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ 2006 میں جنگلی چوہوں کی تعداد صفر بتائی گئی ہے۔اس نسل کے چوہے ذاتی طور پر پالنا ممنوع ہے تاہم تحقیقی اداروں اور چڑیاگھروں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں یہ چوہے محدود تعداد میں ہیں۔

انگریزی وکی پیڈیا سے اردو وکی پیڈیا کے لئے ترجمہ و تلخیص
 

قیصرانی

لائبریرین
پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ

پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو اسی نام کے ایک جزیرے پر مشتمل ہے۔ پورے ملک میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے یہ صوبہ دیگر تمام صوبوں سے چھوٹا ہے۔ اس کے کئی مختلف نام ہیں۔

2008 کے تخمینے کے مطابق پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ میں کل 139407 افراد رہتے ہیں۔ جزیرے کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ جزیرے کا نام بادشاہ جارج سوئم کے چوتھے بیٹے اور ملکہ وکٹوریہ کے والد کے نام پر رکھا گیا۔ ان کا اصل نام پرنس ایڈورڈ آگسٹس تھا اور وہ کینٹ اور سٹراتھریم کے ڈیوک یعنی نواب تھے۔ یہ جزیرہ دنیا کا 104 اور کینیڈا کا 23واں بڑا جزیرہ ہے۔

جغرافیہ

خلیج کی جنت کے نام سے مشہور یہ جزیرہ سینٹ لارنس کی خلیج میں کیپ بریٹن آئی لینڈ کے مغرب، نووا سکوشیا جزیرہ نما کے شمال اور نیو برنزوک کے مشرق میں واقع ہے۔اس کے جنوبی ساحل نارتھمبر لینڈ سٹریٹ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جزیرے میں دو شہری علاقے ہیں۔ بڑا علاقہ چارلٹ ٹاؤن بندرگاہ کے ارد گرد موجود ہےجو جزیرے کے جنوبی ساحل پر واقع ہے اور یہاں چارلٹ ٹاؤن نامی شہر صوبے کا صدر مقام ہے۔ اس کے کناروں پر کارن وال اور سٹراٹفورڈ کے قصبے ابھر رہے ہیں۔ نسبتاً بہت چھوٹا شہری علاقہ سمر سائیڈ بندرگاہ کے ارد گرد موجود ہے جو چارلٹ ٹاؤن کے شہر سے چالیس کلومیٹر دور ہے۔ یہ دراصل سمر سائیڈ کے شہر ہی پر مشتمل ہے۔ دنیا کی دیگر تمام قدرتی بندرگاہوں کی طرح یہ دونوں بندرگاہیں بھی سمندری عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں۔

جزیرہ بہت خوبصورت مناظر رکھتا ہے۔ یہاں اونچی نیچی پہاڑیاں، گھنے جنگل، سرخ و سفید ساحل، سمندر اور سرخ مٹی کی وجہ سے یہ جزیرہ اپنے قدرتی حسن کی بدولت شہرت رکھتا ہے۔ صوبے کی حکومت نے یہاں کے ماحول کو بچانے کے لئے کئی قوانین بنائے ہیں تاہم ان کے پوری طرح نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی تعمیرات میں موجودہ چند سالوں میں کوئی نظم و ضبط نہیں دکھائی دیتا۔

جزیرے کی سر سبز لینڈ سکیپ کا صوبے کی معیشت اور ثقافت پر گہرا اثر ہے۔آج بھی سیاح ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے ادھر جوق در جوق آتے ہیں۔ یہاں پرتعیش سرگرمیوں میں ساحل، بے شمار گولف کے میدان، ایکو ٹورزم اور شہر کے باہر سیر وغیرہ یہاں کے عام مشاغل ہیں۔

چھوٹی دیہاتی آبادیوں ، قصبوں اور شہروں میں آج بھی سست رفتار زندگی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے یہاں لوگ بکثرت آرام کرنے آتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش چھوٹے پیمانے پرکاشت کاری ہے ۔ یہ چھوٹا پیمانہ کینیڈا کے دیگر صوبوں کے حوالے سے۔ یہاں اب صنعتیں لگ رہی ہیں اور پرانے فارموں کی عمارتیں نئے سرے سے اور جدید طور پر بنائی جا رہی ہیں۔

ساحل سمندر پر طویل ساحل، کھاڑیاں، سرخ ریتلی چوٹیاں، کھارے پانی کی دلدلیں اور بہت ساری خلیجیں اور بندرگاہیں ہیں۔ ساحلوں، کھاڑیوں اور چونے کی چٹانیں بھربھری ہیں اور یہاں فولاد کی کثرت ہے جو کھلے ماحول میں فوراً زنگ آلود ہو جاتا ہے۔جغرافیائی اعتبار سے بیسن ہیڈ میں موجود سفید ریت کی خصوصیات صوبے بھر میں بے مثال ہیں۔ جب ان پر چلا جائے تو یہ ایک دوسرے سے رگڑ کھا کر عجیب سی آواز پیدا کرتے ہیں۔ انہیں عرف عام میں گنگناتی ہوئی ریت کہا جاتا ہے۔ شمالی ساحل پر بیرئر جزیرے پر بڑی پہاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ گرین وچ میں موجود ریت کی پہاڑیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ متحرک ریت کا علاقہ بے شمار پرندوں اور نایاب نسل کے پودوں کا مسکن ہے اور یہاں آثار قدیمہ کے حوالے سے بھی کافی کچھ موجود ہے۔

موسم

پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کا موسم بدلتا رہتا ہے۔ سردیوں کا موسم نومبر کے آخر میں شروع ہوتا ہے جبکہ اکتوبر کے اختتام پر ہلکی پھلکی برفباری شروع ہو جاتی ہے۔ نومبر اور دسمبر میں درجہ حرارت 5 سے منفی 5 ڈگری تک رہتے ہیں۔ جونہی نارتھمبر لینڈ اور سینٹ لارنس کی خلیج جمتی ہیں، یہاں سردیوں کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور برفباری بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ فروری کے آغاز تک درجہ حرارت گرتا چلا جاتا ہے۔ دسمبر سے لے کر اپریل تک یہاں اکثر برفانی طوفانوں کے باعث زندگی کئی کئی دنوں تک معطل ہو جاتی ہے۔ بہار کے آغاز میں اطراف میں موجود برف یہاں کےد رجہ حرارت کو کم رکھتی ہے۔ نتیجتاً یہاں بہار کا موسم چند ہفتے کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے۔ برف کے پگھلتے ہی یہاں کا درجہ حرارت ایک دم بڑھنے لگ جاتاہے۔ مئی کا درجہ حرارت 25 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔ موسم بہار اپریل سے مئی تک جاری رہتا ہے۔ تاہم اس موسم میں کم از کم درجہ حرارت 5 ڈگری بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں بارش کی بجائے مسلسل بونداباندی ہوتی رہتی ہے جو سالانہ بارش سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جون میں درجہ حرارت 15 سے 20 ڈگری تک رہتا ہے۔ گرمیاں نسبتاً کم اور نم ہوتی ہیں۔ جولائی اور اگست میں درجہ حرارت بعض اوقات 30 ڈگری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ لمبی سردیوں اور تاخیر سے آنے والی بہار کے بعد گرمیاں ستمبر یا اکتوبر تک جاری رہتی ہیں۔ دیر سے آنے والی خزاں کے دوران درجہ حرارت تیزی سے گرتے ہیں۔

تاریخ

سب سے پہلے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ میں میکماق لوگوں کا ٹھکانہ تھا۔ انہوں نے اس جزیرے کو ابیگ ویٹ کا نام دیا تھا جس کا مطلب لہروں پر زمین کا پنگوڑا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ عظیم روح نے نیلے پانیوں میں سے ان کے لئے سرخ مٹی کا ہلال نما جزیرہ بنا دیا ہے۔

اکاڈیہ کی فرانسیسی کالونی کا حصہ ہوتے ہوئے اس کو آئل سینٹ جین کہا جاتا تھا۔ اس وقت تقریباً ایک ہزار اکاڈین یہاں رہتے تھے۔ تاہم برطانوی اعلان برائے انخلاٗ کے بعد ان کی اکثریت نووا سکوشیا کو بھاگ گئی اور بچے کچھے افراد کو برطانوی فوج نے جنرل جیفری امہرسٹ کے حکم پر کرنل ایڈریو رولو کی زیر کمان نکال دیا۔

برطانیہ نے اس جزیرے کو معاہدہ پیرس کے تحت 1763 میں فرانس سے لے لیا۔ یہ معاہدہ سات سالہ جنگ کے اختتام پر ہوا تھا۔ اس جزیرے کو تب سینٹ جانز آئی لینڈ کہا گیا۔

سینٹ جانز آئی لینڈ کاپہلا برطانوی گورنر بننے کا اعزاز والٹر پیٹرسن کو ملا جن کی تعیناتی 1769 میں کی گئی۔ انہوں نے 1770 میں اختیارات سنبھالے اور ان کے متنازعہ دور کا آغاز ہوا۔ متنازعہ اس لئے کہ انہوں نے جزیرے پر آبادکاری کے لئے جاگیردارانہ نظام اپنانا چاہا تاہم کئی مسائل کے سبب ان کی کوششیں بارآور نہ ہو سکیں۔ آئر لینڈ سے آباد کاروں کو بلوانے کے لئے انہو ں نے 1770 میں جزیرے کا نام بدل کر نیو آئرلینڈ رکھ دیا۔ تاہم برطانوی حکومت نے بروقت اس کی مخالفت کی اور کہا کہ لندن میں موجود پریوی کونسل ہی واحد ادارہ ہے جو کسی کالونی کا نام بدل سکتا ہے۔

1775 میں پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ امریکہ سے باہر امریکی مسلح جارحیت کا شکار ہونے والی پہلی زمین بنی۔ امریکہ خانہ جنگی کے دوران وفاداروں کو امریکہ سے اس جزیرے میں بلوانے کی کوششیں زیادہ بار آور نہ ہوئیں۔ والٹر پیٹرسن کے بھائی جان پیٹرن خود اپنی وفاداری کی وجہ سے امریکہ سے نکالا گیا تھا اور اب وہ دیگر افراد کو بلوانا چاہتا تھا۔ زمین دینے کا اختیار اسی کے ہاتھ میں تھا۔

1787 میں گورنر پیٹرسن کی معطلی اور پھر بعد ازاں 1789 میں لندن طلبی کی وجہ سے ان کے بھائی کا کام رک گیا اور اس کی پوری توجہ امریکہ پر ہو گئی۔ امریکہ میں جان کا ایک بیٹا کموڈور ڈینئل پیٹرسن امریکی بحریہ کا ہیرو بنا اور جان کا پوتا ریئر ایڈمرل تھامس ایچ پیٹرسن اور لیفٹینٹ کارلائل پل آک پیٹرسن کو بھی بہت کامیابی ملی۔

ایڈمنڈ فیننگ بھی برطانوی وفادار اور امریکہ سے نکالے ہوئے افراد میں شامل تھے، دوسرے گورنر بنے۔ انہوں نے 1806 تک عہدے پر کام کیا۔ ان کا دورانیہ والٹر پیٹرسن کی نسبت زیادہ کامیاب رہا۔

29 نومبر 1798 کو فیننگ کی گورنری کے دوران برطانیہ نے کالونی کا نام سینٹ جان آئی لینڈ سے بدل کر پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے دیگر جزیروں جیسا کہ سینٹ جان اور سینٹ جانز کے شہروں سے فرق کیا جا سکے۔ کالونی کا نیا نام برطانوی باشادہ جارج سوئم کے چوتھے بیٹے کے نام پر رکھا گیا جو پرنس ایڈورڈ آگسٹ تھے۔ انہیں ڈیوک آف کینٹ بھی کہا جاتا ہے۔ پرنس ایڈورڈ شمالی امریکہ میں برطانوی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے اور ان کا صدر مقام ہیلی فیکس تھا۔ پرنس ایڈورڈ موجودہ ملکہ وکٹوریا کے والد تھے۔

کینیڈا سے الحاق

ستمبر 1864 کو پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ چارلٹ ٹاؤن کانفرنس کا میزبان بنا جو کینیڈا کے الحاق کے سلسلے میں پہلی کڑی تھی۔ 1867 میں کینیڈا کا جنم ہوا۔ پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کو الحاق کی شرائط پسند نہیں آئیں اور انہوں نے الحاق میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے برطانیہ اور آئرلینڈ کی کالونی ہی رہنے کو ترجیح دی۔ 1860 کی دہائی کے اواخر میں کالونی نے بہت سارے مختلف امور پر غور کیا جن میں بطور خود مختار ریاست بننا اور امریکہ میں شمولیت بھی شامل تھی۔

1871 میں کالونی نے ریلوے کی تعمیر شروع کی اور برطانوی حکومت کو برداشت نہ کر سکنے کی بنا پر امریکہ سے مذاکرات شروع کئے۔ 1873 میں کینیڈا کے وزیر اعظم سر جان اے میک ڈونلڈ جو کہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی توسیع پسندی اور پیسیفک سکینڈل سے پریشان تھے، نے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ سے کینیڈا سے الحاق کرنے کے بارے مذاکرات کرنے لگے۔ وفاقی حکومت نے جزیرے کی حکومت کو ریلوے کے تمام تر اخراجات اپنے ذمے لینے اور غیر حاضر نوابوں کی جائیدادوں کی خرید کرنے کے وعدے کے کے بعد یکم جولائی 1873 میں پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ نے کینیڈا میں شمولیت اختیار کر لی۔

چونکہ پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ میں ہی الحاق کے سلسلے کی پہلی کانفرنس ہوئی تھی اس لئے یہ صوبہ اب خود کو کینیڈا کے الحاق کی جائے پیدائش کہتا ہے۔ الحاق کے بعد جزیرے نے کئی عمارتوں، ایک فیری جہاز اور کنفیڈریشن کے پل خود کو بطور تحفہ دیئے۔ ان عمارتوں میں سےسے مشہور عمارت کنفیڈریشن سینٹر آف آرٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس کانفرنس کی جگہ پر ایک یادگار بھی بنائی گئی ہے جسے الحاق کے باپ کا نام دیا گیا ہے یعنی فادرز آف کنفیڈریشن۔

آبادی

2001 کے کینیڈا کے مردم شماری کے نتائج کے مطابق یہاں کا سب سے بڑا لسانی گروہ سکاٹش لوگوں کا تھا جو کل آبادی کا 38 فیصد تھے۔ ان کے بعد ساڑھے اٹھائیس فیصد سے زائد انگریز، تقریباً اٹھائیس فیصد آئرش لوگ، اکیس فیصد سے زائد فرانسیسی، چار فیصد جرمن اور تین فیصد سے کچھ زائد ولندیزی یعنی ڈچ تھے۔ تقریباً نصف افراد نے خود کو کینیڈین بھی ظاہر کیا۔

زبانیں

2006 کی مردم شماری میں جن لوگوں نے ایک زبان کو مادری زبان چنا، ان کی تعداد میں سے انگریزی کو تقریباً چورانوے فیصد افراد، فرانسیسی کو چار فیصد جبکہ ولندیزی، جرمن، ہسپانوی، چینی، عربی، ہنگری، میکماق ، جاپانی، پولش اور کورین بولنے والے افراد کی تعداد ایک ایک فیصد سے کم تھی۔

مذہب

2001 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کا سب سے بڑا مذہبی گروہ رومن کیتھولک چرچ کے پیروکاروں کا تھا جو کل آبادی کا 47 فیصد ہیں۔ یونائٹڈ چرچ آف کینیڈا کے پیروکار 20 فیصد جبکہ اینگلیکن چرچ آف کینیڈا کے پیروکار پانچ فیصد ہیں۔

معیشت

مقامی معیشت پر موسمی صنعتوں کا گہرا اثر ہے جن میں زراعت، سیاحت اور ماہی گیری اہم ہیں۔ بھاری صنعتوں اور مینو فیکچرنگ کے حوالے سے صوبے کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ اگرچہ صوبے میں ابھی تک کسی تجارتی طور پر اہم معدنیات کی موجودگی کی اطلاع نہیں لیکن صوبے کے مشرقی کنارے پر ہونے والی قدرتی گیس کی تلاش میں ہونے والی کھدائی سے قدرتی گیس کی مقدار کا اعلان نہیں کیا گیا۔

صوبائی معیشت میں زراعت کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ اہمیت نوآبادیاتی دور سے چلی آ رہی ہے۔ بیسویں صدی کے دوران آلوؤں نے مخلوط کاشت کی جگہ لے لی اور اسے نقد آور فصل کہا جاتا ہے۔ یہ صوبے کی کل زراعت کا ایک تہائی ہے۔ صوبہ اس وقت کینیڈا کے آلوؤں کی کل پیدوار کا ایک تہائی پیدا کرتا ہے جو ایک اعشاریہ تین ارب کلو ہے۔ امریکی ریاست ایڈاہو کل چھ اعشاریہ دو ارب کلو آلو سالانہ پیدا کرتی ہے جس کی آبادی پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کی آبادی سے ساڑھے نو گنا بڑی ہے۔ صوبہ آلوؤں کے بیج کی پیداوار کا بھی اہم مرکز ہے اور یہ بیس سے زیادہ ممالک کو بیج برآمد بھی کرتا ہے۔

نوآبادیاتی دور کی تاریخ کی یادگار کے طور پر شاید صوبائی حکومت نے غیر مقیم افراد کے زمین خریدنے کے لئے سخت اصول بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی فرد چار سو اور کوئی بھی کارپوریشن بارہ سو ہیکٹر سے زیادہ زمین نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح ساحل سمندر پر بھی غیر مقیم افراد کے زمین خریدنے پر پابندی ہے۔

صوبے کے ساحلوں پر موجود افراد مختلف اقسام کی ماہی گیری جیسا کہ لابسٹر فشنگ، اوئسٹر فشنگ اور سیپیوں کی فارمنگ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

صوبائی حکومت صارف کی حفاظت کے لئے مختلف قوانین بناتی رہتی ہے جن میں مخصوص آئٹموں کی تعداد کو قابو میں رکھنے کے لئے گھروں کے کرائے میں اضافہ یا پیٹرولیم کی مصنوعات جیسا کہ گیس، ڈیزل، پروپین اور ہیٹنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا بھی شامل ہیں۔ اس اضافے کے خلاف اپیل کرنے کے لئے آئی لینڈ ریگولیٹری اینڈا پیلز کمیشن موجود ہے۔ یہ پیٹرولیم مصنوعات بیچنے والی کمپنیوں کی تعداد کو بھی کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔

سوڈا مشروبات جیسا کہ بئیر اور کولا وغیرہ پر 1972 میں پابندی لگی کہ انہیں پلاسٹک یا المونیم کے کینوں میں نہیں بیچا جا سکتا کیونکہ عوام بڑھتی ہوئی آلودگی کو ناپسندیدگی سے دیکھتی تھی۔ اس لئے مشروبات کی کمپنیوں نے شیشے والی بوتلوں کا استعمال شروع کیا جو کئی بار استعمال ہو سکتی تھیں اور انہیں دوکان کو واپس کیا جا سکتا تھا۔ دوسرے صوبوں میں المونیم کینوں اور پلاسٹک کی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کے پروگرام کے بعد 3 مئی 2008 کو صوبے نے کینوں اور پلاسٹک کی بوتلوں پر عائد پابندی اٹھا لی۔

پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ میں کینیڈا کے صوبائی سیلز اور ریٹیل ٹیکس کی شرح بلند ترین ہے جو اس وقت دس فیصد ہے۔ چند ملبوسات، خوراک اور گھر میں حرارت پیدا کرنے والے تیل کے علاوہ تقریباً ہر چیز پر یہ ٹیکس لاگو ہے۔ وفاقی گڈز اینڈ سروسز ٹیکس پر بھی یہ ٹیکس لگتا ہے۔

اس وقت صوبے بھر میں استعمال ہونے والی کل توانائی کا پندرہ فیصد حصہ قابل تجدید ذرائع جیسا کہ ونڈ ٹربائن وغیرہ پر مشتمل ہے۔ 2015 تک اسے تیس سے پچاس فیصد تک لایا جائے گا۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے سے قبل صوبے کا تمام تر دارومدار نیو برنزوک سے آنے والی زیر سمندر بجلی کی تار وں پر تھا۔ چالیٹ ٹاؤن میں تیل سے چلنے والا بجلی گھر موجود ہے۔

یکم مئی 2008 کو صوبے میں کام کرنے والے ہر فرد کا کم از کم معاوضہ پونے آٹھ ڈالر فی گھنٹہ تھا۔ یکم اکتوبر 2008 کو اسے بڑھا کر آٹھ ڈالر فی گھنٹہ کر دیا گیا ہے۔

ذرائع نقل و حمل

صوبے کا اندرونی نقل و حمل کا نظام اس کے بڑے شہروں اور بندرگاہوں جیسا کہ چارلیٹ ٹاؤن، سمر سائیڈ، بورڈن، جارج ٹاؤن اور سوریس کو آپس میں ریل سے ملانے تک محدود ہے اور چارلیٹ ٹاؤن اور سمر سائیڈ کے ائیر پورٹ فضائی طور پر صوبے کو براعظم شمالی امریکہ سے ملاتے ہیں۔ کینیڈا ریلوے نے 1989 میں ریل کو ختم کر دیا اور وفاقی حکومت نے سڑکوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کا معاہدہ کیا۔ 1997 تک صوبے کو دیگر حصوں سے ملانے کے لئے صرف دو مسافر بردار فیری جہاز چلتے تھے۔ ان میں سے ایک موسمی اور ایک مستقل تھا۔ تیسری ایک اور سروس بھی موسم کے مطابق چلتی ہے۔

یکم جون 1997 کو کنفیڈریشن پل کھول دیا گیا جو بورڈن کارلیٹن کو کیپ جوری مین ، نیو برنزوک سے ملاتا ہے۔ یہ پل جمے ہوئے پانیوں پردنیا کا طویل ترین پل ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ قابل اعتماد راستہ ثابت ہوا ہے اور اس سے صوبے کی سیاحت ، زراعت اور ماہی گیری کی صنعتوں کو بے پناہ فائدہ پہنچا ہے۔

صوبے میں سڑکوں کے کنارے لگائے جانے والے اشتہارات کےلئے سخت قوانین موجود ہیں۔ بل بورڈوں اور منتقل ہونے والے اشتہارات پر پابندی ہے۔ تمام سڑکوں پر صوبے بھر میں مختلف نشانات کا ایک معیار مقرر ہے۔ اسی طرح کچھ علاقوں کے قوانین ان نشانات کو کسی فرد کی ذاتی زمین پر لگانے پر بھی پابندی لگاتے ہیں۔

حکومت

پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کے چار ممبران پارلیمان کے رکن ہوتے ہیں، چار سینیٹر، مقننہ کے ستائیس ممبران ہیں۔ یہاں کے دو شہروں، سات قصبوں اور ساٹھ دیہاتی علاقوں سے کل پانچ سو کونسلر اور مئیر منتخب ہوتے ہیں۔ 135851 افراد کی آبادی کے لئے کل 566 منتخب اراکین ہوتے ہیں۔

اس صوبے کو 1993 میں کینیڈا کی پہلی خاتون پریمئر چننے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اس وقت لیفنٹینٹ گورنر ماریون ریڈ تھے جبکہ پریمئر کا نام کیتھرائن کال بیک تھا۔ اس وقت قائد حزب اختلاف بھی ایک خاتون پیٹریشیا میلا تھیں۔ برٹش کولمبیا میں اس سے قبل بھی ایک خاتون پریمئر رہ چکی تھیں لیکن وہ صوبائی انتخابات جیت کر پریمئر نہیں بنی تھیں۔

پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کینیڈا کا واحد صوبہ ہے جس نے نیشنل بلڈنگ کوڈ آف کینیڈا پر دستخط نہیں کئے ہوئے۔

کمیونیٹیز

تعلیم


پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ میں ایک یونیورسٹی ہے جس کا نام یونیورسٹی آف پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ ہے۔ یہ چارلیٹ ٹاؤن میں ہے۔ یونیورسٹی کو پرنس آف ویلز کالج اور سینٹ ڈنسٹسن کی یونیورسٹی کی جگہ بنایا گیا تاہم یہ ادارے بھی ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں اٹلانٹک ویٹرنری کالج بھی موجود ہے جو صوبے بھر میں ویٹرنری تعلیم کا واحد ادارہ ہے۔

ہالینڈ کالج کی شاخیں صوبے بھر میں موجود ہیں تاہم یہ صوبائی سطح کا کمیونٹی کالج ہے۔ یہ اٹلانٹک پولیس اکیڈمی، میرین ٹریننگ سینٹر اور کیولناری انسٹی ٹیوٹ آف کینیڈا کی سہولیات بھی مہیا کرتا ہے۔

شمالی امریکہ کے دیگر دیہاتی علاقوں کی طرح پرنس ایڈورڈآئی لینڈمیں بھی نوجوانوں کا انخلاٗ جاری ہے اور صوبائی حکومت کا اندازہ ہے کہ 2010 کی دہائی میں سکولوں میں داخلے کی شرح چالیس فیصد تک کم ہو جائے گی۔

صحت کی سہولیات

صوبے بھر میں سات بڑے ہسپتال ہیں جو کمیونٹی ہاسپٹل، اولیری، کنگز کاؤنٹی میموریل ہاسپٹل، مونٹاگ، پرنس کاؤنٹی ہاسپٹل، سمر سائیڈ، کوئین الزبتھ ہاسپٹل، چارلیٹ ٹاؤن، سوریس ہاسپٹل سوریس، سٹیورٹ میموریل ہاسپٹل، ٹائن ویل اور ویسٹرن ہاسپٹل البرٹن ہیں۔

ہلز برو ہاسپٹل صوبے کا واحد نفسیاتی امراض کا ہسپتال ہے۔

موجودہ دہائیوں میں صوبے میں کم یاب قسم کے کینسروں کی شرح میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ صحت کے افسروں، ماحولیات کے کارکنوں اور ذمہ داروں نے کیڑے مار ادویات کے آلو کی فصل پر استعمال کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیوبیک

کیوبیک کینیڈا کے وسط میں موجود ایک صوبہ ہے۔ یہ کینیڈا کا واحد صوبہ ہے جہاں فرانسیسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اسی طرح یہ کینیڈا کا واحد صوبہ ہے جہاں صوبائی سطح پر سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔ اسی طرح فرانسیسی سول لا بھی کیوبیک میں نافذ العمل ہے۔

صوبے کی سیاست میں قوم پرستی کو اہمیت حاصل ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا زور زیادہ سے زیادہ خود مختاری اور خود کو بطور الگ قوم منوانے کا ہے۔ علیحدگی پسند حکومتوں نے 1980 اور 1995 میں ریفرنڈم کرائے اور کینیڈین ہاؤس آف کامنز نے ایک علامتی قرارداد منظور کی جس کے تحت متحدہ کینیڈا میں کیوبیکس کو الگ قوم تسلیم کیا گیا۔

رقبے کے لحاظ سے کیوبیک کینیڈا کا سب سے بڑا صوبہ اور انتظامی لحاظ سے دوسرا بڑا انتظامی رقبہ ہے۔ مغرب میں اونٹاریو، جیمز بے اور ہڈسن بے ہیں، شمال میں سیینٹ لارنس کی خلیج اور انگاوا خلیج ہیں، مشرق میں سینٹ لارنس کی خلیج اور نیو فاؤنڈ لینڈ اینڈ لیبرےڈار اور نیو برنزوک کے صوبے ہیں۔ اس کے جنوب میں امریکی ریاستیں مین، نیو ہمپشائر، ورمنٹ اور نیو یارک ہیں۔ اس کی سمندری حدود ننا وت، پرنس ایڈرڈ آئی لینڈ اور نووا سکوشیا سے بھی ملتی ہیں۔

اونٹاریو کے بعد کیوبیک دوسرا گنجان آباد صوبہ ہے۔ زیادہ تر لوگ کیوبیک شہر اور مونٹریال کے درمیان بہنے والے سینٹ لارنس دریا کےکنارےشہروں میں آباد ہیں۔ انگریزی بولنے والوں کی اکثریت مونٹریال کے علاوہ اوٹاویاس، دی ایسٹرن ٹاؤن شپس اور گاسپے کے علاقوں میں بھی ہے۔ دی نار ڈو کیوبیک ریجن جو صوبے کے شمالی نصف پر محیط ہے، کم آباد ہے اور یہاں زیادہ تر مقامی قبائل ہی رہتے ہیں۔

صوبے میں موجود گیس کے بے اندازہ ذخائر صوبے کی معیشت کے لئے بہت عرصے سے اہم رہے ہیں، تاہم خلائی سائنس، انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیاں بھی اب اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

نام اور سرحدوں کی تبدیلیاں

لفظ کیوبیک الگونکن زبان کے لفظ کیپک سے نکلا ہے جس کے معنی تنگ ہیں۔ اصل میں یہ لفظ سینٹ لارنس دریا کے لئے تھے جو یہاں سے اونچی چوٹیوں سے گھری ہوئی اس تنگ سی گذرگاہ سے گذرتا ہے۔1608 میں فرانسیسی مہم جو سیموئل ڈی چیپلن نے کیوبیک نام اپنی بنائی ہوئی نوآبادیاتی چوکی کے لئے رکھا۔

کیوبیک کا صوبہ شاہی فرمان کے تحت 1763 میں وجود میں آیا جو ٹریٹی آف فرانس کے تحت جاری ہوا۔ اس کے تحت فرانسیسی کالونی برطانویوں کے حوالے کی گئی۔ یہ سات سالہ جنگ کے اختتام پر معاہدہ ہوا۔ کیوبیک ایکٹ برائے 1774 نے عظیم جھیلوں اور اوہیو دریا کے علاقوں کو کیوبیک کے حوالے کر دیا۔ ٹریٹی آف ویرسیلز جو کہ 1783 میں ہوئی، عظیم جھیلوں کے جنوب کا سارا علاقہ امریکہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد 1791 کے آئینی ایکٹ کے مطابق سارے علاقے کو بالائی اور زیریں کینیڈا میں تقسیم کر دیا گیا۔ بالائی کینیڈا موجودہ دور کا اونٹاریو اور زیریں کینیڈا موجودہ دور کا کیوبیک تھا۔ دونوں کو مقننہ دی گئی۔ 1840 میں برطانوی پارلیمان کی طرف سے بالائی اور زیریں کینیڈا کو ملانے کے بعد انہیں مشرقی اور مغربی کینیڈا کہا گیا۔ پھر اس علاقے کو الحاق کے وقت یعنی 1867 میں اونٹاریو اور کیوبیک میں تقسیم کیا گیا۔ دونوں کینیڈا کے اولین چار صوبوں میں سے دو بنے۔

1870 میں کینیڈا نے رپرٹس لینڈ کو ہڈسن بے کمپنی سے خریدا۔ اگلی چند دہائیوں میں کینیڈا کی پارلیمنٹ نے اس کے حصے حصے کر کے کیوبیک کو اس کے اصل رقبے کا تین گنا بنا دیا۔ 1898 میں کیوبیک باؤنڈری ایکسٹنشن کے پہلے ایکٹ کے مطابق صوبے کی سرحد شمال کی طرف بڑھا کر کری تک پھیلا دی گئی۔ اس کے بعد یہاں انگاوا کے ضلع کا بھی اضافہ کیا گیا۔ یہ اضافہ 1912 میں کیا گیا۔ 1927 میں کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے درمیان سرحد قائم کی گئی۔ سرحد کا تعین برطانوی جوڈیشل کمیٹی فار پریوی کونسل نے کیا۔ کیوبیک ابھی بھی سرکاری طور پر اس سرحد کا متنازعہ مانتا ہے۔

جغرافیہ

صوبے کا رقبہ بے حد وسیع ہے۔ یہ ٹیکساس یا فرانس کے رقبے کا تین گنا ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ غیر آباد ہے۔ کیوبیک کا بلند ترین مقام مونٹ ڈی ایبرولے ہے جو نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کی سرحد پر صوبے کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔

سینٹ لارنس کے دریا پر دنیا کی سب سے زیادہ دور بندرگاہ بنی ہوئی ہیں جو مونٹریال، ٹریوس ریویرس اور کیوبیک سٹی میں ہیں۔ اس کی رسائی بحر اوقیانوس تک بھی ہے اور شمالی امریکہ تک بھی۔ اس لئے یہاں سترہوں اور اٹھارویں صدی میں فرانسیسیوں نے پہلی مہمیں بھیجیں اور بعد ازاں نو آبادیاں قائم کیں۔ 1959 میں سینٹ لارنس سی وے کی مدد سے عظیم جھیلوں اور اٹلانٹک سمندر تک راستہ قائم ہوا۔ کیوبیک شہر سے شمال مشرق میں دریا دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا موجود ہے جو کئی نسلوں کی وہیلوں ، مچھلیوں اور بحری پرندوں کی آماج گاہ ہے۔ یہ دریا سینٹ لارنس کی خلیج میں جا گرتا ہے۔ یہاںماہی گیری ہوتی ہے اور چھوٹی بندرگاہیں زیریں سینٹ لارنس، زیریں نارتھ شور اور گیسپ ریجن میں موجود ہیں۔

سینٹ لارنس کے زیریں علاقے دنیا کے سب سے زیادہ آباد طبعی جغرافیائی علاقے ہیں۔ یہ علاقے صوبے کے جنوب مغرب سے شروع ہو کر شمال مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے کیوبیک سٹی ریجن سے اور انٹی کوسٹی آئی لینڈ، میگنان آرکی پیلاگو اور سینٹ لارنس کے دیگر چھوٹے چھوٹے جزائر سے ہوتے ہوئے گذرتے ہیں۔ یہاں زمین کم بلند اور مسطح ہے۔ تاہم مانٹریال کے نزدیک کے علاقے پہاڑی ہیں۔ ان علاقوں کو مونٹریگیان پہاڑیاں کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ نشیبی علاقے رفٹ وادی کے طور پر دس کروڑ سال قبل بنے اور یہاں کبھی کبھار زور دار زلزلے بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔چٹانوں کی اوپری سطح آخری برفانی دور کے بعد چودہ ہزار سال قبل بنی تھی۔ زرخیز اور آسانی سے سیراب ہونے والی زمین اور کیوبیک کے گرم موسم نے اس علاقے کو اس خطے کا زرخیز ترین علاقہ بنا دیا ہے۔ مخلوط جنگلات سے کینیڈا کے میپل سیرپ کا بڑا حصہ ہر سال موسم بہار میں اکٹھا ہوتا ہے۔ دیہاتی علاقوں کو چھوٹے چھوٹے مستطیل شکل کے حصوں میں بانٹا گیا ہے۔

کیوبیک کا تقریباً نوے فیصد حصہ کینیڈین شیلڈ پر موجود ہے جو کٹا پھٹا پہاڑی علاقہ ہے۔ مسلسل برفانی دوروں کے باعث یہاں مٹی نہیں ہے۔ یہاں جنگلات، معدنیات اور پن بجلی کے ذرائع کی کثرت ہے جو کیوبیک کی معیشت کے لئے بہت اہم ہیں۔ یہاں کی بنیادی صنعتیں چھوٹے شہروں میں ہیں۔ لیبرے ڈار کے جزیرہ نما حصے میں انتہائی شمال میں نناوک کے علاقے انگاوا جزیرہ نما میں شمار ہوتے ہیں اور انوئت لوگ یہاں آباد ہیں۔ یہ حصہ آرکٹک ٹنڈرا کا حصہ کہلاتا ہے۔ مزید جنوب میں سب آرکٹک ٹیاگا اور بوریل جنگلات موجود ہیں جہاں سپروس، فر اور پاپلر کے درخت پلپ اور لکڑی کی صنعت کے لئے خام مال مہیا کرتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر کری، ناسکاپی اور انو قبائل آباد ہیں تاہم ہزاروں کی تعداد میں عارضی مزدور بھی یہاں آباد ہیں جو جیمز بے پن بجلی کے منصوبے پر کام کر نے آئے تھے۔ یہ لا گرانڈ اور ایسٹ مین دریاؤں پر بنایا جانے والا پراجیکٹ تھا۔

پہاڑی علاقے کے جنگلات صوبے کی مشرقی سرحد بناتے ہیں جو نیو انگلینڈ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ شمال میں یہ بیاس علاقے تک اور گاسپ جزیرہ نما تک جاتے ہیں جہاں یہ سینٹ لارنس کی خلیج میں گم ہو جاتے ہیں۔ علاقے میں جنگلات، صنعت اور سیاحت علاقے کے قدرتی ذرائع اور لینڈ سکیپ کے حوالے سے موجود ہیں۔

موسم

کیوبیک کے تین اہم موسمی خطے ہیں۔ جنوبی اور مغربی کیوبیک جس میں زیادہ تر آباد علاقے آتے ہیں، مرطوب کانٹی نینٹل موسم رکھتا ہے۔ یہاں گرم اور مرطوب گرمیاں اور لمبی،سرد اور برفانی سردیاں آتی ہیں۔ یہاں کے موسم پر بڑا اثر جنوبی اور وسطی امریکہ سے آنے والے موسمی اثرات پر ہوتا ہے جو شمال کی طرف بڑھتے ہیں۔ طوفانی موسم کے خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں بارش کی کثرت ہے اور زیادہ تر حصوں میں سو سینٹی میٹر سالانہ سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ بہت سے علاقوں میں تین سو سینٹی میٹر تک بھی برف پڑتی ہے۔ گرمیوں میں موسم شدید رہتا ہے۔اور ٹارنیڈو اور گرج چمک والے بڑے طوفان بکثرت آتے ہیں۔

وسطی کیوبیک کا موسم سب آرکٹک ہے۔ یہاں سردیاں مشرقی کینیڈا کی سرد ترین ہوتی ہیں۔ گرمیاں گرم لیکن مخرصر ہوتی ہیں۔ جنوب کی نسبت یہاں بارش اور برف بھی کم پڑتی ہے۔ کیوبیک کے شمالی علاقوں کا موسم آرکٹک نوعیت کا ہے جہاں بہت لمبی اور سرد ترین سردیاں اور مختصر اور ٹھنڈی گرمیاں ہوتی ہیں۔ اس علاقے کے موسم پر بحر منجمد شمالی اور ہائی آرکٹک سے اٹھنے والے ہواؤں کے نظام کا بھی اثر ہے۔

تاریخ

پہلی اقوام


یورپی اقوام کی آمد اور ان کے یہاں آباد ہونے سے قبل یہاں الگونیکوان، اروکوان اور انوئت قبائل موجود تھے جو موجودہ دور کے کیوبیک کے اصل باشندے ہیں۔ کچھ قبائل یہاں شکار، گلہ بانی اور ماہی گیری کرتے تھے جبکہ دیگر قبائل میں سے کچھ یہاں باقاعدہ کاشت کار ی کرتے ہوئے آباد تھے۔ انوئت لوگ مچھلی اور وہیل اور سیل کے شکار کو جاری رکھتے ہوئے آرکٹک کے موسم میں آباد رہے۔یہ لوگ بعد ازاں کھالوں اور خوراک کی تجارت میں بھی شامل رہے۔

ابتدائی یورپی مہمیں

باسک وہیلر اور ماہی گیر سگوانے کے مقامی لوگوں سے سولہویں صدی میں کھالوں کی تجارت کرتے رہے۔

کیوبیک پہنچنے والا پہلا یورپی مہم جو جیکوئس کارٹیئر تھا جو اولڈ فورٹ بے یا پھر گیسپ میں 1534 میں پہنچا۔ اس نے بعد ازاں 1535 میں موجودہ دور کے کیوبیک شہر کے نزدیک اروکوان کی بدقسمت آبادی بھی بنائی۔

فرانسیسیوں نے یہاں بہت سارے ڈون بھیجے جن کی اکثریت ماری گئی۔ تاہم ایک ڈون یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوا اور اس نے مقامیوں کے تحفظ کے لئے کام کیا۔

نیو فرانس

سیموئل ڈی چیمپلن 1603 میں بننے والی مہم جو ٹیم کا حصہ بنا جو سینٹ لارنس کے دریا کو گئی۔ 1608 میں اس مہم جو ٹیم کے سربراہ کے طور پر واپس آیا اور اس نے کیوبیک کےشہر کی بنیاد رکھی جو فرنچ کالونیل ایمپائر کا حصہ بننا تھا۔ چیمپلن کا ہیبٹیشن ڈی کیوبیک ابتداٗ میں کھالوں کی تجارت کے لئے ایک بیرونی چوکی تھی جہاں اس نے مقامی قبائل کے ساتھ تجارتی اور بعد ازاں فوجی روابط بنائے۔ مقامی لوگ فرانسیسی اشیاٗ جیسا کہ دھاتی اشیاٗ، بندوقیں، شراب اور کپڑوں کے عوض کھالیں مہیا کرتے تھے۔

ہیلین ڈیسپورٹس جو 7 جولائی 1620 کو پیئری ڈیسپورٹس اور اس کی بیوی فرانکوئس لنگلوئس کے پہلے بچے کے طور پر پیدا ہوا۔ کیوبیک میں پیدا ہونے والا یہ پہلا یورپی بچہ تھا۔

کیوبیک سے کوریئر ڈیس بوئس، بحری جہاز اور کیتھولک مشنری لوگ کینو کشتیوں کی مدد سے دریا عبور کر کے شمالی امریکہ کے براعظم کو کنگھالنے، نئی تجارتی چوکیاں اور قلعے قائم کرنے جاتے تھے۔

1627 کے بعد بادشاہ لوئز تیرہ آف فرانس نے جاگیردارانہ قانون کے تحت نیو فرانس میں صرف رومن کیتھولک افراد کو زمین کی تقسیم اجازت دی۔ مشنریوں نے مقامی ہرون اور الگونکیان قبائل کو کیتھولک بنانے کے لئے کام شروع کر دیا۔ اس نئے قانون کے تحت فرانس سے زیادہ لوگوں کو ادھر آنے کے لئے سہولت ملی۔

1663 میں بادشاہ لوئز چودہ آف فرانس کے دور میں نیو فرانس شاہی صوبہ قرار پایا۔ اس طرح نیو فرانس میں نوآبادیاتی ہجرت کا ایک نیا اور زریں دور شروع ہوا۔ صوبے کی آبادی 1666 سے 1760 میں تین ہزار سے بڑھ کر ساٹھ ہزار ہو گئی۔ آباد کاروں نے سینٹ لارنس کے دریا کے کنارے فارم بنائے اور خود کو کینیڈین یا رہائشی کہلوایا۔ اس نو آبادی کی کل آبادی محدود تھی کیونکہ یہاں کا سخت سرد موسم فرانس کی نسبت بہت سخت تھا۔ اس کے علاوہ بیماریوں کے پھیلنے اور پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت نہ ملنا بھی آبادی میں اضافے کو روکے رہے۔ نیو فرانس کی آبادی جنوب کی بقیہ تیرہ ریاستوں کی نسبت بہت کم رہی جس کی وجہ سے اس پر حملہ کرنا آسان رہا۔

سات سالہ جنگ

1753 میں فرانس نے برطانوی اوہیو کنٹری میں قلعوں کی تعمیر کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی گورنر کی طرف سے منع کرنے کے باوجود انہوں نے یہاں سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ 1754 میں جارج واشنگٹن نے فرانسیسی قلعے جو اب پٹز برگ میں ہے، پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کا مقصد علاقے پر برطانوی بالادستی قائم رکھنا تھی۔ اس قبائلی جنگ سے فرانسیسی اور انڈین جنگ شروع ہوئی۔ 1756 میں فرانس اور برطانیہ سات سالہ عالمگیر جنگ میں شامل ہو گئے تھے۔ 1758 میں برطانوی گھڑ سوار فوج نے نیو فرانس پر سمندر کے راستے حملہ کر دیا اور فرانسیسی قلعے پر قبضہ کر لیا۔

13 ستمبر 1759 میں جنرل جیمز ولف نے جنرل لوئز جوزف ڈی مونٹاکام کو پلینز آف ابراہام میں کیوبیک شہر کے باہر شکست دی۔ سینٹ پیئری اور میکوئلن کے جزیرے جو نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے دور تھے، فرانس نے شمالی امریکہ کے باقی تمام علاقے پیرس کے معاہدے کے تحت برطانیہ کے حوالے کر دیئے۔ برطانوی شاہی فرمان کے مطابق 1763 میں کیوبیک کے صوبے کو کینیڈا کا نام دے دیا گیا۔

کیوبیک ایکٹ

1774 میں برطانوی حکومت کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کیوبیک کی فرانسیسی اکثریت جنوب میں موجود تیرہ ریاستوں کی بغاوت کا ساتھ نہ دے۔ اس سے بچنے کے لئے برطانوی پارلیمان نے کیوبیک ایکٹ منظور کیا جس کے تحت فرانسیسی قانون، کیتھولک مذہب اور فرانسیسی زبان کو کالونی میں رائج کیا گیا۔ اس سے قبل کیتھولک لوگوں کو سرکاری دفاتر میں نوکری کرنے یا بطور پادری کام کرنے پر پابندی تھی جس سے کیوبیک کے سکول ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے۔ برطانوی انضمام کی پہلی پالیسی جو 1763 تا 1774 جاری رہی، ناکام ثابت ہوئی۔ کینیڈین امراٗ وار گورنر گائے کارلیٹن نے برطانیہ سے اس پالیسی کی واپسی پر اصرار کیا۔ تاہم جنوب میں امریکی ریاستوں کی بغاوت بھی ایک اہم وجہ تھی۔ کیوبیک ایکٹ کی مدد سے یہاں کے لوگوں کو پہلی بار حقوق کی ضمانت ملی جس سے فرانسیسی زبان اور فرانسیسی ثقافت کی قبولیت پر گہرا اثر پڑا۔ ایکٹ کی مدد سے کینیڈین لوگوں کو فرانسیسی قوانین اختیار کرنے، مذہب کی آزادی اور رومن کیتھولک چرچ کو کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے علاوہ اوہیو کی وادی بھی کیوبیک کو واپس مل گئی۔ تاہم یہ علاقہ کھالوں کی تجارت کے لئے مخصوص کیا گیا۔

یہ ایکٹ جو شمالی امریکہ کی ایک کالونی کو پرسکون کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، نے جنوبی ہمسائیوں پر الٹا اثر ڈالا۔ کیوبیک ایکٹ کو بپھرے ہوئے امریکیوں نے ناقابل قبول ایکٹ قرار دیا۔ 1775 میں امریکی فوج نے ابتدا میں حملے کے بعد کچھ کامیابی حاصل کی لیکن پھر کیوبیک شہر کی جنگ میں انہیں پسپا ہونا پڑا۔

کیوبیک امریکی خانہ جنگی یا انقلابی جنگ کے دوران

27 جون 1775 کو جنرل جارج واشنگٹن نے کیوبیک اور سینٹ لارنس کے دریا کو برطانویوں سے چھیننے کا فیصلہ کیا۔ آرنلڈ 1100 سپاہیوں کے ساتھ میسا چوسٹس سے مین پہنچا اور پھر وہاں سے کینیبیک اور ڈیڈ دریا کو عبور کر کے کیوبیک کے صوبے میں چاڈیری دریا سے ہوتا ہوا کیوبیک شہر میں جا گھسا۔

جونہی امریکی فوج یہاں پہنچی، انہیں محض چند حمایتی ہی دکھائی دیئے۔ حملہ ناکام رہا۔

جنگ کے خاتمے پر 50000 وفادار کینیڈا آئے اور 90000 فرانسیسی لوگوں کے ہمراہ بس گئے۔ ان کی اکثریت کیوبیک کے مشرقی شہروں میں آ بسی۔

امریکی خانہ جنگی کامیاب رہی اور تیرہ ریاستیں آزاد ہو گئیں۔ پیرس کی ٹریٹی جو 1783 میں ہوئی، برطانویوں نے عظیم جھیلوں کے جنوب کی ساری ریاستیں آزاد کر دیں جس کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آیا۔

بالائی اور زیریں کینیڈا میں وفاداروں کی بغاوت

بالائی کینیڈا کی طرح 1837 میں زیریں کینیڈا کے انگریزوں اور فرانسیسیوں نے مسلح جدوجہد کر کے آزادی کی ٹھانی۔ انہوں نے 1838 میں آزادی کا اعلان کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ تمام افراد رنگ و نسل کے فرق سے بالاتر اور یکساں حقوق کے حامل ہیں۔ ان اعلانات سے بالائی اور زیریں کینیڈا میں بغاوت ہو گئی۔ غیر تیار شدہ برطانوی فوج نے مقامی ملیشیا قائم کی اور بغاوت کو کچل دیا۔ اس سلسلے میں سینٹ ڈینس، کیوبیک کی لڑائی کی فتح فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ برطانوی فوج نے سینٹ یوسٹاش کا چرچ بھی تباہ کر دیا کیونکہ یہاں باغی چھپے ہوئے تھے۔ تمام باغی قتل کر دیئے گئے۔ آج بھی اس چرچ کی دیواروں پر گولیوں اور گولوں کے نشانات موجود ہیں۔

ایکٹ آف یونین

بغاوت کے بعد لارڈ ڈرہم کو برطانوی پارلیمان کے لئے بغاوت کی وجوہات جاننے اور ان کے ازالے کے لئے ممکنہ اقدامات تجویز کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

آخری رپورٹ میں یہ تجویز کیا گیا کہ بالائی اور زیریں کینیڈا کے دونوں صوبوں اور فرانسیسی بولنے والی فرانسیسی آبادی کو برطانوی ثقافت میں سمو دیا جائے۔ ڈرہم کی رپورٹ کے بعد برطانوی پارلیمان نے ایکٹ آف یونین کے تحت دونوں صوبوں کو ملا کر 1840 میں کینیڈا کا صوبہ بنا دیا۔

تاہم سیاسی اتحاد کافی حساس ثابت ہوا۔ مغربی اور مشرقی کینیڈا میں موجود اصلاح پسندوں نے فرانسیسی زبان کا مقننہ میں استعمال روکنے پر زور دیا۔ دونوں کالونیاں ہی نظم و نسق، انتخابات اور قانون کے حوالے سے ایک دوسرے سے بہت مختلف رہیں۔

1848 میں بالڈون اور لا فونٹین جو کہ اصلاح پسند پارٹی کے اتحادی اور رہنما تھے، سے لارڈ الگن نے ذمہ دار حکومت کی نئی پالیسی کے تحت انتظامیہ بنانے کا کہا۔ مقننہ میں فرانسیسی زبان کو قانونی حیثیت حاصل رہی۔

کینیڈا کا الحاق

1860 کی دہائی میں شمالی امریکہ کی برطانوی نو آبادیاتی کالونیوں (کینیڈا، نیو برنزوک، نووا سکوشیا، پرنس ایڈروڈ آئی لینڈ اور نیو فاؤنڈ لینڈ) نے خود مختار حکومت اور ایک نئے الحاق کے لئے بات چیت جاری رکھی۔

پہلی چارلیٹ ٹاؤن کانفرنس چارلیٹ ٹاؤن، پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ میں منعقد ہوئی۔ اس کے بعد کیوبیک کانفرنس کیوبیک شہر میں ہوئی جس کے بعد ایک وفد لندن، انگلینڈ بھیجا گیا تاکہ نیشنل یونین کا تصور پیش کیا جا سکے۔

بحث مباحثے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1867 میں برطانیہ کی پارلیمان نے برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ منظور کیا جس کے تحت ان میں سے اکثر صوبوں کو الحاق مہیا کر دیا گیا۔

*کینیڈا کے صوبہ کو اونٹاریو اور کیوبیک میں تقسیم کر دیا گیا۔
*نیو برنزوک اور نووا سکوشیا نے اونٹاریو اور کیوبیک کے ساتھ مل کر ڈومینن آف کینیڈا بنائی۔
*پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ نے 1873 میں اور ڈومینن آف نیو فاؤنڈ لینڈ نے 1949 میں الحاق میں شمولیت اختیار کی

جاری ہے
 
Top